قسط نمبر 6

217 37 13
                                    

"اپکو پتا ہے نور آپی صائم بھائ ابھی بھی ہم سے ناراض ہیں۔"

"ہاں یار! ایک کام کرتے ہیں کہ آج معافی مانگ لیتے ہیں۔"

"میں تو کبھی بھی نہیں مانگوں گی ہاں البتہ آپ نے مانگنی ہے تو مانگ لیں۔"

"تم بھی نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" نور نفی میں میں سر ہلاتی ہوئی آگے بڑھ گئ۔

********

"نور آپی! چلیں صائم بھائ آگئے ہیں؟"

"اقراء کہاں!!!؟؟؟"

"نور آپی میرے ساتھ میرے گھر اور کہاں!"

"لیکن اقراء میں نے آج کا نہیں کہا ہوا ہے امی کو۔"

"تو کیا ہوا؟ میں گھر جا کر کال کردوںگی۔ اور ویسے بھی آپ نے صائم بھائ سے معافی مانگنی ہے نا؟ چلیں !!!"

یہ کہتے ہوئے اقرا نور کا ہاتھ کھینچ کر لے گئ۔

******
"صائم خاموشی سے آگے آگے چل رہا تھا۔اور وہ دونوں اس کے پیچھے چل رہی تھیں۔صائم کی طرف کا ماحول گرم لگ رہا تھا۔اتنے میں نور آگے صائم کی طرف بڑھ گئ۔

" ااا۔۔۔۔۔۔ھائ!" نور نے کہا۔ صائم کی طرف بالکل سناٹا تھا۔ اب نجانے یہ طوفان سے پہلے کا سناٹا تھا یا طوفان تھم جانے کے بعد کی خاموشی تھی۔ خیر جو بھی تھا، وہ خاموشی نور کو چب رہی تھی۔

"صائم!" نور نے صائم کا بازو پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے نور کا ہاتھ جھٹک دیا۔ پھر نور صائم کے آگے جا کر کھڑی ہوگئی تاکہ اسے روک سکے اور دونوں بازو پھیلا دئیے ۔لیکن وہ پھر بھی نہ رکا اور چلتا رہا۔اسکے چلنے کی وجہ سے نور بھی پیچھے کی جانب چلتی رہی۔

"صائم آئ ایم سوری!" صائم یہ سن کر ایک دم رکا تو نور بھی رک گئ۔

"کیا کہا آپ نے!؟؟"

"میں نے کہا سوری!"

"سوری! نہیں مطلب کہ تم نے مجھے سوری بولا۔تم جیسے لوگ ہی تو مجھے پسند ہیں۔مطلب یار۔۔۔۔۔۔۔نہیں کچھ نہیں۔اٹس اوکے!تم نے اپنی غلطی مان لی وہی بہت ہے۔دیکھو اقراء سیکھو کچھ اپنی کزن سے۔"

"ہممم۔" اقراء نے یہ کہتے ہوئے آنکھیں پھیریں۔اب صائم نے بھی ایک دم ہی رنگ بدلا تھا تو اقراء کا تو یہ رویہ ہونا ہی تھا۔

"اب آپ مان ہی گئے ہیں تو میں اپکو گھر جاکر چائے پلاتی ہوں۔" نور نے صائم کو اگر کرائی۔

"گھر جاکر کیوں؟ یہاں پر ایک چائے والا ہے اس کی چائے بہت کڑک اور مزےدار ہوتی ہے میں اپکو وہاں سے پلاتا ہوں۔" پھر وہ لوگ چائے پینے چلے گئے۔

********
"آخر کیا کروں کے صائم اقراء کی طرف ہو جائے۔اسکا دل اقراء کی طرف مائل ہوجائے۔" نور سوچ ہی رہی تھی کہ اتنی دیر میں اقراء اگئ۔

"اپکو پتا ہے نور آپی! آج تو مجھے چائے پی کر بہت مزا ایا۔" اقراء بولے جارہی تھی لیکن نور کچھ نہیں سن رہی تھی کیونکہ وہ ابھی تک انہیں باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔

"نور آپی!آپ سن رہی ہیں نا؟"

"اااا۔۔۔۔ہاں سن رہی ہوں۔"اتنے میں ممانی جان نے دونوں کو کھانے کیلئے آواز دے دی۔

دونوں کھانا کھانے چلی گئیں۔ کھانے سے فارغ ہوکر دونوں صائم کے پاس چلی گئیں۔کیونکہ یہ اقراء کی روٹین کا حصہ تھا کہ وہ دوپہر کا کھانا کھاکر صائم سے ہوم ورک کرنے چلی جاتی تھی۔۔بچپن سے اسے صائم نے ہی پڑھایا تھا۔ لیکن صائم کے باہر جانے کے درمیانی عرصے میں اس نے پڑھائ میں نور سے مدد لی تھی۔تب ہی اس کی نور سے اتنی اچھی دوستی ہوگئ تھی۔
(جاری ہے)

*********
امیدہےکہ یہ قسط آپ لوگوں کو پسند آئی ہوگی۔

                                            روشنی(Complete)Onde histórias criam vida. Descubra agora