قسط:۲۹

191 17 6
                                    

لوگ کہتے ہیں کہ مُسکان ہے ہونٹوں پہ میرے
کون جانے کے تصور میں ہنسایا کس نے🥀
"انس یار کس قدر میسنے گھنے ہو تم!! اللہ معاف کرے۔۔سچ سچ بتانا بلکہ رکو اپنی بہن کو نہیں بتا سکتے تھے ہاں کب سے تم نے مجھ سے کچھ چھپانا شروع کر دیا ہاں!؟"مریم جو کے اورنگزیب صاحب کے کہنے پر یہاں آئی تھی اُن کی بات سن کر انس پر ٹوٹ پڑی۔اب اسی کا کان کھینیچے وہ اُسے باتیں سنا رہی تھی۔جبکہ اورنگزیب صاحب اور اُنکی بیوی دونوں ان کو یوں دیکھ کر مسکرا دیے۔
"ہائے اللہ منی کی بچی کان تو چھوڑو میرا۔ابھی شادی ہوئی نہیں ہے میری تم پہلے ہی میرے بیچارے کان کو کھینچ کر توڑ دو نہیں تو لمبا کر دو۔مجھ بیچاری بیوی کا بھلا کیا قصور ہوگا؟"انس نے اپنے کان کو رگڑتے مریم کو گھورتے ہوئے کہا۔
"استغفراللہ انس بعض آجاؤ تم۔بہت ہی کوئی "وہ" ہوتے جا رہے ہو"مریم نے اپنی گردن کو نفی میں ہلاتے چور نظروں سے اُسے دیکھتے کہا۔جبکہ انس اُسے دانت دیکھانے لگا۔
"ویسے قسم سے تم نے نا بےحیائی،ہے شرمی میں نا ماسٹر کر رکھا ہے۔شرم تو بلکل نہیں آتی نا تمہیں۔بزرگ بیٹھے ہیں اور تم ہو کے پٹر پٹر فضول بکے جا رہے ہو"مریم نے اُسے گھورتے ہوئے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔جبکہ انس اپنے لیے القابات سن کر کھلکھلا کر ہنس دیا۔
"ماما میں آپ کو بتا رہی ہوں کہ یہ مجھ سے۔۔افف۔۔۔دفع ہو جاؤ"مریم سنجیدہ ہوئی۔لیکن کچھ پل میں ہی اسکی سنجیدگی اُڑن چھو ہو گئی۔اب کہ اس کا قہقہ فضاء میں بلند ہوا۔
"یار جچے گی تم دونوں کی سچ میں۔۔دونوں ایک جیسے شیطان ہو تم۔مانو یا نہ مانو"مریم نے ہنستے ہوئے کہا۔
"جانتا ہوں"انس بڑبڑایا۔لیکن اسکی بڑبڑاہٹ مریم سن چکی تھی اسی لیے معنی خیزی سے اسکی جانب تکنے لگی جبکہ انس اپنے سر میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔۔
"چلو بیٹا آپ لوگ بیٹھو میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں"وہ کہے کچن کی جانب بڑھ گئیں۔جبکہ اورنگزیب صاحب بھی اپنے کمرے میں چلے گئے۔
"اوئے ذرا بات تو سنو ویسے یہ سین کب سے آن ہے تمہارا ہاں؟؟"مریم نے مشکوک نظروں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہیں کون سا سین؟"انس انجان بنا۔
"زیادہ انجان مت بنو اوکے!"مریم نے آئی برو اُچکاتے کہا۔انس نے اپنی مسکراہٹ روکی۔
"میں چلتا ہوں پھر ملتے ہیں اور ہاں خوشخبری ہونی چاہیے"انس ایک آنکھ دباتا باہر کی جانب بڑھ گیا جبکہ پیچھے سے مریم فلک شگاف قہقہ گونجا۔انس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ چھا گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت محدود سا ایک حلقہ احباب تھا میرا
فقط مستیاں،شیطانیاں،نادانیاں اور میں
اب بھی حلقہ احباب محدود ہے میرا
فقط خاموشیاں،تنہائیاں،اُداسیاں اور میں🥀
نکاح ہو چکا تھا۔اسمارا کو روم میں چھوڑے وہ دونوں باہر آ گئے۔
"کسی چیز کی ضرورت ہے تو بول"ہادی شیری سے مخاطب ہوا۔
"نہیں نہیں جو تو نے میرے لیے کر لیا وہ بہت ہے۔۔بھی شکریہ"شیری نے اس کا ہاتھ تھامے کہا۔
"او زیادہ ایموشنل نہیں ہونے کا سمجھا"ہادی نے اُسے تنگ کرتے کہا۔دونوں مسکرا دیے۔
"اچھا اب میں نکلتا ہوں گھر سب انتظار کر رہے ہیں ہے"ہادی اُس سے بغل گیر ہوا۔
"شکریہ یار بھابھی کو لے آئیں پلز اسمارا کا دل بھی بہل جائے گا"شیری نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہمم میں نکلتا ہوں اب"ہادی کہے باہر کی جانب بڑھ گیا۔شیری گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام اُمیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گِلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوگیا سلسلہ نوحه گری
اس قدر گردشِ ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیل
مجھ کو اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا🥀
"حورین اپیا آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ٹھنڈ ہو رہی ہے آپ بیمار ہو جائیں گی اندر چلیں"امل نے اس سے کہا جو کہ جانے کن سوچوں میں گم بادلوں کو تک رہی تھی۔
"حور آپی"امل نے پھر سے اُسے پُکارا۔
"ہ۔۔ہاں کچھ کہا"حورین بوکھلائ۔
"آپی آپ ٹھیک تو ہیں؟"امل نے پریشانی سے سوال کیا۔
"ہاں گڑیا میں ٹھیک ہوں"اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"لیکن آپی آپ صحیح نہیں لگ رہیں مجھے"امل نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
"نہیں بس ایسے ہی گھبراہٹ سی ہو رہی تھی تو سوچا باہر آ جاؤں"حور مسکرائی۔
"اب صحیح ہیں آپ؟"اُس نے پریشانی سے سوال کیا۔
"ہاں چندہ اب میں بلکل ٹھیک ہوں"حور نے اُسکا گال تھپتھپاتے کہا۔
"کیا ہوا جوڑی پوری نہیں ہے خیریت؟"حور نے امل سے سوال کیا۔
"جی اپیا عبیر گئی ہوئی ہے تائی امی کے ساتھ اور مریم بھابھی بھی اپنی امی کے ہاں گئی ہیں"امل نے منہ بناتے کہا۔حورین مسکرا دی۔
"چلو کوئی نئی ہم دونوں مل کر گپ شپ کر لیتے ہیں"حور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"حور آپی ایک بات پوچھوں!؟"امل نے اس سے اجازت چاہی۔
"ارے اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے پوچھو"
"اپیا مجھے ہادی بھائی کا آپ کے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں لگ رہا"حور جو کہ مسکرا رہی تھی سنجیدہ ہوئی۔
"دیکھا میرا شک صحیح تھا۔آنے دیں ذرا بھائی کو ان کا میں بابا کو بتاتی ہوں"
"ارے نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ۔۔وہ بس۔۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی میں سب کچھ خود دیکھ لوں گی۔۔جیسا تم سوچ رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہے۔مم۔۔میں آتی ہوں"حور کہے وہاں سے اٹھ گئی اور اندر کی جانب اپنے قدم بڑھا دیے۔آنسو اُسکے گال پر گرنے لگے۔اپنے ہی خیال میں چلتے چلتے اُسکا ٹکراؤ گیٹ سے اندر آتے ہادی سے ہوا۔اس سے پہلے وہ گرتی ہادی نے اُسے بازو سے پکڑا۔دونوں کی نظروں کا ارتکاز گیا۔کچھ پل وقت تھما تھا۔رونے کی وجہ سے حور کی آنکھیں لال ہو چکی تھیں۔ان آنکھوں میں بہت سے شکوے گلے تھے۔ہادی نے نظریں چرائیں۔حور اپنا بازو چھڑاتے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
سرمئ آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا
بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس کا اک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت
زیرِ لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا
دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا
بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا
نیم شب کی خاموشی میں بہکتی سڑکوں پہ کل
تیری یاد کے جلو میں گھومنا اچھا لگا
اس عدوِ جاں کو امجد میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا وہ سامنے بے وفا اچھا لگا🥀
"ارے آئیں آئیں بیٹھیں۔آپ ہی کا انتظار کر رہے تھے مریم نے بتایا تھا آپ کے آنے کا"اسد صاحب نے اورنگزیب صاحب اُن کی بیوی اور انس کا ویلکم کرتے ہوئے کہا۔
"بہت شکریہ"اورنگزیب صاحب نے مسکرا کر جواب دیا اور لاؤنج میں موجود سوفوں پر بیٹھ گئے۔
"میں لاتی ہوں کچھ"سنا بیگم اٹھیں اور باورچی کی جانب بڑھ گئیں جہاں ہاجرہ بیگم پہلے کی کباب تلنے میں مصروف تھیں۔
"بھابھی آپ جائیں بیٹھیں میں لے آتی ہوں سب"ہاجرہ بیگم نے کہا۔
"سنا ہاجرہ بچیاں کہاں ہیں ساری؟مریم بھی نظر نہیں آ رہی اُس کے امی لوگ آئے ہیں اور جانے وہ کہاں ہے؟"سکینہ بیگم ان سے مخاطب ہوئیں۔
"پتہ نہیں بھابھی میں دیکھتی ہوں ذرا"سنا بیگم کہے اوپر کی جانب بڑھ گئیں۔
"ہاجرہ ذرا جلدی لے آؤ"سکینہ بیگم اُنہیں جلدی لانے کا کہتیں باہر چلی گئیں۔
"مریم بیٹا اوپر کیا کر رہی ہو نیچے آپ کے امی بابا آئے ہیں آجاؤ جلدی سے نیچے"مریم کو امل کے کمرے سے نکلتا دیکھ کر سنا بیگم نے اُس سے کہا۔
"جی جی وہ بس چچی میں آ ہی رہی تھی"مریم مسکرا دی۔
"السلام و علیکم!"مریم نے آتے ساتھ ہی سلام کیا۔اورنگزیب صاحب نے اس کے سر پر پیار کیا۔مریم جا کر اپنی امی کے پاس بیٹھ گئی۔ہادی عدیل اور انس اپنی باتوں میں مشغول تھے جبکہ عورتیں اپنی گپ شپ کر رہی تھی۔اور مرد حضرات اپنا محو گفتگو تھے۔کچھ ہی دیر میں حورین ٹرالی میں کھانے پینے کی اشیاء لیے حال میں داخل ہوئی۔ہادی کی بے اختیار نظر اُس پر گئی۔عدیل اور انس بات کر رہے تھے لیکن ہادی تو کسی اور ہی جہاں میں گم تھا۔سب کو چائے سرو کرنے کے بعد وہ ہادی تک آئی اور اس کے سامنے کپ بڑھایا۔ہادی جانے کن سوچوں میں گم تھا۔اُسے یوں ہی بیٹھا دیکھ کر حور اُس سے مخاطب ہوئی۔صد شکر کوئی ان کی جانب متوجہ نہ تھا۔
"ہادی"اس نے دھیمی آواز میں اُسے پُکارا۔لیکن کوئی جواب نہیں۔
"ہادی یار پکڑ لے اب کب سے کھڑی ہے وہ"عدیل نے اونچی آواز میں کہا۔
"ه۔۔ہاں شکریہ"ہادی نے گڑبڑا کر کہا۔عدیل کے چہرے پر بھینی سے مُسکان چھا گئی۔حور اُسے یوں مسکراتا دیکھ نظریں جھکا گئی۔
"بھائی صاحب آج ہم آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنے آئے ہیں"اورنگزیب صاحب نے غفور صاحب اور اسد صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"یوں تو مریم نے آپ کو ہمارے آنے کا مقصد بتا دیا ہوگا لیکن ہم آج باقاعدہ طور پر اپنے بھتیجے انس کے لیے آپکی بیٹی امل کا رشتہ مانگنے آئے ہیں"اورنگزیب صاحب نے اسد صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔حال میں بیٹھے تمام نفوس کو اس بات کا علم تھا۔کچھ پل خاموشی چھا گئی۔انس،اورنگزیب صاحب اور اُنکی بیوی جواب سننے کو بیتاب تھے۔جبکہ باقی سب سکون سے بیٹھے تھے۔
"ہمیں آپ کا رشتہ۔۔"اسد صاحب نے بتا ادھورے چھوڑی۔اُنکی نظریں اس وقت انس پر تھیں اور وہ بہت مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کیے بیٹھے تھے۔
"انکل آگے۔۔"انس جب اُنہیں خاموش ہی دیکھتا رہا بول پڑا۔سب اسکی بےتابی پر مسکرا دیے۔
"ہمیں آپ کا رشتہ قبول ہے"اسد صاحب نے غفور صاحب کے ہاں میں اشارہ کرنے پر جواب دیا۔اگرچہ اس سب کا فیصلہ سب بڑے کر چکے تھے لیکن انہوں میں ایک بار پھر اجازت چاہی۔
"مبارک ہو"سب اٹھے اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۔۔
"ہم چاہتے ہیں کہ منگنی کی رسم کا بھی ساتھ ہی دن مقرر کر لیں"اورنگزیب صاحب نے کہا۔
"ہمم تاریخ کا تو ابھی ہم نے فیصلہ نہیں کیا لیکن جلد ہی آپ کو آگاہ کر دیں گے"اسد صاحب نے کہا۔
"اب ہمیں اجازت دیں"اورنگزیب صاحب نے کہتے اٹھے۔
"ارے ایسے کیسے کھانا کھا کے جائیے گا۔"اسد صاحب نے کہا۔
"ہاں بھابھی ایسے نہیں جا سکتے آپ لوگ"سنا بیگم نے بھی اُنہیں کہا۔
"ان شاء اللہ اب تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا کھانا پھر کھا لیں گے"اورنگزیب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ان شاء اللہ"سب نے کہا۔وہ خدا حافظ کہے باہر کی جانب بڑھ گئے۔اُنہیں الوداع کہتے سب غفور صاحب کے کمرے میں چلے گئے۔امل عبیر لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔عبیر کچن میں کچھ کھانے کے لیے لینے گی تھی جب انس گھر میں داخل ہوا۔امل آری ترچھی صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اُس کے آنے پر فوراً سیدھی ہوئی۔
"آپ۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"امل نے بیتکا سوال کیا۔
"میرا والٹ یہاں رہ گیا تھا وہی لینے آیا ہوں"انس نے نظریں جھکائے کہا۔
"آپ دیکھ لیں"امل اٹھی اور سائڈ پر کھڑی ہو گئی۔انس نے اپنا والٹ اٹھایا۔
"شکریہ"اس نے مسکرا کر کہا۔امل بھی مسکرا دی۔
"اچھا سنیں"انس اُس سے مخاطب ہوا۔
"جی"
"چلیں بعد میں صحیح"انس کہے باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
"ارے یہ کیا بات ہوئی جب بتانا ہی نہیں تھا تو بولا کیوں تھا؟"امل اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔انس اسکی اس حرکت پر مسکرا دیا۔
"کیا اب بولیں کیا کہنا تھا"امل نے اپنا سوال دہرایا۔
"کچھ نہیں بس ویسے ہی"انس کہے اسکی سائڈ سے ہوتا باہر نکل گیا۔
"ہنہ کچھ نہیں کا کچھ لگتا۔۔میں کو سا مری جا رہی ہوں۔۔ہنہ۔۔بتمیز"امل بولتی واپس آئی اور ٹی وی دیکھنے میں مگن ہو گئی۔
"کیا ہوا کوئی آیا تھا کیا؟"عبیر کچن سے نکلی تو اس سے مخاطب ہوئی۔
"ہاں وہ بھابھی کا کزن نہیں وہ آیا تھا"امل نے جواب دیا۔
"او"عبیر نے کہا اور اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔
"اوئے ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی"امل نے سوچتے ہوئے کہا۔
"کیا؟"
"یہ کہ سب کمرے میں کیا باتیں کر رہے ہیں؟"امل نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں میں بھی تھی سوچ رہی ہوں"عبیر نے حامی بھری۔
"تو پھر کیا خیال ہے"امل نے دانت نکالے۔
"یار میں کہتی ہوں کہ رہنے۔۔۔"اس نے یہ کہہ کر امل کی جانب دیکھا وہ وہاں پر نہیں تھی۔
"امل"عبیر نے اپنی پیشانی اور ہاتھ مارا جو کہ اپنے منصوبے پر عمل کرتی غفور صاحب کے کمرے کے دروازے کے باہر کان لگائے کھڑی تھی۔
"اوئے تم بھی آ جاؤ"امل نے اُسے بھی آنے کا کہا۔
"نہ بابا نہ میں تو نہیں آتی"عبیر کہے چپس کھانے میں مصروف ہو گئی۔
"بابا میرے خیال سے پہلے امل سے پوچھ لینا چاہیے پھر آگے کی تاریخ رکھ لیتے ہیں"ہادی کی آواز آئی۔اپنا نام سن کر اسکی تمام حس اندر ہونے والی گفتگو کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہو گئیں۔
"جی صحیح کہہ رہا ہے ہادی"ہاجرہ بیگم نے بھی کہا۔
"چلیں پھر پہلے آپ اسکی رضامندی پوچھ لیجیۓ پھر آگے کی بات کرتے ہیں"اسد صاحب نے کہا۔
"ارے بھلا اُس نے کیا کہنا ہے بس ہاں کر دی ہے صحیح ہے"سکینہ بیگم نے کہا۔
"نہیں پوچھنا ضروری ہے اسکی زندگی کا سوال ہے۔صحیح ہے اسد پوچھ لو اگر بچی مان جائے تو اسی جمعہ کو منگنی کی تقریب رکھ دیں گے۔"غفور صاحب نے دن مقرر کیا۔
"لیکن بابا جمعہ آنے میں دو دن باقی ہیں بہت کم وقت ہے"عدیل غفور صاحب سے مخاطب ہوا۔
"بیٹا بھلے کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے اور کون سا ابھی شادی کر رہے ہیں منگنی ہو ہی شادی پھر آگے جا کر کریں گے ابھی تو پیپرز ہونے ہیں اس کے"سکینہ بیگم نے جواب دیا۔
"صحیح ہے میں آج ہی اُس سے بات کرتی ہوں"سنا بیگم نے کہا۔امل جو باہر کھڑی سب سن رہی تھی منگنی اور شادی کا لفظ سن کر ششد کھڑی تھی۔دروازہ کھلنے کی آواز پر واپس اپنے حواس میں آئی۔باہر آنے والی اور کوئی نہیں حورین تھی۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"حورین نے اس سے سوال کیا۔
"وہ کک۔۔کچھ نہیں میں۔۔میں بس ویسے ہی "امل نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
"اچھا"حور نے اپنی آئی برو اچکائی۔
"آپی یہ نا اندر سے باتیں سن رہی تھی"عبیر کہاں چپ رہنے والی تھی بولی۔حورین نے امل کی جانب دیکھا جو اپنے ہاتھوں کو مروڑ رہی تھی۔
"امل چلو اپنے کمرے میں۔۔"حور نے پیار سے کہا۔امل اثبات میں سر ہلائے اپنے کمرے میں چلی گئی۔"حور اُس کے ساتھ اُسکے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی جب ہادی اس تک آیا۔
"حور کمرے میں آنا پلز"
"وہ میں امل کے پاس۔۔"
"پہلے بات سن لو پھر چلی جانا"اس کا لہجہ سادہ تھا۔
"امل تم چلو میں آتی ہوں"حور اُسے کہے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
"جی"حور ہادی سے مخاطب ہوئی۔
"وہ اسمارا"
"کیا ہوا ہے اسمارا کو؟"وہ فوراً پریشان ہوئی۔
"کچھ نہیں وہ بس اسمارا کا نکاح ہو گیا ہے"ہادی نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔
"کیا۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟؟"صدمہ ہی تو لگا تھا اُسے۔ہادی نے اُسے ساری داستان سنائی۔حور نے اپنی آنکھیں بند کیں اور گہرا سانس بھرا۔ہادی خاموشی صاف اس کیا ردِ عمل دیکھ رہا تھا۔
"شہریار بھائی نے بلکل سہی کیا ہے۔۔میں سمجھاؤں گی اُسے۔"حور نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہمم مجھے تم سے یہی اُمید تھی"ہادی ہلکا سا مسکرایا۔حور اُسے یوں ہی تکتی رہی۔
"ایک بات پوچھوں جواب دو گی؟"ہادی نے سوال کیا۔
"ہمم پوچھیں"
"حور کیا تم اس رشتے سے خوش ہو!؟"ہادی کہاں سے کہاں آ گیا تھا۔حور جو کہ ہادی کے کہے گئے الفاظ سے باہر نہیں نکلی تھی اس کے اس سوال پر چونکی۔
"کونسا رشتہ؟"حور نے نا سمجھ سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"تمہارا اور میرا"ہادی کا لہجہ بے تاثر تھا۔
"جی؟؟"اس نے نا سمجھی سے ہادی کی جانب دیکھا۔
"کیا تم ہمارے رشتے سے خوش ہو؟؟"ہادی نے اپنا سوال دہرایا۔
"آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟؟"حورین نے نا سمجھی سے کہا۔بھلا اس بات میں رشتے کی بات کہاں سے آ گئی؟
"میں کہنا نہیں سننا چاہ رہا ہوں بس"ہادی کا لہجہ دو ٹوک تھا۔
"جی بھلا میں کیوں نا خوش ہوں گی؟"حورین کا لہجہ پریقین تھا۔
"کیا تم واقعی اس رشتے کو رخصتی سے پہلے نبھانا چاہتی تھی؟؟"ہادی جانے کیا چاہ رہا تھا۔
"ہادی یہ آپ کس طرح کے سوال کر رہے ہیں؟؟"حور حیران پریشان کھڑی اُسے تک رہی تھی۔
"آئی جسٹ نیڈ آنسرز!! آنلی آنسرز!!"ہادی اپنے غصے کو ضبط کرتا گویا ہوا۔
"جی"حور نے نظریں جھکائے کہا۔
"لیکن مجھے ایسے نہیں لگتا رخصتی سے پہلے کئی بار میں نے تمہیں روتے دیکھا ہے،اور جس دن تمہیں بخار تھا اُس دن بھی تم چچی سے میرے متعلق کوئی بات کر رہی تھی۔اگر تم خوش نہیں ہو تو بتا دو میں یہ رشتہ ختم کر دوں گا"ہادی کے یہ الفاظ کسی بوجھ کی طرح حور پر گرے تھے۔وہ ان باتوں کو کیا معنی دے رہا تھا۔حور ششد کھڑی اُسے تکتی رہی۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"ہادی اُسے خود کو یوں تکتا پا کر گویا ہوا۔
"دیکھ رہی ہوں کہ جن آنکھوں میں میرے لیے اتنی محبت تھی اب نفرت و بیزاری کیسی لگتی ہے"حور نے ویسے ہی دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں تم سے نفرت نہیں کرتا"ہادی نے فوراً جواب دیا۔
"لیکن اب محبت بھی تو نہیں کرتے ہیں"حور کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گال پر گرا تھا۔
"ایسی بات نہیں ہے میں صرف تم سے ناراض۔۔"ہادی نے بات ادھوری چھوڑی۔
"ایسی بھی بھلا کیا ناراضگی کہ بات کرنا بھی گوارہ نہیں اور رشتہ ختم۔۔۔"
"حور میرا کہنا کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا میں بس تمہاری خوشی کے لیے کہہ رہا تھا"
"مجھ سے خوشی چھیننے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوشی کے لیے کہہ رہا تھا۔اپنی محبتوں کا عادی کرکے یوں خفا ہوئے بیٹھے ہیں پھر کیا سمجھوں میں!؟"حور اس کے جواب کو نظرانداز کیے اپنی کہی جا رہی تھی۔
"خفا ہوں تو منا لو مجھے"
"منانے کا موقع دیا آپ نے بلکہ آپ نے تو وضاحت بھی نہیں سنی۔میں کس اذیت سے گزری آپ کو بھلا کیا اندازہ ہوگا۔آپ جانتے ہیں کہ آپ کا یہ ایک جملہ کیسے میری سانسیں ایک پل کو روک چکا تھا۔کیا قصور ہے میرا؟جانتی ہوں بتانا چاہیئے تھا لیکن میں ڈر گئی تھی۔ایک انچاہا خوف مجھ میں بس سا گیا تھا۔میں نہیں جانتی تھی کہ اس سب میں بِسمل۔۔۔خیر چھوڑیں اب وضاحت کا کیا فائدہ۔۔"حور نے آنسو صاف کیے تھے۔
"حور۔۔میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا بلکل بھی نہیں تھا۔مجھے بس اس بات کا دکھ تھا کہ تم نے مجھے بتانے کے قابل ہی نہیں سمجھا اور وہ سب میں نے غصے میں کہہ دیا تھا۔سوری"ہادی دھیما پڑا تھا۔
"ہاہ ہرٹ!! اب تو ہرٹ کے نام پر بھی ہنسی آتی ہے۔چلیں آپ کا بھی تو حق بنتا ہے نا۔کوئی نہیں جہاں باقیوں نے کیا وہاں آپ بھی صحیح"حور اپنے حواس میں نہیں لگ رہی تھی۔
"حور کیا ہو گیا ہے کیسی باتیں کر رہی ہو؟"ہادی نے اُسے کندھوں سے تھاما۔
"کچھ نہیں۔۔کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ٹھیک ہوں میں۔بلکل ٹھیک ہوں"حور نے اپنے کندھے سے اُسکے ہاتھ ہٹائے۔
"حور آؤ یہاں بیٹھو تم۔۔تم ٹھیک نہیں ہو"ہادی نے پھر سے اُسے پکڑا اور صوفے پر بٹھایا۔
"نہیں نہیں۔۔کوئی ضرورت نہیں آپ کو میرے لئے پریشان ہونے کی۔بلکہ کسی کو بھی ضرورت نہیں ہے۔میں ٹھیک ہوں۔ٹھیک ہوں میں"حور کہے روتے ہوئے اٹھی اپنے آنسو صاف کیے اور کمرے سے باہر نکل گئی۔باہر نکلتی ہے اُس کا سامنا دروازے کے پار کھڑی امل سے اُسے جو اُسے بلانے کے تحت آئی تھی لیکن بدقسمتی سے ساری گفتگو سن چکی تھی۔حور نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
"حو۔۔"ابھی ہادی کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ سامنے امل کو دیکھ وہی ایک گئے۔وہ بے یقینی سے اپنے بھائی کی جانب دیکھ رہی تھی کہ گویا یہ وہی ہے جو ایک آنسو نہیں برداشت کرتا تھا۔
"بھائی کیا ہو گیا ہے آپ کو؟پہلے تو آپ ایسے نہیں تھے؟"امل جو کے کھڑی یہ سب سن چکی تھی بولے بنا نا رہ پائی۔
"کیوں کیا ہوا ہے؟"ہادی انجان بنا۔
"بھائی آپ کیوں خود کو اور آپی کو اذیت دی رہے ہیں۔آخر ایسا کیا ہو گیا جو آپ ان سے اتنا دور ہوگئے ہیں؟"امل کی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔ہادی خاموش رہا۔
"بہت غلط کر رہے ہیں آپ۔۔بہت زیادہ۔۔کیا آپ کو آپی پر بھروسہ نہیں ہے؟کہاں گئی آپ کی محبت بھائی؟کیا اُس حادثے نے آپ کی محبت کم کر دی؟کیا آپ بھی سب کی طرح آپی کے کردار پر شک۔۔۔"
"امل خاموش ہو جاؤ۔جانتی ہو تم کیا بول رہی ہو؟"ہادی نے اس کی بات کاٹی اور غصے سے بولا۔
"بھائی جو مجھے لگ رہا ہے اور جیسا میں نے سنا ہے وہی کہہ رہی ہوں۔اگر یہ سچ نہیں ہے تو کیوں آپ آپی کو نظر انداز کر رہے ہیں؟کیوں ان سے بات نہیں کر رہے؟اب جب کہ اُنہیں سب سے زیادہ آپ کی ضرورت تھی تو کیوں آپ منہ موڑے بیٹھے ہیں؟کیا قصور ہے آپی کا جو وہ سب اذیت خود برداشت کریں؟کیا خوشی پر اُن کا کوئی حق نہیں ہے؟بولیں بھائی؟جواب دیں مجھے۔۔اور آپ رشتہ ختم کرنے کی بات کررہے تھے۔۔بھائی کیوں آخر کیوں آپ یہ سب کر رہے ہیں؟؟"امل کی آنکھ سے بھی آنسو نکلے تھے۔ہادی اپنی چھوٹی بہن کی باتیں سن رہا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ امل باہر کھڑی ہے اور انکی گفتگو سن چکی ہے۔وہ پہلے بھی ہادی کا حور کے ساتھ رویہ نوٹ کر چکی تھی لیکن اُسے غلط فہمی سمجھ کر نظر انداز کر دیتی تھی لیکن آج کی گفتگو سننے کے بعد اُسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ سہی سمجھ تھی تھی۔کوئی نہ سہی لیکن ہادی کا حور کے ساتھ رویہ امل نوٹ کر رہی تھی۔ہادی نے نظریں چرائیں۔۔
"بھائی اس سے پہلے بڑوں تک یہ بات جائے آپ پلز سب ٹھیک کر لیں۔ورنہ بہت ہنگامہ ہو جائے گا بھائی"امل نے التجائیہ انداز میں کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔پیچھے ہادی بس وہاں کھڑا رہ گیا۔
میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن ہو کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچیے دار پر جو نہیں کوئی تو ہم ہی سہی

سرِ طور ہو سرِ عرش ہو ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

غمِ زندگی سے فرار کیا؟ یہ سکون کیوں یہ قرار کیا؟
غمِ زندگی بھی ہے زندگی جو نہیں خوشی تو نہیں سہی

نہیں ان پے میرا جو بس نہیں، کہ یے عاشقی یہ ہوس نہیں
میں انہی کا تھا، میں انہی کا ہوں وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی

ترے واسطے رہے یہ وقف سر،رہے تا ابد ترا سنگِ در
جو کسی کی جبیں نا جھک سکے، اک میری ہی جبیں سہی

میری زندگی کا نقیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، جو نہیں وہ تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے اسے حشر پے نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

انہیں دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں، وہ ہزار پردہ نشیں سہی🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now