قسط:20

222 29 4
                                    

آگ تیزی سے پھیل رہی تھی عرش آگ سے بچتے ہوۓ اس جانب بڑھا جہاں لڑکی تھی۔۔۔کمرے میں ایک کھڑکی موجود تھی لیکن اس کو تالا لگا ہوا تھا عرش نے زور لگا کر کھڑکی کو توڑا۔۔کھڑکی ٹوٹی تو روشنی اندر کی جانب آنے لگی اس نے اپنا رخ کرسی پر بیٹھی نفوس کی جانب کیا لیکن یہ دیکھ کر ٹھٹکا کے اس کی باڈی پر بوم فکس کیا گیا تھا جس پر کاؤنٹنگ چل رہی تھی اور ایک کرسی پر اسے باندھا گیا تھا۔۔اور کاؤنٹنگ کے لحاظ سے صرف پانچ منٹ کا ٹائم بچا تھا جس کے اندر بوم کو ڈی ایکٹیویٹ کرنا تھا۔۔۔وہ آؤ دیکھا نا تاؤ اپنے پاس موجود بلیڈ نکالا کیوں کے اس کے پاس اور کچھ موجود نہیں تھا۔۔۔۔گولی لگنے کی وجہ سے اس کا ایک ہاتھ بلکل شل ہو رہا تھا لیکن وہ اس کی پرواہ کیۓ بغیر بوم کی وائرز کاٹنے لگا۔۔۔گنتی ابھی بھی چل رہی تھی جس پر ایک منٹ کا ٹائم رہ گیا تھا۔۔۔کرسی پر بیٹھی نفوس کا سانس اکھڑنے لگا۔۔لیکن اس سے پہلے کے بوم پھٹتا وہ ڈی اکٹیویٹ ہو چکا تھا۔۔عرش نے شکر پڑھا اتنی دیر میں فائر بریگیڈ بھی آ گئی تھی جس کی وجہ سے کافی حد تک آگ پر قابو پا لیا تھا۔۔عرش نے اس کی رسیاں کھولیں۔۔ابھی وہ ہاتھ پر بندھی رسی کھول رہا تھا جب کرسی پر بیٹھی نفوس کی کراہ نکلی عرش نے اس کی جانب دیکھا جو آنکھیں میچے بیٹھی تھی۔۔۔چہرہ ابھی بھی ڈھکا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اسے نہیں دیکھ پایا تھا۔۔اس نے ہلکا سا کمیز کا بازو اوپر کیا۔۔۔اس لڑکی نے اس کی جانب دیکھا لیکن اب ٹھٹکنے کی باری اس لڑکی کی تھی
"عرش"اس کے منہ سے بیساختہ نکلا لیکن آواز ہلکی تھی جسے صرف وہی سن پائی تھی جبکہ عرش حیرانی اور پریشانی سے اس کا بازو دیکھ رہا تھا جس سی ظاہر ہو رہا تھا کے اس جگہ کو جلایا گیا ہے۔۔اس نے اس کے پاؤں پر سے رسی کھولی لیکن اس کی پیشانی پر مزید بل پڑے۔۔۔رسی جہاں باندھی گئی تھی اس سے تھوڑا اوپر بھی ویسے ہی نشان تھے جو کے واضح ثبوت تھے کے اس لڑکی کو کافی ٹارچر کیا گیا تھا۔۔۔
"شاہ" عرش ایک دم دھاڑا
"یس سر" وہ بھاگ کر اس کے قریب آیا
"اسے فورا ہسپتال بھجواؤ"اس نے ایک اور حکم دیا
"یس سر" شاہ نے تابداری کے ساتھ کہا شاہ نے لیڈی پولیس کو بلایا اور اس کی مدد سے اس کی لڑکی کو ہسپتال پوھنچایا گیا۔۔
"سر وہ تمام لڑکیاں محفوظ ہیں انھیں باحفاظت پولیس سٹیشن بھجوا دیا گیا ہے" ایک آفسر نے عرش کو ایک اچھی خبر دی
"الحمداللہ"اس کی زبان نے فورا کلمہ شکر ادا کیا لیکن اس کا کافی خون بہہ چکا تھا اور اسے بہت چکر آ رہے تھے وہ زمین پر گر گیا۔۔۔وہ اپنا مشن پورا کر چکا تھا تو اب اگر وہ مر بھی جائے اسے کوئی دکھ نہیں تھا"یہی سوچ کر اس کی چہرے پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبلہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آگے کی جانب بڑھ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کے وہ کہاں جا رہے ہے لیکن ہوش تب آیا جب ایک گاڑی اس کے پاس آ کر رکی اور اسے گاڑی میں بیٹھا کر گاڑی زن سے آگے بڑھا دی یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کے عبلہ کو سمبھلنے کا موقع بھی نہ ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبلہ کی آنکھ کھلی لیکن وہ حیران ہوئی وہ ایک انجان کمرے میں موجود تھی۔۔سر بہت بھاری ہو رہا تھا تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک آدمی اندر داخل ہوا
"واہ بھائی! میں ایسے ہی تمہیں تلاش کرتا رہا اور تم تو خود ہی چل کر میرے پاس آ گئی"یہ وہی آدمی تھا جو عبلہ کا رشتہ مانگنے گیا تھا
"پلز مجھے چھوڑ دو" عبلہ نے روتے ہوۓ کہا
"اہاں اب تو تمہاری رہائی کا کوئی راستہ نہیں ہے"یس شخص نے عبلہ کا چہرہ چھونا چاہا لیکن عبلہ فورا پیچھے ہو گئی پاشا کو غصہ تو بہت آیا لیکن اس نے ضبط کیا
"شام میں تمہارا نکاح ہے"
"لل۔۔لیکن مم۔۔میری تت۔۔تو شادی ہو گئی ہے" عبلہ نے ٹوٹے ہوۓ الفاظ میں کہا
"کیا۔۔۔شادی..ہاہاہا۔۔۔اچھا مذاق ہے"پاشا اس کی بات سن کر ہنسنے لگا
"مم۔۔میں سچ کہہ رہی ہوں"
"اچھا میں کیسے یقین کر لوں کے تمہاری شادی ہوئی ہوئی ہے چلو مان لیتے ہیں کہ تمہاری شادی ہو گئی ہے لیکن تم اکیلی یہاں کیا کر رہی ہو" اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا
"وہ۔۔وہ"
"بس اب کوئی بہانہ نہیں" اس سے پہلے وہ دھاڑتا یہ کچھ کہتا اس کے فون پر کال آنے لگی
"جی۔۔اوکے سر"اس نے یہ کہہ کر کال ڈسکنیکٹ کی اور عبلہ کی جانب دیکھا
"اٹھو فورا اور میرے ساتھ چلو"
"ل۔۔لیکن ک۔۔کہاں"
"یہ تو جا کر ہی پتا چلے گا" پاشا نے شیطانی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی عبلہ کو اس کی مسکراہٹ سے خوف محسوس ہوا وہ ابھی اور اسی وقت بھاگ جانا چاہتی تھی لیکن بھاگنے کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کے وہ اس وقت کہاں ہے لیکن یہ ضرور جان گئی تھی کے یہ جگہ اس کے لئے بہت خطرناک ہے۔خیر اب آگے جو اس کے ساتھ ہونے والا تھا وہ اس سے ناواقف تھی۔۔۔
"اب تم خود اٹھو گی یہ میں اٹھاؤں تمہیں" پاشا غصہ سے بولا جبکہ لہجہ ذومعنی تھا عبلہ گڑبڑا کر کھڑی ہوئی اور اس کے پیچھے چل دی۔۔اس نے نظریں ادھر ادھر دوڑائیں یہ ایک سنسان علاقہ تھا۔۔عبلہ خاموشی سے اس کے پیچھے چلتی گئی کیوں کے ہر جگہ گارڈ کھڑے تھے اس نے اسے گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی زن سے آگے بڑھا دی۔
تھوڑے ہی سفر کے بعد گاڑی ایک حویلی کے آگے روکی اس کے ارد گرد ہر جگہ آدمی گن تانے کھڑے تھے عبلہ اندر تک کانپ اٹھی اور گاڑی سے باہر نکلی اور اس کے پیچھے چل دی
"سلام صاحب جی" اس نے اندر آتے ہی ایک آدمی کا ہاتھ چومتے ہوۓ کہا جو کے لکڑی کے تخت پر بیٹھا تھا وہ شخص شکل سے ہی کوئی ڈان لگتا تھا۔۔
"یہ چڑیا کون ہے" اس ڈان نے عبلہ کی جانب شیطانی مسکراہٹ اچھالتے ہوۓ کہا
"صاحب جی۔۔۔یہی ہے وہ جس کا میں نے آپ کو بتایا تھا"پاشا نے نظریں جھکا کر کہا
"واہ بھئی! کیا مال ہے داد دینی پڑے گی تجھے" اس نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا
"لاؤ اسے یہاں پر" ڈان نے وہاں موجود دو باندیوں سے کہا وہ ڈان کے حکم پر عمل کرتی اس تک پہنچیں اور اسے ڈان کے پاس لانے لگیں
"نہیں پلز چھوڑ دو مجھے میں نے کیا بگاڑا ہے"اس نے روتے ہوۓ کہا۔۔اور مسلسل اپنے آپ کو چھٹوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ان دو باندیوں کو اس پر کوئی ترس نہ آیا۔۔اس نے اسے لا کر ڈان کے سامنے پھینکا اور سائیڈ پر کھڑی ہو گئیں
"مم۔۔مجھے چھوڑ دو"
"شششش خاموش ہو جا بلکل۔۔۔کوئی آواز نہ نکلے اب تیرے منہ سے"اس نے اس کے بال نوچتے ہوۓ کہا عبلہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنے بال چھٹوانے کا جتن کرنے لگی
"تو یہاں آ تو گئی ہے اپنی مرضی ہے لیکن جائے گی تبھی جب ہم چاہیں گے" ڈان نے ایک جھٹکے سے اس کے بال چھوڑتے ہوۓ کہا
"دیکھیں۔۔آپ۔۔آپ جو بھی ہیں۔۔مجھے جانے دیں۔۔پلزز"عبلہ نے پھر سے منت کی کے شاید اسے عبلہ پر ترس آ جائے
"سنو لے جاؤ اس چڑیا کو بہت پھڑپھڑا رہی ہے" اس نے باندیوں سے کہا وہ اسے اٹھا کر گھسیٹنے کے سے انداز میں ایک کمرے میں لے گئیں۔۔۔۔ڈان کا دل پتھر کا ہو چکا تھا ایسی بہت سی لڑکیاں اس کے گرد گڑگڑاتیں لیکن وہ ان کی ایک نہیں سنتا تھا۔۔۔اپنی سلطنت کا مغرور بادشاہ بنا بیٹھا تھا مگر اس بات سے بےخبر تھا کے اس کی بادشاہت جلد ہی تباہ ہونے والی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ دوریاں فی الحال ہیں❣از:ماہی (مکمل)Onde histórias criam vida. Descubra agora