قسط ١٠

10 2 4
                                    

وہ سجدے کی حالت میں تھی۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ وہ اپنے اللہ کے سامنے کھڑی تھی۔ پرسکون بہت پرسکون۔ اتنا کے وہ اپنے سارے غم بھولنے لگی تھی۔ باہر گھپ اندھیرا تھا۔ وہ دعا سے فراغت کے بعد بالکونی میں چلی آئی، جہاں ٹھنڈی ہواوں کا زور تھا۔

اس کے سرخ بال ڈھیلے جوڑے میں مقید تھے۔ جس پر اس نے ازبک انداز میں تربند باندھ رکھا۔ دونوں ہاتھ کوٹ کی جیب میں دیے وہ موسم کے مزے لے رہی تھی۔ وہ خاموش سمندر کو پیچھے چھوڑ کر اندر چلی آئی۔ اور ایک نظر شیشے پر ڈال کر میز سے فون اٹھایا۔

اس نے رات ہی کو گھر بات کرتے ہوئے اپنے حجاب پہننے کی خبر سنا دی تھی۔ ایڈن ابھی تک سورہی تھی۔ اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور مسکراتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی۔

ایڈن کافی مختلف ہے اس نے سوچا۔مگر ہر انسان دوسرے سے مختلف اور منفرد ہی ہوتا ہے۔ بس ان کی پہچان کرنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اس نے سوچتے ہوئے لفٹ میں قدم رکھا۔

_______🧡________

وہ چلائی،اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔سہمی ہوئی خوفزدہ سی،پسینے میں شرابور۔
آیدہ اپنے چشمے ڈورم ہی میں بھول آئی تھی، سو وہ چشمے لینے واپس لوٹی۔ اور اسے فق چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا دیکھ کر تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔

ایڈن، ایڈن تم ٹھیک تو ہو؟ وہ ایک دم پریشان ہوگی تھی۔
اس کی جانب سے کوئی جواب نہ پاکر اس نے میز پر رکھی بوتل سے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس کی جانب دوڑی۔
پانی پیو ایڈن۔ وہ اس کے ماتھے پر بکھرے بال پیچھے کرتے ہوئے بولی۔ اس کے پانی پی لینے تک وہ خاموش بیٹھی رہی۔ اور اس کے ہاتھ سے گلاس لیکر قریب میز پر رکھا اور مسکرا دی۔

ریلیکس، سب ٹھیک ہے ایڈن، وہ مسکرا کر بولی۔میں کئی دنوں سے دیکھ رہی ہوں ایڈن۔ تم خواب میں ڈر کر چلانے لگتی ہو۔ سب ٹھیک تو ہے نہ۔ اس نے فکرمندی سے پوچھا۔
کوئی پریشانی ہے تو تم بتا سکتی ہو۔ وہ اپنا ہاتھ ایڈن کے ہاتھ پر رکھ کر بولی۔
ایڈن نے سہمی ہوئی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔یہ اس ایڈن سے بالکل مختلف تھی جو سب کو دکھائی دیتی تھی۔
کچھ دیر سر جھکائے بیٹھنے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ایڈن۔۔۔ نوریادہ نے کہتے ہوئے اس کا سر اپنے کندھے پر ٹکایا۔ بتاو تو سہی ہوا کیا ہے۔ وہ اس کو تھپکیاں دے رہی تھی۔

ایڈن کی آنسوں میں ڈوبی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری تھی۔اور ایڈن نے اسے پوری داستان سنا ڈالی۔وہ ابھی تک ساکت بیٹھی تھی، بالکل ساکت۔گویا اسے سانپ سونگ گیا ہو۔ ایڈن اٹھ کر باتھ روم جا چکی گی تھی۔اسے ساکت چھوڑ کر۔

ہر انسان کو رونے کے لیے کندھا درکار ہوتا ہے۔اور جب خود کو وہ کندھا نہ ملے تو دوسروں کے لیے کندھا بننے کی ضرورت پڑتی ہے۔

ایڈن کی کہانی نے اسے خاموش کردیا تھا۔اس نے انکھوں میں آئے انسو پونجھے اور اٹھ کر میز کی جانب چلی آئی۔ اور وہاں پڑے کافی کے ساشے اٹھائے۔اور کوفی کے دونوں مگ آٹھائے آتش دان کے پاس چلی آئی۔سورج طلوع ہو چکا تھا۔

آیڈن بالوں کو سلک کے تولیے میں لپیٹے باہر نکلی۔ اور بغیر کچھ کہے اس کے پاس آبیٹھی۔

زندگی کتنا بڑا امتحان یے نہ، مگر ہم کتنی جلتی ہار مان بیٹھتے ییں۔ اس نے افسردگی سے کہا تھا۔

جو ہونا تھا وہ ہو چکا ایڈن اور جو ہونا ہے اسے ہونے سے کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ہاں مگر ہم جہاں ہیں ان لمحات کو خوبصورت ضرور بنا سکتے ہیں۔ اس نے کہتے ہوئے کافی کا کپ اسے تھمایا۔

_______🧡__________

وہ ٹانگ پر ٹانگ ٹکائے گھٹنے پر ڈایری رکھے ہاتھ میں تھامے قلم کو گھماتے ہوئے اس پر نظریں مرکوز کیے ہوا تھا۔

لونا، ایڈن اور آیدہ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ آیدہ کی کرسی کا رخ اس کی جانب تھا۔ وہ کئی بار اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر آنکھوں سے اشارہ کر چکی تھی۔ مگر وہ اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر نظریں پھیر لیتا تھا۔

تم لوگ باتیں کرو میں ابھی آئی۔ وہ کہتے ہوئے اٹھی۔ وہ اسے اٹھتا دیکھ کر لکھنے لگا تھا۔

وہ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اگئے بڑھی۔
کیا میں یہاں بیٹگ سکتی ہوں؟ اس نے پوچھنا ضروری سمجھا۔
نہیں ۔۔ وہ اس کی جانب دیکھے بغیر بولا۔
اور وہ کرسی سیدھی کر کے اس کے سامنے آبیٹھی۔
کچھ کہنا ہے آپ کو۔ آیدہ نے پوچھا۔
نہیں۔ وہ تیزی سے قلم چلاتے ہوئے بولا۔
اوکے۔ وہ کہتے ہوئے اٹھی۔
رکو۔
اسے جاتا دیکھ کر وہ بول اٹھا۔
جی۔۔ وہ گہرا سانس کے کر پلٹی۔ البتہ چہرے بشاشت تھی۔
ایک کپ کافی مل سکتی ہے؟ وہ کان کھجاتے ہوئے بولا۔
جی میں تو یہاں ویڑر لگی ہوں نہ۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔
جی ضرور وہ کہتے ہوئے اگے بڑھی۔
باتیں ہی تو نہیں آتیں مجھے۔ وہ اسے جاتا دیکھ کر بولا۔

_______🧡________

اوہ، تو یہاں بیٹھی ہو تم لوگ۔ ہمم ۔۔
اونا نے کہتے ہوئے آنکھوں پر رکھے سیاہ چشمے ہٹائے۔آج دھوپ کچھ زیادہ ہی ہے۔ ایڈن تم اس طرف آکے بیٹھ جاو۔ مجھے وہاں بیٹھنا ہے۔
یو نو سکن خراب ہوجائے گی میری۔ وہ اپنے سلکی بالوں کو جھٹکتے ہوئے بولی۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے،سن سکرین نام کی چیز ایجاد ہو چکی ہے دنیا میں۔ وہ غصے سے بولی۔
اوہ۔۔ وٹ ایور
مجھے جگہ دو۔وہ اپنے لمبے ناخنوں پر نظریں جماتے ہوئے بولی۔
کیا مصیبت ہے لونا نے ناگواری سے کہا۔

آیدہ یقشان کی کافی لیے لوٹ آئی تھی۔ اسے کافی تھما کر وہ ان کے پاس چلی آئی۔
کیسی ہو لونا۔ اس نے خوشگواری سے پوچھا۔
اپنی سہیلی سے کہو جگہ خالی کرے کھڑے ہو ہو کی میری ٹانگوں مین درد ہونے لگا ہے۔

تم نے کبھی دیسی گہی نہیں کھایا نہ۔ ابھی دادو ہوتی تو انھوں نے یہی کہنا تھا۔ وہ ہنسی دبا کر بولا۔ مگر ان کی میز یقشان سے قدرے دور تھی۔

آیدہ جانتی تھی ایڈن ابھی جگہ نہیں دینے والی۔ اس نے کرسی اٹھا کر چھاؤں میں رکھی اور اونا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ لو جی خدائی مددگار۔۔ وہ اسے دیکھ کر کافی کا سپ لیتے ہوئے بڑبڑایا۔

🦄__________🦄

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Where stories live. Discover now