قسط نمبر5

216 36 2
                                    

"یا اللہ!یا اللہ!تیرا شکر ہے۔اج تیری وجہ سے ہی میں جہنم نما گھر میں جانے سے بچ گئ۔" ماہنور سجدے میں گر کر شکر ادا کر رہی تھی۔

"یا اللہ!تو جانتا تھا کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی اسی لئے تو نے مجھے اس رشتے سے بچالیا۔"وہ ایک بار سجدے سے اٹھ کر یہ کہہ کر دوبارا سجدے میں گرگئ۔ پھر ایک دم اٹھی اور اقرا کو فون ملانےلگی۔

"اقرا فون اٹھاؤ۔پلیز!" پھر دوسری طرف سے فون اٹھالیا گیا۔

"السلام علیکم!"

"وعلیکم اسلام ممانی جان! اقرا سے بات ہو سکتی ہے۔"

اس نے نہ حال پوچھا نہ چال جھٹ سے اقراء کے بارے میں پوچھ لیا۔ممانی جان کو کچھ ناگوار گزرا لیکن پھر بھی انھوں نے اقراء کو فون دے دیا۔

                             *********

"السلام علیکم نور آپی!"

"وعلیکم السلام!سب باتیں چھوڑو اور یہ بتاو کہ کب ملا رہی ہو اپنے کزن سے؟" نور نے اسکی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔

"جی جب آپ کہیں۔"

"تو پھر آج ہی ملتے ہیں۔"

"اوکے!" اقراء نے خوش ہوتے ہوئے فون کاٹ دیا۔

                            ********

"ارےےےے نور آپییییی!" یہ کہ کر اقراء نے۔ نور کو زور سے جاکر گلے لگالیا۔

"کیسی ہو؟"

"جیسے اپنے چھوڑا تھا ایک دم فٹ ایک دم ایکٹو۔"

"گڈ ہوگیا! اچھا اقراء وہ کہاں ہے؟"

"وہ کون؟صائم بھائ؟"

"ہاں پر ذرا آہستہ بولو۔"

"اوکے لیکن آپ کمرے میں جاکر بیٹھیں وہ وہاں خود ائنگیں۔"

"اوکے۔"

پھر دونوں کمرے میں جاکر بیٹھ گئیں اور گپ شپ لگانے لگیں۔

"اقراء تمھیں پتا ہے میرے رشتہ والوں نے انکار کردیا۔"

"اپنے رشتے کے انکار پر بھی کوئ خوش ہوتا ہے بھلا۔"

ہاں نا کیونکہ مجھے وہ انکل ٹائپ بندا پسند نہیں تھا۔"

اتنی دیر میں دروازے پر دستک ہوئ، اقراء نے پوچھا تو جواب ملا "میں صائم".

                              *******
"کالے رنگ کے بال جو تھوڑے سے ماتھے سے ہوتے ہوئے سر کو جاتے تھے۔سفید شرٹ اور کالے ٹراؤزر میں ملبوس صائم دروازے پر کھڑا تھا۔اس کو دیکھ کر ماہنور ایک دم سے کھڑی ہو گئ۔اقراء نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے بیٹھا دیا۔ماہنور کے اس رویہ کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسے کافی عرصے بعد دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ امریکہ گیا ہوا تھا اور ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی لوٹا تھا۔اور اس ڈیڑھ مہینے اقراء صائم کو دل دے بیٹھی تھی۔

"اقراء ذرا میری شرٹ پریس کردو پلیز۔"

" نہیں بھئ!میں ابھی نور آپی کے پاس بیٹھی ہوں۔میں ابھی نہیں کر سکتی۔"

"اقراء میں نے تمھیں کہا ہے نا کہ تم کر رہی ہو تو تم کر رہی ہو۔

"اور میں نے بھی اپکو کہا ہے نا کہ میں باتیں کر رہی ہوں۔"

"اقراء میں یہاں رکھ کر جا رہا ہوں،میں آؤں تو مجھے پریس چاہیے ہے۔"

"اقراء کتنی بری بات ہے اگر اسکی بات نہیں مانو گی تو وہ تمھاری محبت کا قائل کیسے ہوگا؟"

"لیکن ہر وقت تو کام کرنا میرا فرض نہیں ہے نہ۔"

"اگر تم پیار کرتی ہو تو تمھیں یہ کرنا ہی ہوگا۔"

"اچھا ابھی۔۔۔" ابھی اقراء کی بات مکمل بھی نہیں ہوئ تھی کہ صائم نے آکر اسکی بات کاٹ دی۔

"میری شرٹ ابھی تک پریس نہیں کیا تم نے،کیا بکواس ہے یہ۔دفعہ ہوجاو!"

اچھا ابھی کر دیتی ہوں تھوڑی دیر تک۔"

"پہننی مجھے ابھی ہے تو کر تم تھوڑی دیر تک دوگی۔جی نہیں تھینک یو سو مچ!آپ بیٹھیں اپنی پیاری کزن کے پاس ،میں خود ہی کرلیتا ہوں۔"

"ایز یو وش!" اقراء نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

"کتنا خر دماغ ہے یہ۔بالکل تمیز نہیں ہے بات کرنے کی۔"

"میں یہی ہوں ابھی۔"

نور اس کو دیکھ کر شرمندہ سی ہوگئ اور سر جھکالیا۔

"بھاڑ میں جاؤ تم سب۔"

اچھا رکو صائم میں کردیتی ہوں۔" پھر نور صائم سے شرٹ لیتی ہوئ پریس کرنے چلی گئ۔ صائم ابھی بھی دونوں کو غصے سے گھور رہا تھا۔
    
                                    (جاری ہے)

                                            روشنی(Complete)Where stories live. Discover now