قسط:۲۳

187 12 8
                                    

حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی🥀
گھڑی رات کے بارہ بجا رہی تھی لیکن ہادی اب تک واپس نہیں لوٹا تھا۔حورین ہادی کا انتظار کر رہی تھی۔اسمارا کی باتوں کو اس نے بہت سوچا تھا اور اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ اپنے اُسے خوف کو وہ اپنی طاقت بنائے گی جو ہوا اگر سب اُسے بھول گئے ہیں تو وہ کیوں نہیں بھول سکتی اگرچہ یہ سب بہت مشکل تھا لیکن سب کی خوشی کے لیے یہ سب کرنا تھا اُسے۔اب مزید کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔آہستہ آواز کے ساتھ دروازہ کھلا۔ہادی روم میں داخل ہوا۔سامنے حور بیٹھی اُسی کی منتظر تھی۔
"کیا ہوا حور طبیعت صحیح ہے؟"ہادی نے پریشانی سے اُس سے سوال کیا۔اگرچہ اس کی خود کی حالت تھکن کی وجہ سے خراب لگ رہی تھی۔حورین کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔کیسے ہادی اپنا آپ بھلائے بس اسی کے لیے پریشان تھا۔
"کیا ہوا حورین سب ٹھیک تو ہے؟"ہادی مزید پریشان ہوا۔
"ج۔۔جی آپ فریش ہوں میں کھانا لاتی ہوں"حورین کہے بستر سے اٹھی۔اُسے یقین تھا کہ ہادی نے کھانا نہیں کھایا ہوگا۔ہادی کو خوش کن حیرانگی ہوئی لیکن وہ اُسے چھپاتا سر ہلاتا فریش ہونے چلا گیا۔
فریش ہوئے وہ باہر آیا حور بھی اپنے ہاتھ میں ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔
"آ جائیں کھانا کھا لیں"حورین اس سے مخاطب ہوئی۔
"تم نے کھانا کھا لیا؟"ہادی نے سوال کیا۔
"نہیں میرا دل نہیں ہے۔۔"حورین نے جواب دیا۔
"یار بہت بری بات ہے کیوں نہیں کھایا اب تک۔آؤ شاباش فوراً سے بیٹھو اور کھاؤ تم بھی۔۔"
"نہیں نا پلز۔۔"
"صحیح ہے مجھے بھی بھوک نہیں ہے"ہادی بھی بیڈ کی جانب بڑھ گیا۔
"اچھا میں کھا لیتی ہوں۔۔"حورین کو ہار ماننی پڑی۔ہادی کے چہرے کو دلفریب مسکراہٹ نے چھوا۔ہادی کو اس کا بدلا ہوا رویہ اچھا لگا تھا۔دونوں نے کھانا کھایا۔حور برتن سمیٹنے چلی گئی۔واپس آئی تو ہادی لیٹا ہوا تھا اور بازو اس نے آنکھوں پر رکھا ہوا تھا۔
"اور کچھ چاہیے آپ کو؟"حورین نے اس سے سوال کیا۔
"ہمم تمہارے چہرے پر پُرسکون مسکراہٹ بس یہی چاہیئے مجھے۔۔"ہادی نے کہا حورین وہیں خاموش کھڑی رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُجالا ہوتا ہے ہر تاریکی کے بعد
رات سدا قائم نہیں رہتی🥀
"آپ اپنے کپڑے بتا دیجیۓ میں پریس کر دیتی ہوں"حورین ہادی سے مخاطب تھی۔وہ سامنے تیار کھڑی تھی۔
"کہیں جا رہی ہو کیا؟"ہادی نے اُسے تیار کھڑا دیکھ کر سوال کیا۔
"جی آپ بھول گئے اتنا وقت گزر گیا یونی سے میں آف کر رہی اب پھر سے جوائن کرنا ہے"حور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تھینک یو حور مجھے میری زندگی واپس لوٹانے کے لئے"ہادی کا لہجہ پیار بھرا تھا۔حور نظریں جھکا گئی۔ہادی مسکرا دیا۔اُس کے فون کی بیل بجی۔
"ہیلو"دوسری جانب سے آواز گونجی۔ہادی کے تاثرات سنجیدہ ہوئے۔
"جی میں سن رہا ہوں آپ ایسا کیجیۓ آفس آ جائیے میں بھی وہیں پہنچتا ہوں بابا لوگوں کو بھی انفورم کر دیتا ہوں"ہادی نے دوسری جانب سے بات سن کرکہا اور جواب سن کر کال ڈسکنکٹ کر دی۔
"حور تم ایسا کرو یونی چلی جاؤ مجھے ایک کام ہے میں کوشش کروں گا کے جلدی آ جاؤں۔"
"لیکن میں اکیلے کیسے۔میرا مطلب میں اکیلے نہیں جاؤں گی پلیز"حورین کے ذہن میں اس دن والا واقعہ گردش کرنے لگا۔اس دن بھی وہ گھر سے اکیلے باہر نکلی تھی۔
"اوکے میں چھوڑ دونگا۔پریشان مت ہو"ہادی نے اس کے چہرے پر ہلکی سی تھپکی دی۔حور نے اپنی نم آنکھوں کو صاف کیا اور گہرا سانس بھر کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محسن وہ میری آنکھ سے اوجھل ہوا نا جب
سورج تھا میرے سر پہ مگر رات ہو گئی🥀
وہ گھر جا رہی تھی۔چلتے چلتے اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔اس نے اپنے چلنے کی رفتار بڑھائی۔وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی جب اس کا پاؤں راستے میں پڑے پتھر سے لگا۔اس نے اپنا آپ سمبھالا۔اس کے بڑھنے کی رفتار مزید تیز ہوئی تھی۔گھر پہنچ کر وہ فوراً سے اندر ہوئی اور دروازہ بند کر کے گہرے سانس لینے لگی۔اُس کی آنکھوں سے آنسو تیز رفتار سے گالوں پر بہنے لگے۔وہ ضرورت کے تحت ہی گھر سے باہر نکلتی تھی۔ورنہ اس نے اپنے آپ کو اپنے گھر تک ہی محدود کر دیا تھا۔بس حورین سے ملنے جاتی تھی۔دروازہ کھٹکا۔اسمارا خوف سے دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔ایک بار پھر سے زور دار آواز کے ساتھ دروازہ بجا لیکن پھر باہر سناٹا چھا گیا۔اسمارا نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر بلند سسکیوں کو روکا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں جا رہے ہو ہادی اور حورین کہاں ہے؟"سنا بیگم ہادی تیار ہوا ڈائننگ کی جانب آتا دیکھ کر گویا ہوئیں اُس کے پیچھے ہی حورین بھی حجاب صحیح سے کیے بیگ شولڈر پر ڈالے آگئی۔
"ماشاءاللہ!! اللہ نظر نہ لگائے میرے بچوں کو"ہاجرہ بیگم نے دونوں کی نظر اُتاری۔سنا بیگم مسکرا دیں۔
"کہاں جا رہے ہیں آپ دونوں صبح سویرے!؟"مریم نے چھیڑنے کے سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ہادی ہنسا۔
"ارے بھابھی کہیں نہیں بس یونی کی تیاری ہے۔۔"ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اولے یہ بھلا کیا بات ہوئی کہیں سیر وغیرہ کے لیے جاؤ مجھے لگا کہ شاید کہیں ڈیٹ پر جا رہے لیکن یہاں تو۔۔۔اففف۔۔۔کوئی حال نہیں"مریم کو صدمہ لگا۔سنا بیگم اور ہاجرہ بیگم مسکرا دیں۔تائی امی اپنے روم میں تھیں جبکہ تایا جان،چچا اور عدیل آفس جا چکے تھے اور امل عبیر بھی کالج جا چکی تھیں۔
"ہاں بیٹا مریم صحیح کہہ رہی ہے کہیں گھومنے جاؤ"سنا بیگم نے بھی مریم کی تائید کی۔حور اس سب میں خاموش تھی۔اُسے تو یونی جانا بھی کسی پہاڑ کو سے کرنے سے کم نہیں لگ رہا تھا گھومنا تو دور کی بات۔
"ماما یہ سب پہلے میں نبٹا لوں پھر دیکھتے ہیں"ہادی کا لہجہ سنجیدہ تھا۔سب خاموش ہو گئے۔
"بیٹھو میں ناشتہ لاتی ہوں"ہاجرہ بیگم نے کہا۔
"نہیں نہیں چچی جان موڈ نہیں حور سے پوچھ لیں."ہادی نے کہا۔
"نہیں بس نکلتے ہیں دیر ہو رہی ہے۔"حور نے کہا۔
"ایسے کیسے کچھ کھاؤ پھر جانا۔"سنا بیگم نے ڈپٹا۔
"ہم یونی سے کھا لیں گے آپ پریشان مت ہوں"ہادی نے اُنہیں تسلی دی اور باہر کی جانب بڑھ گیا۔حور بھی اس کے پیچھے ہو لی۔
"شکر ہے حور بھی واپس اپنی زندگی جینے آئی"سنا بیگم پھیلا سا مسکرائیں۔
"جی سہی کہا آپ نے"مریم نے اُن کی تائید کی۔ہاجرہ بیگم جبکہ اُس کے لیے دعا گو تھیں۔ماں تھیں اُس کا جھجھکنا نوٹ کر چکی تھیں لیکن خوش بھی تھیں کے وہ اس ٹراما سے تو نکلی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے🥀
یونیورسٹی آگئی تھی۔حور نے زور سے اپنی مٹھی بند کر لی۔
"حور۔۔تم ٹھیک ہو؟؟"ہادی نے اس سے سوال کیا۔اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"حور اس بھری دنیا میں انسان کو اکیلے چلنا آنا چاہیے۔جو اب آپ کے ساتھ ہیں آپ کو بری ہواؤں سے دور رکھتے ہیں ضروری نہیں کے ہر مشکل وقت میں وہ آپ کی ساتھ ہوں آپ کو محفوظ رکھیں۔انسان کو اپنے مسائل کا سامنا خود کرنا چاہیے مشکل اور خوف سے دور نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈٹ کر اُن کا مقابلہ کرنا چاہیے پھر وہ مشکل خود ہی ٹل جاتی ہے راستے آسان ہو جاتے ہیں گر مشکل میں ہم دوسروں کی جانب نظریں اُٹھائیں گے تو رسوائی ہی ہو گی ضروری نہیں کے ہر کوئی آپ کی مشکل میں اتنا ہی شریک ہو آپ کے درد کو اپنا درد سمجھے گر خود آپ اپنے مسائل کو حل کرو گے تو چاہے طوفان بھی آ جائے آپ مشکل کا سامنا کرنے کے لیے ہر سو تیار رہو گے اُس طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کرو گے۔۔۔"ہادی نے اُسے تسلی دی۔حورین کی آنکھیں نم تھیں۔
"میں کوشش کروں گا کے جلدی آ جاؤں"ہادی نے کہا۔حور سر ہلا کر دروازہ کھولے باہر نکل گئی۔جب تک وہ یونی کے گیٹ سے اندر نہیں چلی گئی ہادی تب تک اُسے تکتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے آؤ برخوردار تمہارا ہی انتظار تھا"تایا جان آفس میں ہادی کو داخل ہوتا دیکھ کر گویا ہوئے۔ہادی مسکرا دیا۔
"بابا اور بھائی کہاں ہیں؟سر ہود کی کال آئی تھی میں نے اُنہیں کہا کے آفس آجائیں۔"ہادی نے اُنہیں صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
"ہاں بیٹا آ گئے ہیں سب آ جاؤ اب تم بھی"تایا جان نے کہا اور روم کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چارہ سازوں سے الگ ہے میرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا🥀
حورین یونی میں داخل ہوئی۔سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔کمی تھی تو صرف اسمارا کی جو کے کوئی پوری نہیں کر سکتا تھا۔وہ بغیر کسی کی جانب دیکھے اپنی کلاس کی جانب بڑھ گئی۔کلاس میں چہ مگوئیاں چل رہی تھیں لیکن حور اُسے مکمل طورپر نظر انداز کیے ہوئے تھی۔پہلا لیکچر ختم ہوتے ہی بسمل کلاس میں داخل ہوئی۔اُس کی نظر حور پر پڑی تو اس نے عجیب سی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔اس سے پہلے وہ حور تک آتی پروفیسر آ چکے تھے۔سو وہ اپنا ارادہ ملتوی کرتے اپنی نشست پر جا بیٹھی۔
"سر آپ نے کلاس مجھ کس طرح کے سٹوڈنٹس بیٹھا رکھے ہیں بچوں اور برا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔۔"لیکچر ختم ہونے کے قریب بِسمل سر سے مخاطب ہوئی۔پوری کلاس میں خاموشی چھا گئی۔حور جو کے لیکچر نوٹ کررہی تھی اس کے کاغذ پر چلتے ہاتھ تھمے اور پین ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔کلاس میں موجود بچے اب حور کی جانب متوجہ تھے۔
"بسمل مائنڈ یور لینگویج!! آپ اس وقت کلاس میں ہیں اور آپ کو اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں"سر کا لہجہ سخت تھا۔
"سر میں نے تو کچھ نہیں کہا جو کہا ہے سچ ہی تو ہے جانے اس کے ساتھ۔۔"بِسمل نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔حور ضبط کے مراحل سے گزر رہی تھی۔اسا کا ضبط ٹوٹا اور آنسو بروقت اس كا چہرہ بھگو گئے۔وہ اپنا سامان سمیٹے بھاگنے کے سے انداز میں کلاس سے باہر نکلی۔وہ آگے بھاگی کہ رہی تھی ساتھ ساتھ اپنا آنسو سے تر چہرہ رگڑنے کے سے انداز میں صاف کررہی تھی۔بھاگتے بھاگتے وہ یونی کے بیک سائڈ پر چلی گئی۔اس کے رونے میں مزید شدت آئی تھی۔اس سائڈ پر بہت کم کم بچے آتے تھے۔وہ دیوار سے ٹیک لگائے نیچے بیٹھتی چلی گئی۔اس کی سسکیاں مزید بڑھ رہی تھیں۔اکا دکا بچے اُسے یوں روتا دیکھ کر رکے لیکن پھر آگے بڑھ گئے۔جتنا آسان اس نے سب سمجھ لیا تھا اتنا نہیں تھا۔اُسے لگ اس نے یونی آنے کا بہت غلط فیصلہ کیا ہے۔اُسے نہیں آنا چاہیے تھا۔اب وہ پچھتا رہی تھی۔واپس سے وہ اس سب کے بارے میں سوچنے لگی جس سے نکلنے میں اُسے بہت وقت لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم وکٹم کی انویسٹیگیشن کرنا چاہتے ہیں اس کے بنا یہ سب ممکن نہیں ہے"آفسر نے اپنے آنے کہ مدعا بیان کیا۔
"لیکن آفسر اس سب میں بچی کو نہیں لینا چاہتے ہیں"تایا جان نے کہا۔
"دیکھیے سے ہم جانتے ہیں لیکن اس سب کے بنا ظالم تک پہنچنا مشکل ہے"آفسر بھی اپنی جگہ صحیح تھا۔سب سوچ میں پڑ گئے۔
"ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے"ہادی تھا جو اب بولا تھا۔
"جی کہیے"آفسر ہمہ تن گوش تھا۔
"میری بیوی میڈیا کے سامنے بلکل بھی نہیں آئے گی آپ نے انویسٹیگیشن کرنی ہے کیجیۓ لیکن اس کا نام کہیں بھی نہیں آنا چاہیے۔"ہادی کا لہجہ چٹانوں کی ماند سخت تھا۔
"آپ بے فکر رہیں سر ایسا ہی ہوگا۔"آفسر نے یقین دلایا۔
"اوکے اب میں نکلتا ہوں آپ کو جلد ہی بیٹا دیا جائے گا"ہادی کہے سب سے اجازت لیے باہر نکل گیا اب وہ یونی جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خط لکھوں تو کیا لکھوں__آرزو مدہوش ہے
خط پے آنسو گر رہے ہیں اور__قلم خاموش ہے🥀
اسمارا اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔اس کے ذہن میں اپنی امی کے ساتھ بیتا وقت گردش کر رہا تھا۔کہاں اُن سے اپنے لاڈ اُٹھوانا اور اب وہ کوسوں دور مٹی تلے سب سے بے خبر سو رہی تھیں۔اس کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔اس کے آنسو اب سسکیاں اختیار کر چکے تھے۔
"امی ہر رات،ہر دن،ہر پل آپ کے بنا ادھورا سا لگتا ہے۔پاس نہیں بھی ہیں آپ پھر بھی آپ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔جی چاہتا ہے آپ کو چھوؤں،آپ سے باتیں کروں،اپنے فرمائشیں پوری کرواؤں،اپنے لاڈ اٹھواؤں،اپنا دل آپ سے باتیں کر کے ہلکا کروں۔بہت کچھ چاہتی ہوں میں لیکن یہ سب ممکن نہیں ہے۔کیوں کے میرے دل کے پاس ہو کر بھی آپ میرے پاس نہیں ہیں۔چند پل کا فاصلہ اب صدیوں کا فاصلہ اختیار کرچکا ہے۔اب بس آپ کے پاس آنے کی چاہ باقی ہے۔آپ کے ساتھ باقی کی عمر بیتانے کی آس باقی ہے۔"وہ رو رہی تھی اور خود ہی سے محو گفتگو تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کے دو آنکھیں تب سے اس کی اذیت کو اپنی اذیت سمجھ کر برداشت کی رہی ہیں۔وہ نہیں جانتی تھی کہ دو آنکھیں اُسے روتا دیکھ کس اذیت سے گزر رہی ہیں۔وہ نہیں جانتی تھی کے اس کے یہ الفاظ اُن دو آنکھوں کو کس اذیت سے دوچار کر رہے ہیں۔وہ نہیں جانتی تھی کے اس وجود کا نے نہیں چل رہا کے اس کے سارے دخوں سارے غموں کو اپنے اندر سمو لے۔اس کے حصے کے سارے دکھ خود لے لے اور اپنے حصے کی ساری خوشی اس کی دسترس میں بھر دے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ہے وجہ ضروری کہ جب ہو تب مر جائیں
اُداس لوگ ہیں،ممکن ہے،بےسبب مر جائیں 🥀
"حور کہاں ہے؟"ہادی نے کلاس میں داخل ہوتے نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں مگر وہ پوری کلاس میں اُسے نہیں نظر آئی اور شہریار بھی نہیں آیا تھا۔۔وہ باہر نکلنے والا تھا جب بِسمل دھیمی چل چلتی اس تک آئی۔
"ہائی ہینڈسم کیسے ہو؟"بسمل کا لہجہ پرشوخ تھا۔ہادی نے اُس کے سوال کو اگنور کیا۔
"جانتی ہو حور کہاں ہے؟"ہادی نے سنجیدہ تاثرات لیے اس سے سوال کیا۔بِسمل دانت پیس کر رہ گئی۔
"نہیں۔۔"اُس نے منہ موڑ کر جواب دیا۔ہادی اُسے وہیں چھوڑتا باہر نکل گیا اور کیفے کی جانب بڑھ گیا کے شاید حور یہاں پر ہو۔
"پتہ نہیں کیا جادو کر رکھا ہے اس حور کی بچی نے یہ شخص اس کے گن گاتے نہیں تھکتا۔۔"بِسمل نے غصے سے کہا اور پیر پٹختی واپس اندر چلی گئی۔کفیٹیریا گراؤنڈ لیبز ہر جگہ ہادی اُسے دیکھ چکا تھا لیکن وہ اُسے کہیں نہیں دکھائی دی۔وہ صحیح معنی میں پریشان ہو رہا تھا۔
"یار پتہ نہیں کون ہے بچاری بیہوش ہوئی پڑی ہے وہاں پر"لڑکیوں کا ٹولہ آپس میں بتائیں کرتا ہڈی کے پاس سے گزرا۔اسا کے ذہن میں جهماکا سا ہوا۔وہ بھاگ کر یونی کی بیک سائڈ پر گیا سامنے حور بیسود زمین اور گری ہوئی تھی۔
"حور آنکھیں کھولو۔۔"ہادی نے اس کا گال تھپتھپايا لیکن وہ آنکھیں نہیں کھول رہی تھی۔اُس نے حور کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور بھاگ کر باہر کی جانب بھاگا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now