مصطفیٰ، آرز کے ساتھ آگے بیٹھا ہوا تھا۔ جبکہ پھوپھو، آبگینہ اور مجتبیٰ پیچھے بیٹھے تھے۔ پڑاڈو گاڑی کے اردگرد ہر طرف کافی گاڑیاں تھی۔جب ان کی گاڑیاں ہال کے باہر پہنچی تو ہر طرف شور مچ گیا۔ سب نے بہت گرم جوشی سے استقبال کیا۔
دلہا جا کر سٹیج پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد خاندانی رسُمات کے متابق آبگینہ جو اس وقت ہرے رنگ کے پاؤں تک آتے گاؤن جس پر ہلکا پھلکا سا گولڈن رنگ کا کام کیا گیا تھا میں ملبوس تھی دعا کو برائڈل روم سے سٹیج تک لائی۔ جب دعا سٹیج کے پاس پہنچی تو مصطفیٰ اٹھ کر گئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کے سٹیج پر لائے۔
دعا مصطفیٰ کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد مصطفیٰ خان نے دعا کو ایک بہت خوبصورت ڈائمنڈ کی انگوٹھی پہنائی۔ جس پر نیلے رنگ کا بہت نفیس سا دل کی شکل کا ہیرا جڑا ہوا تھا اور اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے گلابی رنگ کے ہیرے تھے۔ دعا کے خوبصورت دودھ مائل مہندی لگے ہاتھ کی انگلی میں آکر اس انگوٹھی کی خوبصورتی بڑھ گئی تھی۔
نیلم بیگم نے ایک نہایت خوبصورت انگوٹھی دعا کو پکڑ آئی۔ وہ سلور رنگ کی انگوٹھی جس پر چھوٹے چھوٹے ہیرے لگے ہوئے تھے۔ دعا نے وہ مصطفیٰ کی انگلی میں پہنا دی۔
دعا شاید زندگی میں پہلی بار اتنا کنفیوز ہوئی تھی۔ شاید ہر لڑکی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ کنفیوز ہو ہی جاتی ہے چاہے کتنی بھی کانفیڈنٹ ہو۔ سب تالیاں بجا رہے تھے۔ دعا کے چہرے پر ایک کنفیوزڈ سی مسکراہٹ تھی۔
اب سب آرہے تھے اور مبارک باد دے رہے تھے۔ دعا خوش دلی سے سب سے مبارک باد لے رہی تھی۔ اسے کسی نے کہا کہ اب تو وہ کچھ ہی دیر کی مہمان جو سن کے دعا کی خوشی ایک دم سی مند پڑ گئی۔
"ہاں سچ اب وہ دن دور نہیں جب مجھے یہ گھر چھوڑ کر جانا پرے گا۔" دعا نے سوچا۔
"دعا بیٹا ادھر آؤ۔" کسی کی آواز سے اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹا۔ اسے پھوپھو راہیلا بلا رہی تھی۔
"ج جی آنٹی۔" دعا اچانک ہڑبڑا گئی۔
"پھوپھو ادھر بلا رہی ہیں آپکو۔" مصطفیٰ خان بولے۔
دعا پھر سے ہڑبڑا گئی اور فوری اپنی نم آنکھیں پونچھتے ہوئے آنٹی کے پاس چلی گئی۔
مصطفیٰ پیچھے سے مسکرا دیا۔
"جی آنٹی آپ نے بلایا ہے؟ " دعا نے آنٹی سے پوچھا جو ایک سائڈ میں کھڑی تھی۔
" ہاں دعا بیٹا یہاں آؤ اور اپنی ماما کو چپ کرواؤ۔" راہیلا بیگم نے نیلم بیگم کی طرف اشارا کیا جو ایک طرف بیٹھی رو رہی تھی۔
دعا جو پہلے سے اداس تھی اسے اپنی ماما کو دیکھ رونے لگ گئی۔ دعا نیلم بیگم کے گلے لگ گئی۔
"لو تمہیں میں نے چپ کروانے کے لیے بلایا تھا اور تم نے آکر اور رُلا دیا۔ " راہیلا بیگم نے مصنوئی خفگی سے بولا۔
"یہ کیا بھابی آپ رو رہی ہیں۔ سارا میک اپ خراب ہو جائے گا۔ جلدی سے چپ ہو جائے ورنہ میرے بھائی نے کہنا ہے کہ لے کر شہزادی کو گئے تھے واپس چڑیل کو لے کر آئے۔ " آبگینہ مذاق سے بولی۔
" پاگل چپ کرو۔ میری گڑیا ہے ہی اتنی پیاری۔ چڑیل کیوں لگے گی۔ چلو بیٹا آجاؤ۔ آئے آپ بھی نیلم۔" راہیلا بیگم بولی۔
وہ سب مصطفیٰ کی طرف چلے گئے۔
دعا اور مصطفیٰ کھڑے ہوگئے۔ کیک آیا۔
" چلے بھائی بھابی کاٹے کیک۔" مجتبیٰ بولا۔
دعا اور مصطفیٰ درمیان میں کھڑے تھے۔ جبکہ دعا کے ساتھ نیلم بیگم ، آبگینہ اور راہیلا بیگم کھڑی تھی۔ اور مصطفیٰ خان کے ساتھ مجتبیٰ ، آرز اور احمر صاحب کھڑے تھے۔
ان کے آگے ایک بہت خوبصورت ۳ سٹیپ والا کیک تھا۔ دعا اور مصطفیٰ نے مل کے کیک کاٹا۔ مصطفیٰ نے ایک چھوٹا سا پیس نکال کے دعا کو کھلایا۔ سب نے تالیاں بجائی۔ کیک کاٹنے کے بعد دعا اور مصطفیٰ واپس بیٹھ گئے۔ باقی سب بھی وہی بیٹھے تھے۔ سب لوگ آرہے تھے اور مبارک باد دے رہے تھے۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھی۔ سب ہنس رہے ہنسی مزاق چل رہا تھا۔ کیمرا مین زندگی کی ان حسین پلوں کو کیمرا میں قید کر رہا تھا۔ سب لوگ خوش تھے۔سمیعہ بھی ایک طرف کھڑی دعا کے اچھے نصیب کی دعا کر رہی تھی۔ لیکن کئی لوگ حسد بھی کر رہے تھے اور ایسے لوگوں کی بری نظر بھی لگ جاتی ہے۔ اب کیا ہوگا دعا کی زندگی میں ؟کیا وہ آج جیسے چہک رہی ہے ویسے ہی چہکتی اور خوش رہے گی؟ کیا اس کی خوشیوں کی دعا کرنے والوں کی دعا پوری ہو رہی ہے؟ یا اس کو کسی کی نظر لگ چکی ہے؟ کون جانے۔۔۔۔
بقیعہ آئندہ۔۔۔
Follow me on Instagram @aaawrites .
YOU ARE READING
لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل)
FantasyThat's my first story ... hope u like it .... and if u like so don't forget to vote and place your precious comments 😊😊