قسط:8

224 26 1
                                    

"ڈیڈ"سب مہمان جا چکے تھے رات بھی ہو گئی تھی عرش نے تایا جان کو مخاطب کیا
"جی بیٹا"تایا جان نے شفقت سے کہا
"ڈیڈ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں" عرش نے دھیمے لہجے میں کہا
"کیا" تایا جان نے حیرانگی سے کہا
"ڈیڈ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں" عرش نہ وضاحت دی
"یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم جانتے ہو نا کے تمہارا نکاح ہو چکا ہے اور تمہاری ایک عدد بیوی بھی ہے"تایا جان سنجیدگی سے گویا ہوۓ
"جانتا ہوں ڈیڈ لیکن میں مایا کو پسند کرتا ہوں عبلہ کو میں جلد ہی چھوڑ"اس سے آگے کے عرش کچھ بولتا تھپڑ کی آواز کمرے میں گونجی تائی جان نے حیرانگی اور بےیقینی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
"خبر دار۔۔۔خبر دار جو آئندہ میں نے تمھارے منہ سے یہ الفاظ دوبارہ سنے"تایا جان غصے سے دھاڑے عرش ابھی بھی وہیں ساکت کھڑا تھا آج پہلی بار تایا جان نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا تایا جان نے منہ موڑ لیا۔۔عرش بھی کمرے سے باہر نکل گیا کیز اٹھائیں اور پھر سے باہر کی جانب بڑھ گیا وہ اس واٹ شدید غصے میں تھا اس بات کہ غصہ نہیں تھا کے تایا جان نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا وہ باپ تھے مار سکتے تھے لیکن عبلہ کی وجہ سے یہ بات اسے اور غصہ دلا رہی تھی اس نے غصے سے گاڑی ایک فلیٹ کے سامنے روکی اور اندر چلا گیا کچھ سوچ کر کسی نا نمبر ڈائل کیا
"ہیلو مایا کیا ہم کل مل سکتے ہیں" عرش نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا
دوسری طرف سے آواز آئی "خیریت رات کے اس پہر فون کیا تم نے"
"ہاں میں تم سے ملنا چاہتا ہوں کل" عرش کی اب اس سے شادی کرنا ضد تھی
"اوکے میں آ جاؤں گی"لڑکی نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا مگر جانے اس مسکراہٹ میں کیا تھا عرش نے اس کہ جواب سن کر کال کاٹ دی۔۔مایا کچھ دیر یونہی ہی فون کو دیکھتی رہی پھر کسی کو کال کی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونی کے لاسٹ ائیر کا لاسٹ سیمسٹر چل رہا تھا سب زور و شور سے محنت کر رہے تھے اور اداس بھی تھے لیکن خوشی بھی تھی۔۔۔۔
مایا امریکا سے آئی تھی اور عرش کی یونی میں ہی ایڈمشن ہوا تھا یہیں سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا تھا لیکن جانے کب دوستی محبت میں بدلی پتا نہ چلا
عرش کافی سنجیدہ قسم کا انسان تھا اور اسی وجہ سے سب اس سے دور رہتے تھے۔۔۔
مایا اور اس کی دوستیں کیفے میں بیٹھی تھی جب ایک دوست اس سے مخاطب ہوئی
"یار وہ لڑکا دیکھ رہی ہو کتنا ہینڈسم ہے نا مگر ہاۓ رے قسمت اس قدر سنجیدہ ہے کبھی ہمّت نہیں ہوتی اس سے بات کرنے کی"اس لڑکی نے افسوس سے کہا
مایا نے اس لڑکے کی طرف دیکھا
"ہمم ہے تو ہینڈسم مگر میری ٹائپ کا نہیں ہے" مایا نے اپنے بال غرور سے کان کے پیچھے اڑستے ہوۓ کہا
"اوئے ہوئے چیک تو کرو میڈم کو یہ تو ایسے کر رہی ہے جیسے وہ اسی کا ہی انتظار کر رہا ہے۔۔ہنہ۔۔"ایک دوست نے ہنستے ہوۓ کہا
"آج تک دنیا میں کوئی بھی مرد ایسا نہیں جو مایا کو منع کرے" لہجے میں ابھی بھی غرور تھا۔۔آخر کیوں نا ہوتا کیوں کے یہ سچ تھا وہ واقعی بہت حسین تھی کوئی بھی اس کی خوبصورتی کا اسیر ہو سکتا تھا۔۔
"ارے بھیئی ہم کیسے مان لیں" ایک ور دوست بولی
"تو پھر لگی شرط"مایا نے جیسے چیلنگ کیا
"کیسی شرط"ایک دوست نے آئی برو اچکاتے ہوۓ کہا مایا مسکرا دی اور انھے شرط کے بارے میں بتانے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش ریسٹورنٹ میں اسی کا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔
کافی انتظار کے بعد اسے مایا دکھائی دی وہ اس کی جانب بڑھا اور مسکرایا
"سوری لیٹ ہونے کے لئے'مایا نے معذرت کی
"اہاں کوئی بات نہیں آؤ بیٹھو"
"ویسے خیریت تم نے اتنی جلدی بلایا" مایا نے کوفی کا مگ اٹھاتے ہوا کہا جو کے عرش نہ منگوایا تھا
"ہممم وہ وہ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی" عرش نے جھجھکتے ہوہ کہا مایا نے پہلے حیرانگی سے عرش کی جانب دیکھا اور ایک دم ہنسنے لگی
"ار یو سیریس" مایا نہ ہنستے ہوۓ کہا
"یس آئ ایم ٹوٹلی سیریس"
"ہاہاہا پاگل ہو میں صرف اور صرف تمھے دوست کی حیثیت سے پسند کرتی ہوں۔۔اور کچھ نہیں۔۔اور ہاں یہ لو کارڈ اگلے مہینے میری شادی ہے مجھے بہت اچھا لگے گا جب تم آؤ گے" مایا آسانی سے کہ کر یہ جا وہ جا ہو گئی لیکن عرش حیرانی سہ اس کی راہ تکتا رہا۔۔۔مایا اپنی دوستوں کے پاس آ گئی
"کہا تھا نا ایک سال کے اندر اندر کی وہ مجھے پروپوس کرے گا"مایا نے ایک شان سے کہا جبکہ ساری دوستیں اسے حیران نظروں سے اسے دیکھتی رہیں
"ہاۓ یار تم نے اسے ریجیکٹ کر دیا" ایک دوست نے حیرانگی سے کہا
"ہمم کہا تھا نا کے وہ میری ٹائپ کا نہیں ہے وہ تو بس تم نے مجھے انڈر ایسٹیمیٹ کیا تھا اور مایا کے لئے کوئی کام نا ممکن نہیں" اس نہ مغرور انداز میں کہا اور ان سہ باتوں میں مشغول ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری رات عرش سو نہیں پایا تھا غصہ تھا کے گھٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا
صبح وہ جلد ہی نکل گیا تھا اور آفس چلا گیا تھا۔۔اس کی آنکھیں لال انگارہ تھیں
"احمد(سیکرٹری)روم میں آؤ فورا" وہ غصے سے کہتا چلا گیا
"لو اب تو تیری خیر نہیں" احمد خود سے مخاطب ہوا کیوں کے عرش کے بدلتے تیور سے وہ اچھی طرح واقف تھا وہ جھجھکتے ہوۓ اس کے روم کی جانب بڑھا
"مے آئی کم ان سر"اس نے جھجھکتے ہوۓ عرش سے اجازت طلب کی
"آ جاؤ" عرش جو کے کرسی سے سر ٹکایے بیٹھا تھا آواز پر اس کی جانب دیکھا
احمد اندر داخل ہوا۔۔
"ابھی اور اسی وقت مس عبلہ کو فون کرو اور انھیں آفس آنے کا کہو" عرش نے غصے سے کہا
"لیکن سر"
"لیکن ویقین کچھ نہیں جو کہا ہے وہ کرو جاؤ اب" اس نے آرڈر دیا ور پھر سے سر کرسی سے ٹکا لیا احمد اسے دیکھتا رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خولہ یونی جا چکی تھی کیوں کا اس کا بھی لاسٹ سیمسٹر چل رہا تھا۔۔۔تایا جان اسٹڈی روم میں تھے اور تائی جان اپنے روم میں تھیں۔۔عبلہ اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی جب فون پر انون نمبر سے کال آئی۔۔پہلے تو عبلہ آنے نہیں اٹھائی لیکن مسلسل بجنے پر اس نے اٹھا ہی لیا
"ہیلو! مس میں احمد بات کر رہا ہوں۔ عرش صاحب کا سیکرٹری"احمد نہ وضاحت دی
"جی کہیے"
"میم سر کا آرڈر ہے کے آپ ابھی اور اسی وقت آفس آیئں"احمد نے اس کے سر پر بم پھوڑا
"لیکن میں کیوں۔۔مطلب آفس تو میں نے چھوڑ دیا ہے" عبلہ نے گھبراتے ہوۓ کہا
"میم پلز آپ آ جائیں سر اس وقت بہت غصے میں ہیں اگر آپ نا آیئں تو میری نوکری بھی جا سکتی ہے"اس نے منت کی
"ٹھیک ہے میں آتی ہوں" عبلہ نے جواب دیا اور کال کاٹ دی
عرش کا آج یوں اچانک آفس بلانا یہ سب سوچ کر ہی وہ کانپ اٹھی مگر اسے جانا پڑنا تھا کیوں کے وہ نہیں چاہتی تھی کے اس کی وجہ سے کسی کی نوکری جائے
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی تایا جان کے پاس گئی اور ان سے اجازت لی لیکن اس نے انہے یہ نہیں بتایا کے کہاں جا رہی ہے بس دوست کے ہاں کا کہ کر اجازت لی اور باہر نکل گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ دوریاں فی الحال ہیں❣از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now