قسط ۵

818 57 7
                                    


بارات کا استقبال کرنے کے لیے دعا باہر آئی۔ چچی نے اسے پھولوں کا تھال پکڑا کے سب سے آگے کھڑا کر دیا۔ بارات زیادہ بڑی نہیں تھی۔ تھوڑے ہی لوگ تھے۔ لیکن ان کے کپڑوں اور چال سے لگ رہا تھا کہ کسی بہت ہی نچلے طبقے سے ہیں۔ دعا اور باقی لڑکیوں نے پھولوں کی پتیوں سے استقبال کیا جبکہ بڑوں نے پھولوں کے ہار سے۔ دعا استقبال کے فوراً بعد ہی اندر آگئی۔ اسے سب بہت عجیب طرح دیکھ رہے تھے۔
"آگئی تم۔ یار میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔" سمیعہ نے کہا۔
"اوہو دل کو کنٹرول میں رکھو۔ وہ لوگ ابھی آئے ہیں۔ لے جاتے ہیں تمہیں۔" دعا نے چھیرا۔
"دعا۔" سمیعہ چلائی۔
"اچھا اب چپ۔" دعا نے کہا۔
دعا اور سمیعہ گلے لگ گئی۔
"میں تمہیں بہت یاد کروں گی۔" دعا بولی۔
"میں بھی۔" سمیعہ نے کہا۔
کچھ دیر بعد سمیعہ کے ابو، امی، چچا اور مولوی صاحب اندر آئے۔
"سمیعہ اسحاق ولد اسحاق چوہدری کیا آپ کو عبداللّٰہ عثمان ولد عثمان چوہدری سے نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب نے پوچھا۔
"جی" سمیعہ آہستہ آواز میں بولی۔
دو اور بار پوچھنے کے بعد سمیعہ کے آگے نکاح نامہ رکھ دیا۔
سمیعہ نے کانمپتے ہاتھوں سے سائن کیے۔
اور وہ نکاح پڑھا کے باہر چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد سمیعہ دعا کے گلے لگ گئی۔دعا نے اسے رونے نہیں دیا۔
" ویسے کیسا لگ رہا ہے سمیعہ عبداللّٰہ بن کے؟" دعا نے سمیعہ کا موڈ اچھا کرنا چاہا۔
"دعا" سمیعہ نے دعا کو گھورا اور پھر بولی " جیسا تمہیں دعا مصطفیٰ خان بن کے لگے گا۔" اور زبان نکال کے اسے چرایا۔
"سمیعہ۔" دعا چلائی۔
سمیعہ ہنسنے لگ گئی۔
کچھ دیر بعد دعا اور سمیعہ کی کزنز اسے باہر لے گئی۔
دلہے نے سفید رنگ کی شلوار قمیض پر لائٹ سکن کلر کی ویسٹ کورٹ پہن رکھی تھی۔ سمیعہ کو آتا دیکھ کر دلہے کے ساتھ بیٹھی اس کی بہن اٹھ کے سائڈ میں بیٹھ گئی۔ دلہا اٹھ کر سٹیج سے نیچے آیا اور سمیعہ کا ہاتھ پکڑ کے اوپر لے گیا۔ جب سمیعہ بیٹھی تو ڈرس سیٹ نہیں ہو رہا تھا۔ چچی کے کہنے پر دعا سٹیج پر گئی اور اسے بیٹھا کر آئی۔ وہ نیچے آکر ایک سائڈ پر کھڑی ہوگئی۔
لیکن اسے اپنے پر بہت سے لوگوں کی نظریں محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے دیکھا تو سب لوگ اسی کی ہی طرف دیکھ رہے تھے۔ دعا ہڑبڑاہ گئی۔
وہ اپنی ماما کے پاس چلی گئی۔
کچھ دیر بعد سمیعہ کی کزنز اسے دودھ پلائی کے لیے لے گئی۔
سمیعہ کے کزن نے کیمرا پکڑا ہوا تھا۔
" ادھر دیکھے سارے" اس نے ان کی ڈھیر ساری تصویریں کھینچی۔ چچی ادھر بھی آگئی اور دعا کے ہاتھ میں گلاس پکڑا کر درمیان میں کھرا کر دیا۔
کافی بحث کے بعد انھیں گیارہ ہزار ملا۔
پھرلرکیوں نے جوتا چھپا لیا۔ اور پھر پانچ ہزار اور ملا۔
دعا نے سمیعہ کے ساتھ کافی تصویریں بنائی۔ اور پتا نہیں سمیعہ کا کزن شازب ایک رات میں کہا سے فوٹوگرافی کا کارس کر آیا تھا۔ سارے پوز اسے پتا تھے۔ کھیر اس نے بہت تصویریں لی۔
کچھ اور رسموں کے بعد لڑکے والے رخصتی کا کہنے لگ گئے۔
دعا کو بہت رونا آرہا تھا۔ وہ سمیعہ سے ملی اور اندر چلی گئی اور بہت روئی۔
چچی نے اسے گلے لگا کے چپ کروانا چاہا۔لیکن وہ بہت روئی۔
سمیعہ سب سے ملی۔
"ماما دعا کہاں ہے؟" سمیعہ نے گاڑی میں بیٹھتے وقت پوچھا۔
"پتا نہیں بیٹا۔" ماما نے کہا۔
اور سمیعہ چلی گئی۔اپنے گھر۔ اپنے سسرال۔ ایک نئی ذندگی شروع کرنے۔ ذندگی کا ایک نیا باب شروع کرنے۔ ذندگی کے ہر باب میں خوشیاں بھی ہوتی اور غم بھی۔ لیکن فرق صرف اتنا ہوتا ہے کسی باب میں خوشیاں ذیادہ اور کچھ میں غم۔ اب کون جانے کہ سمیعہ کے لیے ڈھیر ساری خوشیاں انتظار کر رہی یا غم۔ خدا جانے۔ یہ نئی ذندگی خوشیوں سے بھرپور ہے یا غموں سے۔۔۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now