قسط ۹

775 44 15
                                    

دعا کی منگنی کے بعد اب وہ لوگ زوروشور شادی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ وہ لوگ روز شاپنگ پر جا رہی تھیں۔ نیلم بیگم اور احمر صاحب نے کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ دعا کی شادی میں دس دن رہ گئے تھے۔ آج دعا کی دعا خیر تھی۔
دعا نے سفید رنگ کا نیٹ کا سوٹ جس پر سفید ہی رنگ کی کڑھائی کی گئی تھی پہن رکھا تھا۔ نیٹ کے دوپٹے کو بازو پر ڈالا ہوا تھا۔ ساتھ سفید ہی رنگ کا تنگ پاجامہ جس کے پانچوں پر کڑھائی ہوئی تھی۔ نیلم بیگم نے دعا کے دونوں ہاتھوں میں گلابی پھولوں کے گجرے پہنائے۔ اور بالوں کے جوڑے پر بھی گجرے لگائے ہوئے تھے۔ دعا نے ہلکا پھلکا میک اپ کروایا۔ اور نفیس سی جیولری پہنی۔ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔
دعائے خیر کا انتظام میرج ہال کے گارڈن میں کیا گیا تھا۔ دعا کے سسرال والے ابھی نہیں پہنچے تھے۔ لیکن کافی مہمان آنا شروع ہوگئے تھے۔ نیلم بیگم اپنی دوستوں کے پاس تھیں جب پیچھے سے آواز آئی۔
" اسلام علیکم" وہ سمیعہ تھی۔
"وعلیکم سلام سمیعہ۔ ادھر آؤ۔" نیلم بیگم بولی۔ "وہ رہی دعا انتظار کر رہی تھی۔" نیلم بیگم نے دعا جو ایک طرف اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھی اس کی طرف اشارا کیا۔
" جی آنٹی۔" سمیعہ دعا کی طرف چل دی۔
"اسلام علیکم دعا۔" سمیعہ دعا سے ملی۔
"وعلیکم سلام۔" دعا سمیعہ سے ملی۔
" بہت پیاری لگ رہی ہو۔" سمیعہ نے تعریف کی۔
تھیم سفید ہونے کی وجہ سے ہر چیز سفید ہی رنگ کی تھی۔ پورے باغ کو سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ سب لوگوں نے بھی سفید ہی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ہر چیز سفید تھی۔ صوفوں سے لے کر ڈیکوریشن پیسز سے لے کر درختوں تک۔
باہر سے آوازیں آنے لگیں۔ دعا کے سسرال والے آچُکے تھے۔ نیلم بیگم نے ان کا بہت گرم جوشی سے استقبال کیا۔دعا بھی ان سے بہت گرم جوشی سے ملی۔ نیلم بیگم کے کہنے پر کچھ مرد بھی تھے لیکن بہت کم۔ صرف گھر والے۔ مصطفیٰ خان نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ جس پر کڑھائی کی گئی تھی
  کیمرہ مینز اپنا کام بخوبی نبھا رہے تھے۔  ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا کے زمین کے اتنے سے ٹوٹے کو سفید رنگ کر دیا گیا ہو۔
اس فنکشن کے لیے تقریباً پانچ سو عورتیں موجود تھیں۔ علماء آئی اور انھوں نے درس شروع کیا۔ پہلے انہوں نے شوہر اور بیوی کے حقوق کے بارے میں تھوڑا سا بتایا۔
"السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ میں امید کرتی ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہونگے۔ آج ہم سب یہاں دعا بیٹی جن کی کچھ ہی دنوں میں شادی ہے ان کی دعائے خیر کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔" وہ کچھ دیر خاموش ہوئیں۔"اس خوشی میں مجھے بھی مدعو کیا گیا ہے تو چند باتیں اس موقع کی مناسبت سے آپکی نظر کرتی ہوں۔

ہم اسلامی معاشرے کے افراد ہیں اور ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ نمازوں سے نہیں بنتا، روزے سے نہیں بنتا، تسبیح سے نہیں بنتا اسلامی معاشرہ اچھے اخلاق سے بنتا ہے، اچھے اخلاق سے بنتا ہے، اچھے اخلاق سے بنتا ہے۔
ان بیویوں سے کہتی ہوں اپنے خاوند کو سب سے زیادہ عزت، اہمیت دیں۔ شادی کے بعد ماں باپ کا حق پیچھے، بہن بھائوں کا حق پیچھے، حتٰی کے اولاد کا حق بھی پیچھے ہے اور خاوند کا حق پہلے ہے۔ بہت سی عورتیں اپنی نادانی کی وجہ سے ماں باپ کے پیچھے لگ کر اپنے خاوند کو چھوڑ دیتی ہیں۔ اپنے بچوں کی وجہ سے اپنے خاوند کو بے عزت کرتی ہیں۔ بہت سے باپ اپنے بچوں کی وجہ سے بیوی کو بے عزت کرتے ہیں یا اپنے ماں باپ کی وجہ سے بیوی کو بے عزت کرتے ہیں۔ یہ سب بے اعتدالیاں ہمارے معاشرے میں ہیں۔ ایک دوسرے کو عزت دیں، رشتوں کو عزت دیں۔ ہر ایک کا اپنا مقام ہے۔ ہر ایک کو اپنے مقام پر رکھیں۔ ماں باپ کی وجہ سے بیوی کو بے عزت نا کریں۔ بیوی کی وجہ سے ماں باپ کو بےعزت نا کریں۔ بیوی اپنے ماں باپ کی وجہ سے خاوند کو بے عزت نا کرے۔ یہ وہ رشتہ ہے جس میں اولاد بھی داخل نہیں ہو سکتی۔" وہ ایک لمحہ رکی۔ " اولاد کو بھی پیچھے کیا گیا خاوند اور بیوی کے رشتے میں اور یہ وہ رشتہ ہے جسے میرے اللّٰہ نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی بنایا ہے۔
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۱)
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک ا س میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔

فانتم جزاكم الله خيراً
علما نے دونوں کی آنے والی زندگی کے لیے دعا کی۔ 
دعا اور مصطفیٰ اکھٹے بیٹھے تھے۔ ان کی جوڑی نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔
مصطفیٰ آہستگی سے دعا سے مخاطب ہوا۔
"آپ پر سفید رنگ بہت اچھا لگتا ہے۔"
دعا لال ہوگئی۔ مصطفیٰ مسکرا دیا۔
" شکریہ۔" دعا نے بمشکل کہا۔
" بھابی لگتا ہے آپ کی ساری بڑی مجھے دوبارہ بنانی پڑے گی سفید رنگ میں۔" آبگینہ جو سب سن چکی تھی اس نے انھیں تنگ کیا۔ دعا شرم کے مارے نیچے دیکھنے لگ گئی۔ جبکہ مصطفیٰ پہلے ہربرایا پھر آبگینہ کو گھوری سے نوازا۔
"اچھا اچھا سوری۔" آبگینہ ہنستے ہوئے بولی اور راہیلا بیگم کی آواز پر ان کے پاس چلی گئی۔
کیمرا مین ان دونوں کی خوب تصویریں کھینچ رہا تھا۔
کھانا لگ چکا تھا۔ مصطفیٰ اب احمر صاحب اور باقی کے آدمیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ دعا آبگینہ اور راہیلا آنٹی اور باقی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ سمیعہ بھی وہی موجود تھی۔ آبگینہ نے اسے ابھی دیکھا تھا۔ کچھ رسمی بات کے بعد آبگینہ سمیعہ سے پوچھتی ہے
" سمیعہ آپ کیا کر رہی ہیں آج کل۔"
" بس، سسرال میں ہوں نہ تو بہت مصروفیت ہوتی ہے۔"
"اچھا ہاں۔ سہی آپ کے ہزبینڈ کیا کرتے ہیں؟" آبگینہ نے ویسے ہی باتوں باتوں میں پوچھا لیکن دعا اور نیلم بیگم کی سانسیں تقریباً رک گئی۔ ان دونوں کو سمیعہ پسند تو بہت تھی۔ لیکن ان کی خیال سے سمیعہ کے ہزبینڈ کی سادی سی جاب کا جب دعا کے سسرال اور باقی فرینڈز جو کافی امیر خاندانوں سے ہیں تو ان پر برا تاثر پرے گا۔ اس لیے نہیں کہ سمیعہ کی عزت پر آنچ آئے گی یا وہ برا فیل کرے گی۔ بلکہ اس لیے کہ لوگ کیا سوچیں گے کہ دعا کی دوست کس فیمیلی سے بی لانگ کرتے ہے۔ اس سے پہلے کے سمیعہ جواب دیتی اس کا موبائل بجا۔ اس نے ایکسیوز کیا۔ دعا اور نیلم بیگم کی جان میں جان آئی۔
" دعا میں چلتی ہوں عبد اللّٰہ آگئے ہیں۔" سمیعہ جو ایک طرف فون سننے گئی تھی اس نے آ کر کہا۔ دعا اور باقی سب سے مل کر وہ چلی گئی۔ دعا اور نیلم بیگم نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ اب کوئی ایسا سوال نہیں ہوگا سمیعہ کے بارے میں۔
کچھ دیر بعد آہستہ آہستہ سب جانے لگ گئے۔ سب کو جاتے وقت ایک چھوٹا سا میٹھائی کا ڈبہ دیا جا رہا تھا۔ اندر بہت خوبصورت چھوٹی چھوٹی میٹھائی تھی جس پر "ڈی اینڈ ایم"(D & M) لکھا گیا تھا۔
یہ فنکشن بھی ہر فنکشن کی طرح احتتام پر پہنچ گیا۔
بقیعہ آئندہ۔۔۔
Follow me on insta @aaawrites.
I give all updates of upcoming episode there.

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now