قسط نمبر 9

183 32 14
                                    

"اقراء!" صائم نے بیگ رکھتی اقراء کو مخاطب کیا۔

"جی!" اقراء نے بہت آکھڑا سا جواب دیا۔

"کیا ہوا تمھیں اور آج تمھاری کزن کہاں ہے؟"

"اپکو کیا فرق پڑے؟نہیں مطلب کیا،کیا سمجھتے ہیں خود کو؟"

"ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟ اور کیا ہوا ہے تمھیں؟"

"اتنے بھولے تو نہیں ہیں آپ!" اقراء اپنے چہرے کے تاثرات بدلتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

"آپ نے نور آپی کو کیا کہا ہے؟"

"میں نے؟"

"نہیں آپکے فرشتوں نے! ہٹیں یار!مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی ہے۔"اقراء یہ کہتی ہوئی صائم کو دھکا دیتی ہوئی چلی گئ۔ صائم بھی اسکے پیچھے چلنے لگا۔ اقراء اپنے کمرے میں بیڈ پر جاکر بیٹھ گئ۔ صائم بھی اسکے پاس جاکر بیٹھ گیا۔

"میں مناؤں اسے؟" صائم نے اقراء کو منانے کیلئے پوچھا۔

"کسے؟"

"اب تم اتنی بھولی تو نہیں ہو جتنی بن رہی ہو!"صائم نے اقراء کی بات اقراء کو ہی دے ماری تھی۔

"کیااا؟ بتائیں نا!"

"نور کو!"

"سچ؟" اقراء نے بے یقینی کا اظہار کیا۔

"ہممم۔۔"

"پر کیسے؟"

"بس دیکھتی جاؤ!"

"اوہ تھینک یو!" اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے  اقراء صائم کے گلے لگ گئی کیونکہ ان کے گھر میں پردے کا رواج نہیں تھا۔

                                ******

"نور!" صائم نے گیٹ سے نکلتی نور کو مخاطب کیا۔ نور نے صائم کی آواز پر ایک دم مڑ کر دیکھا۔

"نور! ہائے!" صائم نے اس کے پااس آتے ہوئے بولا۔

"جی بولیں!"

"ناراض ہیں اب تک؟"

"نہیں میں نے کیوں آپ سے ناراض ہونا ہے۔"

"جھوٹ!"

" کیا جھوٹ؟ اور ویسے بھی اگر سچ بولوں گی تو اپکو کونسا فرق پڑنا ہے؟"

"آپ بولیں تو صحیح!"

"اپکو پتا بھی ہے پھر بھی پوچھ رہے ہیں۔"

"اوکے سوری!" نور صائم کی بات ان کر رک گئی اور بہویں اوپر کیں، ااٹس اوکے بول کر آگے بڑھ گئ۔

" ااا۔۔۔نور!"

"ہممم۔۔؟" نور چلتے ہوئے جواب دے رہی تھی۔ اتنی دیر میں اقراء بھی ان کے پیچھے اگئ۔اقراء کان لگا کر ان کی باتیں سن رہی تھی۔

"تو پھر چلیں؟"

"کہاں؟" نور نے چڑتے ہوئے اور حیرانی سے پوچھا۔

"میرے ساتھ، میرے گھر!"

"ایکس کیوز کی!"

" جی؟"

"کس خوشی میں ذرا یہ تو بتائیں؟" نور اپنا دایاں ہاتھ کمر پر رکھ کر صائم سے پوچھ رہی تھی۔

"اس خوشی میں کہ وہاں اقراء ہے۔"

"تو! اقراء تو مجھے کالج میں بھی مل جاتی ہے اور ویسے بھی میں نے مما کو کچھ نہیں بتایا ہے۔"اتنے میں اقراء بھی آگے اگئ۔

"تو کیا ہوا نور اپی؟ میں پھو پھو کو گھر جاکر کال کردوںگی۔ پلیز نہ نور اپی! پلیز!"

"اوکے یار!"

"تھینک یو!" یہ کہہ کر اقراء نے نور کو گلے لگا لیا۔ نور نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ دی۔

                          ********

"جی امی! ہممم۔۔۔ جی بس اقراء نے ضد کی تو میں اگئ۔اپکو تو پتا ہے نہ اقراء جب ضد کرتی ہے تو مجھ سے منع نہیں کیا جاتا ہے۔ جی۔۔۔"

نور ٹیرس میں ٹہل ٹہل کر اپنی امی سے بات کر رہی تھی۔ " نہیں نہیں امی!" نور ایک دم پیچھے مڑی تو صائم کھڑا ہوا تھا۔

" اوکے امی میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ نہیں وہ اقراء آگئ ہے۔" نور نے فون کاٹ دیا۔

"جی صائم، کوئی کام تھا؟"

" نہیں بس ایک بات پوچھنی تھی۔"

" جی پوچھیں!"

"آج چھت پر ملیںگی۔" نور ہلکا سا مسکرا دی۔

" جی کیونکہ اس دن آپ نے مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔"

" اوکے" صائم اس کی آنکھوں میں گم ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

"صائم!" نور نے صائم کو مخاطب کیا کیونکہ اس کو جانے کیلئے رستہ نہیں مل رہا تھا۔

" ہمممم۔۔"

" صائم آراستہ دیں!"

آسا ہاں شیور!" صائم نے ایک دم ہوش میں آتے ہوئے کہا۔

"نور!" صائم نے دروازے سے جاتی نور کو مخاطب کیا۔

"ہمم۔۔"

" آپ نے امی سے اقراء کا نام کیوں لیا؟"

نور ایک دم صائم کی طرف مڑی۔اب وہ دونوں آمنے سامنے تھے۔اوپر چاند پوری ابو تاب سے چمک رہا تھا۔نور اور صائم کی آنکھیں ملیں۔چاند کی روشنی نور کے منھ پر پڑھ رہی تھی کیونکہ اس کا رخ چاند کی طرف تھا۔

"امممم۔۔۔صائم کیونکہ۔۔" نور رک رک کر بول رہی تھی۔ "کیونکہ ہمارے معاشرے میں لڑکا اور لڑکی کی دوستی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔"

" کیا مطلب؟"

"مطلب یہ کہ اگر امی کے سامنے آپ کا نام لے لیتی تو وہ کیا سوچتی۔خیر چھوڑیں نہ اور مجھے جانے دیں!"

                                ******
پلیز ووٹ کریں اور کمنٹ کریں۔میری پہلی کریشن ہے اور مجھے آپ لوگوں کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔



                                            روشنی(Complete)Where stories live. Discover now