قسط ۱۰

833 51 16
                                    

آج دعا کا برائڈل شاور تھا۔ وہ اب اپنے گھر میں چند دن کی ہی مہمان تھی۔ وہ ابھی ابھی سو کر اُٹھی تھی۔ اور چینج کر کے نیچے آگئی۔
"اسلام علیکم ! ماما، بابا جان۔" اس نے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
" وعلیکم سلام۔" دونوں نے اکھٹے کہا۔
" دعا ناشتہ کی فوراً بعد آپ پارلر چلی جانا۔ شام کے لیے تیار ہونے۔" نیلم بیگم نے کہا۔
" اوکے۔" دعا نے کہا۔
ناشتہ کرنے کہ کچھ دیر بعد وہ پارلر چلی گئی۔
______
شام چار بجے دعا تیار ہو چکی تھی۔ اس کا فوٹو شوٹ ہو رہا تھا۔ آدھا فوٹو شوٹ پارلر میں ہونا تھا۔  فوٹو شوٹ کروانے کے بعد وہ لوگ ہال میں پہنچے۔
آج کا انتظام بھی گاڑڈن میں ہی کیا گیا تھا۔ لیکن آج کلر تھیم پنک تھی۔ آج کا فنکشن زیادہ بڑا نہیں تھا۔ بس دعا کی دوستیں اور قریبی احباب ہی موجود تھی۔
چونکہ تھیم پنک تھی اس لیے ہر طرف پنک کلر کے پھول لگے تھے۔ پورا باغ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔
دعا جیسے ہی اندر داخل ہوئی اس پر بہت سی پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئی۔ دعا اس سے بالکل بے خبر تھی کیونکہ اس سب کا انتظام اس کی ماما نے کیا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی واضح تھی۔
نیلم بیگم کو یہ خوشی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ انھوں نے دعا کے اچھے نصیب کے لیے دعا کی۔ اور اپنی نم آنکھیں لبوں پر مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بے نم کی۔
دعا نے پیروں تک آتا سٹریپلیس ہلکے گلابی رنگ کا نیٹ کا فراک پہن رکھا تھا جس کے اگلے حصے پر نیٹ کے بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے۔ ہاتھوں پر اسی رنگ کے بازوؤں تک آتے گلوز۔ گلے میں نفیس سا سلور رنگ کا قیمتی سیٹ۔ کانوں میں سیٹ کے ساتھ ہی کہ بڑے بڑے جھمکے۔ بال سیدھے کر کے کمر پر۔ ایسے لگ رہا تھا کسی پریستان کی شہزادی آرہی ہے۔
دعا سب سے ملی۔ اس کی فرینڈز اسے کیک کٹ کروانے لے گئی۔ اس جگہ کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ہر چیز گلابی تھی۔ اس کے آگے ایک بڑا سا گلابی ہی رنگ کا کیک رکھا گیا تھا۔ جس کے اوپر بڑائیڈ ٹو بی دعا لکھا ہوا تھا۔ دعا اتنی ایکسائٹڈ ہوگئی کے تقریباً اس کی چیخ نکلنے والی تھی۔ دعا نے کیک کٹ کیا۔کیک کٹ کر کے اس نے سب سے پہلے اپنی ماما اور پھر باقی فرینڈز کو کیک کھلایا۔ اس کی فرینڈز نے بھی اسے کیک کھلایا۔مسرتیں دعا کے چہرے کا طواف کر رہی تھی ۔ جبکہ نیلم بیگم کے چہرے پر سکون۔
کیک کٹنگ کے بعد دعا کو سیش پہنائی جس کے اوپر برائڈ ٹو بی لکھا گیا تھا۔ وہ بہت خوبصورت سیش تھی۔ وہ گلابی سیش جس پر سنہری رنگ کڑھائی کی گئی تھی۔ا اس کے بعد دعا کو آبگینہ اور باقی فرینڈز نے مل کر کراؤن پہنایا۔ وہ بہت دل کش کراؤن تھا اور بڑا بھی۔ وہ دعا کے پاپا نے ڈائمنڈ کا بنوایا تھا۔ اس کے اوپر جڑے ہر ہیرے کی چمک آنکھوں کو بھا رہی تھی۔ساری لڑکیوں کی نظر دعا کے تاج پر تھی۔
سب بہت اینجوائے کر رہے تھے۔ ساری لڑکیاں دعا کے ساتھ تصویریں کھینچوارہی تھی ۔ ہر طرف بہت خوشیاں تھی۔ ایسا لگ رہا تھا خوشیوں کا میلا لگا ہوا ہے۔
کھانے میں بہت کچھ سرو کیا گیا۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد سب باری باری جانے لگ گئے۔ اور ایک اور دن گزر گیا۔ دعا اور سمیعہ میں آج پھر سے ہلکی سی تکرار ہوئی۔ کیونکہ آج پھر باتوں باتوں میں کسی نے پوچھ لیا کہ وہ کہاں رہتی ہے۔ اس کے جواب دینے سے پہلے ہی دعا بولی۔
" آج کل یہ لوگ رینٹڈ ہاؤس میں رہ رہے ہیں ان کا اپنا گھر یہ بحریہ ٹاؤن میں بنوارہے ہیں۔"
سمیعہ کو اس کا یہ جواب برا لگا تھا۔ وہ کسی رینٹڈ ہاؤس میں نہیں رہ رہے تھے اور ان کا کوئی نیا گھر نہیں بن رہا تھا۔ دعا نے محسوس نہیں کیا۔ سمیعہ کے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات نمایاں تھے۔ لیکن دعا نے نظر انداز کردیا تھا۔
_______
آج دعا کی چھوٹی سی ڈھولکی کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس ڈھولکی میں صرف لڑکی والے ہی تھے۔ ڈھولکی کا انتظام ہال میں کیا گیا تھا۔
دعا نے لال رنگ کی پیروں سے اوپر تک کی آتی میکسی جس پر گولڈن رنگ کا کام تھا۔ ساتھ میں تنگ پاجامہ اور ہم رنگ کام دار ڈوپٹہ۔ ہلکا پھلکا میک اپ، ہاتھوں میں کنگن، کانوں میں خوبصورت جھومر۔
مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ آج انھوں نے لڑکے والوں کے ساتھ کامپیٹیشن کے لیے فائنل تیاری کرنی تھی۔
ساری لڑکیاں نیچے بچھائی گئی چادر پر بیٹھ گئی۔ اس پر ڈھولکی پڑی تھی۔ ایک لڑکی نے ڈھولکی بجانا شروع کیا اور باقی ساری لڑکیاں ہر حرف سے گانے گانے لگی۔ کیونکہ انھوں نے لڑکے والوں کو مات دینی تھی۔ کافی دیر گانوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ کھانا لگایا گیا۔
کھانے کے دوران دعا کی ایک دوست نے سمیعہ سے آبگینہ والا سوال کیا۔ لیکن اس بار کوئی معجزہ نہیں ہوا اور اس نے بول دیا۔
" میرے ہزبینڈ ایک انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں آز آ ورکر کام کرتے ہیں۔"
" اوہ آئی سی۔" وہ بس اتنا ہی بول پائی۔
لیکن دعا اس کا لہجا سمجھ چکی تھی۔ لیکن سمیعہ انجان تھی۔ وہ سچ میں انجان تھی یا بن رہی تھی۔ کون جانے۔۔۔
خیر دعا کو یہ اپنی بے عزتی لگی تھی۔ وہ سمیعہ کی دوست تھی لیکن اسی وجہ سے اس نے اسے کبھی اپنے اور دوستوں سے ملوایا نہیں تھا۔ کھانا کھانے کے بعد مہمان جانا شروع ہو گئے ۔
اس دوران دعا سمیعہ سے کافی ناراض سی تھی جو سمیعہ محسوس کر چکی تھی۔ مہمان آدھے رہ چکے تھے۔ جب سمیعہ نے دعا کو اکیلے کھڑے ہوئے دیکھا۔
" دعا دعا۔ " وہ اس کے قریب آئی۔ دعا اس کو دیکھ کر وہاں سے جانے لگی۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
" کیا ہوا ہے دعا۔" سمیعہ نے پوچھا۔
" تم نے ابھی ابھی سب کے سامنے میری بے عزتی کروائی اور اب پوچھ رہی ہو کیا ہوا ہے۔" دعا بولی۔
" میں نے بے عزتی؟ کب؟ " سمیعہ حیران ہوئی۔
" یار سوہا کے پوچھنے پر تم نے ابھی ابھی بتایا نہیں کہ تمہارا شوہر ایک عام سا ملازم ہے۔ کیا سوچ رہی ہونگی میرے بارے میں۔" دعا نے یاد کروایا۔
" دعا میں کیا کہتی؟"
" کچھ بھی کہ لیتی۔ تمہیں میری عزت کا تو کوئی خیال ہی نہیں ہے۔ تمہیں تو لوگوں کو اپنے ہالات بتا کر ہمدردیا لینی ہیں۔" دعا غصے میں تنزیہ بولی۔
سمیعہ کے دل میں اس کے الفاظ تیر کی طرح لگے۔
" معاف کردیں مجھے مہارانی صاحبہ۔ میں نے غلطی کردی جو آپکی تقریب میں آکر اپنا تعارف کروادیا۔" سمیعہ طنزیہ بولی۔ وہ بہت دُکھی ہوئی تھی دعا کے الفاظ سے۔
" تمہیں ویسے ہی ہمدردیاں اکٹھی کرنے کی عادت ہے۔ جب سے تمہاری اس غریب خاندان میں شادی ہوئی ہے۔"
" ہاں میرا شوہر ملازم ہے۔ ہاں میرا شوہر خانز امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں ایک ملازم ہے میں مانتی ہوں۔ میں خوش ہوں۔ کم از کم میرا شوہر بیروزگار تو نہیں نا۔ اور دعا میری ایک بات یاد رکھنا یہ جو تم میں پیسوں کا اتنا گھمنڈ ہے نا۔ ایک دن یہ تمہیں لے ڈوبے گا۔ کوئی خوشی نہیں دے گا۔" سمیعہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ وہ دعا کو بول کر چلی گئی۔ لیکن جیسے دعا کے الفاظوں نے اس کے دل پر تیروں کا کام کیا تھا۔ اور اسے بہت دُکھی کیا تھا ویسے ہی سمیعہ کی بد دعا نیلم بیگم جو ان کے پاس آتے آتے رک گئی تھی اور ساری باتیں سن لی تھی ان کے دل پر تیروں کا کام کر رہا تھا۔ انھوں نے اپنے آنسو پونجے اور اپنی بیٹی کے لیے دعا کی۔
بقیہ آئندہ۔۔۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Where stories live. Discover now