پچھلے دو سالوں میں کیا کچھ نہیں ہوگیا تھا۔ دعا مصطفیٰ اور احمر صاحب کی موت کے بعد بہت گہرے صدمے میں چلی گئی تھی۔ اس سب سے نکلنے میں آبگینہ اور مجتبیٰ نے اس کی سب سے زیادہ مدد کی تھی، اور سمیعہ نے بھی۔ اب اس نے دوبارہ جینا سیکھ لیا تھا، دائم کے لیے۔
مصطفیٰ کی وفات کے بعد لوگوں نے کہا کہ دوسری شادی کرلو مگر دعا نے نہیں سنا اور اپنی زندگی دائم کے لیے وقف کر دی، اس کا کہنا تھا مصطفیٰ کی یادیں اور دائم اس کے لیے کافی ہیں۔ اب آ کر وہ تھوڑی بہتر ہوئی تھی، زندگی کی طرف آنے میں اس نے قدم بڑھایا تھا، مصطفیٰ کی وفات کے ۳ ماہ بعد آبگینہ اور مجتبیٰ کی خاموشی سے شادی کر دی گئی تھی۔ دعا کی شادی کی طرح کوئی ہنگامہ نا ہوا تھا نہ کوئی ہنسی مزاق، جب آپ کے چاہنے والے چلے جاتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور یہاں تو دعا کے دو پیارے رخصت ہوئے تھے صرف دعا کے ہی نہیں بلکہ سب کے۔
اس سب میں آبگینہ نے ہمت بنا کر دعا کو ہمت دی، دائم کو آبگینہ اور مجتبیٰ نے بہت زیادہ پیار دیا اتنا پیار کے اسے کبھی اپنے باپ کی کمی محسوس نا ہو۔
سمیعہ دعا کو درس پر لے جانے لگی۔ دعا وہاں جا کر ایک کونے میں بیٹھ کر خاموشی سے درس سنتی تھی۔ اس سب سے دعا میں بہت بدلاؤ آۓ تھے اس میں صبر آگیا تھا وہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے لگی تھی۔ اب وہ اپنے آپ کو ڈھانپنے لگی تھی اور اس کو جو غرور تھا کہ پیسا سب کچھ ہے وہ ٹوٹ گیا تھا وہ جان گئی تھی کہ اللہ جسے چاہے خوشیاں دیں اور جسے چاہے غم اس سب میں پیسے کچھ نہیں ہوتا۔ بے شک اللہ جسے چاہے اسے سیدھے راستے پر لے آتا ہے۔ آج وہ آفس مجتبیٰ، آبگینہ اور دعا مل کر چلا رہے تھے، لیکن ان سب کے علاوہ دعا اپنے بابا کا بزنس بھی چلا رہی تھی۔ اس میں وہ مجتبیٰ سے مدد لیتی اور وہ دیتا بھی، دعا نے اپنے بابا کے بزنس کی تمام کمائی سے ایک این جی او تعمیر کروایا تھا جہاں ہر غریب انسان کی مدد کی جاتی تھی۔ وہ این جی او بہت بہت پھیل چکا تھا۔ دعا نے این جی او کا نام "ہیلپ فار ایوری ون" رکھا تھا۔
نیلم بیگم کا دماغی توازن برقرار نہیں رہا تھا۔ وہ اپنے ہی گھر میں مقیم تھی جہاں روزانہ صبح دائم کو لے کر کچھ دیر ہو آتی، اور پھر آفس چلی جاتی، آج بھی دعا کی عزت اور رتبہ آفس میں وہی تھا جو مصطفیٰ کی حیاتی میں تھا۔ مجتبیٰ نے اسے بہت سپورٹ کیا تھا۔ وہ دائم کو اپنے ساتھ آفس کے کر آتی وہ اتنا شرارتی تھا کہ ایک جگہ بیٹھتا ہی نا تھا، بہت زیادہ وقت وہ مجتبیٰ کے پاس ہوتا، دعا تو اسے پورے آفس میں ڈھونڈ رہی ہوتی، کبھی وہ اسے مجتبیٰ پاس ملتا کبھی آبگینہ پاس اور کبھی آفس کے کسی اور ورکر کے پاس۔ آفس کے تمام ورکرز کا لاڈلا تھا ایک تو وہ بہت پیارہ تھا دوسرا وہ مصطفیٰ کا بیٹا تھا، مصطفیٰ تمام ورکرز کے دل میں جگہ بنا چکا تھا اپنی نرم دلی اور کھلے دل کی طبیعت کی وجہ سے۔ کہتے ہیں نا کہ جب آپ کے پاس کچھ ہو تو اس کی قدر کریں، سمیعہ نے رشتوں کو پیسوں سے افضل مانا تو آج اس کے پاس سب رشتے بھی ہیں اور وہ اپنے گھر خوش بھی ہے، دعا نے پیسوں کو رشتوں پر غالب سمجھا آج اس کے پاس پیسا ہی پیسا ہے مگر اپنے چلے گئے۔ اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ آج دعا کا بیٹا باپ کی محبت سے محروم تھا شاید اللہ کو دعا کا سمیعہ کی بیٹی کی بیماری کے وقت پیسے دے کر یہ جتانا برا لگ گیا تھا کہ وہ اس کی بیٹی کی جان بچا رہی ہے اپنے پیسے سے اور ان ہی پیسوں سے وہ اپنے شوہر اور اپنے بابا کی زندگی نہیں بچا سکی، سمیعہ کو یہ کہنا کہ اس کے پاس اور کوئی خوشی نہیں آج اس کی بھی کل کائنات اس کا بیٹا تھا، نصیب اپنا اپنا ہوتا ہے، سمیعہ کی بیٹی اس گھر میں پیدا ہوئی جہاں بمشکل دو وقت کی روٹی میسر تھی، اور دعا کا بیٹا ارب پتی پیدا ہوا مگر ایک بار بھی اپنے باپ کا پیار نا لے سکا پیسا نصیب نہیں خرید سکتا۔دعا نے اپنی زندگی کو قبول کرلیا تھا۔ مصطفیٰ اور احمر صاحب کی موت کو اللہ کی رضا مان لیا تھا۔ آج وہی دعا جو آستینوں کے بغیر والی چھوٹی کمیضیں اور تنگ پاجامے پہنتی تھی، جو کبھی ڈوپٹا کا تصور بھی نہیں کرتی تھی، آج جب وہ باہر نکلتی تو برکے اور حجاب میں نکلتی، وہ دعا جو ٹائم پاس کرنے کے لیے پیسے لٹایا کرتی تھی، وہی دعا آج وقت نکال کر درس پر جاتی تھی، وہ دعا جس کو نماز کا پتا تک نہیں تھا، آج پانچ وقت کی نمازی تھی۔ بیشک اللہ جسے چاہے جیسے چاہے ہدایت دے۔
ختم شد...!!
ŞİMDİ OKUDUĞUN
لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل)
FantastikThat's my first story ... hope u like it .... and if u like so don't forget to vote and place your precious comments 😊😊