قسط ۱۲

839 42 13
                                    


دعا کالج سے آکر فریش ہوکر جب آرام کرنے بیڈ پر لیٹی تو اسے کچھ سوچتےسوچتے آج کیفے میں ملنی والی اس لڑکی کا اچانک سے خیال آگیا، "کتنی عجیب سی لڑکی تھی وہ، ماسی جیسا ڈوپٹا لے رکھا تھا اس نے"۔ چھوڑو اسے کہ کر اس نے اپنے خیالات کو جھٹکتے ہوئے سوچا کہ چلو نوٹس تو مل گئے نا۔ یہ سوچتے ہی دعا نے بیگ سے نوٹس نکالے۔جب دعا نے نوٹس کھولے تو فرنٹ پیج پر نیٹ ہینڈ رائٹنگ میں سمیعہ اسحاق لکھا تھا۔ سمیعہ اسحاق۔ اس نے ریپیٹ کیا۔ وہ ماضی سے واپس آ چکی تھی۔ کاش ہماری وہ پہلی ملاقات ہوئی ہی نہ ہوتی۔ دعا جا کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ پھر سے وہ ماضی کے خیالات میں کھو سی گئ ۔
اگلے دن جب وہ کیفے میں گئی تو سائیڈ والے ٹیبل پر سمیعہ اکیلے بیٹھی تھی۔ وہ بنا کچھ سوچے سمجھے اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ (وہ جس سکول میں پڑھی تھی وہاں سب ہی اس کی طرح امیر خاندان سے تھے۔ جبکہ یہ کالج سب سے اچھا تھا پر یہاں اسکالر شپ کی فاسیلیٹی موجود تھی۔ اس نے کبھی بھی غریبوں کو نہیں دیکھا تھا۔اس کو کبھی پتہ بھی نہیں تھا کہ برانڈز کے علاوہ بھی کپڑے ہوتے ہیں اور مالز کے علاوہ بھی بازار ہوتے ہیں (اسے ان سب کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔)
" اسلام علیکم! کیسی ہیں دعا؟ آئیں بیٹھے نا۔" سمیعہ نے بڑے ادب کے ساتھ سلام کیا اور اپنے ساتھ بیٹھنے کی آفر کی۔
" وعلیکم سلام! ?I am fine. What about you ( میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟ )دعا نے سمیعہ کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
" الحمد لللّٰہ" سمیعہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
انھوں نے کافی اور چائے آرڈر کی اور پھر ہلکی پھلکی باتیں شروع ہوئیں۔
" سمیعہ آپ کون سے اسکول سے پڑھتیں ہیں؟" دعا نے پوچھا۔
" میں دی پاکستان پبلک اسکول میں پڑھتی ہوں۔" سمیعہ نے بتایا۔
" دی پاکستان پبلک اسکول۔ میں نے کبھی اس سکول کے بارے میں نہیں سنا۔" دعا نے حیرانگی سے کہا۔
" یہ ہمارے علاقے میں ہے۔ آپ کونسے اسکول سے پڑھتیں تھیں۔"
" میں بیکن ہاؤس میں پڑھتی تھی۔"
" صیہہ۔"
" نائس واچ۔" دعا نے سمیعہ کے ہاتھ میں واچ دیکھ کر کہا۔
" تھینک یو۔ کل ہی ماما نے لا کر دی تھی۔"
" کونسے جیولر سے لی ہے؟ میں بھی پاپا کو کہوں گی مجھے بھی ایسے ہی بنوا دیں۔" دعا کو وہ سلور رنگ کی گھڑی جس پر بہت سارے ہیرے لگے تھےبہت پسند آگئی تھی۔
" جیولر سے؟ یہ ماما بازار سے لائی ہیں۔" سمیعہ نے بتایا۔
" اوہ تو یہ ڈائمنڈ کی نہیں ہے؟"
" نہیں۔" سمیعہ حیران ہوتے ہوئے بولی۔
"وائٹ گولڈ؟" دعا نے پوچھا۔
سمیعہ نے حیرانگی سے نفی میں سر ہلایا۔
"تو پھر کیا سلور کی ہے؟" دعا تب سے اس کا ہاتھ پکڑے پوچھ رہی تھی۔
" نہیں دعا یہ آرٹیفیشل ہے۔" سمیعہ نے ہاتھ چھڑا کے کہا۔ اسے تھوڑا سا غصہ آیا تھا۔ اسے لگا تھا دعا بھی اس کی غریبی کا مزاق اڑا رہی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ دعا ہمیشہ اپنی چار دیواری کے اندر ہی رہی تھی۔ اس کو اس کے ماما، بابا نے ہمیشہ سونا، چاندی، ڈائمنڈ ہی پہنایا تھا۔ اس نے کبھی آرٹیفیشل جیولری نہیں پہنی تھی۔ یہاں تک کہ اس کے بابا گھڑیاں بھی آرڈر پر بنوا دیتے تھے۔
" اچھا۔ وہ کیا ہوتا ہے؟ " دعا کا معصومانہ سوال۔
" لوہا، میٹل۔" سمیعہ ذرا غصہ سے بولی۔
" انٹرسٹینگ۔ میں بھی ایسی ہی اسی مٹیریل کی لونگی۔" دعا بولی۔
سمیعہ بہت تنگ آگئی اس عجیب لڑکی کے عجیب سوالوں سے، اس نے گھڑی اتاری اس کی طرف بڑھائی، اور کہا "یہ لو کل ہی نئی لی ہے۔ آج فرسٹ ٹائم پہنی ہے نئ ہی ہے تم رکھ لو۔"
" ارے یہ کیا۔ میں کیسے لے لوں۔ تم تو اسٹرینجر ہونا۔" دعا نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
" نہیں ہم تو فرینڈز ہیں نا۔" سمیعہ ذرا تحمل سے بولی۔
"اوہ ہاں۔ تھینک یو سو مچ۔" اس نے لے لی۔
اس کے کچھ دیر بعد وہ لوگ کلاس لینے چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما ماما! میں آگئی! آج میں نے کالج میں ایک نئی دوست بنائی ہے۔" دعا نے کالج سے آتے ہی نیلم بیگم کو سمیعہ کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔
" اچھا جی کون ہے وہ؟" نیلم بیگم نے پوچھا
" سمیعہ اسحاق چوہدری۔ میری کلاس فیلو ہے۔ یہ دیکھیں اس نے مجھے یہ واچ بھی دی ہے۔ یہ میٹل کی ہے آرٹیفیشل۔ آپ نے مجھے کبھی اس میٹیریل کی کیوں نہیں لے کر دی؟ یہ اتنی اچھی لگی مجھے تو اس نے مجھے یہ گفٹ ہی کردی۔ پیاری ہے نا۔" دعا نان سٹاپ بولے ہی جا رہی تھی۔
" ہاں پیاری تو ہے۔ لیکن یہ آرٹیفیشل ہے۔ یہ اصل نہیں ہے ۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوتی ہیں جواصلی افورڈ نہیں کر سکتے۔ یہ سستی ہوتی ہیں اس لیے آپ یہ نہیں پہنیں گی"۔" نیلم بیگم نے اسے سمجھاتے ہوئے اس کے ہاتھ سے گھڑی اتاری۔
" میں سمجھی نہیں۔" دعا نے حیرانگی سے کہا۔
" دیکھو دعا کل تک تو کوئی دوست نہیں تھی تمہاری۔ آج اچانک سے دوست بھی پیدا ہوگئی۔ اس نے گفٹ بھی دے دیا۔ یہ جو غریب لوگ ہوتے ہیں نا بس امیروں سے دوستیاں ان کے پیسوں کے لیے کرتے ہیں۔ " نیلم بیگم زرا طیش میں آتے ہوئے بولی۔
" ماما میں نہیں اتاروں گی۔ اور یہ مجھے بہت پسند آئی تھی تبھی اس نے مجھے یہ دی تھی۔اور وہ بہت اچھی ہے" دعا نے بتایا۔
" اچھا مت اتارو۔ لیکن زیادہ دوستی نا کرنا۔ یہ نہ ہو کل کو اس کی وجہ سے تمہیں شرمندگی اٹھانی پڑے۔" نیلم بیگم دعا کو سمجھاتے ہوئے بولیں۔
____
کاش کاش میں تب ماما کی بات سن لیتی۔ ماما ٹھیک کہتیں تھیں۔ اٹھانی پڑی مجھے آج یہ شرمندگی، بھری محفل میں، سب کے سامنے، اس کی وجہ سے۔ دعا کو ایک لڑکی کا کل کا دیا ہوا طعنہ یاد آگیا۔
" ارے دعا وہ تمہاری دوست نہیں آئی۔ وہی جس کا شوہر ملازم تھا۔ کیا وہ تمہارے گھر میں ملازمہ تھی جس سے تم نے دوستی کرلی۔"
دعا کو بہت رونا آرہا تھا۔ سمیعہ نفرت ہےمجھے تم سے ۔ نفرت۔۔۔۔
———-
" سمیعہ کل تمہاری دوست کا نکاح ہے۔ جاؤ گی؟" عبد اللّٰہ نے سمیعہ سے پوچھا۔
" دیکھوں گی۔ " سمیعہ بولی۔
" چلو جیسے تمہاری مرضی۔" اس نے کہا اور کروٹ لے کر سو گیا۔
" سمیعہ بھی لیٹ گئی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ ماضی میں جا رہی تھی۔ جب وہ اپنی دعا کے ساتھ دوسری ملاقات میں اس کو گھڑی دے کر آئی تھی۔
____
" سمیعہ تمہاری گھڑی کہاں ہے؟" امی نے پوچھا۔
" امی وہ میری ایک بہت اچھی نئی سہیلی بنی ہے میں اسے گفٹ میں دے کرآئی ہوں۔ اسے بہت پسند آگئی تھی اس لئے۔" سمیعہ نے بتایا۔
" لو جی کل ابھی اتنے تڑلے کر کے منگوائی تھی۔ پورے چار سو کی لائی تھی میں۔ ایک تو یہ تمہاری کرم نوازیاں۔" امی کو غصہ آگیا۔
" امی کچھ نہیں ہوتا۔ اب گفٹ میں دے آئی تو دے آئی۔" سمیعہ تنگ آکر بولی۔
"اچھا کون ہے وہ؟ اس نے سنائی ہونگی تجھے چار باتیں کے ہم اتنے غریب گھڑی کہاں سے لیں یہ وہ۔ اور تم اس لئے گفٹ میں دے آئی ہوگی"
" نہیں امی وہ تو بڑے امیر گھرانے سے ہے۔ سونے، ہیرے، چاندی وغیرہ کی گھڑیاں پہنتی ہے۔ مجھ سے پوچھتی ہے کہ یہ کس جیولر سے لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " سمیعہ نے ساری بات بتادی۔
" اللّٰہ بیڑا غرق کرے ان امیر لڑکیوں کا۔ طعنے مار رہی ہوگی تجھے۔ جہاں غریب دیکھا نہیں وہاں آگئ دل جلانے۔" امی نے بد ظن ہوتے ہوئے کہا۔ " تم اس سے ز ا زیادہ دوستی نہیں رکھنا، دیکھنا ایک دن ضرور تمہیں تمہاری غریبی کا طعنہ دے گی۔ بے عزت کرے گی لوگوں کے سامنے ۔" امی بولیں۔
——-
" امی آپ سہی کہتی تھی۔ دے دیا اس نے طعنہ۔ اتنے سالوں کی دوستی کا بھی مان نہیں رکھا۔ ایک سال سے زیادہ کالج میں ہماری دوستی تھی۔ اس کے چار سال بعد جب دوبارہ ملے تو پھر دوستی دوبارہ سے ابھری۔ اتنی اچھی دوست تھی۔ لیکن پیسے کا غرور آگیا۔ بہت بری ہوتم دعا ۔
——-۔ایسے ہوئی تھی دونوں کی دوستی کی شروعات۔ آہستہ آہستہ دونوں میں دوستی بڑھتی گئی۔ نیلم بیگم نے بھی بیٹی کی خوشی کے آگے سر جھکا دیا۔ سمیعہ تھی تو اچھی۔ اور سمیعہ کی امی کو بھی دعا اچھی لگ گئی تھی۔ دونوں کی دوستی گہری ہوتی گئی۔ سمیعہ نے دعا کو امیر، غریب میں فرق سمجھایا۔ کالج کے بعد سمیعہ اور دعا الگ ہوگئی تھیں۔ لیکن چار سال بعد ایم بی اے کے وقت پھر اکٹھی ہوگئیں۔ نیلم بیگم نے شکر ادا کیا تھا کہ دونوں کی دوستی ختم ہوگئ لیکن پھر وہ دونوں دوبارہ اکٹھی ہوگئیں۔ نیلم بیگم کو سمیعہ کا ڈوپٹہ بھی بہت برا لگتا تھا۔ خیر دو سال گزر گئے سمیعہ کی شادی ہوگئیتو انہوں نے سوچا کہ اب سمیعہ کی شادی ہوگئی ہے اب دونوں کی دوستی کم ہو ہی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔
___________
" دعا ، دعا" نیلم بیگم کی آوازوں نے اسے نیند سے جگایا۔
" اتنی دیر ہوگئی ہے۔ ناشتہ کرو پھر پارلر جاؤ۔ بارہ بج گئے ہیں۔ سارھے چھ بجے ہے نکاح۔ ساڑھے چار تک پہنچنا ہے۔ چلو شاباش جلدی اٹھو۔"
دعا اٹھ کر واشروم میں چلی گئی۔
__________
شام ہو چکی تھی۔ دعا پارلر سے آچکی تھی۔ وہ اندر روم میں بیٹھی تھی۔  باہر لڑکے والے آچُکے تھے۔ ان کا نکاح مسجد میں ہورہا تھا۔
وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔ اس کا دل بری طرح دھرک رہا تھا۔ اسے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کا موبائل بجنا شروع ہوگیا۔ اس نے دیکھا تو سکرین پر سمیعہ کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدلا۔ سمیعہ اسے کہتی ہوں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ باہر ہوگی۔ آجائے گی۔ وہ دل کی سننے لگی تھی کہ دماغ نے مخالفت کی۔ دعا کیا تم اس سے بات بھی کرونگی جس نے تمہیں بے عزت کیا تھا۔ فون بند ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی دوبارہ فون آنے لگا۔ دوسری بیل پر دعا نے اٹھا لیا۔
" اسلام علیکم۔" سمیعہ کی آواز آئی
"وعلیکم سلام۔" دعا نے روکھے سے انداز میں بولا،
" کیسی ہو دعا؟" سمیعہ نے خوش دلی سے پوچھا۔ شاید وہ اسکی فیلنگز جاننا چاہ رہی تھی۔
"ٹھیک۔" وہ روکھا سا بولی
" میں آج آ نہیں پائی تو سوچا فون پر ہی مبارک باد دےدوں ۔" سمیعہ نے وضاحت دی۔
" ہمم۔" پھر ویسا ہی لہجا
" تمہیں بہت بہت مبارک ہو دعا۔ آج تمہارا نکاح ہے۔ اللّٰہ تمہیں اور تمہارے ہزبینڈ کو خوش رکھے آمین۔" سمیعہ نے سچے دل سے دعا دی۔
" میں خوش ہی رہوں گی۔" دعا نے اکڑ کر کہا ۔ سمیعہ بد دل ہوئی۔ اور اسے افسوس بھی ہوا۔ قسمت کا کسے پتا۔
" ہمم اللّٰہ کرے۔" اس نے اپنا لہجا میٹھا رکھتے ہوئے کہا۔
" ایسا ہی ہوگا۔" دعا نے یقین سے کہا۔
" اچھا میں رکھتی ہوں۔" سمیعہ اور بات نہیں کر سکتی تھی۔
" اوکے۔" دعا نے بھی شکر کیا۔
__________
دعا نے لائٹ گولڈن رنگ کی یونیک سی اور تھوڑی بھارے کام والی پیروں تک آتی میکسی پہن رکھی تھی۔ بالوں کا جوڑا بنا کر بھاڑی سا ڈوپٹہ سیٹ کیا گیا تھا۔ گلے میں سونے کا بڑا سا سیٹ، کانوں میں بڑے بڑے بندے۔ ماتھے پر چھوٹی سی بندیا، اور ناک سے دائیں کان تک آتی نتھ پہنے، بیوڈ میک اپ کیے دعا کسی حور دے کم نہیں لگ رہی تھی۔
دعا کا نکاح مشہور اور بہت بڑی ، خوبصورت مسجد میں رکھا گیا تھا۔
مصطفیٰ گھوڑے پر بیٹھ کر آیا تھا۔ وہ کالے رنگ کی شلوار کمیز پہنے، بالوں کو پیچھے کو سیٹ کیا ہوا، مضبوط ہاتھ میں برانڈڈ کھڑی۔ ہر آنکھ اسکو دیکھ رہی تھی۔
مصطفیٰ کو وہاں بنائی گئی سٹیج پر بٹھایا گیا۔ مولوی صاحب نکاح پڑھانے دعا کے پاس آچُکے تھے۔ ساتھ میں دعا کے بابا جان بھی تھے۔
" دعا احمر بنت احمر چیمہ کیا آپکو مصطفیٰ سردار بن سردار خان سے بعوض پانچ کروڑ حق مہر نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب نے پوچھا۔
کیا میرے یہ دو الفاظ مجھے ہمیشہ کے لیے اس کا کردینگے؟ دعا نے جیسے ہی یہ سوچا اس کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹپکا۔ اس کو اپنے آپ کو کسی کو نہیں سونپنا تھا"قبول ہے۔" اس نے بولا۔
" دعا احمر بنت احمر چیمہ کیا آپکو مصطفیٰ سردار بن سردار خان سے بعوض پانچ کروڑ حق مہر نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب نے پھر پوچھا۔
دعا کے کانوں میں سمیعہ کی قبول ہے کی میٹھی آواز آئی۔ اس نے ایک نظر دورائی کہ شاید وہ آگئی ہو لیکن وہ وہاں نہیں تھا نہ ہی اسے ہونا تھا دعا نے خود اسے اپنی زندگی سے نکال پھینکا ہے۔ دعا وہ نہیں آئی تمہاری زندگی کے سب سے بڑے دن پر۔ ایک اور آنسوں اس کی آنکھ سے گرا اور دل میں نفرت بھڑی۔ " قبول ہے۔"
" دعا احمر بنت احمر چیمہ کیا آپکو مصطفیٰ سردار بن سردار خان سے بعوض پانچ کروڑ حق مہر نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب نے ایک بار پھر پوچھا۔
دعا تم اپنے ماما بابا کے بغیر رہ لوگی؟ ان وہ الفاظوں کی ادائگی کے بعد تم پوری اس کی ہوجاؤ گی۔ اور ماما بابا کو چھوڑ کے بھی جانا پڑے گا۔ اس نے سر اٹھا کر ماما بابا کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ احمر صاحب کا حال بھی اس جیسا ہی تھا۔ نیلم بیگم نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے انھیں خود کو کومپوز کر کے بیٹی کے پاس جانا کا کہا۔ احمر صاحب آگے بڑھے اور دعا کے ساتھ بیٹھ گئے۔ دعا کے بے اختیار بہت سے آنسوں گرے۔ احمر صاحب نے دعا کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے بہت مشکل سے لفظ ادا کیے " قبول ہے۔" اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگ گئی۔ نیلم بیگم نے آگے بڑھ کے اسے چپ کروایا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے سائن کیے۔ یہ ایک بہت قیمتی اور نازک مرحلا ہوتا ہے زندگی کا۔ جب ایک لڑکی جو اپنے بابا نے آنگنے میں کھیل رہی ہوتی ہے اس کو کہا جاتا ہے کہ تمہارا شہزادا آگیا ہے تمہیں لینے۔ اور پھر وہ کمزور سی لڑکی، ڈرپوک لڑکی اپنے شہزادے کے ساتھ جاتی ہے۔ بہت بہادر بن کے، سارے غم سہتی ہے۔ اپنے بابا ماما کو دیکھ کر اپنے دکھ اندر دبا کر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر ان سے ملتی ہے۔ یہی ہوتی ہے ہر بیٹی کی زندگی۔۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora