قسط ۱۷

1.1K 56 14
                                    

تین سال بعد

آج دعا اور مصطفیٰ گھر پر تھے۔ دونوں بزنس میں کافی مصروف ہوگئے تھے۔ آج اتنے دنوں بعد دونوں نے پلان کیا تھا کہ ایک دوسرے کو شادی سے پہلے کی اور بچپن کی کہانیاں سنائیں گے۔ مصطفیٰ نے اسے سارا کچھ دیکھایا۔ اپنے بچپن کی تصاویر، کالج کی یادیں، اپنے دوستوں کے بارے میں، اپنے والدین کے بارے میں سب کچھ وہ اُسے بتاتا گیا۔
اب دعا بھی اسے اپنے ٹرپس کی اور بچپن کی پکس دیکھا رہی تھی۔ اچانک ہی مصطفیٰ نے دعا کے لیپ ٹاپ سے ایک فولڈر کھولا۔ دعا نے وہ فولڈر بالکل الگ رکھا ہوا تھا۔ وہ اسے روک نہیں پائی وہ روکنا چاہتی تھی مگر روک نہیں پائی۔ لوڈنگ ہورہی تھی۔ ساتھ ساتھ دعا کا دل بھی دھک دھک کر رہا تھا۔ اور تصویریں سامنے آتیں گئیں۔ مصطفیٰ نے حیرت سے تصویروں کی طرف دیکھا۔ سب تصویروں میں دعا کے ساتھ موجود وجود کو دیکھ کر وہ حیرت سے گنگ ہی تو رہ گیا تھا۔
وہ فولڈر دعا اور سمیعہ کی تصویروں کا تھا۔ ایک تصویر میں وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھیں۔
" دعا یہ تو ہماری ورکر ہے نا۔ تم اسے کیسے جانتی ہو؟ کیا تم اسے پہلے سے جانتی تھی؟" مصطفیٰ بہت حیران تھا۔
" نہ ۔۔ نہیں میرا مطلب ہاں۔" دعا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے۔
" کیا مطلب دعا کھل کے بتاؤ۔" مصطفیٰ نے بےچینی سے پلہو بدلا کہا۔
" مصطفیٰ۔۔۔ ہم دونوں کالج میں اکھٹی پڑھتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔" پھر وہ سب بتاتی چلی گئی۔ کیسے ملی، کیسی دوستی ہوئی۔۔۔
"واہ تم دونوں تو بہت اچھی دوستیں تھیں۔ لیکن تم دونوں کی دوستی کب اور کیسے ٹوٹی۔"
دعا کافی ایموشنل ہو چکی تھی۔ وہ تقریباً رو دینے کو تھی۔
"ہماری شادی سے پہلے ۔۔۔۔ مصطفیٰ اس نے سب کے سامنے۔۔۔۔ میری ساری فرینڈز کے سامنے کہا کہ۔۔۔۔۔ اس کا ہزبینڈ ایک ملازم ہے ۔۔۔۔ مصطفیٰ اس بات سے مجھے کتنی بے عزتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔ بعد میں سارا وقت میری  سب دوستیں عجیب طریقے سے باتیں بنا رہیں تھیں ۔۔۔۔ مجھے اتنا برا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ میری شادی کا فنکشن تھا وہ میرے لئے اتنا بڑا دن تھا ۔۔۔۔ پہلے وہ سہی تھی ۔۔۔ لیکن شادی کے بعد عجیب باتیں کرنے لگی تھی ۔۔۔۔ میں اسے بھول چکی ہوں۔۔۔ یاد نہیں کرنا چاہتی۔۔ پلیز" دعا نے بے دردی سے اپنے آنسو جو گالوں پر خود بہ خود لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے، صاف کرتے ہوئے کہا۔
" دعا۔۔۔ میری جان ۔۔۔ وہ اُس کی جاب تھی، وہ کسی کے سامنے ہاتھ تو نہیں پھلا رہا تھا نا ۔۔۔۔ محنت کر رہا تھا، عزت سے اپنا گھر چلا رہا تھا نا" مصطفیٰ نے اس کا منہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اُس سے پیار سے پوچھا اور اس کے آنسو صاف کیے۔
اُس نے ایک معصوم بچے کی طرح اثبات میں سر ہلایا۔
"دیکھو دعا ۔۔۔ تم اسے آج بھی نہیں بھولی ۔۔۔۔ تمہیں آج بھی وہ اُتنی ہی عزیز ہی جتنی کل تھی۔ بس تم نے اُسے دل کے ایک کونے میں بند کردیا ہے۔ اگر تم اُسے بھولی ہوتی تو تم نے اُس کی تصویریں اب تک نا رکھی ہوتیں ۔۔۔۔ اور یہ اپنے قیمتی آنسو بھی نہ بہاتی" وہ رُکا اور اپنی انگلیوں کے پوروں سے اُس کے قیمتی آنسو چنے ۔۔۔ اُسے دعا کے یہ آنسو ہمیشہ بےچین کرتے تھے۔۔۔
پھر تھوڑا ٹہر کر گویا ہوا۔۔۔۔۔
"تم بس اُس سے ناراض ہو، وہ آج بھی تمہارے دل میں ہے۔ میری جان دوستی بہت ہی پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے۔ جو بات انسان اپنوں سے شیئر نہیں کر سکتا وہ دوستوں سے کرتا ہے۔ دوست تو آپ کی چلتی پھرتی سیکرٹ ڈائیری ہوتے ہیں۔ آپ کا شناختی کارڈ ہوتے ہیں آپ کی پہچان ہوتے ہیں۔ تم نے اس کے ساتھ بہت غلط کیا۔" مصطفیٰ نے دعا کی طرف دیکھا ۔۔ وہ اب بھی رو رہی تھی۔۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now