قسط ٣

26 3 2
                                    

اس کی آنکھ موبائل پر لگے 6 بجے کے الارم سے کھلی تھی۔جسے وہ بدلنا بھول گئی تھی۔ناروے کا وقت ترکی سے دو گھنٹے پیچھے تھا۔کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ ایڈن سورہی تھی۔ وہ کچھ دیر اسی طرح لیٹی رہی۔ کل والا واقعہ اس کی نظروں کے سامنے آیا تھا۔ پھر وہ بیڈ سے اتری۔ زکام اب قدرے کم ہو چکا تھا۔

ناشتے کے بعد مایک پر اناونسمینٹ ہو رہی تھی۔ وہ ایڈن کو لے کر لیکچر روم کی جانب بڑھی۔ جہاں انھیں سفر کے بارے میں آگاہ کیا جاتا تھا۔ وہ ایک وسیع حال نما کمرہ تھا۔ جہاں ترتیب سے کرسیاں لگائی گئیں تھی۔ وہ اس سے اگلی صف میں بیٹھا تھا۔اور اناونسمنٹ سننے کے بجائے ہیڈ فونز لگا رکھے تھے۔

ان سے ونڈ اور رین جیکٹ پہننے کو کہا گیا تھا۔ آج کیپ ہارن کا سرپرایز وزٹ ہونا تھا۔
وہ چھے ایک ہی چھوٹی کشتی میں سوار تھے۔
نوریادہ جگہ کا جائزہ لینے لگی۔وسیع و عریض نیلا اور ٹھنڈہ سمندر۔جس کے گرد ڈھکے پہاڑوں سے گلیشیر گر رہے تھے۔یقشان نظر اٹھا کر اس پر بھی ڈال دیتا تھا۔مگر کیوں۔یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ مگر وہ اس سے بےخبر تھی۔
کشتی کنارے پر آکر رکی۔ وہ سب ایک ایک کر کے اترنے لگے۔اس جگہ کا نام (گرین لینڈ) تھا۔ چٹان پر بنی سڑک کے گرد باڑیں لگائی گئیں تھیں۔وہ ایڈن کے ساتھ چلتی باتیں کر رہی تھی۔ ہوا کا دباؤ کافی تیز تھا۔مجھے خوشی ہے کہ تم سے میری ملاقات ہوگئی۔ورنہ میں تنہا
مزے لینے کا حدف کر کے آئی تھی۔ مجھے اچھا لگتا ہے نئے لوگوں سے مل کر نوریادہ ایڈن کی جسنب دیکھ کر مسکرائی۔
سب ایک جگہ آجائیں گایڈ نے مایک میں کہا۔
انھوں نے نہیں بخشنا ہمیں وہ گہرا سا سانس لے کر بولی۔اور دونوں اس جانب بڑگیں جہاں باقی لوگ اکھٹا ہو رہے تھے۔کسی سکول کے بچوں کی طرح سب ہم رنگ لباس میں موجود تھے۔
لونا نے ان کی جانب ہاتھ ہلایا۔جو کے جیڈ کے ساتھ کھڑی تھی۔ شوہا اشعر کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس نے اردگرد نظریں دوڑائیں اور اسے وہاں نہ پاکر اس کی تلاش میں نکلا۔وہ ان سب سے فاصلے پر کھڑا سگرٹ سلگائے سمندر کو دیکھ رہا تھا۔
وہاں چلو یقشان گایڈ اس جگہ کے بارے میں بتا رہا ہے۔ وہ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔ کیا بتائے گا؟
یئی کے "گرین لینڈ" دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے رقبے کے لحاظ سے اور یہ کوئی براعظم نہیں ہے۔ اس نے بہویں اچکا کر کہا۔ اور ہاں یہ بھی کے یہ ڈینمارک کی سلطنت میں آتا ہے۔ اس نے کہتے ہوئے سگرٹ کا کش لیا۔ بس بس اتنا کافی ہے۔ مجھے بھی جاکر سننے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ وہ مسکرا کر بولا۔
شام کو وہ سب چھٹی منزل کے بیرونی حصے میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔لونا جیڈ کے کندھے پر سر ٹکائے ہوئے تھی۔ جبکہ وہ سب سے فاصلے پر خاموش بیٹھا تھا۔تم کیوں اکیلے بیٹھے ہو کیا میں کمپنی دوں۔
ضرورت نہیں ہے۔ اس نے ناگواری سے کہا۔
نوریادہ نے سر گھما کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ مگر اسے پشت کیے بیٹھا دیکھ کر وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائی۔
وہ ان کی جانب چلی آئی۔ ہائے گایز۔۔ اونا نے کہا اور اشعر کے پاس آبیٹھی۔
ویسے ایک بات تو بتاؤ۔۔ اونا ٹانگ پر ٹانگ ٹکاتے ہوئے بولی۔
جی ۔۔ لونا نے کہا۔
ارے نہیں۔ میں ان سے پوچھ رہی ہوں۔
اس نے ناگواری سے کہتے ہوئے ان دونوں کی جانب اشارہ کیا۔
پوچھیے۔ نوریادہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ویسے تم غریب لوگ اتنے مہنگے فرام تک پہنچ کیسے گئے۔وہ مذاق کرتے ہوئے بولی۔
تم غریب لوگوں سے آپ کا مطلب ؟ شوہا نے پوچھا۔ اس کے ماتھے پر شکنیں پڑی تھیں۔
اوہ۔ ار یو مسلم ٹو؟ وہ منہ چڑا کر بولی۔
سفر کے بہانے لوگوں کو نشانہ بنانے کا کام غریب سوچ والے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ ایڈن نے سختی سے کہا۔
وہ اور بھی بہت کچھ کہنے لگی تھی کے شوہا نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
اب ایک بات میں پوچھوں محترمہ۔۔ شوہا اس کی جانب دیکھ کر بولا۔ باقی سب خاموش تھے۔
اگر ہم اتنے غریب ہوتے تو آپ کی حکومتیں تیل جیسی چیز کے لیے ہمارے مسلمان ملکوں کو کیوں کھودتیں؟ ایڈن نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اور پھر نظریں گھما لیں۔
یقشان خاموشی سے سب سن رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ آئی۔
مجھے اس بارے میں بات نہیں کرنی اونا کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں اس کی طرف سے معزرت خواہ ہوں۔ اشعر شرمندگی سے بولا۔ لونا اور جیڈ اب تک خاموش تھے۔کوئی بات نہیں شوہا اس کا کندھا تھپتپھا کر بولا۔نوریادہ کو اونا کے لیے برا لگ رہا تھا۔ وہ ایسی کیوں ہے۔ اس نے سوچا۔
اور وہ سب پھر سے باتوں میں مشغول ہوگے۔

وہ ڈایری لیے بالکونی میں بیٹھا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ناروے لایٹس آسمان پر قہر ڈھا رہیں تھیں۔اس کی یاد ستانے پر اس نے آنکھیں موندھ لیں۔ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں تھی۔

کھویا تو نہیں ہے اس شخص کو میں نے
بس تھڑی دور چلا گیا ہے مجھ سے
کتنا آسان ہے نہ کہنا یہ سب
کوئی پوچھے میرے دل کا حال مجھ سے

نورآیدہ ۔۔۔ یہ یقشان نامی بندہ بھی کتنا عجیب ہے نہ ۔۔ اس نام کو سن کر نوریادہ کی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگتیں تھیں۔
وو کیسے اس نے چھت کو دیکھتے ہوئے کہا۔تمھیں نہیں لگتا یہ اور لونا ایک جیسے ہیں۔۔ایڈن نے کہا۔
نہیں تو وہ کیسے؟وہ جواباً بولی۔
دونوں نک چڑے ہیں نہ۔ ایڈن اس کی جانب مڑ کر بولی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ پردوں سے تھوڑی سے روشنی اندر کو آرہی تھی۔

نہیں یار یہ لونا کو تو صرف مسلمانوں سے چڑ ہے۔باقیوں کے ساتھ تو اس کا رویا بالکل بھی ایسا نہی ہے۔

ہاں یہ تو ہے۔ مگر اس نے غلط کیا ہے ہم سے چھیڑ لے کر۔
ایڈن پانی پینے کے لیے اٹھی۔

مگر مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں کو کسی کی ضرورت ہے۔تبھی ان کا رویہ ایسا ہے۔ وہ کہہ اٹھی۔
ہاں جی ڈاکڑ صاحبہ آپ تو زیادہ جانتی ہوں گی۔ آخر ساکیڑرسٹ جو ہیں۔ وہ پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولی۔
نوریادہ مسکرا دی۔

............................................................................

تو کیس لگی آپ کو آج کی قسط؟ اپنی رائے کا اظہار کرنا نہ بھولیے گا۔

  ☀︎︎ ساگر کے ساتھی ☾︎Where stories live. Discover now