قسط:22 (لاسٹ ایپیسوڈ)

524 37 6
                                    

ہفتہ ہونے کو تھا لیکن عبلہ کی حالت ویسے کی ویسے ہی تھی۔۔۔اسے ہوش آتا تھا لیکن پھر وہ بیہوش ہو جاتی ڈاکٹرز بھی اس کی حالت سے کافی پریشان تھے لیکن زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کے کوئی ممبر یا جاننے والا بھی نہیں تھا جسے اس کی صورت حال کے بارے میں بتایا جا سکے۔۔۔اس کی یہی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوۓ ڈاکٹرز نے جو اسے یہاں ہسپتال لایا تھا فارم پر سے اس کا نمبر لیا تاکہ انھیں اس کی صورت حال سے آگاہ کر سکیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش اپنی امی کے کمرے میں آیا وہ بیڈ پر ٹیک لگایے بیٹھیں پتا نہیں کیں سوچوں میں گم تھیں تبھی عرش ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا
"کیا سوچ رہی ہیں آپ" عرش پیار سے ان سے مخاطب ہوا
"ہاں کچھ نہیں۔۔۔تم بتاؤ تمہاری طبیعت کیسی ہے"
"ٹھیک ہوں تبھی تو یہاں بیٹھا ہوں" عرش نے ہنستے ہوۓ کہا تائی جان بھی مسکرا دیں
"امی آپ ہر وقت کمرے میں ہی کیوں رہتیں ہیں باہر نکلیں فریش ایئر آپ کے لئے بہت فائدہ مند ہے ایسے کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر آپ مزید سٹریس لیتی رہتی ہیں جو کے بلکل بھی آپ کی صحت کے لئے اچھا نہیں ہے"
"ارے آپ ماں بیٹے اکیلے اکیلے کیا باتیں کر رہے ہیں ہاں" خولہ نے آنکھیں سکیڑ کر سوال کیا
"تمہاری برائیاں کر رہے تھے"عرش نے اس کی طرف تکیہ اچھالتے ہوۓ کہا
"امی دیکھ رہی ہیں انہیں آپ" تائی جان ان کو اس طرح دیکھ کر مسکرا دیں وہ کافی عرصے بعد اس طرح مسکرا رہی تھیں عرش اور خولہ بھی انھیں اس طرح مسکراتا دیکھ کر مسکرا دیۓ
"چھوٹی جاؤ مجھے امی سے بات کرنی ہے" عرش نے تھوڑی دیر بعد کہا
"یہ چھوٹی کیا ہوتا ہے" خولہ نے شکل بنائی
"کیا مطلب کیا ہوتا ہے تم مجھ سے چھوٹی ہو تو مطلب چھوٹی" عرش نے جیسے بڑے پتے کی بات بتائی
"ہاہاہا اچھا۔۔چلیں آپ لوگ باتیں کریں میں کھانے کو کچھ بناتی ہوں"
"اور ہاں میرے بارے میں برائی مت کرنا نہیں تو میں واپس آ جاؤں گی" جاتے جاتے بھی خولہ انھیں لقمہ دینا نہیں بھولی تھی
"اففف ایک تو یہ لڑکی بھی نا"تائی جان نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوۓ کہا جیسے اس کا کچھ نہیں ہو سکتا
"امی مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے"
"پوچھو بیٹا کیا پوچھنا ہے"
"اماں عبلہ۔۔عبلہ کہاں ہے" عرش نے اس کی جانب نظریں کیۓ کہا جیسے ان کے تاثرات جانچنا چاہ رہا ہو
"عب۔۔عبلہ وہ۔۔ کیوں تم کیوں اس کا پوچھ رہے ہو" تائی جان نے فورا نظریں پھیریں
"امی کیا آپ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہیں" عرش نے پیار سے ان کا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا
"ن۔۔نہیں"
"امی۔۔۔پلز آپ کو اگر کچھ پتا ہے تو پلز مجھے بتا دیں"اس کے لہجے میں منت تھی اب کی بار تائی جان کی آنکھوں میں نمی در آئی
"بیٹا مجھے۔۔مجھے معاف کر دو"تائی جان اب کی بار رو پریں
"امی پلز آپ رو کیوں رہی ہیں"عرش ایک دم بوکھلایا
تائی جان نے عرش کو اس دن ہونے والی ساری روادار سنائی عرش حیرانگی سے اپنی ماں کے منہ سے نکلے ہوۓ الفاظ سن رہا تھا
"امی یہ۔۔یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ مطلب جو سب کچھ ہوا وہ بس ایک دھکلاوا تھا امی آپ۔۔آپ کیسے کر سکتی ہیں ایسا۔۔"عرش حیرانی،پریشانی اور دکھ کے ملے جلے تاثرات سے اپنی ماں سے مخاطب تھا
"بیٹا مجھے معاف کر دو میں نے بہت برا کیا ہے تمھارے ساتھ اور عبلہ کے ساتھ۔۔لیکن دیکھو میں نے برا کیا اللہ‎ نے مجھے اس کی سزا دی ہے دیکھو نا میری یں ٹانگوں کو یہ سب میری ہی غلطیوں کا صلہ ہے" تائی جان اپنے کیۓ پر کافی شرمندہ تھیں عرش خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا کیوں کا اسے اپنا وہاں بیٹھا رہنا بہت مشکل لگ رہا تھا
"امی بھائی کو کیا ہوا وہ کیوں" ابھی وہ بول رہی تھی جب اس نے تائی جان کو روتا دیکھا
"امی کیا ہوا ہے سب۔۔ سب ٹھیک تو ہے"
"نہیں بیٹا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے میں کیسی ماں ہوں خود ہی اپنے بیٹے کی زندگی برباد کر دی بھلا کوئی ماں اپنے بچوں کا برا سوچتی ہے یا کرتی ہے۔۔نفرت میں میں اس قدر آگے بڑھ گئی تھی کے اچھے برے کا فرق ہی بھول گئی" تائی جان اپنے کیۓ پر کافی پچھتا رہی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش غصے سے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔۔اس کا ایک ہاتھ مسلسل اس کے بالوں میں چل رہا تھا۔۔۔
تبھی شاہ کی کال آئی اور جو اس نے کہا وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال سے فون آنے پر پہلے تو شاہ سوچ میں پڑ گیا لیکن پھر اس نے عرش کو فون کیا اور اسے صورت حال کے بارے میں آگاہ کیا
"ہیلو سر! آپ کو یاد ہو گا جب پاشا اور اس کے گینگ کو پکڑا تھا تو ایک لڑکی کی کافی کریٹیکل کنڈیشن تھی اس لئے انھیں ہسپتال ایدمٹ کروا دیا گیا تھا لیکن ڈاکٹرز کا اب تک یہ کہنا ہے کے ان کی حالت ابھی بھی کافی تفشیشناک ہے اور سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کے اب تک کوئی بھی جاننے والا آیا نہ ہی کچھ اور" شاہ نے اسے ساری صورت حال کے بڑے میں آگاہ کیا
"ہمم یہ تو کافی غیر ارادی بات ہے نام یہ پتا وغیرہ کا کچھ پتا ہے" عرش نے اپنی پیشانی مسلتے ہوۓ کہا
"سر پتہ وغیرہ کا تو اب تک نہیں معلوم ہوا لیکن پیشنٹ نے اپنا نام عبلہ بتایا تھا" یہ کہنا تھا کے عرش کے چاروں طبق روشن ہو گئے
"واٹ۔۔آر یو شیور"عرش نے جیسے تصدیق چاہی
"یس سر"
"اوه مائے گاڈ!! یہ سب کیا ہو گیا"عرش صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا
"سر از ایوری تھنگ اوکے"
"نو آئ ہیو ٹو گو دیئر ناؤ۔۔۔"عرش نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا اور کال ڈسکنیکٹ کر دی جبکہ شاہ اس کا رویہ اور جلدبازی سے کافی حیران ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"خولہ! امی کو بتا دینا میں جا رہا ہوں کام سے دو دن تک آؤں گا واپس"
"لیکن بھائی آپ ابھی ٹھیک نہیں ہیں" خولہ نے پریشانی سے کہا
"میں بلکل ٹھیک ہوں تم بس اماں کو بتا دینا میں جلد ہی واپس آ جاؤں گا اور تمہاری دوست کو بھی ساتھ لاؤں گا" عرش نے کہا جبکہ خولہ حیران ہوئی
"عبلہ۔۔آپ اسے لینے جا رہے ہیں سچ میں" خولہ کی آنکھوں میں ایک چمک تھی
"ہمم" عرش نے ہولے سے سر ہلایا
"تھینک یو سو مچ بھائی اینڈ بیسٹ اوف لک"خولہ نے اسے چیھڑا "ویسے بھائی وہ کہاں ہے اس وقت"
"یہ میں ابھی تمہیں نہیں بتا سکتا مجھے ابھی جانا ہے" وہ اسے کہتا باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس ایک بار دیدار یار ہو جائے
تیری میری ایک ایسی ملاقات ہو جائے
خواب کی سی کیفیت ہو
یآ دن کا اجالا ہو جائے
تیری میری بس ایک ملاقات ہو جائے
ایک رات ہو وہ یادگار بن جائے
تیری میری بس ایک ملاقات ہو جائے
دور ہو جایئں شکوے گلے یہ سارے
بس ایسی ہی ایک سہانی رات ہو جائے
از خود💕
ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔وہ تنہا ایک جنگل میں بھاگ رہی تھی اس کے پیچھے کوئی بھیڑیا لگا ہوا تھا وہ چلا رہی تھی مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ مگر اسے کوئی امید نہیں نظر آ رہی تھی اسے لگ رہا تھا کے آج اس کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔۔وہ بھاگ رہی تھی اور مسلسل بھاگ رہی تھی اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا۔۔چلا چلا کر اس کا گلا خشک ہو چکا تھا۔۔وہ بھاگ رہی تھی کے اچانک ایک پتھر اس کے آگے آیا اور وہ گر گئی اس کا سر پتھر پر لگا تھا جس کی وجہ سے خون بہنا شروع ہو چکا تھا۔۔۔اتنی دیر میں وہ بھیڑیا اس تک پوہچ چکا تھا وہ پیچھے ہونا چاہ رہی تھی لیکن پتھر کی وجہ سے نہیں ہو سکی۔۔وہ بھیڑیا آہستہ آہستہ اپنا منہ کھولے اس کی جانب بڑھ رہا تھا اس سے پہلے وہ اس پر چھلانگ لگاتا عبلہ کی آنکھ کھلی وہ پسینے سے شرابور تھی۔۔۔وہ ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہی تھی تبھی اسے اپنے ہاتھ پر دباؤ محسوس ہوا اس نے دیکھا تو عرش کرسی پر بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا عبلہ کی آنکھوں میں نمک در آئی
"پلز مم۔۔مجھے بب۔۔بچا لیں و۔۔۔وہ بھیڑیا مم۔۔مجھے کھا جائے گا پلز۔۔بب ۔۔بچا لیں مم۔۔مجھے۔۔"عبلہ نے روتے ہوۓ کہا
"کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا سب ٹھیک ہے"عرش نے اس کا ہاتھ تھپتپاتے ہوۓ کہا
"نہیں وہ مجھے کھا جائے گا۔۔۔وہ بہت ڈرانا ہے بڑے بڑے دانت ہیں اس کے"عبلہ نے اسے بھیڑیے کا حلیہ بتایا
"سو جاؤ تمہیں آرام کی ضرورت ہے"
"ن۔۔نہیں مم۔۔میں نہیں س۔۔سو رہی اگر۔۔اگر وہ پھ۔۔پھر آ گیا تو" عبلہ نے معصومانہ انداز میں کہا
"میں یہی ہوں ٹھیک ہے۔۔اگر وہ آیا تو میں اسے بھگا دوں گا تم آرام سے سو جاؤ" عرش نے اس کا سر دباتے ہوۓ کہا عبلہ نے آنکھیں بند کر لیں اور جانے کب نیند کی وادیوں میں گم ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا میں انھیں گھر لے کر جا سکتا ہوں" عرش ڈاکٹر سے مخاطب ہوا
"دیکھیں آپ لے کر تو جا سکتے ہیں لیکن یں کی کنڈیشن جس طرح کی ہے انھیں آرام کی اشد ضرورت ہے۔۔" ڈاکٹر نے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح عبلہ کی آنکھ کھلی۔۔اس کا سر ابھی بھی بھاری ہو رہا تھا۔۔اس نے کمرے میں نظر ڈورائی وہ ہسپتال میں نہیں تھی بلکہ ایک کمرے میں تھی۔۔لیکن بیڈ کی دوسری سائیڈ خالی تھی۔۔وہ فورا بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کے اب کون سی آزمائش سے اسے گزرنا ہے"۔۔وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کے کمرے کا دروازہ کھلا اور عرش ہاتھ میں ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوا
"فریش ہو جاؤ اور ناشتہ کر لو" عرش نے مسکراتے ہوۓ کہا
"مم۔۔میں یہاں کیسے آئی ہوں"اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا
"یہ سب چھوڑو تم کھانا کھاؤ شاباش تمہاری طبیعت"
"میں پوچھ رہی ہوں کچھ آپ سے۔۔۔آپ کیوں آیئں ہیں یہاں اب" عبلہ نے اب کی بار غصے سے کہا عرش جانتا تھا کے اس کا ریایکشن ایسا ہی ہو گا۔۔
"دیکھو عبلہ"اس نے عبلہ کا ہاتھ تھامنا چاہا
"نہیں پلز دور رہیں مجھ سے مت چھوئیں مجھے۔۔۔تکلیف ہوتی ہے مجھے" عبلہ نے روتے ہوۓ کہا
"لیکن میں پورا پورا حق رکھتا ہوں"اب کی بار عرش بھی سنجیدہ تھا
"لیکن اس حق کا بھی کیا فائدہ جس سے بس آپ کو اپنی ضرورت پوری کرنی ہو۔۔اور دل میں کسی اور کو بسایا ہو" عبلہ نے طنز کیا عرش بخوبی اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا
"عبلہ وہ سب صرف اور صرف وقتی جذبہ تھا"
"اوہ اچھا تو مطلب جب ضرورت پوری ہوئی تو چھوڑ دیا واہ۔۔آپ مرد بھی کیسے ہوتے ہیں عورتوں کے احساسات کو ٹھیس پوھنچانے میں بہت خوشی ملتی ہے نا آپ کو لیکن اب کی بار میں آپ کے جال میں نہیں آؤں گی میں مزید اپنی ذات کا مذاق نہیں بنواؤں گی"
"عبلہ بس اب خاموش ہو جاؤ میں تمہیں اجازت نہیں دیتا کے تم میرے احساسات اور جذبات کی پاسداری کرو۔۔۔تم جتنا چاہے وقت لے سکتی ہو۔۔میں ذبردستی ہرگز نہیں کروں گا۔۔ناشتے کے بعد میڈیسن لے لینا ڈرا میں پڑی ہے"وہ یہ کہتا باہر نکل گیا جبکہ عبلہ اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات ہونے کو تھی عرش اب تک گھر نہیں آیا تھا۔۔۔عبلہ ابھی تک کمرے میں ہی تھی باہر نہیں نکلی تھی لیکن اب وہ قدرے بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔۔دروازہ کھلا اور عرش کمرے میں داخل ہوا
"کھانا کھا لو آ کر" اس کا لہجہ سنجیدہ تھا
"مم۔۔مجھے بھوک نہیں ہے" عبلہ نے سادہ سا جواب دیا
"میں پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہوں باہر کھانا رکھا ہے اٹھو اور چلو باہر" عرش کے لہجے میں سنجیدگی برقرار تھی عبلہ اس کے لہجے سے تھوڑا حیران ہوئی صبح کی نسبت اس کا لہجہ کافی سخت تھا یہ شاید وہ عبلہ سے ناراض تھا
عبلہ خاموشی سے اٹھی اور باہر چلی گئی کیوں کے بھوک تو اسے بھی لگ رہی تھی اور میڈیسن کا بھی ٹائم ہو رہا تھا۔۔اس نے کھانا پلیٹ میں نکالا اور کھانے لگی عرش بھی تب تک آ چکا تھا رف سے حلیے میں بھی وہ قیامت ڈھا رہا تھا۔۔۔
"صبح ہمیں گھر کے لئے نکلنا ہے" عرش نے کھانے کے دوران کہا
"مم۔۔میں نہیں جانا چاہتی آپ۔۔آپ پلز مجھے یہیں چھوڑ دیں" عبلہ کو تائی جان کے کہے گئے الفاظ یاد آیے
"میں بحث نہیں کرنا چاہتا"عرش نے مختصر سا جواب دیا اور اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا "عجیب بندہ ہے ناراض میں ہوں اور منہ ان نے سوجایا ہوا ہے"عبلہ نے سوچا اور برتن سمیٹنے لگی۔۔۔برتن سمیٹنے کے بعد میڈیسن لی اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔
کمرے میں اندھیرا اس کو منہ چڑا رہا تھا۔۔عرش کب کا سو چکا تھا۔۔کمرے میں کوئی صوفہ موجود نہیں تھا جس پر وہ سوۓ اور وہ عرش کے ساتھ ابھی سونا نہیں چاہتی تھی اسی لئے اپنا بستر اٹھایا اور باہر لاؤنج میں آ گئی۔۔ایک جو چھوٹا تھا آپارٹمینٹ تھا کو کے ایک کمرے،لاؤنج اور چھوٹے سے کچن پر مشتمل تھا۔۔اسلام آباد آنے سے پہلے ہی عرش نے یہ بوک کروا لیا تھا۔۔
لاؤنج مک صوفے پر اس نے اپنا بستر بنایا اور وہی لیٹ گئی۔۔میڈیسن کافی ہیوی تھی جس کی آجا سے وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں گم ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح انھیں لاہور کے لئے نکلنا تھا اسی لئے وہ ائیرپورٹ پر موجود تھے۔۔۔انھیں فلائٹ کے ذریعے لاہور جانا تھا۔۔۔۔
پلین ائیرپورٹ پر لینڈ کر چکا تھا بورڈنگ کے بعد وہ ائیرپورٹ سے باہر نکلے۔۔عرش کا ڈرائیور ائیرپورٹ کے باہر ان کا انتظار کر رہا تھا ڈرائیور سے کہہ کر اس نے مال کی جانب گاڑی بڑھوا دی۔۔۔
"تم یہی رکو میں آتا ہوں" عرش یہ کہتا گاڑی سے باہر نکلا اور مال میں چلا گیا۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہ باہر آیا اس کے ہاتھوں میں شوپنگ بیگز تھے اس نے وہ رکھے اب گاڑی کا رخ گھر کی جانب تھا اور تائی جان کی کہی گئی باتیں ایک بار پھر سے اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں
گاڑی گھر کے گیراج میں آ کر رکی۔۔۔عرش اترا اور عبلہ کو بھی گاڑی سے اترنے کا کہا
"اترو بھی اب یہ میں اٹھاؤں" عرش نے کہا عبلہ فورا گاڑی سے اتری اور اس کے پیچھے چل دی۔۔لاؤنج میں کوئی بھی نہیں تھا کچن سے پانی چلنے کی آواز آ رہی تھی۔۔مطلب کچن میں کوئی تھا
"کہاں ہیں سب" عرش نے اونچی آواز میں کہا خولہ بھاگ کر کچن سے باہر آئی
"عبلہ۔۔۔کیسی ہو تم" خولہ نے اسے گلے لگتے ہوۓ کہا عبلہ کی آنکھیں بھی نم ہوئیں
"تم بیٹھو میں امی کو بتاتی ہوں تمھارے آنے کا" اس نے مسکرا کر کہا اور تائی جان کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
چند ہی سیکنڈز میں خولہ تائی جان کے ساتھ باہر آئی عبلہ نے تائی جان کی جانب دیکھا اور ایک دم کانپ اٹھی۔۔وہ وہیل چیئر پر تھیں۔۔۔
"تا۔۔تائی جان"عبلہ نے روتے ہوۓ انھیں مخاطب کیا
"ملو گی نہیں تم اپنی تائی سے" انھوں نے نم آنکھوں سے کہا اور اپنی باہیں پھیلائیں عبلہ بهاگ کر آئی اور ان کہ سینے سے لگ گئی کافی عرصے بعد آج اس نے ممتا کا پیار محسوس کیا تھا۔۔وہ ایک دوسرے کے گلے لگے ایسے ہی روتی رہیں۔۔۔پھر تائی جان نے اس کا چہرہ اوپر کیا اور اس کے آنسو صاف کرنے لگیں۔۔
"تائی جان یہ سب کیسے ہوا"
"بیٹا یہ اللہ‎ نے مجھے میرے کیۓ کی سزا دی ہے۔۔۔میں نے ایک معصوم لڑکی پر الزام لگایا اس سے نفرت کی اسے بےعزت کیا۔۔۔تو اللہ‎ پاک نے مجھے اسی کی سزا دی ہے" تائی جان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے عبلہ نے تڑپ کر ان کی جانب دیکھا
"بیٹا مجھے معاف کر دو میں نے تمھارے ساتھ بہت برا کیا۔۔اگر تم مجھے معاف نہیں کرو گی تو میرا اللہ‎ بھی مجھے معاف نہیں کرے گا" تائی جان نے ہاتھ جوڑے ہی تھے کے عبلہ نے ان کے ہاتھ تھام لئے
"نہیں تائی جان پلز۔۔۔میں آپ سے بلکل بھی خفا نہیں ہوں۔۔۔پلزز آپ مجھے شرمندہ نہ کریں" عبلہ نے ان کا ہاتھ چوما خولہ اور عرش کی بھی آنکھیں نم تھیں
"میری بچی" تائی جان نے انھیں پھر سہ اپنے سینے سے لگایا اور اسے چومنے لگیں۔۔۔(تایا جان کی وفات کا بھی اسے پتا چل چکا تھا اس لئے وہ اور بھی زیادہ غمگین تھی)
خولہ بھی آ کر ان کے گلے لگ گئی تائی جان نے دونوں کو چوما
"خوش رہو میری بچیوں۔۔۔اور ہاں عرش آج سے عبلہ اور تمہارا پردہ شروع"
"ہیں کیا مطلب پردہ میری بیوی ہے" عرش نے حیرانگی سے کہا
"ہاں جانتی ہوں بیوی ہے لیکن میں اس کی سہی سے رخصتی کرنا چاہتی ہوں" تائی جان نے جواب دیا
"لیکن امی"
"خولہ بیٹا عبلہ کا سامان میرے کمرے میں رکھ دو چلو شاباش عبلہ مجھے کمرے میں لے جاؤ"
"یہ کیا بات ہوئی اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا کے میرے ساتھ یہ سب ہونا ہے تو میں لاتا ہی نہ اسے یہاں" عرش نے مسکینوں والی شکل بناتے ہوۓ کہا عبلہ نے اس کی جانب دیکھا اور اس کی ہنسی نکل گئی خولہ اور عرش بھی مسکرا دیۓ
"شکر میڈم ہنسی تو سہی" عرش نے سوچا اور گاڑی سے سامان نکالنے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔۔کیوں کے آج ایک نہیں بلکے دو دو شادیاں تھیں۔۔ایک عبلہ اور عرش کی اور دوسری۔۔۔۔۔۔۔۔
خولہ اور شاہ کی مطلب شاہ میر کی۔۔(جی جی وہی مال والے انکل😂😂)
نکاح ہو چکا تھا اس کے بعد کھانا تھا اور پھر رخصتی کر دی جانی تھی۔۔۔۔
عبلہ اور خولہ دونوں تائی جان کے کمرے میں تھیں۔۔دونوں ہی آسمان سے آئیں حوریں معلوم ہو رہی تھیں۔۔۔
"ماشاءالله۔۔۔اللہ‎ نظر نہ لگایے میری بچیوں کو" انھوں نے ان کو چومتے ہوۓ کہا جبکہ دونوں مسکرا دیں
چلو شاباش باہر آ جاؤ سب انتظار کر رہے ہیں" انھوں نے پیار سے کہا اور ان کے ساتھ باہر آ گئیں۔۔۔
خیر رخصتی کی رسم ادا ہوئی خولہ کو بھی اپنے پیا گھر جا چکی تھی۔۔۔تائی جان بہت خوش تھیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سب سبکدوش ہو چکی تھیں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبلہ اور خولہ دونوں کے کمروں کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔۔۔۔
دونوں دلہن کے روپ میں بیٹھیں اپنے ہمسفر کا انتظار کر رہی تھیں اور دل کی گہرائیوں سے خوش تھیں اور اپنے خالق حقیقی کے آگے سجدہ ریز تھیں کے انھیں اتنے محبت کرنے والے ہمسفر سے نوازہ تھا۔۔۔۔
"میں نے اپنی زندگی سے ایک بہت اچھا سبق سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ بہت میٹھا ہوتا ہے۔۔۔۔اللہ‎ پاک کبھی بھی اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔جب بھی انسان گرنے لگتا ہے اللہ‎ پاک اسے تھام لیتے ہے۔۔مشکلات تو اللہ‎ سب پر ڈالتے ہیں اور اپنے بندے کو آزماتے ہیں کے وہ اس وقت میں کیا کرتا ہے۔۔اور قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ:

"بےشق ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے"
اللہ‎ اپنے بندوں چھوٹی چھوٹی مشکلات ڈالتا ہے تاکہ انھیں بڑی مصیبتوں سے محفوظ رکھے۔۔۔۔
دل کو قرار آ گیا
محبت کا پیغام آ گیا
وہ میرا تھا،وہ میرا ہے
مجھے اپنے ہونے کا احساس دلا گیا
از خود💕"

♡ختم شد♡
27.07.20
#16

اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔۔

آپ کی پیاری رائٹر👇
#ماہی

یہ دوریاں فی الحال ہیں❣از:ماہی (مکمل)Onde histórias criam vida. Descubra agora