قسط ٧

11 2 0
                                    

وہ لوگ ناشتا کر چکے تھے، یقشان اس وقت کمرے سے نمودار ہوا۔وہ آج دیر تک سوتا رہا تھا۔
ہلکی ہلکی دھوپ کی کرنیں بادلوں میں سے جھلک رہی تھیں
۔وہ لابریری سے کتاب لیے ٹانگ پر ٹانگ ٹکائے بیٹھے پڑھنے میں مصروف تھی۔
وہ ناشتے کی ٹرے لیے اس کے پاس سے گزرتا ہوئے اپنی میز تک گیا۔ نوریادہ اس کے قریب کی کھڑکی کے باہر بیٹھے پرندے کو دیکھ رہی تھی،جو شاید دھوپ لگانے کے لیے وہاں بیٹھا تھا۔
اب وہ پرندہ اپنی چونچ کے زریعے کھڑکی پر دستک دینے لگا۔وہ اسے دیکھتی ہوئی مسکرا دی۔

یقشان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اس پرندے کو دیکھ کر سر جھٹک کر ناشتا کرنے لگا۔

☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎

آج وہ لوگ سکیٹنگ کے لیے باہر نکلے تھے۔
ایک قطار بنائے سب برف پر کھڑے تھے۔ابھی انھیں ہدایات ہی دی جارہی تھیں جبکہ وہ ہمیشہ کی طرح پہلے ہی آگئے بڑھ چکا تھا۔
شوہا نے اس کی جانب دیکھ کر تعاصف سے سر ہلایا، برف جم چکی تھی۔مگر سردی کافی زیادہ تھی۔
وہ اور ایڈن ہاتھ تھامے سکیٹنگ شروع کر چکی تھیں۔اونا ان کے پیچھے آرہی تھی، مگر نوریادہ نے نظر انداز کیا۔ ایڈن اس کے پیچھے جانے کا مقصد جان چکی تھی۔ اونا نے اسے دھکا دینے کی کوشش کی مگر ایڈن نے اس کے سامنے ٹانگ آڑائی جس سے وہ منہ کے بل چند قدم آگئے جا گری۔
ہمارے ہاتھ پاؤں ٹونٹے نہیں ہیں ابھی ایڈن اسے گھور کر بولی تھی۔وہ اپنے کپڑوں پر لگی برف جھاڑ رہی تھی۔نوریادہ نے ایک نظر ایڈن پر ڈالی اور آگئے بڑھتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ بڑھایا۔۔ جسے اسے نے بڑبڑاتے ہوئے جھٹک دیا تھا۔یقشان پہلا چکر لگا آیا تھا اور اب دوسرا چکر لگا رہا تھا۔شوہا،اشعر،لونا اور جیڈ نے ریس لگا رکھی تھی۔

☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎

ہر شام وہ سب اکھٹے بیٹھا کرتے تھے اور گھنٹوں باتیں کرتے۔ you have to cover your hairs اونا نے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔ کیوں تمھیں جلن ہو رہی ہے۔ لونا ہنس کر بولی تھی۔ اہہہہ۔ جل ہی نہ جاؤں میں۔
میں تو اس لیے کہہ رہی ہوں کیوں کے تمھاے مزہب میں یہ ہے نہ۔ وہ جل کر بولی تھی۔ ایک تو تم گھوما پھرا کر باتیں یہں تک لے آتی ہو حد ہے اونا اشعر نے متزبزب ہع کر کہا تھا۔
ہر انسان اپنے اعمال کا جواب دے خود ہے، یہ بھی ہمارے ہی مزہب نے کہا ہے۔ شوہا نے کہا تھا۔
تمھیں ہماری فکر کرنت کی ضرورت نہیں ہے، اپںنے کام سے کام رکھا کرو، ایڈن بڑھکی۔
تم ہر بات کا رخ لڑائی کی طرف نہ موڑا کرو اونا ہم سب ہیاں انجوائے کرنے آئے ہیں نہ ہی لڑنے کو۔ جیڈ کے ماتھے پر شکنیں پڑیں تھیں۔ وہ سب ہی اس کی روز روز کی بحث سے بے زار ہو چکے تھے۔مگر وہ خاموش بیٹھی تھی۔جسے اس کے دل پر خنجر لگا ہو۔
اوہو چھوڑو نوریادہ، تو ہم کہاں تھے۔۔۔ ہاں یاد آیا جیڈ بتا رہا تھا۔
تو میں پہلی بار لونا کا پرفیکٹ بیلرینا ڈانس دیکھ رہا تھا۔میرے لیے فخر کی بات تھی، کیونکہ میں کوچ تھا اس کا۔ وہ مسکرا کر بولا۔
سب دلچسپی سے سن رہے تھے۔

☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎☀︎︎

وہ آج کھانا کھانے کے بعد فورا ہی اوپر چلا آیا تھا، نوریادہ تھوڑی ڈسڑرب تھی، وہ اوپر چلی آئی۔اسے وہاں دیکھ کر وہ اپنی پریشانی نظر انداز کرتے ہوئے گہرا سانس لے کر اس کی جانب بڑھی۔
اس کے لیے لوگوں کی خوشی اپنی خوشی سے زیادہ معنی رکھتی تھی۔یقشان نے اسے دیکھ کر ڈایری پر چلتا ہاتھ روکا۔
وہ اس کے قریب آبیٹھی، کیا تمھیں لوگوں کی باتوں سے دکھ ہوتا ہے، وہ آج خود بھی دکھی تھی۔ شاید کچھ زیادہ ہی۔
میں نے لوگوں کی باتیں سننا کب کا چھوڑ دیا ہے۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔وہ خاموش ہوگئی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
لوگ ہمیں تب دکھی کرتے ہیں جب ہم انھیں خود کو دکھ دینے کا حق دے دیتے ہیں،
اسے بھی کسی ہم درد کی ضرورت تھی، اس نے اج پہلی بار محسوس کیا۔
وہ بے اختیار مسکرا دی۔
تھینک یو،وہ کہتے ہوئے اٹھی تھی، اس کی نیلی آنکھوں میں ایک آنسو چمکا تھا جسے اس نے انگلی کے پوروں سے پونجھ لیا۔
یقشان نے اسے جاتے ہوئے دیکھا

......................𖣔.............................

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Where stories live. Discover now