قسط ٥

13 2 0
                                    

صبح کی کرنیں بکھر رہیں تھیں،وہ جاگ چکا تھا۔کھڑکی پر لگے سفید پردوں سے روشنی جلملا رہی تھی۔ وہ آنکھیں کھول چکا تھا۔ اور اس کی نہریں مسلسل چھت پر مرکوز تھیں۔سردی دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔خاص کر انٹارٹیکا میں داخل ہونے کے بعد۔اسی دوران میز پر رکھے موبایل کی گھنٹی بجی،اس نے گہرا سا سانس لیا اور موبایل اٹھایا۔ سکرین پر "موم" لکھا ہوا چمک رہا تھا۔اس کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھرے۔آخر یاد آئی گئی میری۔اس نے تنزیا طور پر کہا اور فون پٹخ کر بیڈ سے اترا۔
𖣔𖣔𖣔𖣔𖣔𖣔𖣔

ایک تو روز روز کے لیکچرز ایڈن چڑ کر بولی۔ وہ سب لیکچر ہال کی طرف بڑھ رہے تھے۔وہ آج بھی ہیڈ فونز لگائے بیٹھا تھا۔ وہ سب ایک ہی قطار میں بیٹھے تھے۔
شوہا ٹانگ پر ٹانگ رکھے آرام سے بیٹھا 'سموتی" پیتے ہوئے لیکچر سن رہا تھا۔ ساتھ بیٹھی ایڈن نے ایک دو بار
اسے گھورا۔
کیا ہوا ہے؟ آخر وہ بول اٹھا، ایک سپ بھی اور لیا نہ تم نے۔ وہ غرا کر بولی۔ تو کیا کرو گی ؟
شوہا نے محظاظ ہوتے ہوئے ایک اور سپ لی۔
ایڈن نے اس کے ہاتھ سے سموتی لی اور ایک سانس میں ساری پی لی۔
ششش، تم دونوں۔۔ خاموش رہو، نوریادہ نے کہا تھا۔

وہ اس کے بائیں جانب بیٹھی سمندر کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔وہ اس زرد جیکیٹ میں بھی بلا کی خوبصورت دکھ رہی تھی۔جو ان سب نے پہن رکھی تھی۔ یقشان کی نظریں اس پر مرکوز تھیں۔نوریادہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا، مگر وہ رخ موڑ چکا تھا۔

نوریادہ، ایڈن شوہا اور اشعر سکینگ کر رہے تھے۔ جبکہ یقشان دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا اردگرد کے نظارے کر رہا تھا۔ میں جیتنے والی ہوں، نوریادہ نے اونچی آواز میں کہا، میں تمھیں جیتنے دوں گی تو تب جیتو گی نہ۔۔ اونا نے پاس سے گزرتے ہوئے اسے دھکا دیا۔
وہ لڑکھڑاتی ہوئی گری۔

اہ، ایم سوری، اونا نے رکتے ہوئے کہا تھا۔
کوئی بات نہیں اس نے وہیں بیٹھ کر کپڑوں سے برف جھاڑتے ہوئے کہا۔

شوہا اور ایڈن کافی آگے جاچکے تھے۔
اشعر نے قریب آتے ہوئے اونا کی طرف خفگی سے دیکھا اور اس کی جانب ہاتھ بڑھایا،
شکریہ، اس نے کہتے ہوئے خود اٹھنے کی کوشش کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔دور کھڑا یقشان مسکرا دیا۔

وہ سب باہر بیٹھے تھے۔گر جانے کی بدولت اس کے گھٹنے میں درد ہورہا تھا۔ مگر اس نے نظر انداز کردیا۔ کافی پینے کا موڈ ہورہا ہے یار لونا نے کہا۔ تو کیوں نہ کافی ہوجائے جیڈ نے لونا کی جانب دیکھ کر کہا تھا۔ جو اس کی گود میں سر ٹکائے لیٹی تھی۔

صرف لونا کے لیے یا ہمارے لیے بھی، اشعر نے ایبرو اچکایا۔وہ لونا کا ہاتھ تھامے ہنستے ہوا اٹھا،
رکو۔۔۔ یہ یقشان کہاں ہے شوہا اردگرد نظریں دوڑاتے ہوئے بولا
تم لوگ جاؤ، میں دیکھتی ہوں نوریادہ کہتے ہوئے اٹھی اور اسے برتھ میں نہ پا کر گلاس ڈور سے باہر چلی آئی۔

ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا تھا۔ اس نے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا اور اس جانب چلی آئی جہاں وہ گھٹنوں پر ہاتھ ٹکائے بیٹھا تھا۔ قریب ہی سیاہ ڈایری اور قلم رکھے تھے۔

اسے پتھروں سے خاص رغبت تھی اسی لیے اس کے دائیں ہاتھ پر بندھے بریسلیٹ سے لے کر دو انگلیوں میں پہنی انگوٹھیاں سب پتھر ہی کی تھی۔

اس نے گردن موڑ کر اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

کافی پینے جارہے ہیں، تم بھی چلو گے۔ نہیں، اس نے نظریں سمندر پر مرکوز رکھتے ہوئے کہا۔
تمھیں جانا پڑے گا۔ وہ بازو باندھ کر کھڑی ہوگئی۔
مجھے ہر کسی کے ہاتھ کی بنی کافی پسند نہیں ہے۔ وہ کچھ یاد آنے پر بولا۔
پھر تو تمھیں میرے ہاتھ کی کافی ضرور آزما لینی چاہیے۔ایک بار ہی سہی۔
اس نے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ سر پر ہڈی لی،ہاتھ میں پکڑا سگرٹ منہ میں لیا اور چل دیا۔
ٹھرو، وہ ہیں رک کر بولی۔
کہو، اس نے مڑے بغیر کہا تھا۔
میری کافی تم بناؤ گے اس نے کہا اور پھر اس کے ہم قدم ہوکر نیچے چلی آئی۔

وہ شیلف سے ٹیک لگائے نوریادہ کی کافی میں چمچ ہلا رہا تھا جبکہ وہ قدرے فاصلے پر یقشان کی کافی بنانے میں مصروف تھی۔
وہ جیب میں ہاتھ ڈالے اس کی جانب بڑھا اور شیلف پر تیارشدہ کافی کا کپ رکھا۔

مجھے یقین نہیں آرہا یہ وہی یقشان ہے، شوہا نے اپنی کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا تھا۔ کر لو یقین لونا نے ہنس کر کہا۔ مجھے بھی یقین دلا دو لونا اشعر شیلف پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
اونا نے موقع پا کر اس میں "جنجر پاوڈر " ملا دیا تھا
وہ اس کی کافی تیار کر چکی تھی۔ یہ لی جیے۔ اس نے کہتے ہوئے مگ اس کے قریب رکھا اور اپنا کپ اٹھایا۔
اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کپ اٹھالیا۔

"اٹس سو گڈ" وہ پہلے ہی سپ لینے کے بعد بے ساختہ کہہ اٹھا اور اسے مسکراتا دیکھ کر پھر سے سنجیدہ ہوگیا۔
میں نے یہ پہلے بھی پی ہوئی ہے۔مگر کب اور کہاں؟ وہ بار بار سپ لے کر یاد کرنے کو کوشش کر رہا تھا۔
وہ زخمی سا مسکرا دی۔ اور وہاں سے چلی آئی۔وہ جو پیچھے چھوڑ آئی تھی،وہ بہت تکلیف دہ تھا، مگر ماضی کو بھول جانا ممکن نہیں۔

۞۞۞۞۞۞۞۞

رات گھٹن تھی،سخت گھٹن وہ سو نہیں پارہا تھا۔ اس کے ساتھ اکثر یئی ہوتا تھا۔ کبھی کبھار تو وہ پوری رات ہی جاگتا رہتا۔
وہ بیڈ سے اترا اور میز کی جانب بڑھا جہاں اس کا لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔
وہ دوسری بار کوکین لے چکا تھا۔اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اور پھر وہ میز پر ہی سر ٹکائے نیند کی آغوش میں جا چکا تھا۔

....................................𖣔.........................................

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Where stories live. Discover now