حوریہ کا زخم آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہا تھا مگر ابھی وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔۔ اسے کمرے میں کھانا کھلا کر بہرام باہر آیا تھا اور ڈائننگ پر بابا سائیں اور امی کہ ساتھ ڈنر کرنے لگا۔۔ ابھی ان سب نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ نیہا بھی وہاں چلی آئی۔۔ اسے وہاں دیکھ کر بابا سائیں اور بہرام دونوں بے حد حیران تھے جبکہ ریحانہ بیگم نیہا کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔۔ وہ ان کا مان اتنی جلدی رکھ لے گی انہیں امید نا تھی۔۔
وہ سب کو سلام کرتی وہیں ان کہ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔۔ کھانا خاموش ماحول میں کھایا گیا ۔۔۔ کھانے کے بعد نیہا اپنے کمرے میں جانے لگی تو بہرام نے اسے آواز دی۔۔
"آ جاؤ باہر واک کرتے ہیں۔۔ موسم اچھا ہے کافی۔۔ "
"لیکن حوریہ۔۔"
نیہا جھجکتے ہوئے بولی"وہ ابھی سوئی ہے دوا لے کر۔۔ تم آ جاؤ باہر۔۔ "
بہرام کے کہنے پر وہ اس کہ ساتھ باہر آ گئی۔۔ وہ دونوں لان میں واک کر رہے تھے۔۔ دونوں کے درمیان کچھ نا بدل کے بھی سب کچھ بدل گیا تھا۔۔ وہ پہلے والی بے تکلفی وہ پہلے والا مان کہیں ہوا میں ہی تحلیل ہو گیا تھا۔۔"میں سوچ رہا ہوں کیوں نا اگلے ہفتے ہم ناران چلیں۔۔ "
بہرام نے بات شروع کی۔۔"ہاں ٹھیک ہے۔۔ کچھ دن ماحول تبدیل ہوجائے گا۔۔ "
وہ جواباً بولی۔۔"تم بہت اچھی ہو نیہا۔۔ جس طرح سے تم نے حوریہ کا قبول کیا ہے۔۔ اب مجھے تم پر بہت فخر ہوتا ہے کہ تم میری بیوی ہو۔۔ میری پسند ہو۔۔ "
بہرام اس کے سامنے آتا اس کہ دونوں ہاتھ تھام کر بولا"میں اچھی نہیں ہوں بہرام بس قسمت نے مجھے صابر بنا دیا ہے۔۔ تمہیں پتا ہے مجھے حوریہ بہت بری لگتی ہے۔۔۔ میں جب اسے تمہارے ساتھ دیکھتی ہوں دل چاہتا ہے یا اسے کچھ کر دوں یا خود کو ختم کر لوں۔۔ "
نیہا نم لہجے میں بولی۔۔ بہرام خاموشی سے اسے سنتا رہا۔۔۔ آج بہت عرصے بعد وہ اپنے دل کا غبار نکال رہی تھی۔۔"میں جھوٹ نہیں بولوں گی ۔۔ جب تمہاری حوریہ سے شادی ہوئی تھی میں نے یہی سوچا تھا اسے بہت تکلیف دوں گی۔۔۔ کچھ بھی کروں گی لیکن اسے تمہارے قریب نہیں ہونے دوں گی۔۔ ہر طرح کی کوشش کر کہ اسے تمہارے دل سے اتار دوں گی لیکن تمہاری شادی پر جو تکلیف میں نے برداشت کی۔۔ تمہیں اس کہ ساتھ کھڑا دیکھ کر جس طرح سے میرا دل دکھتا تھا اس سب نے میرے دل سے حوریہ کو تکلیف دینے کا خیال نکال دیا۔۔ مجھے خود کو اتنی تکلیف ہوئی کہ میں اسے تکلیف دینا بھول ہی گئی۔۔ "
دو چار آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کا گال بھگو گئے تھے۔۔"آئی ایم سوری نیہا۔۔ تمہیں اتنا کچھ برداشت کرنا پڑا۔۔ "
بہرام اپنی انگلی سے اس کہ آنسو صاف کرتا ہوا بولا"جب جب تمہیں اس کہ ساتھ دیکھتی تھی دل پھٹنے لگتا تھا۔۔ پھر اپنی تکلیف پر احساس ہوا کہ حوریہ کو بھی تو میرے والا درد ہی سہنا پڑ رہا ہے۔۔ اسے بھی مجھے تمہارے ساتھ دیکھ کر اتنی ہی تکلیف ہوتی ہوگی جتنی مجھے ہوتی ہے۔۔ وہ بھی ویسے ہی شراکت برداشت کر رہی ہوگی جیسے میں کر رہی ہوں۔۔ ہم دونوں ہی ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔۔ جب اسے تمہیں مجھ سے چھیننے کی کوئی خواہش نہیں ہے تو میں کیوں تمہیں اس سے چھینوں۔۔ میں کیوں کسی کی حق تلفی کروں۔۔؟ آخر کو وہ بھی تمہارے ساتھ ویسے ہی نکاح کرکہ رخصت ہوئی ہے جیسے میں ہوئی تھی۔۔ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا بھاگ کر شادی نہیں کی عزت کے ساتھ نکاح کیا ہے وہ بھی اپنے بڑوں کی مرضی سے تو وہ پھر حقیر کیوں۔۔؟ اس کہ ساتھ ظلم کیا جائے اور مجھ پر ترس کیوں کھایا جائے۔۔ وہ بھی میرے ساتھ ایک ہی دوراہے پر کھڑی ہے تو اس کو بھی وہی عزت وہی مقام ملنا چاہیے جو مجھے ملا ہے۔۔ وہ تمہاری بیوی ہے تم پر ہر طرح کے حقوق رکھتی ہے۔۔ چاہے پہلی بیوی ہو یا دوسری۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔۔ ہمیشہ ایک سا ہی تو نہیں ہو سکتا نا کہ دوسری بیوی کو حقیر ہی سمجھا جائے۔۔۔ یا پہلی بیوی ظالم جابر ہی بن جائے۔۔۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اپنی قسمت سے سمجھوتا بھی تو کر سکتی ہیں نا۔۔۔ بس میں نے بھی سمجھوتا کر لیا ہے اور وہ بھی اپنی قسمت پر شاکر ہوگئی ہے۔۔ "
وہ اپنے آنسو دھکیلتی سنجیدگی سے بولتی گئی۔۔ وہ ساری باتیں جو وہ اب تک اپنے دل میں دبا کر بیٹھی تھی وہ سب بہرام سے کہتی گئی۔