دعا کی کل مہندی تھی۔ آج ایک دن کا بریک تھا۔ آج دعا کے سامان کی پیکنگ کمپلیٹ ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے کمرے کو ویسا ہی رہنے دیا تھا۔ کیونکہ سب کچھ تو اس نے نیا لیا تھا۔ فرنیچر اور میشینری اس کے سسرال پہنچ چکی تھی۔
دعا کی آنکھ جلدی کھل گئی۔ فریش ہو کر وہ نیچے آگئی۔ نیچے آئی تو نیلم بیگم سامان پیک کروانے کے لیے سب کچھ نکال رہی تھی۔ ایک طرف اس کے سسرال سے آیا ہوا سامان پڑا ہوا تھا جو ایک ملازمہ احتیاط سے بیگز میں ڈال رہی تھی۔
ایک طرف دعا کے کپڑوں کا ڈھیر تھا ۔ کم از کم ۱۰۰-۱۵۰ سوٹ تو ہونگے ہی۔ دوسری طرف دعا کی جیولری کا ڈھیر لگا تھا۔ ایک طرف جوتوں کا اور ایسے ہی سب کچھ الگ الگ پڑا تھا۔ ملازمہ سب سامان کو الگ الگ پیک کر رہی تھی۔ اور اوپر چٹس لگا رہی تھی۔ دعا کے دل میں ذرا خوشی نہیں ہوئی دیکھ کر۔ کیونکہ اسے رونا آرہا تھا وہ گھر چھوڑ کر جارہی ہے۔
" دعا بیٹا اٹھ گئی۔ ناشتہ کر کے اپنے کمرے میں چیک کر آؤ مصطفیٰ لوگوں کی طرف سے کوئی سامان تو نہیں رہ گیا۔ " نیلم بیگم بولی۔
" اوکے۔" دعا بولی اور ڈائننگ کی طرف چلی گئی۔
پورا دن بجھا بجھا گزرا۔ بہت اداس تھی وہ۔ پورے گھر کے ہر کونے میں اس کی یاد تھی اور وہ انہی یادوں میں کھوئی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کا دن آچکا تھا۔ دعا برائڈل روم میں تیار ہوئی بیٹھی تھی۔ مصطفی لوگٰ پہنچنے والے تھے۔ مصطفیٰ ٹرک پر بیٹھ کر آیا تھا۔ ان کی انٹری بھی ناچتے ہوئے ہی ہوئی تھی۔ مصطفیٰ اس کے دوست، آبگینہ ، نیلم بیگم اور بھی کئی لڑکیاں تھی جو مہندی کے تھال پکڑے ناچتے ہوئے آرہی تھی۔ دولہا کو سٹیج پر بیٹھا نے کے بعد دعا آئی۔
دعا بگھی میں بیٹھ کے آئی۔ اس کے ساتھ کئی لڑکیاں تھی مہندی کے تھال لیے۔ اندر آکر ایک طرف تھال رکھ کر دعا کو نکالا۔ دعا کو ڈانس فلور میں درمیان میں کھرا کر کے خوب ڈانس کیا۔ دعا نے بھی کیا۔ مصطفیٰ نے نیچے آکر دعا کو اوپر لے گیا۔ پھر سب نے ڈانس شروع کیا۔ بہت ہی اچھے سے کافی سارے گانوں پر ڈانس ہوا۔ پھر دعا اور مصطفیٰ نے بھی ڈانس کیا۔
دعا نے آج پیلے رنگ کے شرارے کے ساتھ ہرے رنگ کی کام دار چھوٹی سی کمیز پہنی تھی اور ساتھ گلابی رنگ کا ڈوپٹہ۔ ڈوپٹے کے چاروں طرف بہت بھاری بارڈر تھے اور درمیان میں ذرا ذرا وقفے کے ساتھ بڑے بڑے پھول۔ کمیز پر بھی کافی بھاری کام تھا اور شرارے پر بھی۔ اس نے بالوں کی بڑی خوبصورت چٹیا بنوا کر پراندا لگوایا ہوا تھا۔ اور ایک طرف بھاری سا جھومر اور کانوں میں خوبصورت بڑی بڑی جھمکیا۔ گلا کسی بھی زیور سے پاک تھا۔ چہرا پر بہت نفاست سے کیا گیا ہلکا سا میک اپ۔ اور ہاتھوں میں گجرے۔ وہ پوری روایتی مہندی کی دلہن لگ رہی تھی۔
مصطفی نے نیلے رنگ کی کمیز کے ساتھ سفید شلوار پہن رکھی تھی۔ اس کے اوپر اس نے نیلے ہی رنگ کی کامدار ویسٹ کوٹ پہن رکھی تھی۔ کندھے پر جامنی رنگ کی شال لی ہوئی تھی جس کا نیلے رنگ کا بارڈر تھا۔
آبگینہ نے بھی بہت اچھا ڈانس کیا تھا۔
اس کے بعد مہندی کی رسم ہوئی۔ سب نے آکر دونوں کو مہندی لگائی۔ اور پھر کھانا لگ گیا۔
سب بہت انجوائے کر رہے تھے۔ وہ لڑکیاں جو ناچ رہی تھی۔ وہ بھی بہت انجوائے کر رہی تھی۔ اور آخرت میں اپنے لیے دوزخ بنا رہی تھی۔ غیر مردوں کے آگے وہ رقص کر رہی تھی۔ طوائف میں اور ان میں کیا فرق تھا اس وقت طوائف کوٹھے پر مرد کے سامنے ناچتی ہے اور وہ لوگ ان ۳۰۰۰ لوگوں کے آگے جو شادی میں موجود تھے۔ کیمرا مین ویڈیو بھی بنا رہے تھے۔ اور وہ لوگ بھی بنوارہی تھیں۔ اگر آپ شادی پر ناچنا چاہتے ہیں تو مردوں کے بغیر صرف عورتوں کے ساتھ ناچو۔ اور ویڈیو نا بناؤ۔ لیکن آج کل ہر کوئی بے حیائی کر کے خوش ہوتا ہے کہ وہ ماڈرن ہے زمانے کے ساتھ جی رہا ہے۔ لیکن وہ سب جیسا ہی ہے اس میں کوئی یونیک نس نہیں ہے۔ اگر تم حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے زمانے کے ساتھ چلو گی تو تم یونیک بنو گی۔ پرانے خیالات والی نہیں۔ اپنی سوچ بدلو۔
خیر مہندی کا فنکشن بھی بہت اچھے سے گزر گیا۔
اب کل کا دن دعا کی زندگی کا ایک بہت اہم دن تھا۔اگلے دن دعا کی بارات تھی۔ چونکہ رات کا فنکشن ۳ بجے ختم ہوا تھا تو دعا کی جب آنکھ کھلی تو دن کے ۱۲:۳۰ بج رہے تھے۔ دعا اٹھ کر بیڈ ہر بیٹھ گئی۔ اور اپنے کمرے کو دیکھنے لگی۔ آج اس کا آخری دن تھا اپنے کمرے میں۔ شادی کے بعد بھی آئے گی وہ لیکن تب وہ کچھ دن کے لیے آیا کریگی۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسوں نکل آئے۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آگئی۔ اس کا سب کچھ ایسا ہی تھا بس اس نے سمیٹا تھا سب کچھ اور الماریوں میں سے ویسٹ نکالا تھا اود سارا گولڈ پالش کروا لیا تھا اور جہیز میں ملا لیا تھا۔ اس نے ڈریسنگ کا دراز کھولا۔ اس میں اس کی لپ سٹکس پڑی ہوئی تھیں ۔ اس کی نظر ایک لپ سٹک پر پری اس نے اسے اٹھا لیا اور ماضی میں پہنچ گئی۔
" واؤؤؤؤووو۔۔۔۔۔۔۔" دعا چلائی۔
" کیا ہوا ہے دعا۔ ٹھیک ہو نا۔" سمیعہ دل پر ہاتھ رکھ کے بولی۔
" سمیعہ میری فیورٹ لپ سٹیک ختم ہوگئی ہے ۲ ویکس سے۔ میں ۳ بار آچکی ہوں آؤٹ آف سٹاک۔ آج ان سٹاک ہے۔" دعا نے خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا۔
" دفعہ ہوجاؤ۔" سمیعہ کو غصہ آگیا۔
" سوری نا۔" اس نے اس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے۔
" اچھا اچھا۔" وہ بول کے کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی کی طرف مری۔ " اسے ایک درجن اسی شید کی دیدیں۔ "
" ہاہاہا میں ۶ لونگی اور ۶ تم۔" دعا ہنستے ہوئے بولی۔
" میں ۶ ایک ہی شیڈ کی کیا کروں گی؟ اچار ڈالونگی؟" سمیعہ خفگی سے بولی۔
" اچھا تم کوئی بھی ۵ اور سیلیکٹ کرلو۔ آپ مجھے یہ والے ۷ پیسز دے دیں۔"
" پھر زبردستی اس نے پوری ۱۲ لپ سٹکس لی۔"
سمیعہ کتنے حسین پل گزارے تھے ہم نے۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور واشروم میں فریش ہونے چلی گئی۔ شاور لے کر وہ نکلی اور اچھے سے اپنے کمرے کو دیکھا۔ جی بھر کے۔ اپنی چیزوں کو۔ نیچے آئی۔ نیلم بیگم نے اسے دیکھا تو گلے لگا لیا۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد پارلر جانے کا ٹائم ہوگیا۔ وہ اٹھی پورے گھر میں گھومی اور بہت روئی۔ ہر جگہ اسے ماضی یاد آرہا تھا اس کا بچپن۔۔
۔ آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ وہ کبھی نیلم بیگم تو کبھی احمر چیمہ کے گلے لگ کر روئی ہی جارہی تھی۔ نیلم بیگم اور احمر چیمہ کا بھی حال مختلف نہیں تھا۔ یہ پل ہر لڑکی کے لیے بہت مشکل ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا اس وقت برائڈل روم میں بیٹھی تھی۔ ابھی بارات نہیں آئی تھی۔ کمرے کا دروازہ کھڑکا۔ دعا جو کے اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ وہ سمجھی کہ نیلم بیگم ہونگی۔ دروازہ کھلا۔ لیکن وہ نیلم بیگم نہیں تھی۔ وہ کوئی اور تھا۔ جس کو دیکھ کر دعا کے چہرے پر حیرانی کا تاثرات آئے اور ساتھ ہی ساتھ غصے کے بھی۔۔۔۔
بقیعہ آئندہ ۔۔۔۔
تو آپکو کیا لگتا ہے وہ کون ہوگا؟ کیا یہ کوئی نیا کردار ہے جو کہانی میں آنے والا ہے؟ اپنے خیالات کا اظہار ضرور کیجئیےگا ۔
Don't forget to give feedback. Plz give your reviews. I am terribly sick nowadays. Plz pray for me. Hope you will like it.
Plz follow me on insta acc for all updates @aaawrites
ESTÁS LEYENDO
لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل)
FantasíaThat's my first story ... hope u like it .... and if u like so don't forget to vote and place your precious comments 😊😊