قسط نمبر 19

147 29 17
                                    

"اچھا بھئی کسی نے آئس کریم تو نہیں کھانی؟"صائم نے گاڑی کا دروازا بند کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں کھاؤں گی،اور میں بھی۔"صفا اور اقراء نے باری باری کہا۔

"نور آپی آپ کھائیں گی؟"اقراء نے نور سے پوچھا۔

"نہیں!"نور نے مسکرا کر جواب دیا۔

"بھائی پھر میں بھی نہیں کھا رہا کیونکہ جب ہماری مہمان ہی نہیں کھا رہی ہے تو میرا  بھی کھانے کا جواز نہیں بنتا ہے۔"صائم نے مرر کا رخ نور کی طرف کرتے ہوئے کہا۔

"نور آپی اپکو کیا ہوا ہے؟"صفا نے پوچھا۔

"کچھ نہیں بس امی ابو کے جانے کا دکھ ہورہا ہے۔"

"اوہو نور آپی کچھ نہیں ہوتا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ان شاء اللہ جلدی آجائیں گے پھو پھو اور پھوپھا جان۔"اقراء نے نور کو تسلی دی۔

"ہمم۔۔۔"نور نے مسکراتے ہوئے کہا۔پھر ان لوگوں نے آئسکریم کھائی لیکن نور اور صائم نے نہیں کھائی اور گھر چلے گئے۔

                              ********
نور کی امی چلی گئیں اور رمضان بھی شروع ہوگئے۔اب اقراء صائم سے پڑھنے نہیں جا رہی تھی کیونکہ وہ نور سے پڑھائ میں مدد لے لیتی تھی۔خیر اسکی طرح آدھا رمضان گزر گیا سب اپنے اپنے پورشن میں سحری اور افطاری کرتے تھے۔اس طرح آدھا رمضان گزر گیا اور سارہ کی منگنی کا وقت اگیا۔

                             *******
"ااہ! تھوڑا آرام سے اقراء"سارہ نے تکلیف کی وجہ سے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔سب دلہن کو تیار کرنے لگی ہوئی تھیں۔اقراء کے گھر کا لان بہت بڑا تھا اسی لئے منگنی کی رسم شام کے وقت وہی کی جانی تھی۔

"آف سارہ تم تو غضب ڈھا رہی ہو!"نور شرارتی انداز میں کہا۔تو سب ہنسنے لگیں۔

"ارے بیٹا لے بھی او اسے نیچے"ممانی جان نے کہا۔

"ہاں بس لا رہے ہیں"سب نے یک زبان ہوتے ہوئے کہا۔

پھر تھوڑی دیر میں سب سارہ کو نیچے لے ائیں۔سارہ کے ہونے والے شریک حیات کبیر سارہ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے کیونکہ سارہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ دیکھنے والوں کے ہوش اڑ جائیں اور ایسا ہو بھی رہا تھا۔لیکن ایک بندہ تھا جس کے ہوش نور کو دیکھ کر اڑ رہے تھے کیونکہ نور بھی کوئی کم غضب نہیں ڈھا رہی تھی لیکن کسی کی مجال نہیں تھی کہ اسکے ہوتے ہوئے نور کو کوئی اور دیکھے۔

کبیر نے سارہ کیلئے ہاتھ آگے بڑھادیا تھا۔سارہ اور کبیر دونوں سٹیج پر بیٹھے تھے اور لوگوں کی نظروں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔

"نور بیٹا؟"کسی آنٹی نے نور کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"اا۔۔۔جی؟"نور نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔

"بیٹے!ماشاءاللہ آپ کتنی پیاری ہو!آپکی امی کدھر ہیں؟"آنٹی نے خوشامد کرتے ہوئے کہا۔

"جی آنٹی امی تو عمرہ پر گئ ہوئی ہیں پر ممانی جان ہیں آپ نے جوبات کرنی ہیں ان سے کرلیں۔"

"ہاں ٹھیک ہے اس سے بات کرلیتی ہوں"آنٹی وہاں سے چلی گئیں تو صائم موقع دیکھتے ہی اگیا۔

"کیا کہہ رہی تھیں وہ؟"صائم نے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔

"کچھ نہیں!"نور نے اپنی اکڑ میں جواب دیا۔

"کیا کچھ نہیں وہ گونگی تھی یا تم بہری تھی؟ شرافت سے بتاو کیا بات ہورہی تھی۔"

"ارے یار پہلے تو میرا بازو چھوڑو کیونکہ یہ حرام ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ میری امی کا پوچھ رہی تھیں تو میں نے کہا وہ تو یہاں نہیں ہیں اآپ ممانی جان سے مل لیں"نور بڑی معصومیت سے بتا رہی تھی۔

"اف خدایا!یہ کیا کیا تم نے؟"صائم نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

"کیوں کیا ہوا؟"نور حیرانی سے پوچھا۔

"یار جو آنٹیاں شادیوں میں ماؤں کا پوچھتی ہیں وہ اگلے دن رشتہ لے کر آجاتی ہیں۔"نور نے زور دار قہقہہ لگایا۔

"ارے ایسا کچھ نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ وہ امی کی جاننے والی ہوں،اور ویسے بھی شادی ہو بھی جاتی ہے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اقراء آپ سے پیار کرتی ہے اور شادی تو آپ نے اس سے ہی کرنی ہے۔"

"تمھاری تو!" صائم نے نور کی طرف تھپڑ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا،صائم کے اس رویے کی وجہ سے نور ڈر گئ اور وہاں سے چلی گئی۔ سارہ کی منگنی کی رسم ہو گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

                    *********
اگلے دن سب کام کر رہے تھے کہ دروازے پر بیل بجی۔صائم نے دروازہ کھولا۔

"جی آپ لوگ کون؟"صائم نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔صائم کو جواب دئے بغیر وہ لوگ اندر اگئے۔
                              ********

                                            روشنی(Complete)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora