قسط ۱۱

717 37 13
                                    


آج مصطفیٰ اور دعا کے اکٹھے ڈھولکی تھی۔ آج ایک بہت ہی مزے دار کامپیٹیشن ہونے والا تھا لڑکے اور لڑکی والوں کے درمیان۔ مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ دعا بھی تیار ہو کر ہال میں آچکی تھی۔ وہ برائڈل روم میں بیٹھی تھی۔ لڑکے والے آ چکے تھے۔ پہلے دلہے کی انٹری تھی۔
آبگینہ اور اس کے ساتھ کچھ اور لڑکیاں بڑے بڑے تھال پکڑے آگے آگے چل رہی تھی۔بلکہ ناچ رہی تھی۔ ان تھالوں میں گجرے اور کمپیٹیشن کے لیے باج تھے۔ پیچھے ایک بڑی سی ٹرالی نما چیز تھی۔ جس کا پیچھے بڑا سا ہینڈل تھا۔ دو آدمی اسے دھکیل کے لا رہے تھے۔ اسکو پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ اس پر ایک بڑا سا ڈھول نما صوفا پڑا تھا۔ اس پر جو سیٹ بنی ہوئی تھی۔ جس پر مصطفیٰ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ مجتبیٰ اور آرز بھی تھے۔ جو ناچ رہے تھے۔
تھوڑا آگے آنے کے بعد لڑکیوں نے ایک طرف تھال رکھے اور لڑکے بھی اوپر سے اترے۔ لڑکیوں نے دلہے کے اردگرد گول دائرے میں تالیاں بچاتے ہوئے چکر لگائے۔ پھر دلہے کو سٹیج پر لے جا کر بیٹھآیا گیا۔
مصطفیٰ نے سفید شلوار کمیز کے ساتھ گلے میں براؤن شال کو مفلر کی طرح لیا ہوا تھا۔ مضبوط کلائی میں گھڑی۔ ہر آنکھ اسے دیکھ رہی تھی کوئی محبت و رشک سے تو کوئی نفرت و حسد سے۔
اب دعا کی انٹری کی باری تھی۔ دعا کی بھی بہت دھوم دھرکے سے انٹری ہونی تھی۔
دعا کی انٹری سے پہلے، اس کی دوستیں آئی جن کے ہاتھوں میں تھال تھے۔ ان تھالوں میں بھی گجرے اور کمپیٹیشن کے لیے باج تھے۔ جس ٹرالی پر مصطفیٰ کے انٹری ہوئی تھی اسی ٹرالی پر دعا کی بھی ہوئی۔ لیکن فرق اتنا تھا اس پر ڈھول نہیں پڑا تھا۔ اس پر گول بڑی بڑی چوریاں پڑی تھی۔ جس کے درمیان دلہن چھپی بیٹھی تھے۔ اوپر سے پھول برسائے گئے۔ ٹرالی رکی تو لڑکیوں نے اس کے اردگرد گول دائرے میں ڈانس کیا۔ اس کے بعد لڑکیاں دونوں سائڈز پر کھڑی ہوگئی۔ اور پھر ایک ایک کر کے چوڑی کھلتی گئی۔ لڑکیاں دلہن کو سٹیج پر لے کر گئی۔ مصطفیٰ نے ہاتھ پکڑ کے سٹیج پر بٹھایا۔
دعا نے نارنجی رنگ کی آف شولڈر کام والی بالکل چھوٹی سی بلاؤز کے ساتھ گلابی رنگ کا بھاری سا لہنگا پہن رکھا تھا۔ لمبے بالوں میں کرلز ڈلے تھے۔ کانوں میں جھومکیاں، سر پر جھومر، گلے میں سنہری رنگ کا نفیس اور قیمتی چوکر، اور گلابی رنگ کی مالا، ہاتھوں میں خوبصورت کنگن۔ وہ بہت ہسین لگ رہی تھی۔
ساری لڑکیوں نے سب کو گجرے بانٹے، باجز اپنی ٹیم جس کو وہ تیار کر کے لائے تھے انہیں لگائے۔ اور اس کے الاوہ جو جو حصہ لینا چاہتا تھا۔
تیس تیس لوگوں کی ٹیم تھی۔ زمین پر ڈھولکی اور ڈفلی پڑی تھی۔ ڈھولکی بجانے کا انتظام بہت اچھے سے کیا گیا تھا۔ ہر طرف کی سجاوٹ بتاتی تھی کے مہندی ہے۔
تیس تیس لوگوں کی ٹیم تھی۔ زمین پر ڈھولکی اور ڈفلی پڑی تھی۔ ڈھولکی بجانے کا انتظام بہت اچھے سے کیا گیا تھا۔ ہر طرف کی سجاوٹ بتاتی تھی کے مہندی ہے۔

"چلو چلو اب کمپیٹیشن شروع کریں " آبگینہ نے سب سے اونچی آواز میں مخاطب ہو کر کہا ۔۔
"لگتا ہے لڑکی والے ڈر گئے آرز " مجتبیٰ نے آرز کو کہتے ھوۓ اسکے ہاتھ پے ہاتھ مارا
"لڑکی والے جیتنے والے ہیں آپ لوگ اوور کونفیڈنٹ نا ھی ہوں ورنہ ہم بھول جائے گیں کہ آپ دلہے کے بھائی ہے۔  " دعا کی ایک دوست نے باقی اپنی دوستوں کو آنکھ مار کر کہا
"ہم تو چاھتے ہیں آپ بھول جاؤ "مجتبیٰ نے مسکرا کر ایک ادا کے ساتھ کہا ۔۔
سب ہنس دیے جب کہ وہ لڑکی شرما گئی۔
"اچھا چلو اب بیٹھ جاؤ اپنی اپنی جگہ  سمبھالو " نیلم نے سب کو کہا
سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تھے۔ لڑکے والے یر لڑکی والے آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ دولہا دلہن کو صوفے پر بٹھایا گیا ایک طرف لڑکے والے بیٹھے تھے۔ ایک طرف لڑکی والے۔ باقی سب لوگ بھی اس کے اردگرد ہی لیکن تھوڑا دور بیٹھے تھے۔
کامپیٹیشن شروع ہوا لڑکے والوں کی پہلی باری تھی تو انھوں نے الف سے گانا تھا۔ایک لڑکی نے ڈھولکی بجانا شروع کی۔ ایک لڑکی اس پر چمچ مارنے لگی اور ایک ڈفلی بجا رہی تھی۔ کافی سوچنے کے بعد انھوں نے گانا شروع کیا۔
"اک میری اکھ کاشنی۔۔۔
  دوجا رات دے نیندرے نے ماریا۔۔۔۔
شیشے نوں تریڑ پے گئی۔۔۔
بال وندی نے تیان جدوں ماریا۔۔"
اردگرد بیٹھے لوگوں نے تالیاں بجائی۔
" چلیں چلیں جلدی سے میم سے گانا شروع کریں۔" آبگینہ بولی۔
ا" ہاں ہاں گا رہے ہیں۔" ایک لڑکی بولی۔
انھوں نے بھی ڈھولکی، ڈفلی اور چمچ سنبھالی۔ بہت مہارت سے ایک لڑکی نے بجانا شروع کیا۔ انھوں نے گانا گانا شروع کیا۔
" مہندی ہے رچنے والی ہاتھوں پے گہری لالی ۔۔
کہے سکھیاں ۔۔اب کلیاں ۔۔ہاتھوں پے کھلنے والی ہیں.  تیرے من کو جیوں کو نئی خوشیاں ملنے والی ہیں ۔۔
تالیاں زوروشور بج رہیں تھی۔
" چلیں اب ہ سے گائیں۔" ایک لڑکی بولی۔
لڑکے والے کشمکش میں پڑ گئے۔ 
" گائیں نا نہیں آتا کیا؟ " ایک لڑکی ہنستے ہوئے طنزیہ بولی۔
" آتا ہے نا۔ " پیچھے سے ایک لڑکی بولی۔ ساتھ ہی خسر پھسر شروع ہوئی۔ اور انھوں نے گانا شروع کیا
"ہوا کے جھونکے آج موسموں سے روٹھ گئے
گلوں کی شوخیاں۔۔جو بھورے آ کے لوٹ گئے
بدل رہی ہے آج زندگی کی چال ذرا
اسی بہانے کیوں نہ میں بھی دل کا حال ذرا
سنوار لوں ۔۔سنوار لوں"
سب نے مل کر گایا۔ آبگینہ، آرز اور مجتبیٰ بھی ہر گانے میں بھر چڑھ کے حصہ لے رہی تھے۔
" ہم نے تو گا لیا۔ اب آپ لوگوں کی باری ہیں گائیں گائیں لام سے۔" آرز بولا۔
" اچھا جی۔" ایک لڑکی بولی۔
" ہانجی۔"
" تو سنو۔" وہ بولی اور گانا شروع کیا۔
" لال دوپٹہ اڑھ گیا رے میرا ہوا کے جھونکے سے ۔۔
مجھ کو پیا نے دیکھ لیا ۔۔
ہاے رے دھوکے سے ۔۔
منا کے مجھے دل دے گا وہ مگر میری جان لے گا وہ ۔۔"
اس گانے پر دعا تھوڑا شرما گئی تھی۔
" واہ واہ کیا آواز ہے۔ ماشاءاللّٰہ۔ " آرز نے گانا ختم ہوتے ہی داد دی۔
" اوۓ انگریز کبوتر تم ہماری طرف ہو یا انکی طرف۔ " مجتبیٰ نے اس کے کندھے پر مکا مار کر کہا۔
ساری لڑکیاں ہند دی۔
جبکہ اس نے رونی صورت بنا لی۔ اور پھر کیا تھا۔ اس نے پاس پڑی کولڈ ڈرنک اٹھائی اور مجتبیٰ پر انڈیل دی۔
پھر کیا تھا مجتبیٰ نے بھی کالڈ ڈرنک اٹھا لی اور پھر۔۔۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری۔ ساری لڑکیاں سائڈ میں چلی گئیں۔ اور ہنس ہنس کے دونوں کی لڑائی انجوائے کر رہی تھیں۔ اور کیمرا مین تو ایسے ویڈیو بنا رہا تھا جیسے یہ ٹی وی پر براڈکاسٹ ہونی ہے۔ ہر طرف سے بنا رہا تھا۔
کوئی دس سے پندرہ منٹ بعد راہیلا بیگم نے آکر لڑائی رکوائی۔ لڑکیوں نے جب دیکھا کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے اب ان پر کالڈ ڈرنک گرنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ وہ اس ڈر سے بھاگ گئی تھیں کہ غلطی سے ان پر نا گر جائے اور ان کے ڈرسز بھی خراب ہوجائیں گے اور بال چپچپے ہیئر سٹائل کا کباڑہ اور اگر فیس پر گر گئی تو پھر تو۔۔۔ استغفار ان کی وہ گلیم لک یا نا میک اپ میک اپ لک کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی۔ وہ جو کہتی ہیں ہم تو تھوڑا سا میک اپ لگاتی ہیں۔ اس کی حقیقت سامنے آجائے گی جب ان کے فیس سے میک اپ کی لیئرز اتریں گی۔ آئی میک اپ پھیلے گا پھر تو وہ پوری چڑیل ہی لگیں گی۔
" ہاں جی ہم ونرز ہیں۔ ہمارا انعام۔ "دعا کی ایک دوست بولی۔
" کیسے جی کیسے۔" مجتبیٰ کے ماتھے پر بل پڑے۔
" دیکھیں آپ لوگوں نے کامپیٹیشن لیو کردیا تھا۔ " ایک لڑکی بولی
"کوئی نہیں کوئی نہیں شروع کرو ہم نے ہی جیتنا ہے۔ " مجتبیٰ بولا۔
اور پھر بحث شروع ہوگئی کافی بحث کے بعد وہ مانے۔
کامپیٹیشن پھر سے شروع ہوا۔
" چلو جی پھر شروع کرو۔ آپ لوگوں پر واؤ آیا تھا۔ گاؤ گاؤ۔" ایک لڑکی بولی۔
اور ساتھ ہی آبگینہ نے اور بحث و لڑائی سے بچنے کے لیے گانا شروع کردیا۔
ویکھیا ہووے جے کسے تکیہ ہووئے
ویکھیا ہووے جے کسے تکیہ ہووے
اوچا لما ۔۔
اوچا لما گھبرو ۔۔تے اکھ مستانی ۔۔
ایہو میرے ۔۔
ایہو میرے چن جئے ڈھول دی نشانی ۔۔۔"
سب نے اس کا ساتھ دیا ۔ اس کے میٹھی اور پیاری آواز سب کے کانوں کو بہت اچھی لگی۔
تالیاں اپنے عروج پر تھیں۔
ہر طرف گہما گہمی تھی۔
" ہم نے تو گا لیا۔ اب آپ لوگ گائیں نون سے۔" آزر بولا۔
" صبر رکھیں۔" ایک لڑکی بولی۔
" کہاں ہے صبر اور کہاں رکھنا ہے؟" آرز مسکراہٹ دبا کر بولا۔
" پتا نہیں۔" وہ لڑکی امید کے مطابق چڑ گئی۔
گانا شروع ہوا۔
اور لڑکی والوں کو ن ملا تھا۔
"نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ ۔۔
چھلکائی مدوشالا ۔۔
میرا چین ۔۔ رین ۔۔نین اپنے ساتھ لے گیا
نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ ۔۔
چھلکائی مدوشالا ۔۔
میرا چین ۔۔ رین ۔۔نین اپنے ساتھ لے گیا
نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ ۔۔
چھلکائی مدوشالا ۔۔
میرا چین ۔۔ رین ۔۔نین اپنے ساتھ لے گیا"
اور ایسے ہی کامپیٹیشن ہلکی پھلکی ہنسی مزاک کے ساتھ چلتا رہا۔ اور اینڈ پر ٹائی ہوا دونوں ٹیمز کا۔ کھانا کھایا گیا۔ سب مہمان کھانے کے بعد جانا شروع ہوگئے۔ سمیعہ آج نہیں آئی تھی۔ اس نے بتایا یہ تھا کہ وہ آ نہیں پائے گی لیکن دعا جانتی تھی کہ وہ کیوں نہیں آئی۔ لیکن اس کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا ۔
دعا بالکنی میں گرل پر ہاتھ رکھے کھڑی باہر کے نظارے دیکھنے میں مگن تھی۔ وہ دیکھ تو باہر رہی تھی لیکن اس کا دماغ کہیں اور تھا۔ کل اس کا نکاح تھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے مصطفیٰ کی ہونے جا رہی تھی۔ اس کےاندر کہیں سے آواز آئی تم مصطفیٰ کو جانتی ہی کتنا ہو۔ اگر مصطفیٰ جیسا دکھتا ہے ویسا نا ہوا تو۔۔ ایسے ہی کئی سوچیں دماغ میں آے جارہی تھیں۔ جن کو اس نے جھٹک دیا۔ ماما بابا کی چوائس ہے۔ ماما بابا، ان کو چھوڑ کے مجھے جانا پڑے گا، میں کیسے جاؤں گی۔۔ میں کیسے رہوں گی وہاں ماما بابا کے بغیر۔ سب رہتے ہیں دعا اندر کہیں سے آواز آئی تم بھی رہ لو گی جیسے سمیعہ۔۔۔ بے اختیار اپنی دوست کا ہی خیال آیا۔ پھر اس دن کی باتیں یاد آئیں  اور سمیعہ کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔۔ " ہاں میرا شوہر خانز امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں ملازم ہے۔" کیا سچ میں سمیعہ کا شوہر میرے ہونے والے شوہر کی کمپنی میں ملازم ہے۔۔ اس کو اپنا ماضی یاد آنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دعا کالج کی کینٹین میں اکیلی بیٹھی سینڈ وچ کھا رہی تھی۔ اس کو کالج آئے آٹھ ماہ ہونے کو تھے۔ اس کے پارٹ ون کے ایگزامز بھی آنے والے تھے۔ لیکن اس کی کوئی دوست نہیں بنی تھی ابھی تک۔ یا شاید اس نے بنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کی ماما نے کہا تھا دوستی بہت سنبھل کر کرنا۔
" ایکسیوزمی دعا۔" دعا کو کسی نے آواز دی۔ 
" جی؟" دعا نے پیچھے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو شلوار کمیز میں ملبوس ڈوپٹا اچھے سے سر پر لیے کندھے پر بیگ ڈالے ہاتھ میں بکس پکڑے کھڑی تھی۔ وہ اس کی کلاس فیلو تھی لیکن وہ اسے جانتی نہیں تھی۔
" سر بشیر ( اکاؤنٹنگ کے ٹیچر۔ دعا کے فیورٹ) نے کہا تھا کہ آپ ایبسنٹ تھی لاسٹ ٹو لیکچرز میں تو میں آپ کو ان کے نوٹس دے دوں۔" وہ بولی۔
دعا کی کوئی دوست تو نا تھی پچھلے دنوں بیمار ہونے کی وجہ سے وہ کالج نہیں آسکی تھی۔ تواس لئے سر کو کہا تھا کہ کسی سے نوٹس لے دیں۔
‏" thank you so much . I will return in 2-3 days." ( بہت شکریہ۔ میں دو-تین دنوں میں واپس کردونگی۔) دعا نے نوٹس پکڑتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
‏“ no need of thank you." ( شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں۔) اس نے بھی جواباً مسکرا کر کہا۔
اور وہ چلی گئی۔ دعا نے نوٹس بیگ میں ڈالے اور پھر وہ کلاس میں چلی گئی۔
۔۔۔۔
بقیعہ آئندہ۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now