قسط ۱۸

624 49 15
                                    

دعا آج کل بہت خوش رہنے لگی تھی۔ سمیعہ اور عبداللہ سے پہلے کی ساری تلخیاں بھولا کر دوستی کی دوبارہ ایک نئی شروعات ہو چکی تھی۔  اس عرصے میں وہ ان سے دو سے تین مرتبہ ملے تھے۔ اب دعا اور مصطفیٰ واپس آ چکے تھے۔ دعا کا سمیعہ سے فون پر رابطہ تھا۔
——
" دعا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ مجھے لگ رہا ہے کہ یہ ڈیل نہیں سائن کرنی چاہیے۔ نجانے کیوں میرا دل گھبرا رہا ہے۔ میرا دل نہیں مان رہا۔" کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر لگاتے مصطفیٰ نے دعا سے اپنے دل کی بات ڈسکس کی۔

" مصطفیٰ!!! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں ہم یہ ایزیلی کر سکتے ہیں۔ اور اس سے ہمیں اتنا فائدہ ہوگا۔ مصطفیٰ پوری دنیا میں ہمارا نام ہوگا اور ہمیں کیا چاہیے۔ سب کا ڈریم (خواب) ہوتا ہے اس مقام تک پہنچنا۔" دعا تو حیران تھی اس کی بات سُن کر مصطفیٰ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اتنی بڑی ڈیل سائن کر کے اس وقت ہواؤں میں اُڑ رہا ہوتا۔
" لیکن۔۔۔" مصطفیٰ نے پھر کوئی عزر پیش کرنا چاہا مگر دعا نے وہیں روک دیا۔
لیکن کیا مصطفیٰ؟۔۔۔ بس ۷-۸ ماہ کی ہی تو بات ہے۔ " اُس کی خوشی دیکھ کر مصطفیٰ خاموش سا ہو گیا۔ مگر دل میں اُس کے ابھی بھی عجیب سے وسوسے گڈ مڈ کر رہے تھے۔
" ہممم چلو پھر جیسی میری دعا کی مرضی۔" اس کے انداز پہ دعا خوش سی ہو گئی۔۔۔
————-
مصطفیٰ کا دل نہیں مان رہا تھا مگر دعا کے فورس کرنے اور اُس کی خوشی کے لئے اس نے ڈیل سائن کردی تھی۔۔ اس ڈیل سے انھیں اربوں کا فائدہ ہونے کا امکان تھا۔
مصطفیٰ نے ڈیل سائن کر دی تھی۔ دو گھنٹے میں اس کی فلائٹ تھی اور وہ جا رہا تھا۔ بہت دور۔۔۔ اپنے گھر سے اور اپنی دعا سے۔۔۔ بہت دور۔۔۔
"دعا اپنا بہت بہت خیال رکھنا، کھانا وقت پہ کھانا، آفس کے کاموں میں اپنے آپ کو تھکانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔" اپنی پیکنک کو ایک آخری نظر دیکھتے وہ بولا۔ اور پھر دعا کا ہاتھ پکڑ کے اُسے اپنے پاس بیڈ پہ بٹھایا۔
"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا دعا۔" وہ اُس کے ایسے ہی ہاتھ تھامے بولا۔ "میں تم سے ہمیشہ سے بہت محبت کرتا ہوں دعا۔ تم میری زندگی میں میری دعاؤں کی قبولیت کے روپ میں آئی ہو۔۔ اس بات کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھنا میں تم سے محبت کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ میں تم سے کتنا بھی دور کیوں نا ہو جاؤں تمہاری محبت اور یاد ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ میرے لئے، میری خوشی کے لئے اپنا، اپنی صحت اور کھانے پينے کا ہر چیز کا بہت خیال رکھنا۔۔۔" وہ جذبات سے چور لہجے میں بولا۔ اس کا دعا کو اکیلا چھوڑ کر اتنی دور جانے کا بالکل دل نہیں تھا۔ مگر جانا مجبوری تھی وہ ڈیل سائن کر چکا تھا۔
"میں بھی بہت یاد کروں گی مصطفیٰ آپ کو۔ آپ بھی اپنا بہت خیال رکھئے گا۔"
پھر ایسے ہی چند اور باتوں کے بعد وہ ائیر پورٹ کے لئے نکل گئے۔
دعا مصطفیٰ سے مل رہی تھی۔ وہ دونوں  ایئر پورٹ پر کھڑے تھے۔ مصطفیٰ نے دعا سے کہا
" دعا میں نے جو تم سے کہا اُسے کبھی مت بھولنا۔ اور ہاں میری جان صبر کا دامن ہمیشہ تھامے رکھنا میں جانتا ہوں تم تھوڑی جزباتی ہو۔ تم غصہ بہت جلدی کر جاتی ہو اور پھر کچھ بھی کرنے سے پہلے اس کا انجام بالکل نہیں سوچتی بعد میں پھر پچھتاتی بھی ہو۔۔۔۔" وہ اُسے سمجھاتے سمجھاتے ہنسا۔۔۔
پھر ایک دم سنجیدہ ہوتے اُس کی جانب دیکھا۔
"آئی لو یو اینڈ آئی ول مس یو۔۔۔"  اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ رُکا نہیں، چلا گیا۔ وہ جانتا تھا اگر وہ رُک جاتا تو کبھی نہ جاتا پاتا۔۔۔
وہ چلا گیا تھا۔ مگر دعا ابھی تک اُسی کے سحر میں تھی۔ اُس کے جانے کے بعد ایک آنسو اُس کی آنکھ سے ٹپکا تھا مگر وہ جان نہ سکی۔ واپسی کے سارے راستے وہ مصطفیٰ کی کہی گئی باتوں کو سوچتی رہی۔ اُسے سمجھ نہیں آیا تھا مصطفیٰ ایسا کیوں کہہ کے گیا ہے۔ لیکن اب وہ جا چکا تھا اس نے سر جھٹکا اور کھڑکی سے باہر نظر آتی صاف ستھری سڑکوں کو دیکھنے لگی۔
——-
سات ماہ بعد
مصطفیٰ کو گئے سات ماہ ہوچکے تھے۔ دعا اس کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ پچھلے سات ماہ سے وہ دونوں رات کو بلا ناغہ ویڈیو کال پر بات کرتے تھے۔ پھوپھو اور آبگینہ بھی واپس آ چکی تھی۔ آبگینہ اور مجتبیٰ کی بھی شادی جلد ہی متوقع تھی۔
کل اللہ نے دعا اور مصطفیٰ کو بیٹے سے نوازا تھا۔ ہر نین نقوش مصطفیٰ پر تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ چھوٹا مصطفیٰ ہی ہو۔ سب ہی بہت خوش تھے لیکن دعا اور مصطفیٰ کی خوشی آسمان کو چھو رہی تھی۔ جب مصطفیٰ کو پتا چلا وہ انتہائی خوش تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کے لیے خریداری بھی شروع کر دی تھی۔ اس کے آنے میں ابھی کچھ دن باقی تھے اس لیے اس نے کافی سامان بجھوا دیا تھا۔ اتنا سامان آچکا تھا۔ مصطفیٰ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ بھی سامان کے ساتھ ہی اُڑ کر آجائے۔ سارے گھر میں خوشیاں تھتی۔ احمر صاحب اور نیلم بیگم بھی بہت خوش تھے۔ آبگینہ اور مجتبیٰ نے مل کر ایک کمرے کو پورا نیلے رنگ کا کروایا اور دیواروں پر کارٹون بنوائے۔ پورا کمرہ مصطفیٰ کے بھیجے گئے کھلونوں سے اور کچھ آبگینہ کے باہر سے لائے گئے کھلونے اور کپڑوں سے بھر چکا تھا۔ مگر پھر بھی وہ لوگ بس نہیں کر رہے تھے۔ نیلم بیگم بھی بہت کچھ لارہی تھی۔ آج دعا ہسپتال سے گھر آرہی تھی۔ ان دونوں نے مل کر بےبی کے کمرے کو پورا غباروں سے سجایا۔ بڑا سا کیک بنوایا جس پر چھوٹا بیبی ، بیبی کاٹ اور بےبی کے شوز بنے ہوئے تھے۔ دعا جب گھر آئی تو پارٹی پاپرز سے ویلکم کیا۔ مصطفیٰ بھی ویڈیو کال پر تھا۔ انھوں نے کیک کاٹا۔ سب بہت خوش تھے۔ دعا کو ہر لمحے مصطفیٰ کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ لیکن سوچ کے اپنے آپ کو مطمئن کر رہی تھی کہ مصطفیٰ آجائگا تو وہ تینوں سکون سے رہینگے۔ وہ اپنے بیٹے کو بہترین مستقبل دینگے۔ دنیا گھومیں گے۔ لیکن کیا پتا کیا ہونے والا تھا۔
سمیعہ بھی اپنی امی کی طرف آئی ہوئی تھی۔ جب اسے پتا چلا کے دعا کا بیٹا ہوا ہے وہ بہت خوش تھی۔ اس نے دعا کو مبارکباد دی۔ اور آنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

چند دن بعد
دعا اور مصطفیٰ کی اینیورسری آنے والی تھی۔ دعا بہت اداس تھی کیونکہ ابھی تک مصطفیٰ نہیں آیا تھا۔ مصطفیٰ نے اپنے بیٹے کا نام دائم رکھا تھا۔ مصطفیٰ اپنی اینیورسری کی رات واپس آنے والا تھا۔ لیکن یہ بات دعا کو نہیں پتا تھی۔ آبگینہ اور مجتبیٰ نے مل کر ایک شاندار سرپرائز پارٹی رکھی تھی اس رات۔ انھوں نے بہت اچھا انتظام کروایا تھا اور بہت لوگوں کو بلایا تھا۔ مصطفیٰ نے وہاں سے دعا کے اور دائم کے لیے کپڑے بھیجے تھے۔ دعا کا لمبا سا پیروں تک آتا خوبصورت ترین پھولا ہوا فراک تھا۔ جس کے ساتھ ہیل والی جوتی تھی۔ سفید ہی چوریاں اور سیٹ تھا۔ اور دائم کے لیے بھی اپنے جیسا چھوٹا سا سفید پینٹ کوٹ۔ ساتھ چھوٹے چھوٹے کپڑے کے شوز اور ٹوپی۔
آج سمیعہ نے دعا کو فون کیا کہ وہ اس کی طرف آرہی ہے۔ لیکن فون دعا نے نہیں اٹھایا۔
"ہیلو۔"
"السلام علیکم! مجھے دعا سے بات کرنی ہے"
"وعلیکم سلام! آپ کون؟"
"میں سمیعہ، دعا کی دوست۔"
" اور کیسی ہیں آپ سمیعہ؟ میں آبگینہ!! We are talking after a long time. ( ہم ایک لمبے عرصے بعد بات کر رہے)"
"الحمداللہ آپ سنائیں؟ ہاں جی بس۔۔۔"
"میں بھی ٹھیک۔ بھابی تو دائم کو سلا رہی۔"
"اوہ چلے میں بعد میں کرلونگی مجھے بتانا تھا کہ کل میں آؤنگی۔"
"ارے آپ کل رات کو ضرور آنا، بھائی واپس آرہے ہیں تو ہم نے ایک پارٹی رکھی ہے۔ ویسے بھابی  کے لئے سرپرائز ہے۔ کل ہم نے دعا بھابی کو اس کی امی کی طرف بھیجنا اور گھر پر ہی انتظام کریں گے"
"چلیں میں آؤنگی۔ وہیں ملاقات ہوگی۔ "
"اوکے" اور فون بند ہوگیا۔
آخر وہ دن آ ہی گیا۔
دعا آج بہت اداس تھی اور راہیلا بیگم کے کہنے پر نا چاہتے ہوئے بھی وہ نیلم بیگم کی طرف آگئی۔ نیلم بیگم نے بتایا کہ آج کہیں جانا ہے تو اسے بھی جانا ہے دعا نے بہت منع کیا مگر نیلم بیگم نے اس کی ایک نا سنی۔ اور اسے وہی سوٹ لا کر دیا اور کہا کہ یہی سب پہننا ہے۔ دعا حیران تھی اتنا بھاری سوٹ۔ خیر رات کو جانا تھا اور ابھی بہت وقت تھا وہ دائم کے ساتھ لگی تھی۔
آبگینہ اور مجتبیٰ نے بھی تیاری تقریباً مکمل کرلی تھی۔ بہت خوبصورتی سے گھر کے لان کو سجایا تھا۔ ہر طرف پھول اور لائیٹیں لگائی گئی تھی۔ ایک طرف بڑا بڑا ویلکم دائم اور ساتھ ہیپی ففتھ اینیورسری لکھا تھا اور دعا مصطفیٰ اور دائم کی ڈھیر ساری تصویریں لگی تھی۔
دعا تیار ہو چکی تھی۔ اور دائم کو بھی تیار کر چکی تھی۔ دائم نیلم بیگم کے پاس تھا۔ دعا کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ جیسے کچھ برا ہونا کا احساس۔ اس نے سر جھٹک دیا۔
سمیعہ تیار تھی۔ اس نے ایک دفعہ فون کر کے وقت کا پوچھ لینا مناسب سمجھا کیونکہ یہ نا ہو وہ چلی جائے اور کوئی اور نا آیا ہو لیکن ساڑھے نو ہو چکے تھے۔ اس نے گھر کے نمبر پر فون ملایا ایک دفعہ کسی نے نہیں اٹھایا دوسری دفعہ بھی کسی نے نہیں۔ اتنے میں چچی اس کے پاس آگئی۔
"کیا ہوا ہے؟"
"میں نے سوچا فون کر کے پوچھ لوں، لیکن کوئی اٹھا نہیں رہا۔"
"ہاں تو فنکشن شروع ہوگیا ہوگا۔ وہ لوگ مصروف ہونگے۔"
"ہاں بس آخری بار کوشش کرتی ورنہ نکلتی۔"
اس دفعہ فون اٹھایا گیا۔
"السلام علیم! آبگینہ ہے؟ میں سمیعہ بات کر رہی ہوں۔"
"کیا ہوا ہے آبگینہ سب کچھ ٹھیک ہے نا۔"
آگے سے جواب سن کر سمیعہ کے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا۔
"کیا ہوا ہے سمیعہ؟ سب ٹھیک ہے نا؟" چچی نے پوچھا۔
لیکن سمیعہ بالکل سُن تھی۔ چچی نے اسے جھنجھوڑا۔ سمیعہ کی آنکھ سے آنسو گرا۔
"چچی وہ۔۔۔۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
Aslam o Alaikum everyone
Hopefully you all are doing well.
So here's the episode of Ladoon me pali
I hope you liked it.
Don't forget to vote and comment
Follow me on Instagram @aaawrites @my_world_of_novels
Allah Hafiz.

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now