قسط:21 (سیکنڈ لاسٹ)

256 28 12
                                    

عبلہ کو بھی تمام لڑکیوں کے اندر شامل کر دیا گیا تھا جنہیں دوسرے ملک بھیجنا تھا۔۔لیکن ڈان کے بندوں نے اسے بتایا تھا کے عبلہ کا اس انسپکٹر سے کوئی تعلق ہے جس کے سبب عبلہ کو ٹارچر کیا جاتا اور اس کی سخت نگرانی کی جاتی۔۔۔
یہی وجہ تھی کے عبلہ کو ان تمام لڑکیوں سے الگ ایک کمرے میں رکھا گیا تھا اور اس پر بوم فٹ کر دیا تھا کیوں کے پاشا اور ڈان نے لڑکیوں کو سمگل کرنے کے لئے عبلہ کو ڈھال کے طور پر استمعال کرنا تھا۔۔عبلہ کی حالت کافی خراب تھی جس کی وجہ سے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کے ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔تبھی پولیس آنے کا شور مچا اور سب ادھر ادھر اپنی جانیں بچانے کے لئے دوڑے۔۔لیکن ڈان ٹائم سیٹ کرنا نہ بھولا کیوں کے اب وہ اسے ان لڑکیوں تک نہیں لے کر جا سکتا تھا کیوں کے خدشہ تھا کے پولیس پیچھا کر کے لڑکیوں تک نہ پوھنچ جائے۔۔ٹائم سیٹ کر کے وہ باہر بھاگا اور اسے لڑکیوں کی فکر ہونے لگی اس نے اپنے بندوں کو ہر سو پھیلا دیا اور خود زندان کی جانب بڑھ گیا۔۔لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبلہ انجکشن کے زیر اثر سو رہی تھی۔۔۔ایک دم سے اس کی آنکھ کھلی
"نہیں یہ۔۔یہ نہیں ہوسکتا"اس نے اپنا سر تھاما اسے ہوش میں آتا دیکھ کر نرس اس کی جانب بڑھی
"میم! آر یو الرائیٹ! "اس نے پریشانی سے سوال کیا عبلہ نے ایک نظر نرس کی جانب دیکھا
"کک۔۔کہاں ہے وہ۔۔مجھے ابھی اس کے پاس لے کر جاؤ۔۔پلز"عبلہ نے روتے ہوۓ کہا
"کون اور کس کے پاس لے کر جائیں"
"دیکھو وہ مر جائے گا۔۔میں کیسے اسے ایسا مرتا دیکھ سکتی ہوں مجھے پلز بس ایک بار اس کو ملنے دو۔۔۔اس سے معافی مانگنے دو۔۔بس آخری بار" یہ کہہ کر عبلہ بیہوش ہو گئی نرس نے افسوس سے اس کی جانب دیکھا اور باہر چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش آپریشن تھیٹر میں تھا اس کا آپریشن چل رہا تھا۔۔کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر باہر آیے اور شاہ سے مخاطب ہوۓ
"دیکھیں ان کا کافی خون بہہ چکا ہے جلد از جلد آپ کو بلڈ کا بندوبست کرنا ہو گا نہیں تو پیشنٹ کی جان بھی جا سکتی ہے" ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں کہا جبکہ شاہ خون کا انتظام کرنے بھاگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپریشن سکسیس فل رہا تھا اور عرش کو روم میں شفٹ کیا جا چکا تھا۔۔وہ انجکشن کے زیر اثر سو رہا تھا
"ڈاکٹر اب پیشنٹ کیسے ہیں" شاہ ڈاکٹر سے مخاطب ہوا
"الحمدللہ ہی از اوٹ اوف دینجڑ! ابھی وہ انجکشن کے زیر اثر سو رہے ہیں کچھ ہی گھنٹوں میں ہوش آ جائے گا انھیں"
"تو ڈاکٹر ڈسچارج کب ہوں گے"
"ابھی انھیں ہم انڈر اوبزرویشن رکھیں گے پھر ان کی حالت کے لحاظ سے ہم فیصلہ کریں گے کے انھیں کب ڈسچارج کرنا ہے"ڈاکٹر نے اپنے پروفیشنل انداز میں کہا اور وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش کو ہوش آ چکا تھا اور اسے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔۔۔شاہ اسے وہیں رکھنا چاہتا تھا لیکن عرش کی ضد کی وجہ سے اسے واپس لاہور لے آیا تھا تائی جان اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت پریشان ہوئی تھیں لیکن عرش نے انھیں تسلی دے دے کر کچھ حد تک مطمئن کر دیا تھا۔۔لیکن ماں تھی مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوئیں تھیں
"میرا بچا کیا ہو گیا ہے تمہیں اتنے گہرے زخم ہیں تمھارے تم نے تو کہا تھا کے آفس کے کام سے جا رہے ہو لیکن مجھے تو کچھ نہیں ایسا لگ رہا" انھوں نے تفتیشی انداز میں کہا
"نہیں۔۔نہیں ماما ایسی تو کوئی بات نہیں ہے" اس نے جواب دیا
"عرش تم میرے کمرے میں آؤ جب تک تم ٹھیک نہیں ہو جاتے"
"نہیں ماما میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔اور میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کر سکتا۔۔جب کچھ چاہیۓ ہو گا میں خولہ سے کہہ دوں گا" اس نے انھیں پیار سے کہا
"لیکن بیٹا"
"موم آپ پریشان نہ ہوں میں ٹھیک ہوں۔۔میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں آرام کرنے" وہ انھیں کہتا اپنے روم میں چلا گیا جبکہ تائی جان تاثف سے اسے دیکھنے لگیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت گزر رہا تھا اسی طرح ہفتہ گزر گیا۔۔عرش کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا۔۔
وہ الماری میں گھسا کوئی چیز ڈونڈھ رہا تھا جب اس کی نظر ایک ڈائری پر پڑی
"یہ تو عبلہ کی ڈائری ہے" اس نے سوچا اور ڈائری کو سائیڈ پر رکھنے لگا جب وہ نیچے گر گئی اور ایک صفحہ کھلا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا
عرش نے وہ ڈائری اٹھائی اور اسے بند کر کے رکھنے لگا لیکن اس پر لکھی ہوئی سطریں اسے پڑھنے پر مجبور کر رہی تھی اس نے ڈائری تھامی اور بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا اور ڈائری پڑھنے لگا
"کبھی تو میرے روبرو ہو کر
مجھ سے تو یہ سوال کر!
کیوں ان گہری بھوری آنکھوں میں
اس قدر سناٹے چھایے ہوۓ ہیں
محبت کے دیپ جو ابھی جلے تھے
آخر کیوں یہ بھجائے گئے ہیں
کبھی تو میرے روبرو ہو کر
مجھ سے تو یہ سوال کر!
ایک نئی دنیا بسانے چلے تھے ہم
آخر کیوں ہم ٹھکرایے گئے ہیں
محبت کے یہ دھاگے آخر کیوں توڑائے گئے ہیں
کبھی یوں تو میرے روبرو ہو کر
مجھ سے تو یہ سوال کر!
از خود💕
ایک بار میں نے اپنی امی سے سوال کیا تھا کے امی بابا ہمیں اتنی جلدی کیوں چھوڑ گئے ہیں؟ تب امی نے جواب دیا تھا کے بیٹا اللہ‎ کی چیز تھی اس نے واپس لے لی۔۔۔لیکن میں نے پھر سوال کیا تھا کے ماما ہمیں جس چیز سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے اللہ‎ اس چیز کو کیوں ہم سے چھین لیتا ہے۔۔۔
"بیٹا یہی تو صبر ہے اللہ‎ آپ کی سب سے قیمتی اور محبوب چیز کو آپ سے لیتا ہے اور دیکھتا ہے کے میرا بندہ اس گھڑی میں کیا رویہ اپنایے گا۔۔۔اور اللہ‎ کو دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے اب یہ انسان پر انحصار کرتا ہے کے وہ دکھ اور غم میں کیا کرتا ہے۔۔بیٹا جو اللہ‎ نے ہمیں دیا ہوتا ہے اس پر ہم شکر ادا نہیں کرتے ہیں اور جو اللہ‎ ہم سے لے لیتا ہے اس پر ہم اپنے آنسو بہاتے ہیں کے اللہ‎ نے ہم سے وہ چیز چھین لی۔۔۔یہ نہیں سوچتے کے اللہ‎ نے ہمیں باقی چیزوں اور محبتوں سے بھی تو نوازہ ہے۔۔۔۔"
امی کی یہ کہی ہوئی بات میرے دل پر جا کر لگی تھی۔۔۔سچ ہی تو کہتیں تھیں۔۔لیکن اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میری امی بھی مجھے چھوڑ گئیں۔۔اللہ‎ واقعی دے کر بھی اور لے کر بھی آزماتا ہے۔۔اللہ‎ نے مجھ سے میرے ماں باپ لے لئے لیکن اللہ‎ نے بدلے میں مجھے اتنے محبت کرنے والے باپ کے روپ میں تایا جان ماں کے روپ میں تائی جان سے نوازہ۔۔۔
اور اب میں کسی کی زندگی میں "زبردستی" شامل کر دی گئی ہوں میں جانتی ہوں کے وہ مجھے بلکل پسند نہیں کرتے نفرت کرتے ہیں مجھ پر غصہ ہوتے ہیں لیکن میں یہ کیسے انھیں بتاؤں کے یہ سب مجھے اچھا لگنے لگا ہے۔۔ان کا مجھے یوں ڈانٹنا،یہ اپنا حق جتانا یہ سب ایک انوکھا احساس ہے۔۔میں نہیں جانتی کے مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔لیکن۔۔۔لیکن میں انھیں پسند کرنے لگی ہوں۔۔۔۔
پہلے پہل تو میں سوچتی تھی کے مر جانا بہتر ہے یہ کسی پر ذبردستی مسلط کیۓ جانا۔۔۔دل کہتا تھا کے کیا تم آپ کے سے جڑے رشتوں کو جن کی تم میں جان بستی ہے یوں چھوڑ جاؤ گی۔۔اور دماغ دہائی دیتا تھا کے ذلّت کی زندگی سے تو بہتر ہے کے انسان مڑ ہی جائے۔۔لیکن بعض اوقات انسان زندگی سے بہت کچھ طلب کرنے لگتا ہے لیکن وہ اس بات سے انجان ہوتا ہے کے زندگی خود اس کے لئے ایک بہت بڑا تحفہ یا نعمت ہے۔۔۔۔
میں نہیں جانتی کے میں کبھی بھی اپنی پسندیدگی کا اظہار کر پاؤں گی یہ نہیں لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں میرے لئے اب میرا سب کچھ صرف "عرش"ہی ہیں۔۔۔
ایک عجیب سی لہر پر دھڑکا ہے میرا دل
خوشیاں بانٹو محبت کرنے لگا ہے یہ
از خود💕"
عرش ڈائری پڑھ رہا تھا۔۔ڈائری پر لکھی گئی سطریں عبلہ کا حال دل بیاں کر رہی تھیں اور عرش کا دل بھی اسے دہائیاں دے رہا تھا کے جو سب کچھ وہ جانتا ہے وہ سب غلط ہے اصل سچائی کچھ اور ہی ہے۔۔۔
اس نے ایک فیصلہ کیا تھا کے جو سب بھی ہوا تھا وہ صرف ایک بندی ہی جانتی ہیں اور وہ ہیں اس کی ماں۔۔وہ سچائی سننے کا فیصلہ کرتا ڈائری سائیڈ پر رکھ کر تائی جان کے کمرے کی جانب بڑھا۔۔
لیکن کیا اب بھی سب کچھ ٹھیک ہو سکے گا کیا عبلہ اسے معاف کر دے گی یہ تو وقت ہی جانتا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ دوریاں فی الحال ہیں❣از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now