"کہنے کو تو عورت ذات بہت نازک ہوتی ہے مگر میری نظر میں اس سے زیادہ صابر اور کوئی نہیں۔خاموشی سے دکھ،درد،اذیت کو سہہ لینا،اپنی خواہشوں،خوابوں کا گلا گھونٹ دینا یہاں تک کے اپنی پسند،ناپسند کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھنا کے کسی کا دل نا دکھے"
ابھی اس نے یہی لکھا تھا کے کسی نے اس کے ہاتھ سے ڈائری جھپٹی
"تم کیا ہر وقت لکھتی رہتی ہو ویسے مجھے یہ سب پرھنے کا شوق تو نہیں ہے لیکن آج میں ضرور پڑھوں گی" اس لڑکی نے کہا اور صفحوں پر لکھی سطریں پرھنے لگی
"واہ یار تم تو کافی اچھا لکھتی ہو۔۔ویسے کس سے انسپائر ہو کر تم نے لکھنا شروع کیا"اس لڑکی نے سوال کیا۔۔دیکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک لکھاری تھی مگر یہ صرف وہی جانتی تھی کے کیسے اپنے آپ بیتی کو وہ صفحوں پر کریدتی ہے۔
جب آپ کے پاس کوئی سننے والا نہ ہو،کوئی آپ کا دل ہلکا کرنے والا نہ ہو تو انہی کاغذوں کو اپنا دوست بنایا جاتا ہے جو خاموشی سے سب کچھ سنتے ہیں
"میرے نزدیک انسان صرف دل وجوہات کے تحت لکھتا ہے پہلی یہ کے اسے لکھنے کا شوق ہو اور دوسری یہ کہ اگر انسان کے پاس کوئی سننے والا نہ ہو جس کے ساتھ وہ اپنی پریشانی شیئر کر سکے"
"ارے واہ تمھاری وجوہات بھی کتنی فلسفانہ ہیں" پہلی لڑکی نے ہنستے ہوۓ کہا جبکہ دوسری لڑکی ہلکا سا مسکرائی
"وقت انسان کو ایسے ایسے لمحات سے گزارتا ہے کے انسان ہر چیز کو بہت گہرائی سے سوچنے لگ جاتا ہے پہلے تو یہ سب باتیں مذاق لگتی ہیں لیکن جب انسان پر اپنے آپ بیتتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کے یہ صرف کہی سہی باتیں نہیں ہیں ان کا اصلیت سے بھی تعلق جڑا ہے"اس نے پرسوچ لہجے میں جواب دیا اب کی بار پہلی لڑکی خاموش رہی کیوں کے سامنے بیٹھی لڑکی ہر بار اسے لاجواب کر دیتی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج اپنے آب و تاب پر چمک رہا تھا۔۔۔
یونی کا لاسٹ سیمسٹر چل رہا تھا اور ایگزیمز قریب تھے۔۔وہ دونوں یونی کے کیفے میں بیٹھی باتوں میں مشغول تھیں
"یار تمہارا کیا پلان ہے اس کے بعد آگے کیا کرنا ہے"عفاف نے عبلہ سے سوال کیا
"امم میں تو آگے جاب کروں گی"عبلہ نے چپس منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا
"تمھارے تایا ابا تمھے اجازت دے دیں گے جاب کی"
"یارا پتا نہیں لیکن میں انھیں منا لوں گی جیسے ہوسٹل آنے کے لئے منایا تھا"
"لیکن اگر وہ نہ مانے تو"
"تب کی تب دیکھیں گے میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی میں تایا جان کو منانے کی پوری کوشش کروں گی" عبلہ نے کہا
"ہممم اللہ بہتر کرے گا" عفاف نے دعا دی
"ان شا اللہ، تم بتاؤ ویسے تمہارا کیا ارادہ ہے"عبلہ نے عفاف سے سوال کیا
"یار مجھے تو بس یہاں تک ہی پڑھنے کی پرمیشن تھی ابا چاہتے ہیں کے اب میری رخصتی کر دی جائے"(عفاف کا نکاح ہو چکا تھا)
"ہمم سہی"عبلہ نے جواب دیا
"یار ویسے ایک بات پوچھوں مائنڈ تو نہیں کرو گی" عفاف نے سوال کیا
"ہمم پوچھو"
"تم ہر وقت اتنی سنجیدہ کیوں رہتی ہو مطلب ابھی تو ساری عمر پڑی ہے سنجیدہ رہنے کے لئے لائف کو ابھی انجوائے کرو"
"جب انسان پر اس کی عمر سے زیادہ بوجھ اور ذمہ داریاں آن پڑیں تو وہ خودباخود سنجیدہ ہو جاتا ہے اس کی ہنسی کہیں دور بھاگ جاتی ہے"عبلہ نے گہری سانس لے کر کہا جبکہ عفاف بس اسے دیکھتی رہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت بیت رہا تھا۔۔اسی طرح امتحان بھی گزر گئے
عفاف بھی اپنے گھر جا چکی تھی یہی وہ لمحہ تھا جس سے عبلہ گھبراتی تھی اب اسے بھی جانا تھا۔۔تایا جان کے اصرار کرنے پر اسے ان کے ساتھ جانا پڑا۔۔عبلہ بہت خودار لڑکی تھی یوں کسی کے گھر رہنا اسے اچھا نہیں لگتا تھا حالانکہ وہ اس کے تایا کے ساتھ ساتھ اس کے والد کا بھی گھر تھا لیکن تائی کا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہ تھا کیوں کے وہ اسے بلکل پسند نہیں کرتی تھیں۔۔عبلہ نے کالج کی تعلیم کے بعد ضد کر کے اسلام آباد کی نسٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ضد بھی اس لئے کی کے ان لوگوں سے دور رہے گی تو شاید تائی کی اس سے ناراضگی دور ہو جائے گی۔۔۔اس کے گریڈز کافی اچھے تھے اسی لئے آسانی سے اسے ایڈمشن مل گیا تھا اور وہیں ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبلہ جب چھوٹی تھی تب اس کے والد انتقال کر گئے تھے۔ جوائنٹ فیملی تھی۔۔دسویں کے امتحان کے اس کی والدہ بھی اسے چھوڑ گئیں۔۔تایا ابا نے اسے بلکل باپ کی طرح پیار کیا یہی وجہ تھی کے تائی اس کو مزید ناپسند کرنے لگیں۔۔
تایا ابا کے دو بچے تھے ایک بیٹا عرش اور بیٹی خولہ۔۔عرش مغرور قسم کا تھا اور اپنی ماں پر گیا تھا جبکہ خولہ اپنے باپ پر گئی تھی نرم دل،دوسروں کا خیال رکھنے والی یہی وجہ تھی کے اس کی عبلہ سے کافی اچھی دوستی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"واٹ آپلیسنٹ سرپرائز عبلہ"خولہ نے عبلہ کے گلے لگتے ہوۓ کہا عبلہ مسکرا دی
"چلو بیٹا شاباش اسے روم میں لے جاؤ اس کا سامان رکھنے میں اس کی ہیلپ کرو" تایا ابو نے پیار بھرے لہجے میں خولہ سے کہا وہ سر ہلا کر اسے اس کے کمرے کی جانب لے گئی
کافی عرصے بعد عبلہ اپنا روم دیکھ رہی تھی ہر چیز ویسے ہی پڑی تھی جیسے چار سال پہلے چھوڑ کر گئی تھی۔۔اس کی آنکھیں نم ہوئیں لیکن اس نے فورا نمی چھپا لی
"میں ہیلپ کرواؤں"
"نہیں نہیں شکریہ میں کر لوں گی تائی امی کہاں ہیں نظر نہیں آ رہیں"عبلہ نے سوال کیا
"وہ خالہ کے گھر گھر گئیں ہیں آتی ہی ہوں گی"خولہ نے وضاحت دی "چلو تم بھی فریش ہو کر آ جاؤ پھر سب مل کر کھانا کھاتے ہیں" خولہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی
عبلہ نے اپنا سامان اس کی جگہ پر رکھا اور فریش ہونے چلی گئی وہ فریش ہو کر باہر نکلی اور اپنے بال سلجھانے لگی لمبی کالی زلفیں قمر تک ڈہل رہی تھیں۔۔گوری رنگت ٹھوڑی اور گردن پر چھوٹا سا تل اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھاتا تھا۔۔بادامی آنکھیں اور اس پر گھنی پلکیں سب کچھ ہی تو دیکھنے لائق تھا۔۔۔
وہ ابھی بال سلجھا رہی تھی جب نیچے شور برپا ہوا اس نے فورا بال باندھے اور نیچے کی جانب قدم بڑھا دیۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
یہ دوریاں فی الحال ہیں❣از:ماہی (مکمل)
Spiritualاپنوں سے محبت خونی رشتوں کے لئے عزت،مان کی داستان💖نفرت کی راہ پر چلنے والے مسافر کا پیار کی طرف راغب ہونا۔۔۔۔