قسط ۴

900 57 12
                                    

اگلے دن دعا صبح دس بجے سمیعہ کی طرف چلی گئی۔اس نے رات کو کپڑے پیک کر لیے تھے۔ اس نے ساری ٹوکریاں گاڑی میں رکھوالی اور چلی گئی۔ دعا سمیعہ کے گھر پہنچی۔ اور اسے سمیعہ کی چچی کا بیٹا اور بھائی نظر آیا۔ وہ ان کی مدد سے گفٹس اندر لے کر گئی۔ دعا نے نو ٹوکریاں تیار کی ہوئی تھی۔
"اسلام علیکم۔" دعا سمیعہ کی امی سے ملی۔
"وعلیکم سلام بیٹا۔ کیسی ہو؟" آنٹی نے پوچھا۔
"ٹھیک۔ آپ سنائے؟" دعا نے کہا۔
"اللّٰہ کا شکر۔" آنٹی نے کہا اور پھر ٹوکریاں دیکھ کر بولی "یہ سب کیا ہے؟"
"آنٹی سمیعہ کے لیے گفٹ۔" دعا نے کہا۔
سمیعہ بھی آگئی۔
"بیٹا اتنا کچھ۔"
"کہا اتنا کچھ اور جو بھی لائی ہوں اپنی بہن کے لیے لائی ہوں۔" دعا نے کہا۔
"آگئی تم۔" سمیعہ اسے دیکھ کر بولی۔
"ہاں یار۔ ساری رات نیند نہیں آئی۔" دعا نے بتایا۔
"ہاہا۔ تم پر میری والی کیفیت کیوں طاری ہوئی ہے۔ اچھا ہاں سچی مصطفیٰ سردار خان کی وجہ سے۔" سمیعہ بولی۔
"سمیعہ دفا ہو۔ تمہاری وجہ سے سوئی نہیں اور تم۔" دعا کو غصہ آگیا ۔
"اچھا جی۔پھر آؤ کام کروا دو۔" سمیعہ بولی ۔
"اچھا چلو ۔" دعا نے کہا۔
"سمیعہ یہ میں تمہارے لیے لائی ہوں۔ ان کو میں نے بہت محنت سے پیک کیا ہے۔ ایسے ہی لے جاؤ ۔" دعا نے ٹوکریوں کی طرف اشارا کیا۔
"ہائے اتنا کچھ کیا لے آئی بی بی۔" سمیعہ بولی۔
"آؤ دکھاؤ۔ " دعا بولی۔ "یہ والی ٹوکری میں فینسی کپڑے ہیں، یہ سوٹ ہیں پورے اور یہ کُرتے، یہ ڈوپٹے، یہ جوتے، یہ ہینڈ بیگز، جیولری، میک اپ اور یہ چاکلیٹس۔ "
" اف اتنا کچھ کیوں لائی۔ اتنی ساری چیزیں۔" سمیعہ نے کہا۔
"بس کرو یار۔" دعا بولی
"نہیں دعا اتنا کچھ نہیں لینا میں نے۔" سمیعہ بولی۔
"اچھا۔ پھر میں بھی جاؤ گی۔" دعا خفگی سے بولی۔"یار تم کیوں شرمندہ کر رہی رکھ لو چپ کر کے ۔"
"اچھا ۔" سمیعہ ہار مان گئی۔
انھوں نے سب کچھ پیک کیا۔
ساری لڑکیوں نے شام کو مہندی لگائی۔
"دعا تم بھی لگوا لو۔" چچی نے کہا۔
"اچھا جی۔کوئی فارغ ہوتی ہے تو لگوا لیتی ہوں۔" دعا نے کہا۔
"آمنہ بیٹا آپ یہ ہاتھ مکمل کر کے دعا کو لگا دو۔" چچی نے کہا۔
"اچھا مامی۔" اس نے بولا۔
——-
"ماشاءاللّٰہ دعا تمہاری مہندی کا تو بہت تیز رنگ آیا۔ تمہاری ساس تم سے بہت پیار کرے گی۔" چچی نے کہا۔
دعا لال ہوگئی۔
"اوہو اتنا بلش۔ ہاں تمہارا تو رشتہ ہو گیا ہے نا۔" چچی نے چھیڑا۔
دعا مسکرادی۔
ساری لڑکیوں نے دعا کو بہت چھیڑا۔
اور پھر وہ لوگ ڈھولکی لے کر بیٹھ گئی۔ بہت گانے گائے۔ بہت مزا کیا۔
رات گیارہ بجے وہ لوگ فارغ ہوئے۔
"دعا بیٹا آپ گھر اکیلے نہیں جاؤ۔ " سمیعہ کی چچی نے کہا۔
"آنٹی میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔ اس لیے بابا کو کال کردی۔ وہ آفس سے لیٹ فری ہوئے تھے تو وہ ابھی گھر جاتے ہوئے مجھے لے جائیں گے ۔ ان کے ساتھ ڈرائیور ہے۔" دعا نے بتایا۔
"اچھا سہی ہے۔اندر بلا لینا۔" چچی نے کہا۔
"نہیں آنٹی کل آئے گے وہ۔" دعا نے کہا
"اوکے سمیعہ۔ بائے۔ دھیان رکھنا۔ میں صبح جلدی آجاؤں گی۔" دعا سمیعہ سے ملی اور آگئی۔
__________
آج سمیعہ کا نکاح تھا۔ بارہ بجے بارات نے آنا تھا۔ دعا صبح چھ بجے اٹھ گئی۔ دعا تیار ہو کر سات بجے نیچے آئی۔ اس نے سلور کلر تنگ اور چھوٹا سا سلیولس بلاؤز کے ساتھ گلابی رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا جس پہ سلور کلر کا کام ہلکا پھلکا اور نفیس کام کیا گیا تھا اور ساتھ سلور کلر کا کام والا ڈوپٹا۔بالوں میں کرلز ڈالے ہوئے تھے اور ساتھ ہلکی پھلکی جیولری پہن رکھی تھی۔
"ماشاءاللّٰہ! بہت پیاری لگ رہی ہو۔ کسی کی نظر نا لگے۔" نیلم بیگم نے دعا کو دیکھتے ہی بولا۔
دعا مسکرائی۔
"ماما میں جا رہی ہوں۔ آپ لوگ بھی جلدی آجانا۔" دعا نے کہا۔
"اوکے بیٹا۔" نیلم بیگم نے کہا۔
دعا چلی گئی۔
دعا سمیعہ کے گھر تو سمیعہ اپنے کمرے میں تھی۔دعا اس کے کمرے میں چلی گئی۔
"سمیعہ۔" دعا نے آواز دی۔
"دعا۔" سمیعہ رو رہی تھی۔
"کیا ہوا سمیعہ؟" دعا بولی۔
"میں تمہیں بہت یاد کروں گی۔" سمیعہ نے کہا۔
دعا نے بمشکل اپنا رونا ظبت کیا۔ اور اسے چپ کروایا۔
ان لوگوں نے انتظام گھر کے سامنے ایک پلاٹ میں کیا ہوا تھا۔ساڑھے آٹھ بجے پارلر والی آئی۔ دعا نے اس کے سر پر کھڑے ہو کر سمیعہ کو تیار کروایا۔  دعا سمیعہ کے پاس ہی رہی۔ گیارہ بجے مہمان آنا شروع ہوگئے۔
"دعا!" چچی نے دعا کو بلایا۔
"جی آنٹی۔" دعا چچی کے پاس گئی۔
"بیٹا ماما بابا؟" چچی نے پوچھا۔
"آنٹی گھر سے نکل آئے ہیں۔ پہنچنے والے ہونگے۔" دعا نے بتایا۔
باہر سے سلام کی آواز آئی۔
"اچھا ٹھیک ہے ۔ میں ذرا باہر دیکھو کون آیا ہے۔" چچی نے کہا۔
"ہاں میرے خیال سے ماما اور بابا جان ہی ہیں۔" دعا نے کہا۔
چچی باہر چلی گئی۔
_______
"اسلام علیکم!" نیلم بیگم نے داخل ہوتے ہی سمیعہ کی امی سے سلام کیا۔
"وعلیکم سلام!" سمیعہ کی امی نے ان کا اچھے سے استقبال کیا۔
سمیعہ کے چچا نے احمر صاحب کو کمپنی دی۔
"بہت بہت مبارک ہو۔" نیلم بیگم نے کہا۔
"خیر مبارک۔ " سمیعہ کی امی نے کہا۔
"سمیعہ کہاں ہے؟" نیلم بیگم نے پوچھا۔
"تیار ہو رہی آئیں ملوا دیتی ہوں" چچی نے کہا
"ماشاءاللّٰہ ہماری دلہن کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔" نیلم بیگم نے سمیعہ کو دیکھتے ہی کہا۔سمیعہ نے پیچ کلر کے فراک جس کے گلے پر گولڈن رنگ کا نفیس سا کام کیا گیا تھا۔ اور اس کے ساتھ پیچ کلر کا چوری دار پاجاما پہن رکھا تھا۔ اور سرخ رنگ کی شال جس پر گولڈن رنگ کا کام ہوا تھا وہ کندھے پر ڈال رکھی تھی۔ اور پیچ ہی کلر کے نیٹ کے ڈوپٹے کو گھونگٹ کی طرح سیٹ کر رکھا تھا۔ بالوں میں کرلز ڈال کر ایک سائڈ پر سیٹ کیا ہوا تھا۔ اور اپنے مہندی لگے ہاتھوں میں سفید پھولوں کے گجرے پہن رکھے تھے۔ گلے میں سفید موتیوں والا گولڈن رنگ کا چھوٹا سا سیٹ پہن رکھا تھا۔ اور ساتھ جھمکے اور بندیا۔ سمیعہ سادی مگر بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
" ہے نا ماما۔" دعا نے بھی کہا۔
چچی اور امی مسکرادی۔
سمیعہ کو پارلر والی لاسٹ ٹچز دے رہی تھی۔
" آۓ آپ بیٹھے۔" چچی نے کہا۔
" ہاں جی۔" وہ ادھر ہی بیٹھ گئے۔
" آپ کو بھی بہت بہت مبارک ہو۔ سمیعہ نے بتایا ہے کہ دعا کا بھی رشتہ ہو گیا ہے۔" امی نے بتایا۔
"ہاں جی۔ خیر مبارک۔" نیلم بیگم بولی۔
" اللّٰہ نصیب اچھے کرے۔" چچی بولی۔
" آمین۔" ماما اور امی اکھٹے بولی۔
پارلر ولی چلی گئی۔
"سمیعہ یہ میں تمہارے لیے لائی ہوں۔ " نیلم بیگم نے ڈائمنڈ سیٹ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
"نہیں یہ کیا کر رہی ہے آپ۔ کل دعا اپنا کچھ دے کر گئی ہے۔" آنٹی نے منع کیا۔
"میں اپنی بیٹی کو دے رہی ہوں ۔ اور یہ ماں دے رہی کل بہن دے کے گئی تھی۔ کیا میں ماں نہیں؟" نیلم بیگم نے کہا۔
آنٹی چپ ہوگئی۔
"شکریہ یہ بہت پیارا ہے۔" سمیعہ نے کہا۔
باہر سے بارات آگئی کی آوازیں آنے لگ گئی۔ وہ تینوں جلدی سے باہر گئی۔
بقیہ آئندہ۔۔۔

لاڈوں میں پلّی (ناول) (مکمل) Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz