تیرے ہونے سے سمجھتا تھا کے دنیا تم ہو
ویسے دنیا کو میں بیکار کہا کرتا تھا
تم سے بچھڑا ہوں تو رویا ہوں وگرنہ کل تک
رونے والوں کو میں فنکار کہا کرتا تھا🥀
"شیری۔۔۔۔"اسمارا چیخی تھی۔اور اُسے سہارا دیا جو اپنا سر تھامے زمین پر بیٹھ رہا تھا۔اُسکے سر سے خون نکل رہا تھا۔اسمارا نے اُسکا سر اپنی گودمیں رکھا۔اسمارا نے بيقینی سے کھلے ہوئے دروازے کی جانب دیکھا جہاں ایک شخص نے ہاتھ میں نوکیلی چیز تھامی ہوئی تھی۔لیکن شیری کو اس طرح گرتے دیکھ کر اُس کے چہرے پر خوف نمایاں ہو گیا تھا۔اس نے نوکیلی چیز وہیں پھینکی اور بھاگ گیا۔۔
"شیری آنکھیں کھولیں۔۔پلز۔۔۔"اسمارا نے اُسکا چہرہ تھپتھپایا۔۔لیکن شیری بیہوش ہو چکا تھا جبکہ خون ابھی بھی نکل رہا تھا۔۔۔اُسکے ہلکے رنگ کے سوٹ پر خون اپنے نشان چھوڑ رہا تھا۔اُسنے فون نکالا اور حورین کو کال ملائی۔۔
"حور یار پلز فون اٹھاؤ جلدی"آنسو اسکی گالیں بھگو رہے تھے۔۔۔تیسری بار دوسری جانب سے کال اٹھالی گئی۔
"کیسی ہو لڑکی بھول گئی تھی مجھے؟؟"حورین کے لہجے میں شرارت واضع تھی اور وہ بہت فریش لگ رہی تھی۔۔۔
"حورین پلز۔۔ہادی بھی کے ساتھ جلدی سے میرے گھر آ جاؤ۔۔۔"اسمارا نے روتے ہوئے کہا۔حور پریشان ہوئی۔
"اسمی تم رو رہی ہو کیا ہوا ہے شیری بھائی ٹھیک ہیں؟"
"نہیں ٹھیک تم جلدی سے آ جاؤ۔۔۔۔۔"اسمارا نے روتے روتے کہا۔حور نے اُسے تسلی دی۔۔اور فون بند کیے ہادی کے پاس آئی۔
"ہادی اسمارا کہ فون آیا ہے۔۔۔"حور نے ساری بات بتائی۔ہادی فوراً سے اٹھا سب سے معذرت کیے بھاگتے ہوئے گاڑی کی جانب بڑھا۔۔حور بھی جلدی سے گاڑی میں بیٹھی۔ہادی نے گاڑی زن سے آگے بڑھا دی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ لوگ ہسپتال میں موجود تھے۔۔ڈاکٹرز نے اُنہیں تسلی دی تھی کہ اب شہریار خطرے سے باہر ہے شکر وقت پر اُسے ہسپتال لے آئے تھے۔
"اسمارا میری جان چپ ہو جاؤ اب بھائی ٹھیک ہیں"حور نے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہا۔
"میرے وجہ سے سب ہوا ہے مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا"
"میری جان ایسے نہیں کہتے تقدیر میں یہ نقصان لکھا تھا تو ہونا ہی تھا اب شاباش صحیح کرو اپنا چہرہ"حور نے اُسکے آنسو صاف کیے۔
"پیشنٹ ہوش میں آ گیا ہے۔آپ مل سکتے ہیں"نرس نے آ کر کہا۔
ہادی فوراً اُسکے کمرے کی جانب بڑھا۔شیری اُسکا پریشان چہرہ دیکھ کر مسکرا دیا۔ہادی اسکی جانب بڑھا۔اُس کا مسکراتا چہرہ ہادی کو تپا رہا تھا۔
"بہت ہنسی نہیں آ رہی تمہیں"ہادی نے طنز کیا۔
"اب تیری شکل ہی ایسی بنی ہوئے ہے میں کیا کروں"شیری کا لہجہ دھیما تھا۔
"آہ ظالم!!"شیری نے اپنا بازو پکڑتے ہوئے کہا۔
"ہلا کر رکھ دیا تھا کمینے۔۔تو سوچ نہیں سکتا کے یہ وقت مجھ پر کیسے گزر رہا تھا"ہادی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
"جانتا ہوں"شیری مسکرا دیا۔"یار پلز اب مجھے گھر جانا ہے ڈاکٹر کو کہہ"شیری نے کہا۔
"زیادہ نا ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے سمجھا۔۔پہلے خود ہی اس لڑکے کی دھلائی کی تھی اور اب بھی بن بتائے چلا گیا تھا۔۔اب تیری سزا ہے کہ آج رات تُجھے یہیں گزارنی ہے۔۔"ہادی نے سنجیدگی سے کہا۔
"یار بس کیا بتاؤں سچویشن ہی ایسی تھی اُس وقت۔۔اور مجھے کیا پتہ تھا وہ آ جائے گا اور میں یہاں ہوں گا۔۔۔صحیح میں اگر سامنے سے وار کرتا نا تو میں اسکی بینڈ بجا دیتا۔۔"شیری نے افسوس سے کہا۔
"اچھا اچھا بس اب زیادہ شوکھا نہ بن۔۔۔نہیں تو ایک لگا دوں گا تیرے سر پر"ہادی نے ہنستے ہوئے اس کے سر کی پٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔شیری بھی ہنسنے لگا۔۔
"اسمارا کہاں ہیں وہ صحیح ہیں؟"شیری نے کچھ یاد آنے پر سوال کیا۔
"ہاں میری جان صحیح ہے بلکل بس تیری وجہ سے ہلکان ہوئی بیٹھی ہے"ہادی نے کہا۔
"اچھا چل کوئی نہیں مجھے اتنا ستاتی ہیں تو اتنا تو بنتا ہے نا"شیری نے آنکھ دبائی۔ہادی ہنس پڑا۔
"بڑا ہی کوئی ڈیش انسان ہے تو سہی میں"ہادی نے سے نفی میں ہلاتے افسوس سے کہا۔
"تعریف کے لیئے شکریہ"شیری بھی بعض نہ آیا۔اتنے میں پیچھے سے حورین اور اسمارا کمرے میں داخل ہوئیں۔شیری اسمارا کا چہرہ دیکھے سنجیدہ ہوا۔۔وہ بھلا کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اسکی وجہ سے اسمارا کی آنکھ میں آنسو آئے۔ہادی کے ساتھ تو مذاق میں بات اڑا دی تھی لیکن اب اسکا چہرہ دیکھ کر اسے کچھ ہوا تھا۔حورین نے اس کا حال احوال پوچھا۔
"حور پلز ذرا بات سننا"تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب ہادی نے حور کو مخاطب کیا۔حور مسکرا دی اور اُسکے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئی۔نکلتے نکلتے ہادی شہریار کو آنکھ مارنا نہیں بھولا تھا۔شیری مسکرا دیا۔ہادی دروازہ بند کیے باہر نکل گیا۔
"آپ اُدھر کیوں کھڑی ہیں یہاں آئیں"شیری نے اُسے اپنے پاس بلایا۔اسمارا چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی اُسکے سامنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔
"اسمارا پلز روئیں مت"شیری نے اسکی آنکھوں میں نمی کو دیکھتے کہا۔اسمارا نے اپنے آنسو روکنا چاہے۔
"دیکھیں میں ٹھیک ہوں بلکل بس ذرا سی چوٹ آئی ہے وہ بھی صحیح ہو جائے گی۔۔آپ تو ایسے رو رہی ہیں جیسے میں مر۔۔۔"شیری کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب اسمارا نے اپنا ہاتھ اُسکے لبوں پر رکھ کر اُسکے الفاظ کا دم توڑا۔۔شیری کے دل میں ایک عجیب سا احساس دوڑا۔
"آج تو آپ نے یہ لفظ بول دیے ہیں آئندہ ایسے الفاظ مت بولیے گا پلز میری خاطر"اسمارا نے التجا کی۔شیری بس خاموش تھا اور اسکی بات سن رہا تھا۔اسمارا کا ہاتھ ابھی بھی اُسکے لبوں پر تھا۔۔
"میں نے بھی ایک بار ایسے ہی بنا سوچے الفاظ بولے تھے اور وہ پورے ہو گئے۔۔اور شاید وہ وقت قبولیت کا تھا۔بعض دفعہ انسان بنا سوچتے الفاظ تو بول جاتا ہے لیکن جب وہ الفاظ اصلیت کا روپ اوڑھتے ہیں تو انسان غلہ شکوہ کرتا ہے۔۔۔"اسمارا کو یونی میں حورین کو اپنے کہے گئے الفاظ یاد آئے۔
"آپ پلز ایسی کوئی بھی آئندہ مت کریے گا۔۔نہیں کریں گے نا!؟"اسمارا نے سوال کیا۔شیری نے اُسکا ہاتھ چوما اور اثبات میں سے ہلایا اور مسکرا دیا۔اسمارا بھی نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہفتے گزر چکے تھے لیکن بسمل کا کوئی آتا پتہ نہیں تھا۔جہانزیب صاحب نے ایجنٹس سے بات کی تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا لیکن جو جانتا تھا وہ انجان بنا بیٹھا تھا۔۔جہانزیب صاحب کا با نہیں چال رہا تھا کہ وقت کو پیچھے لے جائیں اور اپنی بیٹی کو واپس اپنی آغوش میں لے آئیں۔۔۔
"سر مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے"اُنکا ایجنٹ آیا اور جہانزیب صاحب سے مخاطب ہوا۔جہانزیب صاحب نے اپنے آنسو صاف کیے۔
"میں ابھی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا"انہوں نے اپنا منہ پھیرا تھا۔
"سر بہت امپورٹنٹ ہے"
"ایک بار کہہ دیا نا"جہانزیب دھاڑے تھے۔وہ سے جھکائے واپس جانے کی لیے پلٹا جب ایک بار پھر سے جہانزیب صاحب کے کہنے پر رکا۔
"بتاؤ کیا بات ہے؟"
"سر آپکی بیٹی بِسمل۔۔۔"ابھی اُسنے تھے کہا تھا جب جہانزیب آهب نے اسکی بات کاٹی۔
"کیا ہوا ہے میری بیٹی کو؟؟"انہوں نے پریشانی سے کہا۔
"سر میں جانتا ہوں کہ آپکی بیٹی کہاں ہے"اُسنے سر جھکائے کہا۔جہانزیب صاحب نے چونک کر اسکی جانب دیکھا۔۔اُسنے بِسمل کی ٹکٹ کروانے کی بات سے جانے کی بات اور جہانزیب صاحب کو نہ بتانے کے لیے ساری داستان سنائی۔۔۔جہانزیب صاحب نے ایک غصیلی نظر اس پر ڈالی لیکن یہ وقت ابھی غُصہ کرنے کا نہیں تھا۔انہوں نے فوراً سے اپنی دو ٹکٹس کروائیں اور گھر فون کر کے اپنی بیوی کو اچانک جانے کا بتایا اور سامان پیک کرنے کا کہے گھر کے لیے نکل گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن کی سڑکوں پر معمول کے مطابق رونق تھی۔یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے پوری دنیا یہاں آ کر بسیرا کر چکی ہے۔اسی اثناء میں وہ اپنے اپارٹمنٹ کے ٹیرس پر بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔بظاھر تو وہ سامنے دیکھ رہی تھی لیکن ذہن اُس کا سوچوں میں گم تھا۔
"میم آپ کی اپوانٹمنٹ ہے آج چلیں ریڈی ہو کر پھر جانا ہے۔۔"اسکی کیئر ٹیکر نے آ کر کہا۔بِسمل نے اسکی جانب دیکھا اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔
"میم برا مت منائیے گا لیکن آپ کیوں خود کو اذیت دے رہی ہیں؟آخر کیوں نہیں لوٹ جاتی واپس اپنے ماں باپ کے پاس؟یا آپ اُنہیں اپنی خیریت ہی بتا دیں"اس نے اُسکے چہرے کی اذیت دیکھتے ہوئے کہا۔
"یہ جدائی کا راستہ میں نے خود چنا ہے تو پلز مجھے فورس مت کرو۔۔۔میں اب کبھی واپس نہیں جاؤں گی کبھی بھی نہیں۔۔"بِسمل کہے اپنی الکٹرک وہیل چئیر کو لاؤنج میں لے گئی۔۔ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔جین (کیئر ٹیکر) دروازے کی جانب بڑھی اور دروازہ کھولا۔بِسمل کی دروازے کی جانب پیٹھ تھی۔جین نے سوالیہ نظروں سے اُنکی جانب دیکھا۔
"آپ؟؟"
"بسمل جہانزیب کیا یہیں پر رہتی ہیں؟"بزرگ آدمی نے سوال دیا۔
"جی لیکن آپ کون؟؟"اس نے سوال کیا تبھی بِسمل کی آواز آئی۔
"کون ہے دروازے پر جین؟"بِسمل نے سوال کیا۔جہانزیب صاحب اور اسکی امی کی آنکھیں اسکی آواز پر نم ہوئیں۔
"میم پتہ نہیں۔۔۔"اُسنے منہ موڑ کر اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔بِسمل نے جین کی جانب دیکھا اُسکے سائڈ پر ہونے سے اسکی نظر دروازے کی دوسری جانب کھڑے آدمی پر گئی اور مانو وہ ساکت ہو گئی۔۔۔
"بابا۔۔۔۔"اسکی آنکھیں بھی نم ہوئیں۔بابا کا لفظ سن کر جین چونکی اور سائڈ پر ہوئی۔وہ دونوں اندر آئے۔
"میری بیٹی۔۔۔"اسکی امی کہے اُسے سینے سے لگا لیا۔۔۔
"ایسے بھی کوئی کرتا ہے بھلا۔۔۔"انہوں نے اُسکے چہرے سے بال ہٹائے اور پھر سے اُسے سینے سے لگا لیا۔
"اب ہم آ گئے ہیں تمہیں ساتھ لئے کر جائیں گے واپس"اسکی ماما نے کہا۔بِسمل بلکل خاموش تھی بس مسلسل اپنے بابا کی جانب دیکھ رہی تھی۔جہانزیب صاحب اسکی جانب بڑھے اور اُسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔آنکھوں میں کب سے جمع ہوا پانی اب آنسو کی صورت میں اسکی گال پر رقص کرنے لگا۔
"ہم کل ہی واپس جائیں گے"جہانزیب صاحب نے بسمل سے کہا۔
"سر ابھی انکا علاج چل رہا ہے آج بھی اپوائنٹمنٹ ہے انکی"جین اس سب معاملے میں خاموش تھی لیکن جانے کا سن کر بولے بنا نہ ره سکی۔
"تو پھر صحیح ہے میں خود اپنی بیٹی کا علاج کرواؤں گا اور پھر جب تک یہ ٹھیک نہیں ہو جاتی یہ ہمارے ساتھ رہے گی۔۔"بِسمل خاموش تھی اور ساری گفتگو سن رہی تھی۔۔۔
"بابا آپ جانتے ہیں میں نے آپکا کتنا انتظار کیا۔۔کیوں اتنی دیر کر دی آنے میں آپ لوگوں نے؟؟"بِسمل نے نم آنکھوں سے اُنکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"میری جان معاف کر دو مجھے۔۔۔بہت برا ہوں بہت برا کیا میں نے تمہارے ساتھ۔۔"جہانزیب صاحب نے کہا۔۔اُسکے امی مسکرا دیں۔
"میں سب کے لیے ڈنر تیار کرتی ہوں"جین کہے کچن کی جانب بڑھ گئی اور کھانا تیار کرنے کا سوچنے لگی۔جبکہ وہ سب لاؤنج میں بیٹھے اِموشنل باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہنواز ولا کو دلہن کے ماند سجایا ہوا تھا۔ہر طرف گہما گہمی کا سماں تھا۔۔ہوتی بھی کیوں نہ آخر تین تین شادیاں جو تھیں گھر میں۔۔۔
ایک تو امل کی تھی وہ تو تھی ہی،دوسرا حورین اور اسمارا کا بھی دھوم دھام سے فنکشن رکھا گیا تھا اور ان کے دلہوں یعنی کے شوہروں سے ان کو نظر بند رکھے مایوں بٹھایا گیا تھا۔۔اور اس سب سلسلے میں وہ اپنے شوہروں کے کمرے میں نہیں بلکہ اپنے پہلے والے کمروں میں موجود تھیں۔۔
"اففو اتنا کام ہے مجھ معصوم کو گھن چکر بنایا ہوا کبھی ادھر تو کبھی اُدھر کوئی کھیل ہی نہیں کی کو میرا سب اپنی اپنی شادیاں کرا رہے لیکن مجھ بچاری کا تو کسی کو خیال ہی نہیں ہے کہ میں بھی بڑی ہو گئی ہوں میرے بھی ہاتھ پیلے ویلے کر دیں"عبیر پھولوں کا تھال لیے بڑبڑاتے جا رہی تھی جب وہ گرتے گرتے بچی۔۔
"افف تھینک گاڈ! بچ گئی ورنہ آج تو میری ہڈیاں ہی ملنی تھیں ٹوٹی ہوئی۔۔۔"عبیر نے سکھ کا سانس بھرا جب کھانسے کی آواز پر پیچھے مڑی۔۔
"جی آپ کھانس کیوں رہے ہیں کھانسی لگی ہے تو جایئے ڈاکٹر کے پاس یا ایک منٹ کہیں آپ کو بھی تو یہی "میری شادی کرا دو" والا مسئلہ تو نہیں ہے؟؟"عبیر پٹر پٹر بولنا شروع ہو گئی۔
"نہیں مدام میرا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے بس ایک مسئلہ ہے کہ آپ میرے نازک سے معصوم سے پیر پر کھڑی ہیں۔۔۔"سامنے جو کوئی بھی تھا اپنے پاؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔عبیر نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
"اوپس سوری!"عبیر نے آہستہ سے کہا۔
"اٹس اوکے!!"اس نے مسکرا کر کہا۔عبیر اندر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
"عجیب لڑکی ہے!"اس نے سر جھٹکا اور اندر کی جانب بڑھ گیا کیوں کہ غفور صاحب نے اُسے بلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار بھابھی یہ بھلا کیا بات ہوئی شادی امل کی ہے اور ہماری بیویوں کو بھی پردے میں رکھا ہوا ہے بھئی ڈیٹس ناٹ فیئر!! "شیری اور ہادی کب سے مریم کا سر کھا رہے تھے۔۔۔
"یہ دیکھو ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے۔بابا لوگ سے پوچھو بھئی ایسے ہی میرا سر کھائے جا رہے ہو"مریم نے ہاتھ جوڑے کہا۔
"کیا ہو رہا ہے لڑکوں یہاں کیا کر رہے ہو اور کیوں تنگ کر رہے ہو میری بہو کو؟؟"سکینہ بیگم نے کہا۔
"ماما یہ دیکھ لیں انکو طب آیا شور مچایا ہوا کے ہماری بیویوں کو باہر نکالو"مریم نے شکایت لگی۔
"اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو؟تمہاری ہی ہیں نہیں کہیں بھاگی جا رہیں۔۔چلو اب فوراً سے یہاں سے رفو چکر ہو جاؤ شاباش" تائی جان نے چٹکی بجاتے کہا۔وہ دونوں فوراً وہاں سے بھاگ گئے۔۔
"بہت بیشرم ہوگئے ہیں آج کے بچے اللہ معاف کرے۔۔"تائی امی توبہ توبہ کرتی وہاں سے چلی گیں جبکہ مریم ہنسنے لگی اور لڑکیوں کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
"اوئے وہ جو تم لوگوں کے "وہ" ہیں نا قسم سے ذلیل کر رکھا ہے سمجھا لو انہیں نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔"مریم نے مصنوئی خفگی سے کہا۔دونوں ہنسنے لگیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سب کی مہندی کی رسم تھی۔دلہنوں کو تیار کر کے سٹیج پر بیٹھایا گیا تھا۔۔سب کی جوڑیاں نہایت حسین لگ تھی تھیں یوں جیسے ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں۔۔لڑکے اٹھ گئے تھے اور اپنا گروپ بنا کر حال میں سائڈ پر کھڑے ہوگئے تھے۔۔۔
ایسے میں عبیر مہمانوں کو ریسیو کر کر تھک گئی تھی۔
"میں بتا رہی ہوں آپ لوگوں کو میں تھک گئی ہوں فضول میں ادھر اُدھر کے چکر کاٹتے اب میں اسٹیج سے نہیں اترنے والی بس۔۔۔سب ایک ساتھ ہی شادیاں کروا رہے ہو میرا ہی خیال کر لیتے کہ ایک بچاری رہ گئے اُسکا بھی ساتھ ہی انتظام کر لیتے ہیں لیکن نہیں۔۔۔خیر دفع کریں چھوڑیں اسے یہ بتائیں میں کیسی لگرہی ہوں؟؟"عبیر نے پہلے تو اسٹیج پر جا کر اپنے دکھڑے سنائیں۔سب ہنسنے لگے پھر اس نے لڑکیوں کی جانب دیکھتے سوال کیا۔
"ہمم اچھی لگ رہی ہو"امل نے کہا۔
"صرف اچھی یہ کیا بات ہوئی"عبیر نے منہ بنایا۔۔
"ارے بھئی جیسی ہو ویسے ہی کہنا ہے نہ اب میں جھوٹ بول کر گنہگار تو نہیں ہوسکتی نا"امل نے ہنستے ہوئے کہا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو"حور نے مسکرا کر کہا۔
"دیکھا مجھے پتہ تھا کہ میری آپی یہی کہیں گیں"عبیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔حور،امل اور اسمارا بھی مسکرا دیں۔
"عبیر ادھر آؤ بیٹا جلدی سے"تائی امی نے عبیر کو اسیجسے نیچے آنے کا کہا۔
"لو بھئی۔۔چلیں آپ لوگ اپنی شادی انجوائے کریں"عبیر ہنستے ہوئے کہے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
"جی ماما"
"بیٹا ان سے ملو یہ تمہارے بابا کی فرنڈ کی وائف ہیں"تائی امی کا لہجہ خوشگوار تھا۔عبیر نے اُن سے سلام کیا۔اتنے میں وہی لڑکا آیا جس سے وہ مل چکی تھی۔
"یہ میرا بیٹا ہے حماد ہے"اُن آنٹی نے خوش اخلاقی سے کہا۔وہ لڑکا بھی عزت سے اُن سے ملا اور عبیر کو دیکھ کر مسکرا دیا۔۔۔عبیر نے چور نظروں سے اسکی جانب دیکھا اور نظریں پھیر لیں۔
"ماما میں جاؤں"
"ہاں بیٹا جاؤں شاباش!"تائی امی نے مسکرا کر کہا وہ اسی میں اپنی عافیت جانی اور چلی گئی۔
"ماشاءاللہ آپکی بیٹی بہت پیاری ہے"اُن نے عبیر کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔تائی امی مسکرا دیں۔۔
"آپ بیٹھیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ضروری بتائیے گا"
"جی جی ضرور"وہ بھی مسکرا دیں تائی جان وہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔
یونہی سارے فنکشنز بخیر و عافیت گزرے تھے۔۔۔ایک اور خوش خبری تھی کہ عبیر کے لئے بھی حماد کا رشتہ مانگا تھا جسے قبول کر لیا گیا تھا۔یوں ہی زندگی کی آزمائشیں جو تھیں وہ ختم ہوئی تھیں اور اس کا صلہ بہت اچھا ملا تھا۔سب اپنی زندگیوں میں خوش تھے اوراپنے رب کے ہاں سجدہ ریز تھے کہ اس نے انہیں آزمائشوں میں نکالا اور اپنی رحمتوں کی ان پر برسات کی۔۔۔
تُجھ سے عشق کر لیا اب خسارہ کیسا_؟
دریائی محبت میں جو اتر گیا اب کنارہ کیسا_؟
اک بار تیرے ہو گئے بس ہو گئے__
روز کرنا نیا استخارہ کیسا_؟🥀
ختم شد 🥀15_02_2021
#17
YOU ARE READING
پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)
Mystery / Thrillerپوشیدہ محبت کہانی ہے دو ایسے کرداروں کی جو ایک دوسرے سے واقف ہیں مگر وہ محبت جو دونوں کو ایک اٹوٹ رشتے میں باندھتی ہے اس سے انجان ہیں یہ وہ محبت دونوں سے ہی ہوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں موتی سیپ میں پوشیدہ ہو، خوشبو پھول میں بند ہو اور پورا چاند بادلوں کو ا...