قسط ۱۴

768 47 17
                                    

دعا کی نظروں کے سامنے وہ وقت آیا جب اسے اس کی ضرورت تھی اور وہ وہاں موجود نا تھی۔ وہ بھول رہی تھی جو اس نے اس کے ساتھ کیا تھا۔
" اسلام علیکم! کیسی ہو؟" وہی جانا پہچانا سا میٹھا لہٰجا۔ لیکن آج اس میں زمانے بھر کی اجنبیت بھری ہوئی تھی۔
"مجھے کیا ہونا ہے میں ٹھیک ہوں۔" اس نے قدرے سنبھل کر بے رخی سے کہا۔
" ہمم! بہت پیاری لگ رہی ہو۔ میری دعا ہے کہ تمہارا نصیب بھی اتنا ہی پیارا ہو۔ آمین۔ " اس نے مسکراتے ہوئے تکلفانہ انداز میں کہا۔
" میرا نصیب بہت اچھا ہے۔ " دعا نے ڈھٹائی سے کہا۔u
سمیعہ بس مسکرا کر رہ گئی۔ وہ جانتی تھی دعا سے بحث کرنا بیکار ہے۔
" اچھا دعا یہ تمہارے لیے میری طرف سے۔ شادی کا تحفہ۔ تم جیسی امیر تو نہیں لیکن یہ لو۔ " اس نے ایک ڈبہ کھول کے آگے کیا۔ دعا بس حیرانگی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ کیونکہ یہ وہی تھا جو اس نے اسے دیا تھا۔
" ہاں یہ وہی ہے۔ یہ میں نے صرف ایک مرتبہ پہنا تھا۔ لیکن ساتھ میں میں یہ بھی لائی ہوں۔ " اس نے ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی۔ جس میں چھوٹے چھوٹے ٹاپس تھے۔
" یہ میری طرف سے۔" سمیعہ نے اسے پکڑایا۔ اور اٹھ گئی ۔
" اللہ حافظ۔" اور چلی گئی۔ دوستی کا آنت کر کے یا شاید دوستی میں کیے گئے احسان اتارنے کی کوشش کر کے۔ اور پیچھے دعا شوک کی سی کیفیت میں بیٹھی رہی۔
——
نیلم بیگم دعا کے پاس آرہی تھی۔ تب ہی انہیں برائڈل روم میں سے سمیعہ نکلتے ہوئے نظر آئی۔
" اسلام علیکم۔" سمیعہ نے انھیں دیکھ کر سلام کیا۔ اور جواب کا انتظار کیے بغیر نکل گئی۔ وہ شوک کی کیفیت سے نکلی اور جلدی سے برائڈل روم میں چلی گئی۔ اندر دعا کو بت بنے دیکھ کر اس کے پاس آگئی۔
" دعا کیا ہوا ہے؟ سمیعہ کیا کہہ کے گئی ہے؟" نیلم بیگم نے پوچھا۔
" مام وہ بس یہ دے کر گئی ہے۔" اس نے ان ڈبوں کی طرف اشارا کیا۔
نیلم بیگم نے پکڑ کے دیکھے اور دیکھ حیران ہوگئی۔
" چھوڑو اُسے۔ ماشااللّہ تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔" نیلم بیگم نے اس کا موڈ اچھا کرنا چاہا۔ وہ مسکرا دی۔
" ماما مجھے نا گھبراہٹ ہورہی ہے۔"
" گھبراؤ نہیں۔۔۔" ابھی نیلم بیگم اسے دلاسا دینے ہی والی تھی کہ باہر سے کسی نے آکر انھیں بلا لیا کہ بارات آگئی ہے۔
_____
باراتی بینڈ باجے کے ساتھ داخل ہورہے تھے۔ لڑکی والے پھولوں کے تھال پکڑے کھڑے تھے۔ انھوں نے پھول برسا کر استقبال کیا۔
مصطفیٰ کے ساتھ مجتبیٰ آرز اور آبگینہ بھی جا کر سٹیج پر بیٹھ گئے۔
آج مصطفیٰ کسی سلطنت کا شہزادا لگ رہا تھا۔ اس نے وائٹ شلوار کمیز پر سکن کلر کی شیروانی پہن رکھی تھی۔ جس کے کالر پر ہلکا سا کام کیا گیا تھا۔ اور ساتھ میں لال رنگ کا کلا پہن رکھا تھا۔ اور سکن ہی رنگ کا کھسہ۔
۔۔۔۔
دعا احمر صاحب کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی۔ پورے ہال کی لائٹس بند ہوچکی تھی۔ بس سپاٹ لائٹ آن تھی۔
دعا ریڈ کلر کے پھولا لہنگا پہنے جس پر فل گولڈن کام تھا۔ اس کا آف شالڈر بلاؤز پر بھی بہت بھاڑی گولڈن کلر کا کام ہوا تھا اور ساتھ میں ریڈ ہی ڈوپٹا اس پر بھی کافی بھاری کام ہوا تھا۔ ڈوپٹے پر کہیں کہیں ہرے رنگ کے نگ بھی لگے تھے۔ ڈوپٹا سر پر پیچھے سیٹ کر کے دائیں کندھے سے آگے لا کر بائیں بازو پر سلیکے سے سیٹ کیا گیا تھا۔ اور بائیں طرف کے پلو کو پیچھے کی طرف ہی رہنے دیا تھا۔ ماتھے پر چھوٹی سی بندی، کانوں میں بڑے اور بھاڑی بھرکم جھمکے، گلے میں چوکر جیسا بھاری ہار اور ساتھ مالا۔ اس کی دودھیا رنگت پر سنہرے رنگ کے آنکھوں کے میک اپ اور لال لپ سٹک، گلابی گالوں نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے تھے۔ اُس کی لمبی پلیکیں دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ رہیں تھیں۔ وہ کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
مصطفیٰ ہاتھ پکڑ کر اسے اوپر لے گیا۔ سٹیج پر وہ دونوں ساتھ میں بیٹھے انتہا کے پیارے لگ رہے تھے۔ ہر آنکھ ان دونوں کو رشک سے دیکھ رہی تھی۔
کھانا لگ چکا تھا۔ سب کھانا کھا رہے تھے۔ کھانے کے بعد دعا کی دوستیں دودھ پلائی کرنے آگئی۔ انھوں نے بہت خوبصورت ڈِش پکڑ رکھی تھی۔ جس میں ایک انتہا کا پیارا فیڈر اور ایک خوبصورت گلاس پتا ہوا تھا۔ دونوں کے ساتھ پرائز ٹیگ لگا ہوا تھا۔ فیڈر پر ایک لاکھ لکھا ہوا تھا اور گلاس پر پانچ لاکھ۔
لڑکیاں سٹیج پر چڑھ چکی تھی۔
" چلیں بھائی بتائیں کس میں پینا پسند کریں گے۔" ایک لڑکی بولی۔
" ہاں ہاں فیڈر یا گلاس۔" ایک اور بولی۔
" واہ واہ یہ فیڈر تو بڑا پیارا ہے۔ کس بچے کا اٹھا لائی ہو وہ وہاں رو رہا ہے جا کر اسے دو۔" مجتبیٰ ان جو بولا۔
" ہاں ہاں وہ کہہ رہا ہے کچھ چریلیں آئیں تھی اور لے گئیں ہیں۔" ان کے بولنے سے پہلے ہی آرز بولا۔
" پہلی بات یہ ہم لوگ خود خرید کر لائیں ہیں بھائی کے لیے اور دوسری بات بچے بول نہیں سکتے اور بول سکتے بھی ہوتے تو ہمیں چریلیں نا کہتے۔ " ایک لڑکی بولی۔
" چلیں بھائی۔ آپ پئیں۔" ایک اور لڑکی بولی۔
" ہاں بھائی کس میں پئیں گے۔" ایک اور بولی۔
" آبویئسلی گلاس میں۔" پیچھے سے مجتبیٰ نے پھر ٹانگ اڑائی۔
" ہاں تو یہ پانچ لاکھ کا ہے۔"
" واٹ؟؟؟ پانچ لاکھ؟؟؟ یو میں فائف لاک کا یہ دودھ کا گلاس؟؟؟؟ آر یو گون میڈ؟" یہ آرز تھا جس نے پاکستانی رسومات نہیں دیکھی تھی۔
" بھئی شادی کا دودھ ہے دلہے کے لیے۔ اسے سب سے پہلے دلہا پیتا ہے اس کے بعد دلہن اور پھر بچا ہوا دودھ دوست اور بھائی۔" ایک لڑکی بولی۔
" واٹ اتنے لوگ۔" آرز بیچارا
" آپ کو پتا ہے بڑے کہتے ہیں جو دوست یا بھائی یہ دودھ پیتا ہے اس کے شادی جلدی ہوتی ہے۔" ایک اور نے بتایا۔
اس بار آرز اور آبگینہ دونوں حیران رہ گئے۔ یہ کیا لوجک ہوئی۔
" ہیں رئیلی؟" آبگینہ بولی۔
" سچی میں آبگینہ باجی۔ آزمائی بات ہے۔ میرے کزن نے پیا تھا اور دو ماہ بعد ان کی شادی ہوگئی تھی۔" ایک لڑکی بولی۔
بیچارے بہن بھائی سچ مان گئے۔
" بھائی جلدی پیسے دیں اور تھوڑا پینا باقی میں نے پینا ہے۔" پیچھے سے مجتبیٰ بولا۔
" خبردار مجتبیٰ تم نے یہ دودھ کو ہاتھ بھی نہیں لگانا۔ " آبگینہ چلائی۔
" بھائی پیئے ورنہ میں نے پی لینا۔" مجتبیٰ آبگینہ کو کسی خاطر میں نا لاتے ہوئے بولا۔
" جوٹھا پینے سے ہی۔" ایک لڑکی بولی۔
" اچھا یہ سستے والا فیڈر ہی لیلیں۔" ایک اور بولی۔
سب ہنسنے لگے۔
مصطفیٰ نے پانچ لاکھ رکھا اور گلاس اٹھا لیا۔
" اوووو" ساری لڑکیوں نے ہوٹنگ کی۔
مصطفیٰ نے ابھی لبوں کو لگایا نہیں تھا کہ پیچھے سے مجتبیٰ کی آواز آئی۔
" بسسس۔"
" یار پینے تو دو۔" مصطفیٰ بولا
" تھوڑا پینا۔"
" اچھا جی۔ " پھر اس نے دو تین گھونٹ پی کر دعا کو دے دیا۔ دعا نے ایک گھونٹ بمشکل لیا۔ اور پھر گلاس تھا اور مجتبیٰ ۔
" مجتبیٰ نہیں پینا ادھر دو۔" آبگینہ اس کی طرف لپکی۔ لیکن وہ بھی بھاگ گیا۔
" مجتبیٰ" وہ پیچھے سے آواز لگاتی وہ گئی۔
" بھائی۔" آبگینہ روہانسی ہو کر مصطفیٰ کو دیکھا۔
" اوہو یہ سب فضولیات ہیں۔ " مصطفیٰ بولا۔
" سچی؟ بھابی آپ بتائیں؟ "
" ہاں۔"
" لیکن وہ ۔" آبگینہ نے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔
" اوہو آبگینہ باجی۔ ان کی شادی کے ڈیٹ فکس ہوچکی تھی۔" وہ بولی۔
" تو تب ایسی کیوں بولا۔"
" تاکہ ہمیں ہمارے پیسے مل جلدی مل جائیں۔" وہ دانت نکالتی بھاگ گئی۔
" افف۔" آبگینہ کو دور سے آرز اور مجتبیٰ لڑتے نظر آئے وہ ان کے پاس چلی گئی۔
_______
کچھ دہی بعد رخصتی کا وقت ہوگیا۔ دعا کو مصطفیٰ نے ہاتھ سے پکڑ کے نیچے لایا۔ ایک طرف سے آبگینہ نے اس کا لہنگا پکڑ رکھا تھا۔ دعا بہت کوشش کر رہی تھی۔ لیکن آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ نیلم بیگم نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے گلے لگایا۔ بے اختیار وہ رونے لگی۔ نیلم بیگم کو اسے دیکھ کر رونا آیا مگر کنٹرول کیا۔ احمر صاحب نے بھی آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔
" چلو بیٹا۔" راہیلا پھوپھو کی آواز آئی۔
اس نے نظر اٹھا کر سامنے کھڑی گاڑی کو دیکھا۔ وہ مہنگی ترین گاڑی کو پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھرک رہا تھا۔ وہ مرے قدموں سے جا کر گاڑی میں بیٹھی۔ اور نظر اٹھا کر اپنے ماما بابا کو دیکھا جو نم آنکھوں سے مسکرا رہے تھے۔ وہ مسکرا نا پائی۔ اسے لگ رہا تھا کہ ابھی تو لائف شروع ہوئی تھی۔ اتنی جلدی شادی۔ خیر سب گاڑیوں میں بیٹھے۔ نیلم بیگم اور احمر صاحب پر اس نے آخری نظر ڈالی۔ اور گاڑی چلنے لگی۔ ایک نئی منزل کی طرف۔ اس کے اپنے گھر کی طرف۔ جہاں وہ ڈھیروں خوشیوں کی امیدوں کے ساتھ جا رہی تھی۔ ہر لڑکی کو ڈھیروں امیدیں ہوتی ہیں۔ کیا اس سفر کے بعد جو منزل آنی تھی وہ دعا کے کیے مثبت ثابت ہوگی؟؟ کیا دعا وہاں جا کر خوش رہے گی؟؟ یہ سارے سالوں کا جواب وقت نے دینا تھا۔
بقعیہ آئندہ۔۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang