قسط:11

231 28 1
                                    

تم۔۔۔تم ک۔۔کیا کرنے والے ہو میرے ساتھ" مایا کے منہ سے ٹوٹے ہوۓ الفاظ ادا ہوۓ
عرش نے بلیڈ کھولا اور اس کے قریب آیا
"عرش نہیں پلز نہیں" مایا نے روتے ہوۓ التجا کی مگر عرش اپنے ہوش میں نہیں تھا۔۔
عرش نے بلیڈ سے اس کی پیشانی کی بائیں جانب گہرا کٹ مارا۔۔مایا کی چیخیں دیواروں نے بھی سنی مگر اس وحشی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا
پیشانی پر گہرا نشان چھوڑنے کے بعد اس نے بلیڈ کا رخ اس کو رخسار کی جانب کیا
"ع۔۔عر۔۔عرش پ۔۔پلز ا۔۔۔ایسا م۔۔۔مت ک۔۔۔کرو"وہ تڑپی تھی
"چلو چھوڑ دیتے ہیں"عرش نے بلیڈ اپنی ٹھوڑی پر رکھتے ہوۓ کہا مایا نے سکھ کا سانس لیا درد کی وجہ سے اس کے رونگھٹے کھڑے ہو رہے تھے اور اسے سہی معنی میں عرش سے خوف محسوس ہو رہا تھی
"لیکن کیا ہے نہ ایسے کیسے میں تمہیں جانے دوں تمہیں پتا چلنا چاہیۓ نا کے کسی کے ساتھ دھوکہ کرنے سے کیا ہوتا ہے"اس نے سوچتے ہوۓ کہا
"ک۔۔کیا مطلب"
عرش نے پھر سے بلیڈ اس کی جانب کیا مگر رخسار کی بجائے اب اس کا رخ اس کی گردن کی جانب تھا
مایا نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔۔کچھ ہی پل میں اس کی زوردار چیخیں پھر سے کمرے میں گونجنے لگی عرش نے بائیں جانب ہی گردن پر بلیڈ سے گہرا نشان چھوڑا خون اس کے کپڑوں پر اپنے نشان چھوڑ چکا تھا درد سے وہ کراہتے کراہتے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی
عرش نے ایک خونخار نظر مایا پر ڈالی
"لے جاؤ اسے یہاں سے" عرش نے غصے سے کہا اور دروازے کی جانب بڑھ گیا ابھی اس نے دروازہ کھولا تھا لیکن ٹھٹکا عبلہ وہاں زمین پر گری ہوئی تھی
عرش نے زمین پڑے اس کے وجود کو تھاما اور کمرے کی جانب بڑھ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے کسی پہر عبلہ کی آنکھ کھلی وہ اس وقت کمرے میں موجود تھی وہ فورا بیٹھ گئی سامنے صوفے پر عرش بیٹھا تھا جو کے اسے ہی گھور رہا تھا۔۔۔عبلہ عرش کو اس طرح اپنے آپ کو تکتا پا کر سہم گئی کچھ ہی پل میں عرش اس کے سامنا بیٹھا تھا
"جب تمہیں کمرے میں بیٹھایا گیا تھا تو پہ باہر کیوں نکلی"عرش نے اپنے غصے پر زبر کرتے ہوۓ کہا عبلہ ویسے ہی بیڈ پر نظریں جھکائے خاموش بیٹھی عرش کو مزید تپا رہی تھی
"سنائی نہیں دیا تمہیں میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں کیا کرنے نکلی تھی تم باہر" اب کی بار عرش نے زور سے اس کا جبڑا دبوچتے ہوۓ کہا
"وہ۔۔وہ مم۔۔۔۔مجھے پانی پینا تھا۔۔"عبلہ نے گھبراتے ہوۓ کہا
"تو کچن میں جانا تھا کمرے کے باہر کیا کر رہی تھی تم" اس نے غصے سے کہا
اب کی بار عبلہ پھر سے خاموش رہی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے
"اگر یہ بات ڈیڈ یہ موم کو پتا چلی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا" عرش نے اس کا چہرہ جھٹکے سے چھوڑتے ہوۓ کہا عبلہ نے سر اثبات میں ہلایا کے کسی کو نہیں بتایے گی
"گڈ یہی تمھارے لئے بہتر ہو گا ورنہ انجام سے تم اچھے سے واقف ہو" عرش نے غصے سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح عبلہ کی آنکھ کھلی۔۔کمرہ خالی تھا اس کی نظر سائیڈ پر رکھے ٹیبل پر پڑی اس پر ایک ڈبہ پڑا ہوا تھا۔۔وہ کچھ دیر اسے ہی دیکھتی رہی پھر اپنا سر جھٹکتے فریش ہونے چلی گئی
فریش ہو کر باہر نکلی تو عرش بیڈ پر لیٹنے کے سے انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔۔وہ خاموشی سے تیار ہونے لگی کیوں کے تایا جان لوگ آنے والے تھے
میک اپ کرنے کے بعد وہ اپنے بال سیٹ کر رہی تھی جب عرش کو اپنے پیچھے کھڑا پایا وہ اسے ہی تک رہا تھا عبلہ گھبرا گئی بظاہر اس نے اپنے آپ کو نارمل کیا ہوا تھا لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے جس سے بال سلجھانیو اسے دشواری ہو رہی تھی عرش اس کی جھجھک کو باآسانی سمجھ سکتا تھا وہ مڑا اور واپس بیڈ کی جانب گیا وہ ڈبا اٹھایا اور واپس اس کے پیچھے آن کھڑا ہوا
"یہ نیکلیس ہے پہن لو" اس نے وہ ڈبی آگے بڑھاتے ہوۓ کہا عبلہ بےیقینی سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی
"بلکہ میں خود ہی پہنا دیتا ہوں" اس نے خودی اپنی بات کی نفی کرتے ہوۓ کہا اور اس کے بال ہٹانے لگا
عبلہ فورا پیچھے ہوئی
"مم۔۔۔میں خود پہن لیتی ہوں"عبلہ نے اپنے بال سہی کرتے ہوۓ کہا
"خاموشی سے یہیں کھڑی رہو" عرش نے غصے سے کہا عبلہ خاموش ہو گئی عرش نے مزے سے اس کے بال ہٹائے اور نیکلیس اسے پہنا دیا اور اس کی گردن پر محبت کی مہر ثبت کی۔۔۔عبلہ گڑبڑا گئی اور خاموشی سے کھڑی رہی عرش تو اتنے مزے سے یہ سب کر رہا تھا جیسے کل رات ان کے بیچ کچھ ہوا ہی نہیں تھا
"ہمم اب سہی ہے،اور سنو کل رات جو کچھ بھی ہوا اسے صرف اپنے تک ہی محدود رکھنا سمجھی" عرش نے واپس اپنے لہجے میں لوٹتے ہوۓ کہا اور روم سے باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کن سوچوں میں گم ہو" عبلہ اسی طرح کھڑی تھی جب خولہ نے اسے تقریبا جھنجھوڑتے ہوۓ کہا
"ہ۔۔ہاں۔۔ک۔۔کہیں نہیں"عبلہ واپس اپنے حواس میں آئی
"اچھا اگر یہیں ہو تو پھر میں کب سے تم سے باتیں کر رہی ہوں اور تم کوئی رسپانس نہیں دے رہی ہو" خولہ نے اپنی آنکھیں سکیڑتے ہوۓ کہا
"ہاں نہیں۔۔نہیں تو میں سن رہی تھی تمہاری باتیں"
"اچھا تو بتاؤ میں کیا کہہ رہی تھی"خولہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا
"و۔۔وہ"
"جاؤ میں نہیں بات کرتی تم سے میں پاگل ہوں جو کب سے بولے جا رہی ہوں" خولہ نے مصنوئی خفگی سے کہا
"آئی ایم سوری" عبلہ نے فورا معذرت کی
"ہاہاہا مذاق کر رہی تھی" خولہ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور اسے کمرے سے باہر لے گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ دوریاں فی الحال ہیں❣از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now