قسط ۲

1.4K 70 13
                                    

دعا جب گھر پہنچی تو ماما کچن میں تھی۔ وہ ان کے پاس آئی اور بولی۔"اسلام علیکم! کیا کر رہی ہیں ؟"
"وعلیکم سلام! چائے بنا رہی ہوں۔ پیو گی۔"ماما نے جواب دیا۔
"ہاں! بہت تھک گئی ہوں۔ روم میں جا رہی ہوں ادھر ہی بھیج دی جیے گا۔" اس نے کہا۔
"اوکے" ماما نے مختصر جواب دیا۔
۔
رات کا کھانا لگ رہا تھا جب دعا نیچے آئی۔
"اسلام علیکم! بابا جان۔"
"وعلیکم سلام! کیسی ہو بیٹا؟" احمر صاحب نے پوچھا۔
"ٹھیک۔" وہ مسکرا کر بولی۔
سب کھانا شروع کر چکے تھے۔
"آپ کی پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔" بابا جان نے پوچھا ۔
"بابا جان بہت اچھی جارہی ہے۔ بس اگلے مہینے اگزامز ہے۔" دعا نے بتایا۔
"ہمم! پھر ہماری بیٹی کا ایم بی اے کمپلیٹ ہو جائے گا۔" نیلم بیگم نے کہا۔
دعا مسکرا دی
باقی کا کھانا خاموشی سے کھایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دعا پڑھائی میں بہت زیادہ مصروف ہوگئی تھی۔ آج اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔ کیونکہ آج اس کا یونیورسٹی میں آخری دن تھا۔
آج ان سارے فرینڈز نے مل کر مووی دیکھنے جانا تھا۔انھوں نے مووی دیکھی۔ بہت مزا کیا۔
دعا نے آفشالڈر ٹاپ کے ساتھ جینز اور ہائی ہیلز پہن رکھی تھی۔ اور بال کھلے ہوئے تھے۔ اور ہمیشہ کی طرح منہ پر ہلکا پھلکا میک اپ۔
جبکہ سمیہ نے کُرتے پاجامے کے ساتھ حجاب کر رکھا تھا۔
جب وہ گھر پہنچی تو بہت خوش تھی۔
"دعا کیسا رہا آج کا دن۔"نیلم بیگم نے اسے دیکھا تو پوچھا۔
"بہت اچھا بہت مزا آیا۔" دعا نے بتایا۔
"چلو اچھا ہوگیا ۔ کتنے دنوں سے تم پڑھائی میں لگی ہوئی تھی۔" نیلم بیگم نے کہا
"او ہاں یاد آیا۔ کل میں نے سمیہ کے ساتھ شاپنگ پر جانا ہے۔" دعا نے یاد آنے پر کہا۔
"پورے ایک مہینے سے بھی ذیادہ ہو گیا میں شاپنگ کرنے نہیں گئی۔"
"جیسے آپ کی خوشی۔" نیلم بیگم جانتی تھی کہ ان کی بیٹی کو شاپنگ کا کتنا شوق ہے۔
"اچھا دعا میری بات سنیں اس ویکنڈ پارٹی ہے۔ آپ چلیں گی نہ۔سمیرا نے آپکا بہت کہا ہے ۔"
"ہاں ضرور چلوں گی۔"
"اچھا اب میں تھوڑا ریسٹ کر لوں۔"دعا نے ماما کا گال چوما اور اوپر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔
"دعا بس کرو یار۔" سمیہ نے دعا کو ایک اور شرٹ پسند کرتے دیکھا تو بولی۔
"اوہو کچھ نہیں ہوتا یار۔" دعا نے کہا
"تم نے لے تو لیے ہیں اتنے سارے کپڑے اور جوتے۔ اب گھر چلو۔"سمیہ نے تنگ آکر کہا۔
"ابھی تو میک اَپ بھی لینا ہے۔"دعا نے سمیہ کو کہا اور پھر سیلز مین کو کہا "یہ پیک کر دیں۔"
"اُف دعا ابھی میک اَپ بھی۔" سمیہ نے کہا جو کافی تھک گئی تھی۔
وہ دونوں ایک بجے کی گئی ہوئی شام پانچ بجے مال سے نکلی۔
۔۔۔۔۔۔۔
"اُف دعا! اتنا تھک گئی ہوں میں،اتنی شاپنگ کی ہے تم نے۔"سمیہ نے کہا۔
"اتنی جلدی تھک گئی تم تو۔" دعا نے کہا۔
"تم اتنی شاپنگ کیوں کرتی ہو ۔"سمیہ نے پوچھا۔
"کیونکہ شاپنگ کرنا میرا شوق ہے۔" دعا نے مسکرا کر کہا"میں شاپنگ سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔ مجھے خوشی ملتی ہے۔مجھے سب سے زیادہ خوشی شاپنگ کرتے ہوئے ہوتی ہے۔" دعا نے بتایا۔
"تم کہنا چاہتی ہو کہ چیزوں کے روپ میں تم خوشیاں خریدتی ہو۔" سمیہ نے پوچھا۔
"ہاں خوشیاں ایسے ہی تو ملتی ہیں۔ شاپنگ سے، کوئی مہنگا گفٹ پانے سے جیسے گاڑی، موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ۔" دعا نے کہا۔
"لیکن مجھے خوشی اپنوں کے ساتھ رہنے سے ملتی ہیں ناکہ چیزوں سے۔"سمیہ نے بتایا۔
"اپنوں کے ساتھ! مجھے تمہاری باتیں سمجھ نہیں آتی۔ بوڑھی روح۔" دعا نے کہا
دعا نے سمیہ کو ڈراپ کیا اور گھر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
دعا گھر پہنچی تو نیلم بیگم نے اسے بلایا کہ کام ہے۔
"دعا تمہارے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔" نیلم بیگم نے دعا کو کہا جو ان کے سامنے بیٹھی تھی۔
دعا حیرانی سے اپنی ماما کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"بہت اچھے لوگ ہیں۔ لڑکا بہت پڑھا لکھا ہے۔ بہت بڑا بزنس ہے اس کا۔ فیملی میں کوئی اور نہیں صرف ایک چھوٹا بھائی ہے اور ایک پھوپھو ہے جو امریکہ ہوتی ہیں۔آنٹی سمیرا اور لڑکے کی پھوپھو فرینڈز ہیں۔ وہ پاکستان آئی ہوئی ہیں اور شادی کر کے ہی جانا چاہتی ہیں۔ آنٹی سمیرا نے جب انھیں تمہاری تصویر دکھائی تو انھوں نے فوراً تمہیں پسند کرلیا۔ اور لڑکا تمہارے بابا کا بزنس فرینڈ بھی ہے۔ مجھے اور تمہارے بابا کو یہ رشتہ بہت پسند آیا ہے۔ لیکن خیر پارٹی پر وہ لوگ بھی آئیں گے۔ تب ہم مل لی گیں۔ پھر تم فیصلہ کر لینا۔" نیلم بیگم نے سب کچھ بتایا۔
دعا حیران و پریشان خاموشی سے بیٹھی تھی۔
اور پھر اوپر چلی گئی۔
_____
دعا کمرے میں آگئی۔ اس کے کانوں میں ماما کی آواز گونج رہی تھی۔ "کیا سچ میں میں اتنی بڑی ہوگئی۔ ہاں شاید۔" وہ رونے لگی۔ اس نے سوچا کہ سمیہ کو فون کرے لیکن اسکا نمبر بند آرہا تھا۔ اس نے سوچا ماما بابا جو کریں گے اچھا کریں گے۔ لیکن اسکو بہت رونا آرہا تھا کہ شادی کے بعد وہ کسی اور گھر میں ماما بابا کے بغیر کیسے رہے گی۔
اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب سو گئی۔
———-
آج پارٹی تھی وہ پرسوں پارلر سے فیشل، مینی پیڈی کیور وغیرہ کروا آئی تھی۔ اس نے بالوں میں کرلز ڈالے اور ایک پیارا سا گرین کلر کا پیروں تک آتا نیٹ کا فراق پہنا تھا۔ اور ساتھ ہلکی پھلکی جیولری اور ہاتھ میں ایک بہت پیارا سا کلچ۔
"ماشاءاللّٰہ! میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے۔" بابا جان نے اسے دیکھ کر کہا۔
"ہاں ماشاءاللّٰہ کسی کی نظر نہ لگے۔"ماما نے بھی کہا۔
دعا مسکرادی۔
"چلو بیٹا چلیں۔" بابا جان نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔
"سمیہ بیٹا میری بات سنو۔"سمیعہ کی امی نے کہا
"جی امی۔" سمیعہ نے اپنی امی اور چچی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"دیکھو بیٹا تم نے ایم.بی.اے کا کہا ہم نے تمہارا ایم.بی.اے کروا دیا۔لیکن اب تمہیں شادی کرنی ہوگی۔"چچی جان نے کہا۔
"لیکن چچی..." سمیعہ ابھی بول ہی رہی تھی امی نے بات کاٹ کر کہا۔
"بس سمیعہ بہت دیکھ لی تمہاری زدیں"
"دیکھو بیٹا ہم تمہارا اچھا ہی چاہتے ہیں۔" تائی اماں نے کہا۔
"جی۔" سمیعہ نے کہا
"ہم نے تمہارے لیے رشتہ پسند کر لیا ہے۔" چچی نے بتایا۔
"اب ہم تمہیں اور یہاں بیٹھا کر بوڑھا تو نہیں کر سکتے۔" امی نے کہا
"ہم نے تمہیں بہت لاڈوں سے پالا ہے۔لیکن شادی تو کرنی ہے نہ۔" تائی اماں نے سمجھایا۔
"جی۔" سمیعہ نے کہا۔
________
"اسلام علیکم!" آنٹی سمیرا نے انھیں دیکھ کر سلام کیا اور بہت گرم جوشی سے ملی۔ سلام دعا کے بعد آنٹی نے کہا "آو میں تمہیں راہیلا سے ملواتی ہوں۔"
دعا اور نیلم بیگم ان کے پاس گئے۔
راہیلا افتخار اور ان کی بیٹی آبگینہ افتخار ان سے بہت گرم جوشی سے ملی۔
آبگینہ اور اس کی ماما بہت اچھی تھی۔ کچھ دیر ان سے بات کرنے کے بعد آبگینہ اور راہیلا انھیں مصطفیٰ سردار خان سے ملوانے لے گئی۔
ایک مناسب قد کا شخص جو کالے رنگ کے پینٹ کوٹ اور ساتھ سفید رنگ کی شرٹ میں ملبوس تھا۔ ورزشی جسم اور کالے رنگ کی بڑی بڑی آنکھیں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی تھی۔ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے سلام کیا
"اسلام علیکم!"
"وعلیکم سلام!" نیلم بیگم نے جواب دیا۔
"نیلم یہ ہے مصطفیٰ سردار خان میرا بڑا بھتیجا۔" پھوپھو راہیلا نے بتایا۔
دعا خاموشی سے ایک طرف کھڑی تھی۔
پیچھے سے ایک اور لڑکا آیا ۔ وہ بھی پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کی بھی آنکھیں کالی اور بڑی بڑی تھی۔ اور اس کے پیچھے ایک اور لڑکا بھی تھا۔
انھوں نے بھی آکر سلام لی۔
"نیلم یہ ہے میرا چھوٹا بھتیجا مجتبیٰ سردار خان۔" انھوں نے اس لڑکے کی طرف اشارا کیا۔ اور پھر دوسرے لڑکے کی طرف وہ بھی پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا۔
"یہ میرا بیٹا آرز افتخار خان ہے۔"
نیلم بیگم نے تقریباً دس سے پندرہ منٹ ان سے باتیں کی۔ دعا خاموش رہی۔ کوئی اس سے کچھ پوچھتا تو جواب دے دیتی۔ اسے اس دوران مجتبیٰ شرارتی سا لگا اور مصطفیٰ بہت سیریس۔
کھانا کھانے کے بعد وہ رات کو کافی دیر سے آئے۔
________
اگلی صبح وہ لوگ ناشتے کر رہے تھے جب ماما نے کہا"رات کو بہت مزا آیا تھا۔"
"ہاں! بالکل۔" بابا جان نے بھی کہا ۔
" مجھے تو راہیلا بہت اچھی لگی اور مصطفیٰ اور مجتبیٰ بھی۔" ماما نے تعریف کی۔
" ہاں اور مصطفیٰ اپنا بزنس بھی بہت اچھے سے چلا رہا ہے۔ بہت ایماندار ہے۔" بابا جان نے کہا۔
"میرے خیال سے ہمیں انھیں گھر پر بلانا چاہیں۔" ماما نے کہا "کیوں دعا؟"
دعا نے بس ہاں میں سر ہلا دیا۔
ماما اور بابا جان مسکرا دیے۔
دعا اوپر اپنے کمرے میں آگئی۔ کافی دنوں سے دعا کی سمیعہ سے بات نہیں ہوئی تھی۔ اس نے اسے کال کی لیکن ہر بار کی طرح اب بھی اس کا نمبر بند تھا۔
_____
آج بدھ تھا دعا کی سمیعہ سے بات پچھلے پیر کو ہوئی تھی۔ اور پارٹی کو بھی تین دن ہو گئے تھے۔
دعا اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی جب اس کا موبائل بجا۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو سمیعہ کا فون آرہا تھا۔ وہ فوراً اٹھ بیٹھی۔ اور جلدی سے فون اٹھایا۔
"ہیلو۔ سمیعہ کہاں غائب ہو نہ فون اٹھا رہی ہو نہ میسج کا رپلائی کر رہی ہو نہ ہی میل کا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں کتنی پریشان تھی۔ تم سے اتنی ضروری بات کرنی تھی۔" دعا سب کچھ ایک ہی سانس بول گئی۔
"دعا میری بات تو سنو۔" سمیعہ بہت اونچا بولی۔
"بولو۔"
"دعا۔" وہ رکی۔ "دعا پرسو۔" وہ رونے لگی
"سمیعہ تم رو رہی ہو۔ کیا ہوا ہے؟ کیا پرسو؟" دعا نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
"دعا پرسو...میرا نکاح ہے۔" وہ روتے ہوئے بولی۔
"کیا؟کیا کہا تم نے؟ " دعا چلائی۔
"ہاں دعا میرا نکاح۔" سمیعہ بھی روتے ہوئے چلائی۔
" سمیعہ تم مجھے تنگ کرنے کے لیے مذاق کر رہی ہو نا؟" دعا کو یقین نہیں آ رہا تھا۔
"نہیں دعا یہ سچ ہے۔" سمیعہ نے کہا ۔
دعا بھی رو دینے کو تھی۔
"تمہارا رشتہ طے ہوگیا اور تم مجھے نکاح سے دو دن پہلے بتا رہی ہو۔ یہ تھی تمہاری دوستی؟" دعا نے رونا ظبت کر کے بولا۔
"دعا یہ سب بہت اچانک ہوا ہے۔ مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا یہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ دعا میں تمہیں بہت مِس کروں گی۔"
"کوئی بات نہیں ابھی تو نکاح ہو رہا رخصتی تک ہم اور بھی اچھا وقت ساتھ گزار لیں گے۔" دعا نے اسے خوش کرنے کی ناکام کوشش کی۔
"دعا پرسو نکاح اور رخصتی دونوں ہیں۔" سمیعہ نے روتے ہوئے بتایا۔
"کیا؟ سمیعہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟" دعا کے چہرے کے رنگ اُڑ گئے۔ "میں آرہی ہوں۔ تم تیار رہو۔ مل کے بات کرتے ہیں۔"
"ٹھیک ہے مال چلیں گے مجھے کچھ سامان بھی لینا ہے۔" سمیعہ نے کہا
_______
دعا اٹھی جلدی سے تیار ہو کر نیچے آئی۔
"ماما میں سمیعہ سے ملنے جا رہی ہوں۔ جلدی ہی آجاؤ گی۔" دعا نے اونچی آواز میں ماما کو بتایا۔
"اوکے بیٹا۔" ماما نے جواب دیا
وہ گاڑی میں آکر بیٹھ گئی
قسط ۴ پارٹ ۲
وہ دونوں فوڈ کارٹ میں بیٹھی تھی۔
"اب تفصیل سے بتاؤ کیا ہوا ہے؟" دعا نے بیٹھتے ہی سمیعہ کو کہا۔
"یار کچھ دن......." سمیعہ نے اس دن امی اور چچی سے ہوئی ساری بات بتائی۔
"اچھا پھر کیا ہوا۔" دعا نے پوچھا
"ہونا کیا تھا چچی میٹھائی کا ڈبہ لے آئی اور کہتی "ہمیں پتا تھا کہ تم انکار نہیں کرو گی۔ تمہارا رشتہ تو ہوگیا ہے اور کل لڑکے والے تاریخ طے کرنے آدہے ہیں۔" میرا منہ کھلا رہ گیا۔ میں تو سمجھی ابھی رشتہ ڈھونڈے گے۔" سمیعہ نے افسردگی سے بتایا۔
"اوہ پھر۔" دعا نے پوچھا
"وہ آئے اور جمعہ کی تاریخ ڈال گئے۔ اور کہا کہ سادگی سے نکاح ہوگا اور رخصتی بھی۔ وہ لوگ کچھ لوگ آئے گے۔ اور ولیمہ نہیں کریں گے۔ بس کچھ گریبوں کو بلا کر کھانا کھلا دے گے۔"
"ہمم تم نے تصویر دیکھی اپنے اسکی۔" دعا نے اسے چھیرا ۔
"نہیں یار لیکن اس کے گھر والے بہت اچھے ہیں ذیادہ امیر نہیں ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔" سمیعہ نی اسے بتایا۔
"کیوں نہیں پڑتا فرق بہت فرق پڑتا ہے۔ اس نے پڑھائی کہاں تک کی ہے۔" دعا بولی۔
"یار اس نے ایم۔اے کیا ہوا ہے۔" سمیعہ نے بتایا
"ایم اے اور تم نے ایم بی اے ۔" دعا اونچا بولی
"چھوڑو یار۔" سمیعہ تنگ آکر بولی۔
دعا چپ ہوگئی پھر بولی۔
"یار میں تمہارے بغیر کیا کروں گی۔" دعا نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔
دعا! نہیں کرو یار۔" سمیعہ نے کہا۔"تم نے مجھے کچھ بتانا تھا۔"
"ہاں سچی۔" دعا ابھی اسے بتانے ہی لگی تھی کے اس کی نظر آبگینہ پر پڑی جو اُسے دیکھ چکی تھی اور اس کی طرف آرہی تھی۔ "او ایم جی(omg) یار اب ملنا پڑے گا۔"
"کیا؟ کس سے؟ ویسے تمہارے تو کوئی رشتے دار نہیں ہے جن سے تم نہ ملنا چاہو۔ اور نہ ہی کوئی فرینڈ ایسا ہے جس سے تم نہ ملنا چاہو۔" سمیعہ نے حیرانگی سے کہا۔
"یار..." دعا ابھی بولنے ہی لگی تھی کے آبگینہ پاس آگئی۔
سمیعہ مہرون کلر کی شرٹ کے ساتھ جینز میں ملبوس لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔
"اسلام علیکم بھابی! کیسی ہیں آپ؟" آبگینہ نے دعا سے سلام کیا۔
سمیعہ کا حیرانگی سے منہ کھلا رہ گیا۔ "بھابی۔" وہ اپنے منہ میں بڑبڑائی۔
"وعلیکم سلام! میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہو۔" دعا بولی
"اللّٰہ کا شکر۔ یہ آپ کے ساتھ کون ہے؟" آبگینہ نے سمیعہ کی طرف اِشارہ کیا۔
"یہ میری بیسٹ فرینڈ سمیعہ اسحاق ہے۔" دعا نے تعارف کروایا۔
"اسلام علیکم سمیعہ۔" آبگینہ نے سمیعہ سے سلام لی اور ہاتھ ملایا۔
" وعلیکم سلام۔" الجھی ہوئی سمیعہ نے جواب دیا۔
"سمیعہ یہ.." دعا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے اسکا کیسے تعارف کروائے۔
"سمیعہ میں آبگینہ افتخار خان ہوں۔ دعا بھابی کے منگیتر مصطفیٰ سردار خان کی پھوپھو کی بیٹی۔" اس نے مسکرا کر اپنا پورا تعارف کروایا۔
اور سمیعہ کو لگی کرنٹ۔ "منگیتر؟" سمیعہ بے یقینی سے بولی
"اوہو ہونے والے منگیتر۔ ایک ہی بات ہے۔ اب دعا بھابی ہیں تو میرے بھائی کی ہی نا۔ کیوں بھابی۔" آبگینہ بولی
دعا بس تھوڑا سا مسکرائی۔ وہ جانتی تھی کہ سمیعہ آگ بگولا ہو رہی ہو گی۔
ویٹر ان کا کھانا دے گیا۔
"آؤ بیٹھو۔" دعا نے آبگینہ کو کہا۔
"نہیں بس جا رہی تھی میں۔ میری شاپنگ ہوگئی ہے اور میں نے لنچ بھی کر لیا۔ آپ لوگ شاپنگ کرنے آئی ہیں؟" آبگینہ بولی۔
" ہاں پرسو سمیعہ کا نکاح ہے تو تھوڑی شاپنگ کرنی تھی۔" دعا نے بتایا۔
"اوہ congratulations (مبارک ہو) سمیعہ۔" آبگینہ نے سمیعہ سے کہا۔
"شکریہ۔" سمیعہ نے کہا۔
"اچھا بھابی میں چلتی ہوں۔ مصطفیٰ بھائی جان اور آرز بھائی گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں۔" آبگینہ نے دعا کو کہا۔
"اوکے بائے۔" دعا نے کہا
آبگینہ چلی گئی
بقیہ آئندہ۔۔۔ انشاءاللہ

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now