قسط:۶

226 17 9
                                    

صبح اپنے پر ہر سو پھیلا چکی تھی۔آج سب نے عدیل کی لڑکی کو دیکھنے جانا تھا۔پروگرام شام کا بنا تھا۔سب یونی اور کالج جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے لیکن حور اب تک اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی تھی۔ہاجرہ بیگم اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں لیکن حورین تیار ہونے کی بجائے بستر میں لیتی ہوئ تھی آنکھیں اس کی بند تھیں۔ہاجرہ بیگم پریشانی سے اس کی جانب بڑھیں۔
بیٹا کیا ہوا ہے آپ تیار نہیں ہوئیں؟؟ہاجرہ بیگم نے اس کی پیشانی پر بکھرے بال ہٹانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا لیکن اس کا ماتھا ابل رہا تھا۔
اوہ ہو! حور تمہیں تو بہت شدید بخار ہے۔۔ہاجرہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔حور نے اپنی آنکھیں کھولیں لیکن پھر سے موند لیں۔
بیٹا اٹھو کھانا کھاؤ میں ابھی تمہارے لیے کچھ لاتی ہوں اور پھر میڈیسن بھی دیتی ہوں۔۔ہاجرہ بیگم کہے کمرے سے باہر نکل گئیں۔حور کا جسم ٹوٹ رہا تھا۔اسا میں اٹھنے کی بلکل ہمت نہیں تھی۔
کیا ہوا بھابھی حور اٹھی نہیں جانا نہیں یونیورسٹی اس نے؟؟سنا بیگم نے سوال کیا جو کے ڈائننگ پر برتن لگا رہی تھیں۔
نہیں بھابھی اُسے بہت تیز بخار ہے رات تک تو ٹھیک تھی لیکن اب میں نے چیک کیا ہے بہت زیادہ بخار ہے۔ہاجرہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔ڈائننگ پر بیٹھے تمام نفوس پریشان ہوئے۔
ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں اُسے۔۔تھا جان نے کہا
نہیں نہیں بھائی صاحب میں ابھی اُسے میڈیسن دوں گی صحیح ہو جائے گی ان شا اللہ۔۔ہاجرہ بیگم نے فوراً کہا
نہیں بھابھی ایک بار چیک کروا لیں حادی آج تم یونی مت جاؤ حورین کو ڈاکٹر کے ہاں لے کر جانا ہے۔۔چچا جان نے کہا اور ساتھ ہی ہادی کو مخاطب کیا کو کے خاموش بیٹھا انہی کی گفتگو سن رہا تھا۔
بھائی صاحب اس کی تعلیم حرج ہو گا میں دے دیتی ہوں میڈیسن اُسے۔۔۔
چچی جان میں لے جاتا ہوں آپ پریشان مت ہوں۔۔ہادی نے کہا۔ہاجرہ بیگم خاموش ہو گئیں۔
میں آپی کو دیکھ کر آتی۔امل کہے اٹھی عبیر بھی اس کے پیچھے ہو لی۔دروازہ نوک کیے وہ کمرے میں داخل ہوئیں۔حورین بےسود بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔
کیا ہوا آپی۔۔زیادہ طبیعت خراب ہے آپ کی۔۔امل کے چہرے پر فکرمندی کے آثار واضع تھے عبیر کا بھی یہی حال تھا۔حورین نے آنکھیں کھولیں اور مسکرائی۔
میں ٹھیک ہوں تم لوگ پریشان مت ہو۔جاؤ شاباش کالج میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔حور نے مسکراتے ہوئے کہا
لیکن آپی۔۔۔عبیر نے کچھ کہنا چاہا
ارے لڑکی میں ٹھیک ہوں نا۔جاؤ شاباش باہر ویٹ کر رہے ہوں گے بھائی تمہارا۔۔حورین نے عدیل کا کہا۔ کیوں کے وہی امل اور عبیر کو کالج ڈراپ کرتا تھا۔امل اور عبیر باہر اُسے وش کرتیں باہر کی جانب بڑھ گئیں جہاں عدیل اُنہیں کا انتظار کر رہا تھا۔
سنا بیگم اور سکینہ بیگم سب مرد حضرات اور بچوں کو بھیج چکی تھیں۔سکینہ بیگم اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں جبکہ سنا بیگم نے حورین کےکمرے کا رخ کیا ہاجرہ بیگم باورچی خانے میں حورین کے لیے دلیا بنا رہیں تھیں۔
کیسی ہے میری بچی۔۔سنا بیگم اس کے پاس بیڈ پر بیٹھے مخاطب ہوئیں۔حورین نے اٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن سنا بیگم نے اُسے منع کر دیا۔
ارے لیٹی رہو لیٹی رہو۔۔ہاجرہ بیگم بھی اس کے لیے دلیا لیے کمرے کی داخل ہوئیں۔
ارے بیٹا ابھی تک تم لیٹی ہوئی ہو۔۔شاباش اٹھو جلدی سے کھاؤ کچھ پھر ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہے۔ہاجرہ بیگم نے کہا حور نا چاہتے ہوئے بھی اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی۔کچھ ہی دیر میں وہ باہر آئی ہاجرہ بیگم نے اُسے دلیے سے بھرا باؤل تھما دیا۔
امی یہ بہت زیادہ ہے مجھ سے نہیں کھایا جائے گا۔حورین اتنا زیادہ دیکھے کہا۔
کوئی زیادہ نہیں ہے شاباش کھاؤ جلدی سے۔۔ہاجرہ بیگم نے چمچ اس کے آگے بڑھائے کہا۔حورین کو نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا پڑا۔
چلو تم کھاؤ میں ہادی سے کہتی ہوں وہ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے۔۔سنا بیگم کہے کمرے سے باہر نکل گئیں۔جبکہ حورین ہادی کا سن کر چونکی۔
امی ہادی یونیورسٹی نہیں گئے۔۔حورین نے سوال کیا۔
نہیں بیٹا میں نے صبح بتایا تھا اُنہیں کے تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک تو تایا جان اور چچا جان کہتے کے ڈاکٹر کے ہاں چلی جاؤ میڈیسن لے آؤ۔۔
امی مجھے نہیں جانا ڈاکٹر کے پاس آپ پلز منع کر دیں اُن کو۔میں خود میڈیسن لے لوں گی۔
بیٹا کیا حرج ہے ایک بار ہو آؤ وہ چیک کر کے تمہیں خود میڈیسن دے دے گا۔
امی میرے اندر بلکل ہمت نہیں ہے جانے کی۔حورین نے روتی شکل بنائی۔ہاجرہ بیگم نے خالی باؤل ٹیبل اور رکھا۔
کیا ہوا ہے بیٹا تم مجھے کل سے اُلجھی اُلجھی لگ رہی ہو۔گہرا بیگم نے اس سے سوال کیا۔حورین گڑبڑائی
نہیں۔بھلا میں نے کیوں اُلجھا ہوا ہونا۔حورین نے جھوٹ بولا
میں ماں ہوں تمہاری،تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں اب بتاؤ شاباش کیا بات تمہیں پریشان کر رہی ہے۔ہاجرہ بیگم نے پیار سےکہا۔حورین کی آنکھوں میں نمی در آئی۔
امی میں کمزور نہیں بننا چاہتی لیکن جانے کیوں میں کمزور بن جاتی ہوں اس کے سامنے۔میں نہیں مقابلہ کر سکتی مضبوط بن كر۔میں جب بھی سوچتی ہوں تو میرا دل پہلے سے ہی ڈوبنے لگتا ہے میں جنتا خود کو سب کےسامنے مضبوط دکھانے کی کوشش کرتی ہوں اتنی کی کمزور ہوئی جاتی ہوں۔حورین نے روتے ہوئے کہا ہجر بیگم پریشان ہوئیں۔
بیٹا ہوا کیا ہے آخر ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔ہاجرہ بیگم بولیں۔
امی ہادی۔۔حورین نے ابھی تھی کہا تھا جب اس کی نظر دروازے سے اندر آنے والے شخص پر پڑی۔یہ یقیناً ہادی ہی تھا جو سنا بیگم کے کہنے پر اُسے ہسپتال لئے کر جانے کے لیے آیا تھا وہ اپنا نام سن کر ٹھٹھکا ضرور تھا لیکن بغیر ظاہر کیے آگے بڑھا۔حورین کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر اور ساتھ میں اپنا نام لیے جانے پر وہ قدرے حیران ہوا تھا۔
سوری مجھے نوک کر کے آنا چاہئے تھا۔۔حادی نے کہا
نہیں نہیں بیٹا کوئی بات نہیں۔ہم تو بس ویسے ہی بات کر رہے تھے۔۔ہاجرہ بیگم نے وضاحت دی۔
جی جانتا ہوں۔۔جانے اس کے لہجے میں کیا تھا اس نے یہ حورین کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
خیر ماما کہہ رہیں تھیں کے اِسے ہسپتال لئے کر جانا ہے۔۔۔
جی بیٹا۔۔بس یہ ابھی آ رہی ہے۔۔۔ہاجرہ بیگم نے حورین کی نظروں کو نظر انداز کیے ہادی سے کہا وہ حورین کی حرکت دیکھ چکا تھا لیکن نظر انداز کیے باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔
اٹھو حورین بیٹا جاؤ اچھی بات نہیں ہے وہ انتظار کر رہا ہے اور دیکھو تمہاری وجہ سے وہ آج یونی بھی نہیں گیا۔۔
لیکن امی پلز مجھے نہیں جانا۔۔۔
حورین ضد نہیں اکڑتے اٹھو فوراً۔۔۔اب کی بار ہاجرہ بیگم نے تیز لہجے میں کہا حور کو نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھنا پڑا۔اسا نے اپنے حجاب کو درست کر کے لیا اپنے گرد چادر لپیٹی اور باہر کی جانب بڑھ گئی جہاں ہادی پہلے ہی اُسکے انتظار میں گاڑی اسٹارٹ کیے کھڑا تھا۔
سوری۔۔اتنا انتظار کرنا پڑا۔۔حورین معذرت کرتی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
اٹس اوکے۔۔ہادی کا لہجہ بے تاثر تھا۔اس نے گاڑی زن سے آگے بڑھا دی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے اُسے کچھ میڈیسن دی تھیں اور ریسٹ کا کہا تھا۔پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ہادی کے ہمراہ وہ چلتی گاڑی تک آئی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ہادی سارا راستہ خاموش ہی رہا تھا اسی لیے حورین بھی اب کی بار پُرسکون ہو کر بیٹھی تھی۔سے درد کی وجہ سے اس نے سیٹ  کی پشت سے اپنا سر ٹکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔
رات تک تو ٹھیک تھی اب اچانک کیسے اتنا تیز بخار ہو گیا۔۔ہادی کے سوال پر اس نے آنکھیں کھولیں۔
پتہ نہیں شاید رات نہ سونے کی وجہ سے۔۔حورین سے جو بہانہ بنا اُسنے بنا دیا
صرف رات نہ سونا ہی وجہ نہیں بن سکتا ٹھیک کہا نا میں نے۔۔۔ہادی نے اُس کی روئی روئی آنکھوں کی جانب دیکھتے ہوئےکہا حورین نے فوراً نظریں پھیریں۔
ن۔۔نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔حورین نے کہا جبکہ ہادی اب کی بار خاموش رہا اور گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔حور نے چپکے سے اس کی جانب دیکھا۔
یوں چھپ کر کیوں دیکھ رہی ہو۔ہادی اس کی حرکت دیکھ چکا تھا اسی لیے بولا حورین گڑبڑا گئی اور سڑک پر باہر گزرتی گاڑیوں کی طرف دیکھنے لگی جبکہ ہادی کے چہرے کو ایک دلفریب مسکراہٹ نے چھو لیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now