اچھا خاصہ بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں🥀
شام ہر سو چھا چکی تھی۔ٹریفک باہر رواں دواں تھی۔ریسٹورانٹ میں ہل چل مچی ہوئی تھی لیکن وہ اس سب سے بےخبر جانے کن سوچوں میں گم تھا۔اسی اثناء میں ایک شخص آیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔دونوں کی حالت ایک سو ہی تھی۔چہروں پر عجیب سی بےچینی ان کی پروقار اور پرکشش شخصیت کو مزید پرکشش بنا رہی تھی۔
"سر آپ کیا آرڈر کریں ہے؟"ویٹر نے دونوں کو سوچوں کے تسلسل سے آزاد کرایا۔دونوں بیک وقت اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
"ہاں"اُس نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
"سر آرڈر؟"ویٹر نے اپنا سوال دہرایا۔
"دو کپ کیپوچینو (کافی) لے آئیں"
"اوکے!"ویٹر آرڈر نوٹ کرتا وہاں سے چلا گیا۔
"بولو کیا بات ہے کیوں بلایا تھا یہاں پر اتنی جلدی میں سب خیریت تو ہے نا!؟"ہادی نے سوال کیا۔
"ہاں۔۔نہیں۔۔پتہ نہیں۔۔"شیری نے جواب دیا۔
"کیا بات ہے شیری پریشان لگ رہے ہو؟"ہادی نے اب کی پریشانی سے کہا۔
"مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں"شیری نے جھنجھلا کر کہا۔
"کس بارے میں؟"ہادی نے پیشانی اور شکنیں ڈالے اس سے سوال کیا۔
"اسمارا"مختصر جواب۔
"شیری کھول کر بتا کیا ہوا ہے؟"
"میں ان سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"شیری نے اپنے دل کا حال بتایا۔ہادی خاموش رہا۔وہ اسمارا کے متعلق شیری کی پسندیدگی سے واقف تھا لیکن ابھی یہ نکاح کے لیے صحیح وقت نہیں تھا۔
"ہمم۔۔"ہادی خاموش رہا۔
"سر کافی"ویٹر نے اُنہیں کافی سرو کی۔"اور کچھ لیں ہے سر آپ؟"
"نہیں شکریہ"ہادی نے جواب دیا۔ویٹر مسکراتا دوسرے بندوں کا آرڈر نوٹ کرنے لگ گیا۔
"شیری یہ سب تو ٹھیک ہے اور میں بھی تمہارے نکاح کے فیصلے سے متفق ہوں لیکن اسمارا کی رضامندی بھی بہت ضروری ہے کیوں کے عین نکاح کے وقت کوئی مسئلہ ہونے سے بہتر ہے کہ رضامندی کے بغیر ایسی کوئی بیوقوفی مت کی جائے"ہادی نے کافی کا گھونٹ بھرا۔
"لیکن ہاد وہ سمجھتیں ہی نہیں ہیں میں نے اُن سے اس بارے میں بات کرنے کی کئی بار کوشش کی ہے سمجھایا بھی ہے لیکن وہ غُصہ کرتی ہیں سننے کو راضی ہی نہیں میری بات کو"شیری نے مسئلہ بیان کیا۔
"ٹائم لگے گا شیری۔جلد بازی والی غلطی کبھی مت کرنا کیوں کے جو رشتے سمجھوتے پر کیے جائیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔جن رشتوں کا آغاز ہی بدگمانی سے ہو،جھوٹ سے ہو یا زبردستی کوئی کسی پر مسلط کر دیا جائے بھلا کیسے وہ رشتے آباد ہو سکتے ہیں!!"ہادی گہری سوچ میں تھا۔یہ الفاظ بھی شاید اس نے خودی کو ہی سنائے تھے۔شہریار گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
"بھابھی کے کیس کا کیا بنا؟"شیری نے سوال کیا۔ہادی کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا۔
"ہاد میں تُجھ سے پوچھ رہا ہوں"شیری نے اس کا ہاتھ ہلا کر کہا۔
"ہ۔۔ہاں کیا کہا؟"ہادی جیسے ہوش میں واپس آیا۔
"طبیعت صحیح ہے تمہاری!؟"شیری نے سوال کیا۔
"ہاں ہاں میں صحیح ہوں کیا کہہ رہے تھے تم؟"ہادی نے اپنی کنپٹی کو دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے مسلتے ہوئے کہا۔
"میں بھابھی کے کیس کے متعلق پوچھ رہا تھا"شہریار نے اپنا سوال دہرایا۔
"بس ہم ظالموں تک پہنچنے ہی والے ہیں"ہادی کا لہجہ بے تاثر تھا۔
"ان شاء اللہ!! بھابھی نے بتایا اس متعلق!؟"شیری کو ہادی ساتھ ساتھ ہے بات سے انفارم کر رہا تھا اسی لیے وہ یہ سب جانتا تھا۔
"ہاں"مختصر جواب۔
"کیا کہا انہوں نے پھر۔۔؟؟"
اس سے پہلے ہادی کچھ کہتا اُس کی نظر ریسٹورانٹ سے اندر داخل ہوتے وجود پر پڑی۔غصے سے اُس کی رگیں تن گئیں۔شیری نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو نظر فون پر بات کر بِسمل سے ٹکرائی۔اسا نے پھر سے ہادی کی جانب دیکھا۔وہ غصے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔اس سے پہلے شیری کوئی سوال کرتا ہڈی چیز سے اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا بسمل تک آیا۔بِسمل جو فون پر بات کر رہی تھی سامنے ہادی کو کھڑا دیکھ کر حیران ہوئی۔فون پر جو کوئی بھی تھا اُسے بعد میں کال کرنے کا کہتی کال کاٹ گئی۔
"ہادی تم یہاں واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز!! اکیلے آئے ہو؟آؤ مل کر ڈنر کرتے ہیں"بِسمل نے مسکرا کر اُسے دعوت دی۔ہادی نے زور سے اُس کا بازو تھاما اور کھینچتے ہوئے ریسٹورانٹ سے باہر لے گیا۔شیری کو یہ سب دیکھ کر حیران ہو رہا تھا فوراً سے اٹھا بل کے پیسے ٹیبل پر رکھتے باہر کی جانب بھاگا۔ہادی اُسے کہیں نظر نہیں آیا اور نہ ہی کہیں بِسمل تھی۔
"تم کیا سمجھتی تھی کہ اتنا سب ہو جائے گا اور ہم سب بےخبر رہیں گے؟چہ چہ۔۔۔اتنی اچھی چال چلتے ہوئے بھی ایک غلطی کر گئی تم۔۔جانتی ہو کیا!؟ہاہ چھوڑو کیا کرنا بھلا جان کر تم نے"ہادی کی گرفت قدرے سخت تھی۔بِسمل اُس کے اس رویے سے کانپ اٹھی۔
"کک۔۔کس بارے میں بات کر رہے ہو؟مم۔۔میں کچھ نہیں جانتی"بِسمل کا لہجہ کپکپایا تھا۔
"او جسٹ شٹ اپ۔۔جسٹ شٹ اپ اوکے!! تمہیں کچھ نہیں پتہ کچھ نہیں پتہ تمہیں۔۔"اُس نے بسمل کا جبرا زور سے اپنے ہاتھ میں پکڑتے زور سے چلایا۔بِسمل نے خوف کے مارے آنکھیں بند کر لیں۔آواز سن کر شیری ریسٹورانٹ کی بیک سائڈ پر آیا تو سامنے ہی اُسے وہ دونوں نظر آئے۔
"ہادی چھوڑو اسے کیاکر رہے ہو تم؟؟"شیری نے بسمل کو اس کی گرفت سے آزاد کروایا۔
"آآآ"ہادی نے زور سے اپنا ہاتھ بِسمل کے چہرے کے بہت قریب دیوار پر مارا۔بِسمل کی بیساختہ چیخ فضاء میں گونجی۔۔ہادی بےچینی سے ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگا۔۔اسا کا ایک ہاتھ مسلسل اُس کے چہرے اور بالوں میں چل رہا تھا۔
"تمہیں شرم نہ آئی ایک عورت ہو کر ایک عورت کی عزت کو اچھالنے میں؟؟"ہادی ایک بات پھر چیخا تھا۔بسمل جو پہلے ہی خوف سے کپکپا رہی تھی مزید ڈر کر پیچھے ہوئی۔
"نہیں بلکہ تم جیسی عورتوں کو بھلا کہاں کسی عورت کی عزت کی پرواہ ہوتی ہے؟تم بھی عزتوں کو اچھالنے میں مردوں کے ساتھ ملکر پاک عورتوں کی عزت کی پوجاری بن جاتی ہیں!؟ایسی عورتیں عورتیں نہیں بلکہ عورت کے نام پر کیچڑ اچھالنے کی ماند ہوتی ہیں اور کیچڑ کو جتنا بھی صحیح کرنا چاہو ہلکا سا پانی پڑے وہ پھر ویسے ہی بکھر جاتا ہے۔۔بکھر جاتا ہے سمجھی۔۔۔۔"بِسمل کا دل کانپا تھا۔جس شخص کو پانے کی چاہ نے اُسے اتنا گرا دیا تھا آج وہی شخص اس کو اُس کی اوقات یاد دلا رہا تھا۔
"ہادی تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔"بِسمل نے صفائی پیش کرنا چاہی۔
"اچھا میں غلط سمجھ رہا ہوں صحیح ہے لیکن کیا مجھے غلط ثابت کرنے کے لیے تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے!؟"ہادی طنزیہ ہنسا تھا۔شیری خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا اور کافی حد تک سمجھ چکا تھا کہ اس سب کی ذمہدار "بِسمل" ہے۔
بسمل نے نظریں چرائیں۔
"بولو کوئی ہے جواب تمہارے پاس؟؟"ہادی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔
"میرے پاس ہے ثبوت تمہارے گنہگار ہونے کا۔۔اور میں نظریں بلکل نہیں چراؤں گا کیوں کہ نظریں تو وہ چراتے جنکے دل میں کھوٹ ہوتا ہے۔کیوں صحیح کہا نا میں نے بِسمل جہانزیب؟؟"ہادی اُسے کی جانب متوجہ تھا۔
"ہادی بس کر یار چل اب"اگر ہادی مزید یہاں کھڑا رہتا تو معاملہ مزید بگڑ جاتا اسی احساس کے تحت شیری نے اسے جانے کا کہا۔
"بسمل جہانزیب جتنی پرواز کرنی تھی کر لی تم نے اب تمہارے پر کاٹ کر تمہیں پنجرے میں بند کرنے کا وقت آ چکا ہے۔اور جانتی ہو وہ پر کس نے کاٹے ہیں؟؟کون ہے اس سب کا ذمہدار؟؟ذرا اپنے ضمیر سے پوچھنا تنہائی میں بیٹھ کر وہ خود تمہیں بتائے گا کے ذمہدار کون ہے۔۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ دا شو اہیڈ!!"ہادی دونوں انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کیے اُس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتا ریسٹورانٹ کی انٹرنس کی جانب بڑھ گیا۔شیری نے افسوس سے ایک نظر بِسمل کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لیے ہادی کو ہی دیکھ رہی تھی،ہادی کے پیچھے چل دیا۔جبکہ بسمل وہیں ڈھے سی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عادی آپ آئی نہیں لینے؟"مریم نے عدیل کو فون کیا۔شام ہو گئی تھی لیکن وہ اب تک نہیں آیا تھا۔
"مریم میں ابھی نہیں آ سکتا پولیس اسٹیشن آیا ہوا ہوں بابا لوگوں کے ساتھ"عدیل نے پینے نہ آنے کی وجہ بیان کی۔
"اوہو سب صحیح تو ہے نا؟کیا بنا!؟"مریم نے پریشانی سے سوال کیا۔
"گھر جا کر تفصیل سے بات ہو گی ان شاء اللہ!"عدیل نے کہا۔
"آپ بزی ہیں تو میں انس کے ساتھ آ جاتی ہوں"
"نہیں نہیں کیا ٹرائی کرتا ہم نہیں تو واپسی پر لیے جاؤں گا اور ہاں ابھی گھر میں کسی کو مت بتانا اویں وہ سب پریشان ہو جائینگے"
"جی ٹھیک ہے نہیں کہتی خدا حافظ"مریم نے کہے پریشانی سے کال ڈسکنیکٹ کر دی اور دل میں سب کچھ صحیح ہونے کی دعا کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ کھول میرے مکاں کے اُداس دروازے
ہوا کا شور میری الجھنیں بڑھا دے گا🥀
"بسمل کیا ہوا ہے؟سب ٹھیک تو ہے؟اپنی حالت دیکھو ذرا"بِسمل کی امی جو کے اس کا کب سے انتظار کر رہی تھیں اُسے گھر میں داخل ہوتے بولیں۔وجہ اُس کی بے ترتیب حالت دیکھ کر گویا ہوئیں۔
"بسمل بیٹا آؤ بیٹھو!"جہانزیب صاحب نے پیار سے کہا۔اس نے ان کی جانب دیکھا پھر بغیر جواب دیئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
"جہانزیب صاحب دیکھ رہے ہیں آپ اس کے کام!"انہوں نے بےبسی سے کہا۔جبکہ جہانزیب صاحب سوچ میں پڑ گئے۔وہ کمرے میں جاتے ہی دروازے سے ٹیک لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔یہ کیا کر دیا تھا اس نے۔۔
"میں دیکھ کر آتی ہوں اُسے۔۔"وہ کہے اُس کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
"بسمل بیٹا دروازہ کھولو۔۔"انہوں نے دروازہ نوک کیا۔لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا تھا۔
"بسمل"انہوں نے ایک بار پھر سے اُسے پُکارا۔جواب ندارد۔چند منٹ بعد ٹک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا۔
"بسمل میری جان کیا ہوا ہے۔۔تم۔۔تم رو کیوں رہی ہو سب ٹھیک تو ہے نا؟؟"انہوں نے پریشانی سے سوال کیا۔
"نہیں مما کچھ صحیح نہیں ہے کچھ بھی نہیں۔۔"وہ روتے ہوئے اُن کے گلے لگ گئی۔۔
"بسمل میری جان بولو تو صحیح آخر ہو کیا ہے!؟؟"اُن کی پریشانی کم ہونے کو نہیں آ رہی تھی۔
"ماما مجھ سے۔۔مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا ہے بہت بڑا۔۔۔اتنا بڑا کے ساری زندگی میں اُس گناہ کا کفارہ نہیں کر سکتی۔۔"
"بسمل کک۔۔کیا کہہ رہی ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا"
"ماما مجھے معاف کر دیں بہت بڑا گناہ کیا ہے میں نے۔میں نے آپ لوگوں کی نرمی کا نا جائز فائدہ اٹھایا ہے۔بہت نا جائز فائدہ۔۔آپ مجھے جتنی بھی سزا دیں اتنی کم ہے۔۔۔"
"بسمل ہوش میں تو ہو کیا کہے جا رہی ہو؟؟"اس کی امی نے بےچینی سے کہا۔
"بسمل۔۔بِسمل بیٹا آنکھیں کھولو۔۔بِسمل کیا ہوا ہے تمہیں۔۔جہانزیب صاحب جلدی آئیے دیکھیں اسے کیا ہو گیا ہے"وہ تقریباً چلائی تھیں۔وجہ اُن کی باہوں میں جھولتا وجود تھا۔جہانزیب صاحب پریشانی میں آئے اور اُسے لیے فوراً ہسپتال کی جانب بھاگے۔اُسے فوراً سے ورڈ میں کے جایا گیا تھا۔تقریباً کوئی آدھ گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آیا۔
"ڈاکٹر صاحب کیسی ہے میری بیٹی؟؟"جہانزیب صاحب نے بےچینی سے سوال کیا۔ڈاکٹر نے ایک جانب اُن کے نڈھال وجود کو دیکھا پھر افسوس سے سے ہلاتے آگے کی جانب بڑھ گئے۔جبکہ جہانزیب صاحب کی جان مانو ہوا ہونے کے قریب تھی۔
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے
سب کو ایک حادثہ ضروری ہے🥀
YOU ARE READING
پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)
Mystery / Thrillerپوشیدہ محبت کہانی ہے دو ایسے کرداروں کی جو ایک دوسرے سے واقف ہیں مگر وہ محبت جو دونوں کو ایک اٹوٹ رشتے میں باندھتی ہے اس سے انجان ہیں یہ وہ محبت دونوں سے ہی ہوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں موتی سیپ میں پوشیدہ ہو، خوشبو پھول میں بند ہو اور پورا چاند بادلوں کو ا...