بارش زور و شور سے ہو رہی تھی۔۔موسم بھی کافی خراب تھا اسی لئے کسی آٹو کا ملنا کافی مشکل تھا
"کیا ہوا بیٹا ایسے کیوں کھڑی ہو یہاں پر"
"تایا جان موسم کافی خراب ہے لیکن آفس جانا بھی بہت ضروری ہے آج پہلا دن ہے کوئی آٹو بھی نہیں مل سکتا اس موسم میں"عبلہ نے اپنی پریشانی بیان کی
"کوئی بات نہیں بیٹا ابھی عرش بھی نہیں گیا وہ تمھے بھی ساتھ لیتا جائے گا"تایا جان نے کہا اور اندر چلے گئے
کچھ ہی دیر میں عرش غصے سے باہر نکلا اور گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔۔گاڑی سٹارٹ کی
"میڈم جانے کا پلان ہے یہ آپ کو انویٹیشن دینا پڑے گا"عرش نے تلخی سے کہا
"ج۔۔جی جانا ہے"
"تو پھر تشریف رکھیے"اس کا لہجہ ابھی بھی ویسا ہی تھا
عبلہ جھجھکتے ہوۓ وہیں کھڑی رہی کے کہاں بیٹھے
"او میڈم! سوچنے کا ٹائم نہیں ہے جلدی بیٹھو نہیں کہا نو گا تمہیں"عرش کے لہجے میں روب تھا عبلہ نے خاموشی سے دروازہ کھولا اور گاڑی میں بیٹھ گئی عرش نے گاڑی آگے بڑھا دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبلہ اپنے کیبن میں بیٹھی تھی جب پیئن آیا اور اسے عرش کا پیغام دیا
"بی بی جی صاحب جی نے آپ کو طلب کیا ہے"
"ہیں کون صاحب جی اور کہاں طلب کیا ہے" عبلہ نے حیرانگی سے کہا
"عرش صاحب آپ کو آفس بلا رہے ہیں"پیئن نے وضاحت دی
"جی میں آتی ہوں"اس نے کہا اور آفس کی جانب بڑھ گئی
"مے آئی کم ان سر"اس نے دروازہ نوک کرتے ہوۓ کہا
"ہمم آؤ"اس نے فائل چیک کرتے ہوۓ کہا
عبلہ اندر آئ اور کرسی پر بیٹھ گئی
"ہمم تو آپ کی سیویز میں نے چیک کی ہے کافی قابل معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ تو وقت،کام میں لگن اور محنت ہی بتایے گی کے آپ کس قدر قابل ہیں ایک بات یاد رکھیے گا غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے سمجھیں آپ" اس نے سخت اور پروفیشنل انداز میں کہا عبلہ نے اٹبات میں سر ہلایا
"گڈ اب آپ جا سکتی ہیں میں احمد (سیکرٹری) سے کہہ دیتا ہوں وہ آپ کو سارا کام سمجھا دے گا" عرش نے کہا اور فائل میں مگن ہو گیا عبلہ بھی خاموشی سے باہر نکل گئی
احمد نے عرش کے کہنے پر عبلہ کو سارا کام بتا دیا تھا اور سب سے تعارف بھی کروا دیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبلہ کو کام کیۓ ہفتہ بیت چکا تھا۔۔۔شام ہو رہی تھی عبلہ کام کرنے میں اس قدر مصروف تھی کے وقت کا پتا ہی نہیں چلا
"کیا سارا کام آج ہی کرنا ہے یہ یہی رہنے کا ارادہ ہے" عرش نے سنجیدگی سے کہا
"ن۔۔نہیں تو جانا ہے گھر"عبلہ نے گھبراتے ہوۓ کہا اور فورا سے اپنی چیزیں سمیٹنے لگی کیبن سے باہر نکلی تو اندازہ ہوا کے کافی وقت ہو چکا تھا تقریبا پورا آفس خالی تھا اب کی بار اسے خود پر غصہ آیا وہ آفس سے باہر نکلی اور آٹو کا ویٹ کرنے لگی مگر کوئی نام و نشان نہ تھا۔۔۔بادل بہت گہرا تھا یوں معلوم ہوتا تھا کے ابھی برسنے لگے گا وہ پیدل ہی چلنے لگ گئی
وہ کافی تیز تیز چل رہی تھی جب پیچھے سے دو بندے بائیک پر آیے ایک کے ہاتھ میں گن تھی اور ماسک پہنے ہوۓ تھے
"جو کچھ بھی ہے جلدی نکالو"ان میں سے ایک آدمی نے اس پر گن تانے کہا
عبلہ نے گھبراتے ہوۓ جو کچھ بھی تھا انہے دے دیا اور اپنا پرس بھی خاموشی سے اسے تھما دیا۔۔لڑکوں نے سامان پکڑا اور آگے کی جانب بڑھ گئے عبلہ وہیں پریشان کھڑی رہی۔۔گھر کا راستہ صحیح سے یاد نہیں تھا اور فون بھی نہیں تھا کے تایا جان سے رابطہ کر سکے۔۔۔
بادل گرجے،ہر سو اندھیرا چھا گیا۔۔بارش برسنے لگی۔۔سڑک پر کسی بھی گاڑی کا نام و نشان نہ تھا
عبلہ کو شدت سے رونا آیا۔۔وہ آگے بڑھ رہی تھی کے ایک تیز رفتار گاڑی آئ اور اس سے ٹکرا گئی عبلہ وہیں ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کافی ٹائم ہو گیا ہے ابھی تک عبلہ نہیں آئ ہے"تایا جان نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا
"ڈیڈ پریشان نہ ہوں بھائی بھی نہیں آیے ابھی تک شاید ان کے ساتھ ہو"خولہ نے انہے تسلی دی تبھی عرش گھر میں داخل ہوا اور سب کو سلام کیا
"بیٹا عبلہ نہیں آئ" تایا جان نے سوال کیا
"کیا مطلب ڈیڈ"
"ممطلب یہ کے عبلہ کہاں ہے"
"بابا یار کیسی باتیں کر رہے ہیں وہ تو مجھ سے پہلے آفس سے نکل گئی تھی۔۔کیا اب تک آئی نہیں؟"عرش نے سادہ لہجے میں کہا
"نہیں بیٹا نہ اس کا فون مل رہا ہے اور نا ہی کوئی پتا" تایا جان پریشان تھے اب کی بار عرش کو بھی پریشانی نے آ گھیرا تھا کے آخر کہاں چلی گئی۔۔۔
"دیکھا میں تو پہلے ہی کہتی تھی کے سہی لڑکی نہیں ہے لیکن کوئی میری بات سنے نا تب"تائی جان پھر سے عبلہ کے متعلق فضول گوئی شروع کر چکی تھیں
"موم پلز!"اب کی بار عرش نے انھیں ٹوکا
"کیا مجھے کیوں چپ کروا رہے ہو آخر لوگوں کو کیا جواب دو گے کے بھتیجی بھاگ گئی۔۔۔میں پہلے ہی کہتی تھی کے پتا نہیں کہاں کہاں منہ مار کر آئی ہے دیکھا اب بھاگ گئی ہے نا اس کے ساتھ"
"خاتون"اس سے پہلے کے تایا جان کچھ کہتے فون کی گھنٹی بجی
"جی۔۔کیا۔۔کب۔۔کہاں۔۔میں۔۔میں ابھی آتا ہوں"انھوں نے پریشانی نے کہا اور کال ڈسکنیکٹ کی
"کیا ہوا"
"ہسپتال سے فون تھا عبلہ کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے وہ اس وقت ہسپتال میں ہے"تایا جان نے پریشانی سے کہا اور باہر کی جانب بڑھے عرش بھی ان کے پیچھے ہو لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کے احساس سے اس کی آنکھ کھلی۔۔۔وہ اس وقت کمرے میں موجود تھی لیکن یہ ہسپتال کا کمرہ تھا۔۔۔
اس نے دھیمے دھیمے آنکھیں کھولیں روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔۔اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر نرس اس کے نزدیک آئی۔۔
"آر یو آلرائٹ؟درد اب کم ہوا؟"نرس نے سوال کیا عبلہ نے دھیمے سے ہاں میں سر ہلایا
"آپ کوئی نمبر دے دیں تاکہ آپ کے گھر والوں کو انفارم کر دیں"نرس نے نرم لہجے میں کہا
عبلہ نے اسے تایا جان کا نمبر دیا۔۔نرس روم سے باہر نکل گئی
اس کی نظر اپنے اوپر پڑی
بازوں پر کافی گہری چوٹ تھی جس پر پٹی ہوئی ہوئی تھی سر پر بھی گہرا زخم تھا جسے پٹی سے ہی لپٹا گیا تھا۔۔ٹانگیں اور پاؤں بھی زخمی تھے۔۔۔درد پہلے سے کم تھی لیکن پورا جسم اب بھی جیسے ٹوٹ رہا تھا۔۔۔۔درد سے اس نے آنکھیں میچ لیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھلا اور تایا جان کمرے میں داخل ہوۓ۔۔وہ اسے اس طرح دیکھ کر ٹھٹکے
انھوں نے اس کے قریب جا کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا عبلہ نے اپنی آنکھیں کھولیں سامنے تایا جان کھڑے تھے اس کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔پیچھے سے عرش بھی کمرے میں داخل ہوا عبلہ کو اس حالت میں دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی حیرانگی سے پھیلی تھیں عبلہ کی نظر اس پر پڑی وہ بیٹھنے لگی تھی جب اس کی کراہ نکلی عرش فورا آگے بڑھا اور اسے سہارہ دے کر لیٹایا۔۔
"اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے"عرش نے سنجیدگی سے کہا اور پیچھے پڑی کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔۔تایا جان اس کا یہ روپ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوۓ تھے اور کچھ سوچ کر مسکرایے
"بیٹا کیسے ہوا یہ سب" تایا جان نے پریشانی سے اسے مخاطب کیا عبلہ نے آفس سے لے کر گاڑی سے ٹکر تک ساری روادار سنائی تایا جان اور عرش دونوں پریشان ہوۓ
"شکر ہے میری بچی تمہے کچھ نہیں ہوا ورنہ تمھارے تایا جان اپنے بھائی کو کیا منہ دکھاتے"انھوں نے نم آنکھوں سے کہا عبلہ کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھیں
عرش ان دونوں کو دیکھ رہا تھا جب اس کی کال آنے لگی
فون دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکان آئی جسے اس نے فورا سمیٹا لیکن عبلہ اس کی مسکراہٹ دیکھ چکی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
یہ دوریاں فی الحال ہیں❣از:ماہی (مکمل)
Spiritualاپنوں سے محبت خونی رشتوں کے لئے عزت،مان کی داستان💖نفرت کی راہ پر چلنے والے مسافر کا پیار کی طرف راغب ہونا۔۔۔۔