اگلے دن وہ انٹرویو کے لیے گئی۔ مینیجر نے انٹرویو لے لیا اور سمیعہ سیلیکٹ بھی ہوگئی۔
آج وہ آفس میں موجود تھی۔
دعا اپنے آفس میں بیٹھی تھی۔ اس کی نظر اس پر پڑی۔ وہ دیکھتی رہ گئی۔ اس کے چہرے پر حیرانی ہی حیرانی تھی۔ وہ شاید اپنوں آنکھوں سے تصدیق چاہ رہی تھی۔ لیکن جب یقین ہوگیا تو اسے پہلے غصہ آیا۔ لیکن پھر وہ طنزیہ مسکرانے لگی۔ کچھ دیر بعد اس نے ریسیپشن پر فون کر کے کہا کہ اسے اندر بھیجیں۔ کچھ دیر بعد وہ آئی۔
" مے آئی کم ان؟" سمیعہ نے اجازت مانگی۔
" یس۔" دعا نے فائل سے نظریں اٹھا کر کہا۔
دعا نے اس کی طرف دیکھا وہ ایک پرانے سے کرتے میں ملبوس تھی۔ سر پر اچھے سے ڈوپٹا لیا تھا۔ اور ہونٹوں پر لپ سٹک۔ آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے۔ رنگ آگے سے بھی سانولا۔ دعا دل میں مسکرائی۔اور دل ہی میں بولی" کیا اچھا وقت دیا تھا میں نے تمہیں۔ تمہاری غریبی کا کبھی مزاق نہیں اڑایا لیکن تم نے میرے فنکشن میں میری دوستوں کو اپنی غریبی کا رونا رو کے میرا جو مزاق اڑایا تھا وہ نہیں بھولی میں۔"
" بیٹھیں۔" دعا بولی۔
سمیعہ خاموشی سی بیٹھ گئی۔
" so introduce yourself(اپنا تعارف کروائے)" دعا بولی۔
" میرا نام سمیعہ عبداللّٰہ ہے۔ میں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے۔" سمیعہ اپنی حیرت کو سنبھالتے ہوئے بولی اسے لگا تھا دعا اس پر طنز کرے گی۔
" ہمم۔ آپ کے پاس کوئی تجربہ ہے؟" دعا نے پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا۔
" نہیں۔"
" کیا آپ یہ نوکری کر پائیں گی؟"
" جی۔"
" اوور ٹائم وغیرہ بھی دے لیں گی؟"
" جی۔"
" ہمم۔ ٹھیک ہے۔ آپ کو کام سمجھ آگیا ہے؟"
" جی۔"
" گڈ فار یو۔ اب آپ جا سکتی ہیں۔" دعا بولی۔
" سمیعہ اٹھ کر جانے لگی تو دعا پھر بولی۔
" ایک کپ کافی بنا کر لا دیں۔"
" جی۔" سمیعہ بولی اور باہر نکل آئی۔
دعا طنزیہ مسکرائی۔
اور اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
————-
سمیعہ کو کام کرتے ہوئے تقریباً دو ہفتے ہوگئے تھے۔ ان دو ہفتوں میں دعا نے اس سے اتنا کام لیا تھا کہ وہ اوور ٹائم ہی کرتی رہی تھی۔ پھر بھی کسی نا کسی وجہ سے ڈانٹ ہی پڑی تھی۔
" سمیعہ میم کہہ رہی ہیں کہ آپ سر کے آفس میں پہنچیے۔" اس کے کولیگ نے آکر بتایا۔
" اوکے۔" وہ اٹھی اپنا ڈوپٹا ٹھیک کیا اور اندر چلی گئی۔
" مے آئی کم ان۔" سمیعہ نے پوچھا۔
" یس۔" مصطفیٰ کی بھاری آواز آئی۔
وہ اندر آئی تو مصطفیٰ بیٹھا تھا جبکہ اس کے سامنے دعا۔
" مس سمیعہ۔ میں نے آپ کو ایک کام دیا تھا۔ ایک فائل تھی جو آپ نے ریڈی کرنی تھی۔ آپ کو میں نے خود کلیئر انسٹرکشنز دی تھی۔ آپ نے اس کے اندر اتنی میجر مسٹیکس کی ہیں۔ جبکہ میں نے آپکو کہا تھا اس میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر آپ کو کوئی کنفیوژن تھی تو آپ میرے پاس آجاتی، دعا کے پاس چلی جاتی۔ لیکن آپ نے آپنی مرضی کی۔
This type of attitude is not allowed in this office." مصطفیٰ اس وقت سچ میں بہت غصے میں تھا۔
" سر۔"
" I don't want any excuses." مصطفیٰ غصے سے گرایا۔ " جائیں اور کل صبح نو بجے تک مجھے وہ فائل چاہیے۔ کوئی غلطی نا ہو۔ "
سمیعہ خاموشی سے نکل گئی۔
" کام ڈاؤن مصطفیٰ۔" دعا نے اسے ٹھنڈا کیا۔
" دعا ساری فائل غلط ہے۔"
" کوئی بات نہیں۔ دوبارہ بنا کر لاتی ہے۔ اس کی وجہ سے آپ اپنا خون تو نہ جلائے نا۔" دعا نے پیار سے کہا۔ اسے سمیعہ سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ لیکن وہ مصطفیٰ کا غصہ ٹھنڈا کروانا چاہتی تھی۔
————
وہ فائل مصطفیٰ نے اسے چار دن پہلے دی تھی۔ تین دن میں تیار کرنے کے لیے۔ ایک دعا نے اس پر بہت برڈن ڈالا تھا کہ اسے ٹائم ہی نہیں ملا۔ کل حور کی طبیعت کل خراب تھی۔ اس نے کل ہی جلدی جلدی کر کے دی اور چلی گئی۔ آج ابھی وہ آئی ہی تھی۔ آج اس نے ہاف لیو پر جانا تھا حور کو بخار تھا۔ لیکن یہ فائل تو اب کرنی ہی تھی۔
سمیعہ نے جلدی جلدی کی لیکن پھر بھی رات نو بج گئے۔ اس نے وہ فائل چیک کروائی اور گھر آئی۔
———-
گھر آکر روز کی طرح لیٹ آنے پر ساس سے تو ڈانٹ پڑی ہی۔ عبداللّٰہ بھی غصے میں تھا۔ اور حور کا رو رو کے الگ برا ہال تھا۔ سمیعہ کو اس دن بہت برا محسوس ہوا۔
اب روز کا کام تھا سمیعہ اوور ٹائم کرتی تھی۔ دعا تو پہلے ہی اس کے ساتھ اچھی نہیں تھی۔ اور مصطفیٰ کے سامنے بھی اس کا امپریشن غلط آیا تھا۔ خیر وہ کوشش کر رہی تھی کہ اس کا امپریشن اچھا آۓ۔
————-
اس دن وہ گھر گئی تو حور بہت بیمار تھی۔ عبداللّٰہ بھی ابھی واپس آیا تھا وہ دونوں حور کو لے کر ہسپتال کے لیے نکلے۔
____________
"دعا! " مصطفیٰ اسے پکارتا اس کے آفس میں آیا۔ " جلدی اٹھو۔"
" کیا ہوا مصطفیٰ؟" دعا حیرانی سے بولی۔
" مجتبیٰ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ ہمیں فوراً ہسپتال جانا ہے۔" مصطفیٰ پریشانی سے بولا۔
" کیااااا؟؟؟" دعا چلائی اور اٹھ کر اپنا بیگ اٹھایا اور مصطفیٰ کے ساتھ باہر نکلی۔
____________
" کاؤنٹر پر پیمنٹ کر آئے۔" نرس نے اسے کہا۔
وہ کاؤنٹر پر گیا۔
" دیکھے پلیز ہم بہت غریب ہیں۔ پلیز میری بیٹی کا علاج کردے۔"
" دیکھے یہ پرائیوٹ ہسپتال ہے کوئی گورنمنٹ نہیں۔ آپ کسی گورنمنٹ میں لے جائیں۔" اس نے پروفیشنلی کہا۔
پاس ہی نرس نے حور کو اٹھایا ہوا تھا۔
دعا اور مصطفیٰ مجتبیٰ کو لے کر واپس جارہے تھے۔ مجتبیٰ کو ہلکی سی ہاتھ پر چوٹ لگی تھی۔
" مصطفیٰ سو کیوٹ بے بی۔" دعا نے حور کو دیکھ کر کہا۔
مصطفیٰ بھی متوجہ ہوا۔
اس کی نظر پاس کھڑے کپل پر پڑی جو اب اپنی بیٹی کو شاید لے کر جارہے تھے۔
" دعا یہ تو ہمارے آفس کی ورکر ہے۔"
دعا کی نظر سمیعہ پر پڑی۔ "سمیعہ " وہ بڑبڑائی۔
" آئی تھنک دی نیڈ ہلپ۔" دعا بولی
" کیا سب ٹھیک ہے۔" مصطفیٰ نے آگے ہو کر پوچھا۔
" سر آپ! دعا! میم۔" اس نے شاک کی کیفیت میں کہا۔ دعا کے آگے میم اس نے ہوش میں آ کر کہا۔
" جی کیا کوئی مسئلہ ہے۔" مصطفیٰ عبداللّٰہ اور پاس کھڑے ڈاکٹر سے پوچھا۔
" جی وہ پے منٹ۔ ان کی بیٹی کو ملیریا ہے۔" ڈاکٹر بولے۔
" آپ ٹریٹمنٹ کریں پیمنٹ میں کرونگا۔" مصطفیٰ بولا۔
مصطفیٰ نے پیمنٹ کی۔ دعا سمیعہ کے پاس گئی اور بولی۔" تمہیں تمہاری بیٹی بہت مبارک ہو۔ تم نے تو خوشخبری بھی نہیں دی۔ خیر یہ خوشخبری جو میرے خیال سے تمہیں کچھ ماہ پہلے ملی ہے وہ آج بری خبر بن جاتی۔ لیکن مجھے وہ بچی پیاری لگی تھی اس لیے میں نے اس کا علاج کروا دیا۔ اور تمہاری خوشخبری کو وہی رہنے دیا۔ پیمنٹ کردی ہے علاج کرواؤ۔ اور تو کچھ ہے نہیں۔" وہ طنزیہ مسکرائی اور مصطفیٰ کے پاس آگئی۔
وہ تینوں گھر آگئے۔
پیچھے سمیعہ کے دل میں اس دن پہلی مرتبہ اللہ سے گلہ آیا تھا۔ اسے وہ وقت بھی یاد تھا۔ جب دعا کی نظر میں امیری غریبی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ شاید بچپنا تھا۔
_____________
سمیعہ تین دن کی چھٹی پر تھی۔ آج وہ واپس آفس آئی تھی۔ اس کا کافی کام رہتا تھا۔ وہ جلدی جلدی کر رہی تھی۔ اتنے میں دعا کا بلاوا آگیا۔
وہ اٹھی اور اس کے آفس میں گئی۔
" تو کیسی گزری چھٹی۔" دعا نے طنزیہ پوچھا۔
" میم میری بیٹی بیمار تھی۔" اس کا ضبط جواب دے رہا تھا۔
" کیسی ہے اب وہ۔" دعا نے لا پروائی سے پوچھا۔
" جی ٹھیک۔"
" ہاں اتنے اچھے ہسپتال سے علاج کروایا ہے۔"
" جی شکریہ۔"
" ہمم۔ چلو یہ فائلز دیکھ لو۔"
وہ آفس سے نکلنے لگی تھی کہ مصطفیٰ آگیا۔
" گڈ مارننگ سر۔" سمیعہ نے اسے دیکھ کر کہا۔
" گڈ مارننگ۔ آپ کی بیٹی کیسی ہے سب؟"
" جی ٹھیک ہے۔"
" گڈ خیال رکھے اس کا۔"
" جی۔" وہ کہہ کر باہر نکل گئی۔
—————
سمیعہ انتہائی صبر سے کام لیتی رہی اور تین ماہ گزر گئے۔
" سمیعہ وہ دن آگیا جس کا مجھے انتظار تھا۔ میری بہت اچھی جاب لگ گئی ہے ہم دوسرے شہر جارہے ہیں۔" عبداللّٰہ نے سمیعہ کو خوشی سے بتایا۔
" ماشاءاللّٰہ میں بہت خوش ہوں۔"
" ہاں تم ریزائن کرو۔"
" اچھا۔"
اگلے دن اس نے ریزائن کیا اور کچھ دنوں بعد وہ لوگ دوسرے شہر چلے گئے۔
—————
بقیعہ آئندہ۔۔۔
Please give your feedback.
YOU ARE READING
لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل)
FantasyThat's my first story ... hope u like it .... and if u like so don't forget to vote and place your precious comments 😊😊