قسط ١٤

1 0 0
                                    

اس کا فون کافی دیر سے بج رہا تھا جبکہ وہ سگرٹ کے کش لیتا ہوا لیپ ٹاپ کی سکریںن پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

وہ اس کی ایک ایک تصویر کو کئی کئی دیر تک دیکھ سکتا تھا۔

شوہا اس کے (سوٹ) میں چلا آیا۔ وہ پہلے کسی کو اپنے سویٹ(کمرے) میں آنے نہیں دیتا تھا، مگر اب شاید اس نے برا منانا چھوڑ دیا تھا۔

ہائے۔۔ شوہا مسکراتے ہوئے بولا۔
جواباً اس نے سر کو جنبش دی۔اور پھر سے لیپ ٹاپ میں کھو گیا۔

"ارے یار فون بج رہا ہے تمھارا۔"
شوہا کہتے ہوئے سایڈ ٹیبل کی طرف بڑھا۔

"بجنے دو۔" اس نے دو ٹوک جواب دیا تھا۔
مگر کیوں؟ شوہا نے سوال کیا۔

جواباً یقشان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔

"ارے ارے ایسی نظروں سے تم صرف حسیناؤں کو ہی گائل کر سکتے ہو، لحاظہ مجھ پر تو نہ ہی آزماؤں تم۔ "

شوہا فون لے کر اس کی طرف بڑھا۔ جواباً وہ ہولے سے مسکرایا تھا۔
"کال تمھاری ممی کی ہے۔" وہ فون سکرین پر چمکتے نام کو دیکھ کر بولا۔

یقشان نے گہری سانس بھری اور فون اٹھایا۔
"بیٹا تمھیں پیسوں کی ضرورت تو نہیں ہے کوئی"۔۔۔۔ دوسری طرف سے بغیر حال چال پوچھے یہ سوال کیا گیا۔

"پیسہ"۔۔۔۔۔ وہ دانت پیس کر بولا۔ اور پوری قوت سے فون دیوار پے دے مارا۔

"پیسہ پیسہ پسسہ۔۔۔۔ سالے خوشی خرید کے دکھائیں نہ پیسے سے، خریدیں محبت۔۔۔ "
غصے سے اس کے ماتھے اور بازوں کی نسیں تن گئیں تھیں۔
شوہا میز سے ٹیک لگاکر سر جھکائے کھڑا تھا۔

اس نے آنکھیں موندھی,گہری سانس لی۔ اور قریب رکھی بوتل سے گلاس میں پانی انڈیلا۔

"تمھیں کیا ہوگیا یار،" مجھے تو عادت ہوگئی ہے اب اس سب کی۔ وہ شوہا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔

شوہا نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا، جہاں اب کچھ دیر پہلے والے آثار غائب ہو چکے تھے۔
وہ مسکرا دیا۔

»»»»»»»»»»»»»»»»»»•✨

لونا،ایڈن اور آیدہ چوتھی منزل پر بنائے گئے بڑے حال نما کمرے میں موجود تالاب کے لیے چلی آئیں تھی۔ سامنے لگی وسیع و عریض کھڑکیوں سے سمندر ایک دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔
وہ پانی میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھی سمندر کو دیکھ رہی تھی، جبکہ وہ دونوں پانی میں تھیں۔

وہ اونا کی کسی بات کو یاد کرکے ہنس رہیں تھیں۔

جبکہ وہ خاموشی کا مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔ ان دونوں نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا۔ اور اس کی جانب دیکھنے لگئیں۔ اس سے پہلے کے وہ لوگ کچھ کہتیں آیدہ خود ہی بول اٹھی ۔

"کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم سب خوش ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔حالانکہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہم سب ٹوٹے ہوئے لوگ ہیں۔ اس فرام میں موجود ہر انسان اندر سے ٹوٹا ہوا ہے۔ہر شخص۔مگر ہم خوش ہونے کا ڈھونگ رچا کر خود کو تسلیاں دے رے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے۔ "

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Where stories live. Discover now