قسط:۲۶

169 15 5
                                    

اب ڈر نہیں لگتا کچھ کھونے کو
میں نے زندگی میں زندگی کو کھویا ہے🥀
(فلیش بیک)
"مجھے بلایا گیا تھا"حور کے آنسو ٹوٹ کر گال پر آ گرے۔ہادی نے چونک کر اس کی جانب دیکھا جبکہ آفسر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگی۔حور اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔ہادی کی گرفت حور کے ہاتھ پر کمزور ہوئی۔
"سر باہر ایک آدمی آیا ہے کہ رہا ہے آئی جی صاحب سے بات کرنا چاہتا ہے"کانسٹیبل نے آ کر ہود سے کہا۔
"اچھا تم بٹھاؤ اُسے میں آتا ہوں"سر میں نے بیٹھا دیا ہے لیکن وہ مسلسل آپ سے ملاقات کی ضد کررہا ہے"کانسٹیبل پھر سے گویا ہوا۔
"میں آ کر جاری کرتا ہوں آپ انتظار کیجیۓ"ہود کو ناچار جانا ہی پڑا۔
آفس کا دروازہ کھلا۔جو کوئی بھی شخص تھا اس کا چہرہ ڈھپا ہوا تھا۔ہود آیا اور ٹیبل کی دوسری پار چیئر پر بیٹھ گیا۔
"جی فرمایئے"ہود نے اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے بغور اُس کا چہرہ دیکھتے سوال کیا۔
"میں آئی جی سے بات کرنا چاہتا ہوں"اس نے نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں ہی ہوں آئی جی انسپکٹر ہود کہیے آپ"ہود کا لہجہ بے تاثر تھا۔اس نے ہود کی جانب دیکھا۔اور اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا۔ہود اُس شخص کا چہرہ دیکھ کر چونکا اور زور سے آنکھیں میچیں۔لیکن ہمت کرتے اُس سے سوال کیا۔
"کیسے ہوا یہ۔۔۔؟؟"ہود نے بس اتنا ہی کہا۔سامنے بیٹھا شخص تلخيہ ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔ہود حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات سے اُس شخص کو دیکھ رہا تھا۔۔
"جس شخص نے اپنے ان ہاتھوں سے دوسروں کے چہروں کا یہ حال کیا ہو اُسکے ساتھ یہ سب ہونا عام بات ہے۔نہیں!؟"وہ ہنستے ہنستے سنجیدہ ہوا۔ہود کے چہرے پر چٹانوں جیسے سنجیدگی چھا گئی۔
"کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا؟؟"ہود نے سختی سےکہا۔
"جانتے ہو یہ۔۔یہ ہاتھ کتنی زندگیاں برباد کر چکے ہیں؟کتنی بیقصور لڑکیوں کو جیتے جی مار چکے ہیں؟ہاہ!!! یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔کچھ بھی نہیں۔۔"ہود کو لگا اس شخص کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔لیکن وہ بیدردی سے اُنہیں صاف کر چکا تھا۔
"لیکن میں۔۔میں آج نہ صرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے آیا ہوں بلکہ خود کو بھی آپ کے حوالے کرنے آیا ہوں"ہود کا اُس کی گفتگو سن کر دماغ خراب ہونے کے قریب تھا۔کس طرح وہ سب گناہ کر کے معصوموں کی زندگیاں برباد کر کے اپنا گناہ تسلیم کر رہا تھا۔بھلا اُن معصوموں کا کیا قصور تھا جو بےگناہ ہوتے ہوئے بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے،حرام موت مر گئے؟اُن کا کیا قصور جن کو بےگناہ ہوتے ہوئے بھی معاشرے میں قصور وار ٹھہرایا گیا؟یہی تو منفی پہلو ہے ہمارے معاشرے کا۔نہ ہونے کے باوجود بھی بقصور کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔اور قصور وار اگر پیسے والا ہو تو رشوت کے ذریعے اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔آخر کیوں؟؟کیا وہ قصور وار بھی اتنا ہی قصور وار نہیں ہوتا جتنا کہ ایک غریب ظلم کرنے والا ہوتا ہے؟؟کیا معاف کرنا رشوت کے ذریعے ظالم کو بخش دینا صحیح ہے؟؟کیا یہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟؟اُن گھر والوں کا کیا قصور جو آس لگائے بیٹھے ہیں انصاف کی؟؟یہی تو سمجھنے والی بات ہے! انہی غفلتوں کی وجہ سے آج ظالم شیر بنا پورے معاشرے میں پھرتا ہے اور معصوم!! معصوم خوف کے مارے چھپے پھرتے ہیں تاکہ اور عزتوں کی بھینٹ نہ چڑھ سکے!!
ہود نے غصے سے اپنی مٹھی ٹیبل پر ماری۔۔
"بہت بری سزا ملے گی تمہیں بہت بری!!"ہود نے دانت پیس کر کہا۔
"سزا!! وہ تو مجھے کب کی مل چکی ہے۔جاننا نہیں چاہو گے کیا!؟"اس کے چہرے پر تلخيه ہنسی آئی۔۔ہود خاموش رہا۔
"میرے گناہوں کی سزا میرا پورا خاندان بھگت چکا ہے!! پورا خاندان۔۔"اس شخص کی آنکھوں میں نمی تھی۔
"میں اپنے شکار پر گیا تھا مجھے نہیں معلوم تھا کہ کوئی شکاری میرے گھر کا شکار کیے ہوئے ہے۔اور سب ختم ہی گیا جب دو دن بعد میں گھر لوٹا تو میری بیٹی اور بیوی کی لاش ملی۔۔اور جس حالت میں تھی۔۔"اس نے بات اُدھوری چھوڑی۔۔
"کب کی بات ہے یہ!؟"ہود کو جانے کیوں شبہ ہوا کہ یہ حور والے قصے میں بھی ملوث تھا۔
"م۔۔مہینہ ہونے کو ہے اس سب کو"
"ہمم!!"ہود کہے اٹھا اور روم سے باہر نکلا۔
"آپ کیا دیکھ کر بتا سکتی ہیں کہ کس نے آپ کے ساتھ وہ سب کیا تھا؟؟"ہود نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔حورین نے ہلکا سا سر کو خم دیا۔
"آئیے میرے ساتھ"ہود نے گلاس ڈور سے حور کو سامنے بیٹھے شخص کو دکھایا۔حور کے چہرے پر خوف نمایاں تھا۔اس نے زور سے ہادی کا ہاتھ تھام لیا۔
"آپ اب جا سکتے ہیں آگے کون کون اس سب میں ملوث ہے اُس کا بھی جلد ہی پتہ لگ جائے گا۔"ہود کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
"شکریہ"ہادی نے مسکرا کر کہا اور باہر نکل گیا حور بھی اس کے پیچھے ہو لی۔گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ہادی کے چہرے پر سنجیدگی عیاں تھی۔حور نے اس کی جانب دیکھا پھر نظریں جھکا لیں۔
"ہادی۔۔"
"میں اس وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا پلز"ہادی کا لہجہ سرد تھا۔
"لیکن"
"ایک بار سمجھ نہیں آتا تمہیں"ہادی چلایا تھا۔حور خاموش ہو گئی۔۔ہادی نے پہلی بار اُس سے اس طرح بات کی تھی۔
گھر پہنچتے ساتھ ہی ہادی بغیر کسی کی جانب دیکھے اپنے روم میں چلا گیا۔حورین اُس کے پیچھے داخل ہوئی۔اس کی آنکھیں نم تھیں۔۔
"بیٹا کیا ہوا ہے ہادی ایسے اپنے روم میں کیوں چلا گیا ہے؟سب ٹھیک تو ہے!؟"ہاجرہ بیگم نے پریشانی سے سوال کیا۔
"امی"اس نے اُن کی جانب دیکھا اور اُن کے گلے لگے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔
"حورین میری جان کیا کیا ہوا ہے؟!ایسے رو کیوں رہی ہی!؟"ہاجرہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔حور نے اپنے آنسو صاف کیے۔
"کچھ نہیں امی بس ویسے ہی"آنسو صاف کرتی وہ اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔
"اپنی قسمت پر رو رہی ہوگی بیچاری۔اچھا بھی تو نہیں ہوا نا اس کے ساتھ"تائی امی کہاں طنز کرنے سے بعض آئی تھیں۔حور نے تڑپ کر اُن کی جانب دیکھا۔
"بھابھی یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟"ہاجرہ بیگم نے افسوس سے کہا۔
"ہاں تو میں کون سا جھوٹ بول رہی ہوں کیا یہی سچ نہیں ہے؟کیوں حورین شاہنواز!؟"تائی جان زہر اگل رہی تھیں۔
"بھابھی کچھ تو خدا کا خوف کریں نہیں تو اپنی بیٹی کا ہی سوچ لیں۔۔"ہاجرہ بیگم بے بس تھیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں۔
"خبر دار جو میری بیٹی کا نام لیا تم نے شرم نہیں آتی۔۔"سکینہ بیگم کو جیسے اپنی بیٹی کا نام سن کر آگ لگ گئی۔۔مزید بولیں۔"اور ویسے بھی میری بیٹی کو کوئی شوق نہیں ہے بے فضول گھر سے باہر جانے کا"تائی جان حورین کو سنا رہی تھیں۔حورین روتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ہاجرہ بیگم اس سے پہلے اُس کے پیچھے جاتیں ہادی سیڑھیوں سے اترتا نیچے آیا۔
"چچی جان آپ رکیے میں خود جاتا ہوں"ہادی کا لہجہ قدرے سنجیدہ تھا۔وہ تائی جان کی گفتگو سے بےخبر تھا اسی لیے خاموشی سے حورین کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔
"اٹھو اور کمرے میں چلو"ہادی اُس کے رونے کی پرواہ کیے بغیر گویا ہوا۔حورین نے اس کی جانب دیکھا۔
"میں مانتی ہوں مجھے یوں نہیں جانا چاہیے تھا لیکن۔۔۔"
"اٹھو اور کمرے میں چلو وہاں جا کر سب بات چیت ہو گی میں یہاں پر کوئی سین کریٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔"ہادی نے دو ٹوک انداز میں اُس کی بات کاٹی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔کچھ ہی سیکنڈز میں حورین بھی اپنے کمرے سے باہر نکلی اور ہادی کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔حور کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ہادی نے زور سے دروازہ بند کیا۔حورین کانپ اٹھی۔ہادی ٹانگ پر ٹانگ دھرے صوفے پر بیٹھ حورین کی جانب متوجہ تھا۔پیشانی پر بال ہمیشہ کی طرح بکھرے ہوئے تھے اور وہی پرکشش شخصیت لیکن اضافہ تھا تو صرف ایک چیز کا اور وہ تھی چٹانوں جیسی سنجیدگی۔۔۔
"اب کہو"ہادی نے حورین کو بولنے کو کہا۔حور مجرموں کی طرح سامنے کھڑی ہادی کو وضاحتیں دینے لگی اور اس دن کے واقعہ کے متعلق بتانے لگی۔
"مجھے کال آئی تھی۔۔"
"کس کی؟؟"ہادی نے سوال کیا۔حورین اپنے ہونٹ دانتوں تلے دبا گئی۔
"حورین شاہنواز میں تم سے پوچھ رہا ہوں کس نے کی تھی کال؟؟"ہادی کا لہجہ تھوڑا اونچا ہوا۔
"ب۔۔بِسمل!!"حورین کے الفاظ تھے لیکن ہادی کو آگ لگا گئے۔
"واٹ بِسمل!! اوہ مائے گوڈ!! تمہاری یہ جو عقل ہے وہ کام کرتی ہے ہاں!؟"ہادی غصے سے اُس کی کنپٹی پر انگلی رکھتا بولا۔حور نے اپنے آنسو ضبط کرنے کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔
"ہادی ریلیکس کام ڈاؤن!"ہادی نے خود کو ریلیکس کیا اور لمبے سانس بھرنے لگا۔
"آگے"
"اس نے کہا کہ فوراً سے آ جاؤ میری جان خطرے میں ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا میں نے بس یونی کا بہانہ کیا۔۔۔۔"
"ہاں بہانہ کیا اور بغیر بتائے اُس کی جان بچانے نکل گئی اور وہ آگے تمہاری جان نکالنے کے منصوبے بنائے بیٹھی تھی۔رائٹ!؟"ہادی نے اس کی بات کاٹی اورخود آگے سے مکمل کی۔
"ہادی آئی ایم سو سوری!! مجھے بن بتائے نہیں جانا چاہیے تھا"
"بن بتائے جانا از'نٹ دا پوائنٹ!! دکھ تو اس بات کا ہے کہ تم نے بھروسے کے قابل ہی نہیں سمجھا"ہادی نے چہرہ موڑ کر کہا۔حورین کے آنسو تھمے۔
"آپ۔۔آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟؟مجھے خود سے زیادہ آپ پر بھروسہ ہے"حورین نے اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہی۔
"ہر بات کی دلیل دینا ضروری نہیں ہوتا حورین۔اپنوں سے لا تعلقی کا سب سے اہم پہلو جانتی ہو کیا ہے!؟کے اُنہیں اپنے دکھ،غم اور پریشانی سے ناآشنا رکھنا۔اور جن کے ساتھ یہ سب کیا جائے وہ خود ہی پیچھے ہو جاتے کہ بھلا جب یہ ہم پر یقین نہیں کرتے تو اس رشتے کا کیا فائدہ!؟اور جس پر بھروسہ ہی نہ کیا جائے تو سوچو اُس کا کیا حال ہو گا؟؟"یہ ہادی کیا کہہ گیا تھا۔حور ساکت کھڑی اُسے تکتی رہی۔
"جن رشتوں میں بھروسہ نہ ہو نا وہ رشتے کبھی پائے دار نہیں ہوتے۔رشتوں کی بنیاد ہی تب ہوتی ہے جب آپ ایک دوسرے پر یقین کرو،اُسے شریکِ حیات کے ساتھ شریکِ راز بھی بناؤ تبھی رشتوں کے بندھن مضبوطی سے بندھے رہتے ہیں۔بھروسے کے بنا رشتے کی بنیاد ایسی ہے جیسے چھت کے بنا چار دیواری۔چھت نہ ہو تو ہر سمے کسی نا کسی چیز کا خطرہ لاحق رہتا ہے اسی طرح جب بھروسہ ہی نہ ہو تو۔۔خود ہی سمجھ لو"ہادی آخر میں ہنسا تھا۔
"میں چلتا ہوں اب"ہادی کہے کمرے سے باہر نکل گیا۔حورین بیڈ پر بے جان وجود کی طرح بیٹھی۔
"يا اللّٰہ ایک اور آزمائش!!"آنسو بار توڑ کر ایک بار پھر اس کی رخساروں پر بہنے لگے۔
مسلسل سوچوں سے سسکتا ہوں میں
ذہن کو جسم پر رحم کیوں نہیں آتا🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now