قسط ۴

18 2 4
                                    

تین گھنٹے قبل ایم ایس فرام انٹارٹیکا پیناسولہ میں داخل ہوچکا تھا،سورج آہستہ آہستہ طلوع ہونے لگا۔پہاڑوں پر لدی برف نے ٹھنڈ میں اضافہ کر رکھا تھا۔سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔
وہ تازہ دم ہوکر اوپر چلی آئی۔اس نے گھٹنوں تک آتی سفید گرم سویڑر پہن رکھی تھی۔ اور پاؤں میں سفید جاگرز تھے۔بالوں کو اس نے اونچی پونی میں قید کر رکھا تھا۔کچھ دیر وہ یوں ہی کھڑی خاموش سمندر کو دیکھنے لگی۔

وہ اپنا کیمرہ لیا اوپر آیا تھا۔سورج کی کرنیں سمندر میں بکھرے گلیشیرز پر پڑ رہی تھیں۔ایک "گلیشولیجسٹ" ہونے کے ناطے وہ انٹارکٹیکا پانجویں مرتبہ آرہا تھا،مگر اس بار اس کے آنے کا مقصد صرف اور صرف ایک خوبصورت سفر کا لطف لینا تھا۔اس نے پلین ٹراوزر پر سیاہ ہوڈی پہن رکھے تھے۔ البتہ بال بکھرے ہوئے تھے۔

وہ دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھے،آنکھیں موندھے یوگا کرنے بیٹھے تھی۔یقشان کی نظر اس پر پڑی،اور وہ کچھ سوچ کر دبے پاوں اس کی جانب بڑھا۔وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا۔پھر کچھ سوچ کر وہ اس کی تصاویر بنانے لگا۔ اس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی۔

اس سے پہلے کے وہ آنکھیں کھولتی وہ دور جاکر کھڑا ہو چکا تھا۔ آخر اسے دیکھے کر مجھے کسی اپنے کا احساس کیوں آتا ہے۔ اس نے لب کاٹتے ہوئے سوچا۔

"صباح الخیر" وہ مسکرا کر بولی۔قریب رکھے چشمے اٹھا کر  پہنے اور پانی کی بوتل اٹھائے اس کے ساتھ آکر کھڑی ہوئی۔
نہیں مجھے کوئی اچھا نہیں لگ سکتا اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ پانی پینا ہے وہ اسے خاموش کھڑا دیکھ کر بولی۔ اور وہ بغیر کوئی جواب دیے وہاں سے چل دیا۔
وہ ایک نظر اسے جاتا ہوا دیکھ کر  سمندر کی لہروں کا شور سننے لگی۔اسے وہ اس پل بہت شدت سے یاد آیا تھا، یہ کیا ہورہا ہے میری زندگی کے ساتھ۔ اس نے سوچتے ہوئے پانی کی بوتل لبوں سے لگائی۔

                 ✵      ✵       ✵     ✵

میں تو بہت بےتاب ہو پینگویننز دیکھنے کے لیے۔ لونا سینڈویچ کا نوالہ لیتے ہوئے بولی۔وہ سب ایک ہی میز پر کھانا کھایا کرتے تھے سوائے اسکے۔
وہ ان لمبی چوڑی کھڑکیوں کے ساتھ رکھی کرسی پر ہی تنہا بیٹھا کرتا تھا۔
نوریادہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ قدرے بےنیازی سے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔صبح کی بنسبت اس کا حلیہ قدرے بہتر تھا۔بالوں کو اس نے جوڑے کی صورت میں بند کر  رکھا تھا۔ البتہ ہوڈی وہی تھی۔
نوریادہ۔۔۔ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ بیٹھی ایڈن نے اسے پکارا۔

حال میں لگی وسیع گھڑی پر 11 بج رہے تھے۔ وہ سب اپنے اپنے ڈیک میں تیار ہونے چلے گئے۔

                       ✵     ✵    ✵   ✵

۱۲ بجے وہ سب قریبی جزیرے پر اتر چکے تھے۔ اکثر لوگ بےچینی سے پجنگوینز کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
تھوڑی دیر تک اس نے پینگوینز کو قطار در قطار اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔سیاہ اور سفید رنگت کے مختلف جسامت والے پینگوین ہلتے ڈلتے انھی کی طرف آرہے تھے۔

اف۔ اس کی زبان سے بےاختیار نکلا۔
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا اس چھوٹے پینگوین کی تصاویر بنا رہا تھا، جو ان سب میں سے چھوٹا تھا۔

نوریادہ کی اس پر نظر پڑی۔کتنا کیوٹ ہے یہ۔ وہ اس کے سر پر کھڑی تھی۔اسے دیکھ کر یقشان اٹھ کھڑا ہوا۔وہ پینگوین کے قریب چلی آئی۔ نوریادہ نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو اب تک وہیں کھڑا تھا۔ اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر اس نے نظریں پھیر لیں۔وہ تصاویر بہت کم بناتی تھی۔اس چھوٹے پینگوین نے اپنا ہاتھ اس کے بڑھائے ہوئے ہاتھ پر رکھا جو بیک وقت پر اور ہاتھوں کا کام دیتا تھا۔یقشان نے اسی وقت میں کلک کیا تھا۔

                       ✵ ✵  ✵ ✵

رات کو وہ اور ایڈن کافی لیے اپنے کمرے کی بالکونی پر چلی آئیں تھی۔
لونا اور جیڈ بہت اچھے ہیں نہ۔ ایڈن نے گرم کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ ہاں شوہا اور عاشر بھی اچھے ہیں۔ نوریادہ نے کہا۔ یہ شوہا کتنا معصوم سا ہے نہ۔ کافی کیوٹ ہے۔ وہ کافی ختم کر چکی تھی۔آہ i hate boys ایڈن نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔وہ کیوں اس نے پوچھا ضروری سمجھا۔۔

ایسے ہی۔
ان دونوں میں اچھی دوستی ہو چکی تھی۔یقشان سے کوئی بات ہوئی  تمھاری،مجھے تو ایک نظر نہیں بھاتا یہ لڑکا۔

ہاہا۔۔وہ ہلکا سا ہنسی دراصل۔۔۔۔ وہ الگ سا ہے وہ ہاتھ میں تھامے   مگ کے کونے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
سب سے منفرد ہے وہ۔ اس کی عادات اس  کی چال ڈھال سب کتنے مختلف سے ہیں۔

یقشان پہلی بار اس کی بات پر مسکرایا تھا۔وہ ان سے اوپرے درجے میں رہتا تھا۔ اور اتفاقا اس کا سوٹ ان دونوں کے ڈیک کے عین اوپر ہی تھا۔اور عموماً اسی وقت وہ بالکونی پر ہی ہوا کرتا تھا۔مگر یہ بات ان دونوں کے علم میں اب تک نہیں آئی تھی۔

لیکن وہ عجیب سا ہے۔ اس نے کہتے ہوئے مگ میز پر رکھا۔ یقشان کی چہرے پر چھائی مسکراہٹ غاہب ہوچکی تھی۔

میں اسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں شاید مدد کر سکوں۔ وہ بہت کم گو ہے۔وہ خود نہیں بولتا ایڈن اس شخص کی آنکھیں بولتی ہیں۔جیسے۔۔ جیسے وہ اپنے ساتھ جنگ لڑ رہا ہو۔کسی کرب سے گزر رہا ہو۔اسے کوئی پریشانی ضرور ہے۔کوئی بات تو ایسی ہے جو وہ منظر عام پر نہیں لانا چاہتا ورنہ وہ ایسا کیوں ہے۔
وہ کیا کہہ رہی ہے یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔ ایڈن بغور اسے دیکھ رہی تھی۔

یقشان ایک پل کو ساکت ہوچکا تھا۔ وہ روزبروز اسے متاثر کر رہی تھی،مگر وہ کسی سے متاثر  نہیں ہونا چاہتا تھا۔ کسی سے بھی نہیں۔اس سے بھی نہیں۔ اس نے اپنے جسم میں ٹھنڈ کی لہر دوڑتی محسوس کی اور بالکونی کا گلاس ڈور کھول کر اندر چلا آیا۔

...........................................................................

امید ہے آج کی قسط بھی آپ کو پسند آئے گی۔ اپنی رائے کا۔اظہار ضرور کی جیے گا۔ شکریہ ♡︎

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Where stories live. Discover now