قسط نمبر 15

144 27 16
                                    

"Alhumdulillah! operation was successful.but mahnoor is still not conscious,may be by tomorrow."

"اوکے!"نور کی امی ابو نے شکر ادا کرتے ہوئے جواب دیا۔سااتھ ہی ساتھ صائم نے بھی فون پر شکر ادا کیا۔

صائم نے جلدی سے خدا حافظ کہہ کر فون کاٹا اور رو کر دعا مانگتی اقراء کو جاکر خبر سنائی۔اقراء یہ بات سن کر خوشی سے اچھلنے لگی۔

"لیکن ہوش آگیا انکو؟"

"نہیں ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کل تک اجائے گا۔"

"اچھا چلیں اللہ کا شکر ہے کہ آپریشن سکسیسفل رہا۔اب اللہ خیر کرے ہوش بھی اجائے گا۔ان شاء اللہ!"

"ہممم۔۔۔۔ان شاء اللہ!"

                          *********
ڈاکٹر آپس میں باتیں کر رہے تھے اور نور سب سن رہی تھی لیکن بےچاری بےبس تھی،کچھ بول نہیں سکتی تھی۔

"کاش کہ میں انکو بتاسکتی کہ میں کتنی تکلیف میں ہوں۔کاش کہ میں انکو بتا سکتی کہ مجھے گھر جانا ہے۔کاش!کہ میں انکو بتاسکتی کہ ہسپتال کا یہ ماحول مجھے کتنا تنگ کر رہا ہے،یہاں پر میرا سانس رک رہا ہے،میرا دم گھٹ رہا ہے،مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے۔"نور بےہوشی کی حالت میں اپنے آپ سے بات کر رہی تھی۔

"پتا نہیں کہ اب کبھی میں صائم سے دربارہ مل پاوںگی کہ نہہں؟اگر ہوش ا بھی گیا تو اس سے نظریں کیسے ملاؤں گی کیونکہ پتا تو اسے چل ہی گیا ہوگا۔یا اللہ میری مدد کر، مجھے نہیں رہنا یہاں،میرا دل گھبرا رہا ہے۔یا اللہ!آپ تو اپنے بندے کو تکلیف میں کبھی تنہا نہیں چھوڑتے نہ۔میں بھی تو آپ ہی کی بندی ہوں۔میری بھی مدد کر میرے مالک!"نور کا دل رو رہا تھا۔

اتنے میں ڈاکٹر اسکے قریب آگئے اور باازو میں ایک اور انجکشن لگا دیا۔اسکے دل سے"آہ"کی آواز آئ تھی۔

"میں کیسے بتاؤں انکو کہ مجھے تکلیف ہو رہی ہے!"

                          *********

تین دن ہوگئے تھے نور کو ہوش نہیں آیا تھا اور ڈاکٹر کے مطابق اسکی حالت بگڑ رہی تھی۔صائم روزانہ فون کرتا تھا اور جب سنتا کہ ہوش نہیں آیا تو پریشان ہوجاتا۔دوسری طرف نور کے والدین بھی بہت پریشان تھے۔نور کی امی کے ذہن میں مستقل نور کی باتیں گھوم رہی تھیں کہ "امی میں مرنا نہیں چاہتی،میں مرجاوں گی"اور ان باتوں کو سوچ کر امی کو پچھتاوا ہوتا تھا۔

                         ********
نور کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔نور کے پاس ایک نرس تھی جب اسنے دیکھا کہ نور کی دھڑکن کم ہورہی ہے تو ڈر کر ڈاکٹر کو بلا لائی۔ڈاکٹر اپنی کوششوں میں لگے تھے اور ادھر نور دم توڑ رہی تھی۔اور پھر ڈاکٹر کے کوششیں کرتے ہاتھ رک گئے اور دوسری طرف۔۔۔۔۔

ڈاکٹر باہر اآئے تو امی ابو انکے پاس اگئے۔ڈااکٹر نے اپنا ماسک اتارا اور سر جھکائے کھڑا ہوگیا۔

"کیا ہوا ڈاکٹر صاحب سب ٹھیک ہے نہ،میری بچی کو ہوش اایا؟"ابھی بھی امی کے پاس صائم کا فون آیا ہوا تھا۔

"We can't say anything, because he can't breathe by herself so we put her on ventilator"

"آہ کیا کہہ رہے ہیں اپ؟یہ کیا کہہ رہے ہیں؟"نور کی امی نے نور کے ابو کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔اور پھر زور زور سے چیخیں مارنی شروع کردیں۔

اور دوسری طرف صائم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے جلدی سے فون کاٹا اور بیڈ پر پھینک دیا۔اور سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا اور پھر اپنے ہاتھ پیشانی اور گالوں سے پھیرتا ہوا ہونٹوں تک لے ایا اور اپنے منھ پر زور سے ہاتھ رکھ کر رونے لگا۔منھ پر ہاتھ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اقراء کو آواز نا جائے۔اسکے آنسو مسلسل بہہ کر کپڑوں پر گر رہے تھے۔پھر ایک دم کھڑا ہوا اور سجدے میں گر کر دعا مانگنے لگا۔

"یا اللہ!پلیز تو تو رحیم ہے،تو کریم ہے،تو ہی مردے میں جان ڈالنے والا ہے۔یا اللہ!پلیز نور کے بے جان جسم میں بھی جان ڈال دے۔یا اللہ!آپ تو سب جانتے ہیں نہ کہ میں نور سے کتنی محبت کرتا ہوں۔پلیز یا اللہ پلیز!صائم سسکیاں لینے لگتا ہے۔

"پلیز میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔پہلے رانیہ کو کھودیا اور ااب ماہنور کو نہیں کھو سکتا۔اب مجھ میں سکت نہیں ہے کہ اس سے دوری برداشت کر سکوں۔"پھر ایک دم اٹھایا اور نور کی امی کو فون ملانے لگا۔

"السلام علیکم بیٹا!"نور کے ابو نے فون اٹھایا تھا۔

"آنٹی کی طبیعت کیسی ہے اب؟"

"وہی حاال ہے بیٹا!"

"انکل آپ ڈاکٹر سے کہیں تو صحیح ایک دفع!میرا دل کہتا ہے کچھ نہیں ہوگا نور کو۔"

"بیٹا بالکل جواب دے چکے ہیں ڈاکٹر!"

"انکل یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں،کیسے باپ ہیں یار آپ!کوئی کوشش ہی نہیں کر رہے ہیں۔کچھ نہیں ہوگا نور کو،کچھ نہیں ہوگا اسے۔صائم نے روتے روتے فون کاٹ دیا۔

                       ********
I hope k ap logon ko ye pasand ayi hogi.mera pehla novel ha plz mujhe support karain,vote karain or comments karain plz.

                                            روشنی(Complete)Where stories live. Discover now