قسط ۱۵

729 42 15
                                    

تین ماہ بعد
" دعا!!!!" نیلم بیگم نے چونک کر کہا۔
" جی موم۔" دعا چہکی ہوئی ان سے گلے لگ گئی۔
"  تم نے تو کہا تھا کہ تمہاری فلائٹ کل کی ہوگی۔"
" ہاں جی آنٹی ہم نے کہا تھا لیکن ہماری آج کی تھی ہم نے آپکو سرپرائز دینا تھا۔" مصطفیٰ بولا۔
نیلم بیگم مسکرادی۔
دعا ولیمہ کے بعد ہنی مون پر چلی گئی تھی اور آبگینہ وغیرہ بھی واپس جا چکے تھے۔
آج دعا ہنی مون سے واپس آئی تھی۔ نیلم بیگم اپنی بیٹی کو دو ماہ بعد دیکھ کے انتہائی خوش تھی۔ جس بیٹی کو وہ اپنے آپ سے ایک پل نہ دور کرتیں تھی۔وہ گھر سے رخصت ہو کر گھر سونا کر گئی تھی۔ آج جب وہ اتنی دیر بعد گھر آئی تو نیلم بیگم بہت خوش تھی۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد مصطفیٰ چلا گیا۔ جبکہ دعا کچھ دن رہنے کے لیے رک گئی۔ شادی کے بعد یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہ رک رہی تھی۔ ولیمہ کی بعد ایک رات کے لیے وہ مصطفیٰ کے ساتھ آئی تھی۔ یہ تین ماہ میں نیلم بیگم اور احمر صاحب کو اپنی بیٹی کی بہت یاد آئی تھی۔
" دعا دعا۔" نیلم بیگم اس کے کمرے میں آئی۔
" جی۔" وہ بیڈ پر خاموشی سے بیٹھی تھی۔
" کیا ہوا میرا بچہ۔" نیلم بیگم پریشان سی ہوگئی۔
" بس اتنے دنوں بعد اپنے کمرے میں آئی ہوں نا اس لیے۔" دعا مسکرائی۔
" میرا بچہ تم خوش ہو نا؟ مصطفیٰ کیسا ہے؟ اس کا رویہ کیسا ہے؟ " نیلم بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔
—————
" ماشاءاللّٰہ یہ تو پوری کی پوری تم پر گئی ہے۔" چچی نے کہا۔
سمیعہ مسکرادی۔
کچھ دن پہلے سمیعہ کو اللّٰہ نے بیٹی عطا کی تھی۔ اب وہ اسے لے کر اپنی امی کی طرف آئی تھی۔
وہ ننھی پری سب کو بہت پسند تھی۔
" سمیعہ مجھے تو اسکا نام بہت پسند ہے۔
سمیعہ مسکراتے ہوئے ماضی میں چلی گئی۔
"دعا دعا دعا۔" سمیعہ چہکتے ہوئے بولی۔
" کیا ہوگیا ہے۔"
" یار دعا مجھے تمہارا نام بہت پسند ہے میں اپنی بیٹی کا نام بھی دعا رکھوں گی۔"
" پکا؟"
" ہاں ہاں۔ وعدہ۔ ویسے کتنا اچھا لگے گا نا جب میں کہوں گی دعا بیٹا دعا خالہ کے پاس چلیں۔"
دونوں کھلکھلا کے ہنسنے لگی۔
_______
اس کا تسلسل چچی کی آواز نے توڑا۔
" سمیعہ اس کو نیند آرہی ہے سلا لو۔"
چچی سے اپنی بچی کو گود اٹھا کر سینے سے لگا کر سلانے لگی۔ اور ایک بار پھر ماضی میں چلی گئی۔
" حور میری حور۔" سمیعہ بولی۔
" ہاہا یار حور کیا ہوتا ہے۔" دعا بولی
" بہتی حسین پری کی طرح۔"
"ہاہا نئے نئے ناموں سے نوازوں۔"
ایک کے بعد دوسری یاد آنکھوں کے سامنے لہرائ
" میں کیسی لگ رہی ہوں؟" دعا نے پوچھا۔
" بہت پیاری میری حور۔"
" سہی ہے مجھے تم تب ہی حور کہتی ہو جب میں اچھی لگ رہی ہوتی۔" دعا ہنستے ہوئے بولی۔
——-
اس کی گود میں لیٹی پری ہلی۔ سمیعہ چونکی۔ وہ سو چکی تھی۔ وہ انتہائی پیاری بچی تھی۔ اس کا رنگ بہت گورا تھا جبکہ عبداللّٰہ کی رنگت سانولی اور اس کی صاف تھی۔ سمیعہ اور عبداللّٰہ کی ناک زرا موٹی اور دبی ہوئی تھی۔ لیکن اس کی ناک چھوٹی سی اور کھڑی تھی۔ اس کے بال بھی پورے سیاہ تھے۔ اس کے سارے نین نقش سے سمیعہ کو دعا یاد آتی تھی۔ دعا سے اس کا چہرا کافی حد تک ملتا تھا۔
"دعا تم مجھے جب جب بہت اچھی لگتی تھی میں تمہیں حور بلاتی تھی۔ تم مجھے دعا کے روپ میں کچھ مرتبہ خود غرض لگی تھی لیکن میری حور نہیں لگی تھی۔ آج تم میرا ماضی بن گئی ہو۔ تو اللّٰہ نے مجھے بیٹی سے نوازا ہے۔ میری بہترین سہیلی۔ اسی لیے میں نے اس کا نام حور رکھا ہے۔ کیونکہ یہ میری پرانی حور کی طرح ہسین بھی ہے اور یہ اسکی تربیت بہت اچھی کرونگی۔" سمیعہ حور کو دیکھتے ہوئے خیالوں میں دعا سے مخاطب ہوئی۔ 
اتنے میں اس کا موبائل بجا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو عبداللّٰہ کالنگ لکھا آ رہا تھا۔
" اسلام علیکم۔" سمیعہ نے اٹھاتے ہی کہا۔
" وعلیکم سلام۔ کیسی ہو؟"
" میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔"
" ٹھیک میری پری کیسی ہے؟ کیا کر رہی ہے؟"
" وہ بھی ٹھیک ہے۔ ابھی سلایا ہے اسے تھوڑی دیر پہلے۔"
" سہی۔ میں اس سے اداس ہو گیا ہوں۔"
سمیعہ ہنس دی۔
" سمیعہ سر واپس آگئے ہیں۔ تو ابھی میٹنگ ہے ابھی ابھی میل آئی۔ میں بعد میں بات کرتا۔" اس نے کہہ کر الوداعی کلمات کے ساتھ فون بند کردیا۔
تو تم آگئی واپس۔ دعا دعا دعا۔ تم مٹ نہیں سکتی میری زندگی سے۔ سمیعہ اسے بھلا نہیں پارہی تھی جو اسے بھول چکی تھی جیسے وہ کبھی آئی ہی نہ ہو۔ پھر امی کے آواز دینے پر وہ باہر چلی گئی۔
_________
" جی ماما مصطفیٰ بہت اچھے ہیں بہت کیئر کرتے ہیں میری۔ میں بہت خوش ہوں۔" دعا نے بتایا۔
" میرا بچہ۔" نیلم بیگم نے اس کا ماتھا چوما۔ ماں بیٹی بیٹھے باتیں کرنے لگے۔ کافی دیر تک دعا انھیں اپنے ورلڈ ٹور کے قصے سناتی رہی۔
رات کو احمر صاحب بھی اپنی بیٹی کو اچانک آئے ہوئے اور خوش دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ دعا بھی اپنے ماما اور بابا کے ساتھ ٹائم گزار رہی تھی۔ پتا بھی نہیں لگا ایسے ہی ہنستے ہنستے ایک ہفتہ گزر گیا۔ اور مصطفیٰ اسے لینے آگیا۔
________
دعا کو ہنی مون سے گھر واپس آئے تقریباً ایک ماہ ہوگیا تھا۔
" کیا کروں میں۔" دعا گارڈن میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی کہ اچانک مجتبیٰ آگیا۔
" کیا ہوا ہے بھابی۔" وہ ابھی ابھی یونی ورسٹی سے واپس آیا تھا۔
" مجتبیٰ اچھا ہوا تم آگئے میں بہت زیادہ بور ہورہی تھی۔" دعا نے اسے دیکھ کر کہا۔
" اچھا آپ تیار ہوجائے میں بھی فریش ہو کر آتا ہوں پھر آئسکریم کھانے چلتے ہیں۔" مجتبیٰ نے کہا۔
وہ دونوں اندر چلے گئے۔
وہ دونوں آئسکریم پارلر میں بیٹھے تھے۔
" بھابی آپ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرلیں۔" مجتبیٰ نے کہا۔
" نہیں یار۔ ایم بی اے کرلیا بہت ہے۔" دعا بولی۔ اس کی اور مجتبیٰ کی بہت بنتی تھی۔ لیکن وہ یونی ورسٹی ہوتا تھا اور مصطفیٰ آفس۔
" تو آپ بزنس جوائن کرلیں نا۔"
" بزنس؟"
" ہاں نا۔ بھائی کے ساتھ۔ آپ نے اسی سے ریلیٹڈ سٹڈی کی ہے۔"
" ہمم سوچتی ہوں۔" دعا بولی۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں گھر آگئے۔
__________
رات کو دعا نے مصطفیٰ سے اس بارے میں بات کی۔
" مصطفیٰ۔" دعا اپنے ہاتھوں پر موئسچرائزر لگاتے ہوئے بولی۔
" ہمم۔" وہ لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوئے بولا۔
وہ اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی " میری بات سنیں نا۔"
" جی جی۔" اس نے لیپ ٹاپ بند کردیا۔
" میں سوچ رہی تھی کہ میں گھر پر سارا دن اکیلے بور ہوتی رہتی ہوں تو کیوں نا میں بھی بزنس جوائن کرلوں آپ کے ساتھ۔"
" واٹ آ گریٹ آئڈیہ۔ تم ضرور کرو۔ بلکہ کل سے ہی کرو۔"
" ہاں تو سہی ہے لیکن میں پرسوں سے جوائن کرونگی۔"
" اوکے۔"
ایسے ہی کچھ دیر باتوں کے بعد وہ لوگ سوگئے۔
——————-
"مام گیس واٹ" دعا نے چہکتے ہوئے نیلم بیگم کو دوں کیا۔
" واٹ؟"
" میں مصطفیٰ کے ساتھ آفس جوائن کر رہی ہوں کل سے۔"
" واہ۔"
" جی بور ہوجاتی تھی۔ اچھا میں نے شاپنگ پر جانا ہے آپ ریڈی رہیں میں آرہی ہوں آپ کو لینے ۔"
____________
آج دعا کا آفس میں پہلا دن تھا۔ وہ بزنس سمجھ رہی تھی مصطفیٰ سے۔  وہ چیزیں جلدی پک کر رہی تھی۔ مصطفیٰ نے اپنے آفس کے ساتھ والا آفس اسے دیا تھا۔
" اوہو۔ یہ تو رہ ہی گیا پوچھنا۔" دعا نے ایک فائل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اس نے فائل اٹھائی اور آفس سے نکل گئی۔ مصطفیٰ کے آفس سے کوئی نکل رہا تھا۔ دعا نے اس کی طرف دیکھا تو اسے اس کی شکل جانی پہچانی لگی۔ لیکن یہ یاد نہ آیا کہ وہ کون ہے۔ یاد کرتے ہوئے ہی وہ آفس میں چلی گئی۔
" مصطفی ابھی آپ کے آفس سے کون نکلا ہے؟" دعا نے پوچھا۔
" کون؟ عبداللّٰہ؟"
" ہاں مجھے لگتا ہے اسے میں نے کہیں دیکھا ہے۔"
" یار کہیں دیکھا ہوگا کسی ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتا تھا۔"
" ہمم۔"
" تم بتاؤ۔"
" ہاں مجھے یہ بتائیں۔" دعا بھی سر جھٹک کے مصطفیٰ کے ساتھ باتوں میں لگ گئی۔
____________
" مصطفیٰ۔" دعا نے رونی صورت بنا کر کہا۔
" جی جانِ مصطفیٰ۔" مصطفیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" مصطفیٰ یہ مجھ سے نہیں ہورہا۔"
" کیوں؟ ابھی تو بتایا تھا۔"
" یہ ہے  ہی اتنا مشکل۔"
" اوہو آؤ میں بتاؤ۔
" رہنے دیں مجھ سے نہیں ہونا ۔ یہ میرے بس کا کام نہیں۔"
"کیوں نہیں ہے۔ میری دعا بہت انٹیلیجنٹ ہے وہ سب کچھ کر سکتی ہے۔ آئی لو ہر۔ " مصطفیٰ نے مسکراتے ہوئے اسے کہا۔
" اچھا آپ سمجھائے میں ٹرائے کرتی ہوں۔ " مصطفیٰ اسے بہت انکریج کرتا تھا۔
" دیٹس لایک گڈ گرل۔"
پھر مصطفیٰ نے اسے سمجھایا۔ وہ چند منٹوں کا کام تھا۔ جو مصطفیٰ اپنا بہت ضروری کام چھوڑ کر اسے دوسری مرتبہ سمجھا رہا تھا ۔ وہ اتنے ٹائم میں ویسے کہ دس دفعہ کر لیتا۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ دعا خود کرے تاکہ اسے آئے آخر کو وہ انڈسٹری کے سب سے کم عمر اور سب سے کامیاب انسان مصطفیٰ سردار خان کی بیوی تھی۔ اس کی محبت تھی۔ جس کی وہ ہر بات مانتا تھا۔ وہ جورو کا غلام نہیں تھا ۔ اسے اپنی بیوی سے محبت تھی۔ وہ اپنی بیوی کی عزت کرتا تھا۔ جس نے آج تک لڑکیوں کو منہ نہیں لگایا تھا۔
جہاں سے وہ گزرتا تھا ہر لڑکی کیا لڑکوں کی بھی نظر اس سے نہیں ہٹتی تھی۔
___________
سمیعہ اپنے سسرال واپس آچکی تھی۔
" سمیعہ بابا کی بھی بیمار ہے۔ گھر کا گزارا بہت مشکل ہورہا ہے۔ تم بھی نوکری کرلو۔" عبداللّٰہ نے کہا۔
" لیکن میں کیسے؟ حور کا دھیان کون رکھے گا؟" سمیعہ بولی۔
" حور کا دھیان امی رکھ لیں گی۔ تم کل انٹرویو کے لیے میرے ہی آفس میں چلنا۔ سر کی بیوی نے بھی آفس آنا شروع کردیا ہے تو نیا سٹاف رکھا جارہا ہے۔"
" جی۔" وہ بولی۔
" کیا اب تم میری باس بھی بن جاؤ گی۔ میں تمہیں جتنا بھلانا چاہتی ہوں تم اتنا ہی میرے سامنے آ کر کھڑی ہوجاتی ہو۔ مجھے نوکری کا اتنا شوق تھا لیکن اب میں مجبوراً کر رہی ہوں۔"
————-
بقعیہ آئندہ۔۔۔۔۔۔۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now