قسط ۱

3.7K 96 26
                                    

وہ بلیک کلر کے گھٹنوں سے اوپر تک آتے سلیولس ڈرس کے ساتھ بلیک ہی کلر کی ٹائٹس میں مبلوس تھی۔ اس نے جلدی جلدی بلیک ہی کلر کی ہائی ہیلز پہنی۔ اس کے لمبے، سیاہ، اور سیدھے بال کمر پر پڑے تھے۔ اس نے ایک دفعہ شیشہ دیکھا۔ اس کے خوبصورت اور دودھ مائل چہرے پر ہلکا پھلکا میک اپ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنا بیگ اٹھایا اور نیچے آگئی۔ ناشتے کے ٹیبل پر ماما اور بابا جان موجود تھے۔
"اسلام علیکم" اس نے کہا اور جلدی جلدی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
"وعلیکم سلام " ماما اور بابا جان نے اکٹھے جواب دیا۔
"آج پھر آپ لیٹ اُٹھی ہیں" نیلم بیگم اُس سے بولی ۔
"کوئی بات نہیں نیلم بیگم" اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ احمر چیمہ صاحب اپنی لاڈلی اور اکلوتی بیٹی کی طرفداری نہ کرتے۔ "بیٹا کوئی بات نہیں آپ آرام سے ناشتہ کرو۔"
اُس نے تھوڑا سا کھایا اور پھر بولی
" بس ماما! چلیں بابا جان چلتے ہے آپ کو دیر ہو رہی ہو گی "
"نہیں میری جان آپ پہلے اچھے سے ناشتہ کرو پھر چلتے ہے " احمر صاحب نے جواب دیا
عموماً تو وہ اپنی ہی گاڑی پر جاتی تھی لیکن اس کی گاڑی ٹھیک ہونے گئی تھی ۔تو احمر صاحب آج اس کو اپنی گاڑی پر چھوڑنے والے تھے۔ اس نے ناشتہ کیا پھر احمر صاحب اس کو یونیورسٹی چھوڑ کر آفس چلے گئے
وہ یونیورسٹی پہنچی تو کلاس میں ابھی آدھا گھنٹا باقی تھا۔ وہ کیفے میں چلی گئی۔ جب خود آنا ہوتا ہے تو وہ کلاس سے پانچ منٹ پہلے ہی پہنچتی تھی۔ لیکن آج بابا کے ساتھ آنا تھا تو جلدی آنا پڑا۔ وہ کیفے پہنچی ہی تھی کہ سمیعہ نے آواز لگائی "دعا! دعا!"وہ بھاگتے ہوئے قریب پہنچ گئی۔ "کب سے آوازیں دے رہی ہوں۔" اسے سانس چڑھا ہوا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟" دعا نے پوچھا۔
"سانس تو لینے دو۔" سمیہ بولی۔
پیلے رنگ کے کرتے کے ساتھ گلابی رنگ کا تنگ پاجامہ اور اسی رنگ کے ڈوپٹے میں سمیہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
"میں کہنے آئی تھی کہ تمہیں میم فرحت بلا رہی ہیں۔" سمیہ نے بتایا۔
"کیوں؟"دعا نے پوچھا۔
"فنکشن کی تیاری کروانی تھی تم نے۔" سمیہ نے یاد کروایا ۔
" او ہاں میں نے ان کی مدد کروانی تھی۔"دعا بولی "چلو۔"
دعا احمر چیمہ اور سمیہ اسحاق چوہدری کالج سےدوستیں تھی۔ ان دونوں میں بہت پیار تھا۔ بیشک ان دونوں کی سوچ، حالات اور فطرت بالکل مختلف تھی۔
دعا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ احمر چیمہ کا بھی کوئی بہن بھائی نہ تھا اور نہ ہی نیلم بیگم کا۔
احمر چیمہ ایک بہت بڑے بزنس مین ہے۔ انھوں نے اپنی زدی بیٹی کی ہر زد پوری کی ہے۔
سمیعہ ایک بہت بڑے خاندان میں پلّی تھی۔ اس لیے دونوں کی سوچ میں فرق تھا۔
وہ دونوں کلاس کے بعد کیفے میں بیٹھی تھی جب دعا نے سمیعہ کو اپنا نیا ڈائمنڈ بریسلیٹ دکھایا جو ایک دن پہلے اس کے بابا جان نے اسے دیا تھا۔
"ماشاء اللّہ یہ بہت خوبصورت ہے" سمیعہ نے تعریف کی۔
"ہممم! میں رات کو بہت خوش ہوئی تھی۔"دعا نے بتایا۔
"بالکل خوش ہونے والی ہی بات ہے۔" سمیعہ نے ہاں میں ہاں ملائی۔
"تمہیں پتا ہے کل میں بھی بہت خوش تھی۔" سمیعہ نے کہا۔
"کیوں؟" دعا نے پوچھا۔
"کل میری کزنز آئی ہوئی تھی۔ ہم نے بہت مزا کیا رات دیر تک باتیں کی۔ اس لیے میں بھی بہت خوش تھی۔"سمیعہ نے بتایا
"آہاں میں نے بھی کل ڈھیر ساری شاپنگ کی۔ بہت مزا کیا۔ میں بہت خوش تھی۔ مجھے یقین ہے تمہیں میرے جتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی۔" دعا نے بتایا
" دعا خوشیاں پیسوں سے نہیں ملتی خوشیاں اپنوں سے ملتی ہیں۔" سمیعہ نے کہا
"خوشیاں پیسوں سے خریدی جا سکتی ہیں" دعا نے کہا
سمیعہ بحث نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے چپ ہو گئی۔
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ کلاس لینے چلی گئی۔
بقیہ آئندہ ....

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora