قسط:۱۳

166 14 6
                                    

مہندی کا فنکشن بخیر و عافیت گزرا تھا۔۔سب رات دیر تک باتیں اور مذاق کرتے رہے۔تقریباً رات کے تین بجے سب اپنے اپنے کمروں میں گئے تھے۔۔۔
حور بھی فریش ہوئے باتھرُوم سے باہر نکلی۔۔وہ سونے کی غرض سے ابھی بستر پر آ رہی تھی جب دروازہ نوک ہوا۔حور قدرے حیران ہوئی۔امل اور عبیر اس وقت حور کے روم میں ہی تھی کیوں کے گیسٹ کی وجہ سے اُن کا کمرہ اُنہیں دیا ہوا تھا۔حور آہستہ قدم اٹھاتے دروازے کی جانب بڑھی اور دروازہ کھولا سامنے ہادی جھنجھلایا ہوا کھڑا تھا۔
خیریت۔۔۔حور نے اُسے یوں کھڑا دیکھ کر سوال کیا۔
یار پلز اپنا فون دینا میرا فون نہیں مل رہا۔۔۔ہادی نے جھنجھلائے ہوئے کہا۔
جی میں دیتی ہوں۔۔۔حور کہتی پلٹی اور ٹیبل سے اپنا فون اٹھائے بغیر اس کی جانب دیکھے ہادی کو تھما دیا۔کیوں کے اگر وہ دیکھتی تو ضرور شرمندہ ہوتی۔۔۔
تھینک یو۔۔ہادی فون تھامے باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔تھوڑی دیر بعد ہادی پھر سے آیا اور اُسے اس کا فون تھما دیا۔۔
تھینک یو۔۔اور ہاں نائس والپیپر۔۔۔وہ انگلیوں سے اسکا گال چھوئے حور کی دھڑکن کو بطرتيب کر گیا۔حور کچھ دیر یوں ہی کھڑی رہی۔ہوش میں واپس تب آئی جب پیچھے سے امل کے گلا کھنخارنے کی آواز آئی۔۔وہ گڑبڑائی۔۔
واؤ آپی آپ تو بلش کر رہیں۔۔۔امل نے اُسے چھیڑا۔۔حور نے اُسے گھورا۔۔
ذرا ہم بھی تو دیکھیں کہ ایسا کیا والپیپر لگایا ہے جو بھائی کو اتنا پسند آیا۔۔۔امل نے شرارت سے کہتے اس کے ہاتھ سے فون لیا اور سکرین دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک در آئی۔۔
واہ بھئی!! لالا کو صحیح پسند آئی ہے جب بندہ ایسی لگائے گا پک تو پسند تو آئے گی نہ۔۔۔امل نے ہنستے ہوئے کہا۔
ارے کیا پک ہاں۔۔میں نے تو کوئی پک نہیں لگائی ہے۔۔حور نے کہا۔
اچھا۔۔۔پھر یہ دیکھیں۔۔۔امل نے ہنستے اُسے فون کی سکرین اس کی جانب کی۔حور کی آنکھیں پہلے حیرت سے پھیلیں پھر ان میں شرمندگی در آئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افو یہ کس کو اتنی رات کو مصیبت پیش آ گئی۔۔۔اسمارا نے بجتے فون کو دیکھتے غصے سے بولا اور بنا نمبر دیکھے فون پک کر لیا۔
ہیلو کون ہے؟؟
کون ہے کی بچی۔۔یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟؟دوسری جانب سے حور غصے سے بولی۔
ارے کیا ہو گیا کیوں رات کے اس پہر غصے سے لال پیلی ہو رہی ہو۔۔۔اسمارا ہنستے ہوئے بولی۔
بتاتی ہوں میں تمہیں۔۔۔تھا جو تم نے حرکت کی ہے اس کی وجہ پوچھ سکتی ہوں؟؟حور دانت پیستے ہوئے بولی۔
کون سی حرکت؟؟
اسمارا تم جانتی ہو کس بارے میں میں بات کر رہی ہوں۔۔۔
حورین مجھے سچ میں سمجھ نہیں آرہا۔۔۔
میں تصویر کی بات کر رہی ہوں۔۔۔۔
اوہ اچھا وہ۔۔۔تو کیسا لگا میرا سرپرائیز۔۔۔اسمارا نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہنسنا بند کرو تمہیں نہیں پتہ اس وقت میں کتنے غصے میں ہوں۔۔۔حور نے غصے سے کہا۔
اوکے اوکے نہیں ہنستی اب بتاؤ غُصہ کیوں کر رہی ہو ہاں۔۔۔غلط کام تھوڑی کیا ہے۔۔۔آخر بیوی کے فون پر شوہر کے ساتھ اس کی پک لگے ہونا کہاں کی غلط بات ہے؟؟ بتاؤ مجھے۔۔۔اسمارا تو سارے گھٹے کھول بیٹھی تھی۔۔۔فون اسپیکر پر تو نہیں تھا لیکن امل اس کے ساتھ کان لگائے سب باتیں سن رہی تھی اسی لیئے جھینپ گئی۔
تم۔۔اوکے سو جاؤ۔۔۔حور بات ختم کرتی جلدی سے فون کاٹ گئی۔اسمارا نے فون کو گھورا اور اُسے سائڈ پر پٹختے پھر سے سونے کی تیاری کرنے لگی۔۔
امل اگر اب تم نے پھر سے ہنسنے کا شغل جاری رکھا نا تو۔۔۔تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گی۔۔۔حور اس کو مسلسل ہنستا دیکھ کر غصے سے بولی۔
اوکے اوکے آپی سوری آپ سو جائیں۔۔پکا میں اب نہیں ہنستی۔۔۔امل اپنی ہنسی کو قابو کرتی اپنے اوپر چادر اوڑھے لیٹ گئی۔۔۔حور نے موقع غنیمت جانا اور خود بھی لائٹ آف کرتی سونے کی تیری کرنے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسمارا حور سے بچتے بچاتے اس کے کمرے تک آئی۔۔۔اس کے چہرے پر شریر مسکراہٹ رینگی۔اس نے اس کا فون تھاما اپنا فون سے اس کے فون میں لی گئی پک سینڈ کی اور پھر اُسے والپیپر لگا کر زور زور سے ہنسنے لگی۔۔۔اب آئے گا مزا۔۔۔وہ یہ سوچتے کمرے سے باہر نکلی۔۔اب آگے کی سوچ اُسے مزید ہنسی دلا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہادی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔صبح ہوتے ہی حور ہادی کے کمرے میں آئی تاکہ اُسے بتا سکے کہ تصویر والی حرکت اسمارا کی تھی۔وہ کچھ اور نہ سمجھنے بیٹھ جائے۔ہادی اس کے بغیر اجازت کمرے میں داخل ہونے پر چونکا لیکن اسا کے گھبرائے تاثرات دیکھ کر اس سے مخاطب ہوا۔
ہمم کہو۔۔۔
وہ کل رات کو۔۔۔حور اپنے چہرے پر ہادی کی نظروں کی تپش محسوس کر سکتی تھی اسی لیۓ رکی۔۔
یار آپ ایسے دیکھیں تو مت۔۔حور نے جھنجھلائے ہوئے کہا۔ہادی جو کہ اُسے کسی اور بات کی اُمید رکھتا تھا یوں اچانک اس کے الفاظ سے اس کا قہقہ فضاء میں معلق ہوا۔
اوکے نہیں دیکھتا اب بولو تم۔۔حور کی پیشانی پر شکنیں دیکھے وہ سنجیدہ ہوا اور ادھر اُدھر نظریں دوڑانے لگا۔
لیکن حور اب بھی خاموش ہی رہی۔۔
اب کیا۔۔۔۔ہادی نے سوال کیا۔
اب آپ ادھر اُدھر کیوں دیکھ رہے ہیں؟؟وہ اس طرح شکایات کرتی ہادی کو بہت بھلي لگی۔۔
ہائے یار خود ہی کہتی ہو کہ دیکھوں مت اور جب دیکھتا نہیں ہوں تب بھی شکایات کرتی ہو۔۔آخر خود بیٹا دو کہ بندہ نامدار کیا کرے آخر۔۔ہادی نے دلچسپ تاثرات لیے اس سے سوال کیا۔
میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔۔۔حور نے نظریں چرائیں۔۔
اہاں۔۔پھر کیا مطلب تھا۔۔ہادی اُسے چھیڑ رہا تھا۔
ہادی دیکھیں۔۔۔
یارہ دیکھ ہی تو رہا ہوں۔۔۔ہادی بعض نہ آیا۔۔
میں جا رہی ہوں۔۔وہ پیر پٹختی دروازے کی جانب قدم بڑھانے لگی جب ہادی نے ایک جھٹکے سے اس کی کلائی تھامی اور اُسے اپنی جانب کھینچا۔حور اس سے پہلے اس سے ٹکراتی اس نے اپنے بازو اس کے اور اپنے درمیان کر لیئے۔۔
اب بولو کیا کہنے آئی تھی؟؟ہادی کی کو دیتی آنکھیں اُسی پر مرکوز تھیں حور نے فوراً سے نظریں چرائیں۔۔
وہ میں نے یہ کہنا تھا کہ وہ پک آپ کی اور میری میں نے نہیں لگائی تھی اسمارا نے لگا دی تھی ۔ حور نے ایک ہی سانس میں بنا اس کی جانب دیکھے کہا۔
اچھا تو مطلب مجھے اسمارا کا شکریہ ادا کرنا ہو گا۔۔
جی۔۔حور نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
ہاں نا یار اب اس اچھے کام کرنے کے لیے شاباش تو دینا پڑے گی نا اُسے۔۔
م۔۔۔میں ہٹا دوں۔۔۔
کوئی ضرورت نہیں ہے ہٹانے کی لگی رہے۔۔۔ہادی نے اس کی بات کاٹی۔حور خاموش ہو گئی۔۔
سنو جانا مجھے تمہارے بنا رہنا نہیں آتا
بہت کچھ دل میں آتا ہے مگر کہنا نہیں آتا 🥀
۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now