اس نے کتاب کھول کر کہا مجھ سے لکھو "زندگی"
میں نے صرف "تم" لکھ کر "قلم" توڑ دیا🥀
صبح اپنے پر ہر سو پھیلا چکی تھی۔سورج کی روشنی کھڑکیوں اور پردوں سے باڑ توڑے ہلکی ہلکی کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔حور فریش ہوئے باتھرُوم سے باہر نکلی۔اس کے کمر تک آتے
گھنگھرالے گیلے بال پشت پر پھیلے ہوئے تھے۔۔دھلا دھلا صاف شفاف چہرہ بہت حسین لگ رہا تھا۔گلابی رنگ کا سادہ سا سوٹ اس پر اسی کا ہمرنگ ڈوپٹہ اور ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔بالوں کو کنگھی کیے اُس نے کھلا چھوڑا اور ہلکا ہلکا میک اپ کرنے لگی۔۔وہ یہ سب بہت خوش دلی سے کر رہی تھی۔کیوںکہ آج وہ واقعی بہت خوش تھی۔۔کافی عرصے بعد اُسے یہ خوشی محسوس ہوئی تھی۔کافی عرصے بعد آج اُسے اپنے زندہ رہنے کا احساس ہوا تھا۔۔
تیار ہو کر اُس نے ایک نظر خود کو آئینے میں دیکھا اور مسکرا دی۔۔مسکراتے ہوئے اسکی روشن آنکھیں مزید روشن ہو گئیں۔ہادی حور کے خیال میں سویا ہوا تھا لیکن وہ اسکی ہر ادا کو دیکھ رہا تھا۔اُسکا مسکرانا،تیار ہونا اُسے بہت بھلا لگا تھا۔حورین تیار ہوئے پیچھے مڑی تو نظریں ہادی سے جا ملیں۔اس نے نظریں جھکا لیں۔ہادی بستر سے اٹھا اور چلتا ہوا اس تک آیا۔حور اسی طرح کھڑی ہوئی تھی۔وہ دو قدم اور اٹھاتا اسکے بلکل قریب کھڑا ہو گیا۔حور اسکی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔اُسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
"بہت حسین لگ رہی ہو"ہادی نے اُسکے چہرے پر آئی بالوں کی لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا۔حورنے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا حور نے فوراً سے نظریں جھکا لیں۔۔ہادی اسکی اس حرکت پر ہنس دیا۔۔ہادی جھکا۔۔۔حور کا سانس بند ہونے کے قریب تھا۔اس نے آنکھیں زور سے بند کر لیں۔ہادی نے اسکی تھوڑی پر محبت کی مہر ثبت کی۔حور کا اوپر کا سانس اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ہادی سیدھا کھڑا ہوا اور حورین کے چہرے کے تاثرات کو انجواۓ کرنے لگا۔آنکھوں کو زور سے بندکیے وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اور اپنے دل کو قابو کر رہی تھی۔چند لمحے یونہی کرنے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ہادی سامنے کھڑا اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔حور نے پھر سے نظریں جھکا لیں۔
"یار میری بیوی کتنا شرماتی ہے"ہادی نے اُسے چھیڑا۔۔اور حور بیچاری خود ہی جانتی تھی کہ وہ کیسے وہاں کھڑی ہے۔۔۔ہادی پھر سے جھکا اور اسکی پیشانی کو اپنے لمبوں سے چھوئے فریش ہونے چلا گیا۔۔حور آنکھیں بند کیے اسی احساس میں کھڑی رہی۔زور زور سے دھڑکتا ہوا دل بھی آج گستاخی پر آیا ہوا تھا۔۔۔حور اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے مسکرا دی۔۔۔باہر دور آسمان پر چمکتا سورج بھی اسکی مسکراہٹ پر مسکرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت پھول ہوتی ہے کہو تو پھول بن جاؤں
تمہاری زندگی کا ایک حسین اصول بن جاؤںسنا ہے ریت پہ چل کے تم اکثر مہک جاتے ہو
کہو تو اب کی بار میں زمیں کی دھول بن جاؤںبہت نایاب ہوتے ہیں جنہیں تم اپنا کہتے ہو
اجازت دو کہ میں بھی اس قدر انمول بن جاؤں🥀
"آپ پلز مجھے میرے گھر لے جائیں گے؟"اسمارا شیری سے مخاطب تھی۔
"کیا مطلب آپ اپنے گھر میں ہی ہیں!؟"شہریار نے نا سمجھی سے اسکی جانب دیکھا۔
"جی لیکن میں اپنے گھر کی بات کر رہی ہوں اپنی امی کے گھر کی"اسمارا نے وضاحت دی۔شیری کا لہجہ سنجیدہ ہوا۔
"کیوں؟"اسمارا خاموش رہی۔
"آپ آجائیں باہر میں انتظار کر رہا ہوں"شیری کا لہجہ سنجیدہ تھا۔وہ بغیر اسکی جانب دیکھے اور سنے باہر چلا گیا۔
"یہ میں صحیح کر رہی ہوں"بہت سے سوالات اُسکے ذہن میں گردش کرنے لگے۔۔۔۔۔وہ چادر لیے باہر آئی جہاں شیری اسی کا منتظر تھا۔وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھی۔شیری نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔۔۔آدھا راستہ گزر چکا تھا۔
"آپ پوچھیں گے نہیں کہ میں کیوں آئی ہوں یہاں!؟"اسمارا نے شیری کے بے تاثر چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں"شیری نے اسکی جانب دیکھے بغیر کہا۔
"لیکن کیوں!؟"اسمارا نے مزید سوال کیا۔
"کیوں کہ میں جانتا ہوں میری بیگم جو کرتی ہے صحیح کرتی ہے"شیری نے مسکرا کر کہا۔اسمارا خاموش رہی۔۔
"گھر آ گیا ہے۔"شیری نے اُسے کہا۔
"آپ اندر چلیں میں آتا ہوں"
"میں۔۔میں اکیلے جانا چاہتی ہوں"اسمارا نے کہا۔شیری نے اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا گویا پوچھ رہا ہو کے یہ صحیح کہہ رہی ہے؟
اسمارا نے اثبات میں سر ہلایا۔
"اوکے جیسے آپ کہیں"شیری نے کندھے اُچکائے۔
"میں باہر ویٹ کر لیتا ہوں"
"نہیں آپ۔۔آپ چلے جائیں میں آپ کو کال کر لونگی"
"آپ ٹھیک تو ہیں نا مطلب ایسے اکیلے جانا میرے نہیں خیال سے صحیح ہے۔۔"
"مجھے کچھ نہیں ہو گا۔۔میں گھر پر ہی ہوں آپ کو کال کر لونگی۔۔آپ چلے جائیں"اسمارا نے کہے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔وہ کیسے بھول گئی تھی کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر اسکی عزت خطرے میں تھی۔۔اب جانے آگے کیا ہونے والا تھا!!؟؟جب تک وہ اندر نہیں چلی گئی شیری وہیں کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔اسکے اندر جانے کے بعد شیری نے گاڑی وہاں سے نکالی اور سوچوں میں گم ہو گیا۔۔۔اندر جاتے ساتھ ہی اسمارا کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت گال پر رقص کرنے لگے۔۔اس گھر کی ہر ہر چیز ہر ہر جگہ پر اسکی امی کے نشان اور یادیں تھیں۔۔۔وہ چیزوں کو چھو رہی تھی اور بہت سی یادیں اُسکے ذہن میں گردش کر رہی تھیں جو کہ زندگی کا سب سے حسین وقت تھا۔لیکن آج جب وہ یادیں اُسکے ذہن میں گردش کرتی تھیں،ہمیشہ رلا دیتی تھیں۔۔۔۔
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسے تو صرف بچھڑنے کا دکھ ہے اور مجھے
یہ غم بھی ہے وہ مجھے یاد کر کے روۓ گا🥀
"بسمل بیٹا تم ٹھیک ہو نا؟"اسکی امی اُسے کمرے میں نہ پا کر گویا ہوئیں۔اُنہیں تھا شاید وہ باتھرُوم میں ہے اسی لیے وہ اس کے نکلنے کا انتظار کرنے لگیں۔اور کافی دیر ہو گئی تھی وہ باہر نہیں آئی تھی۔اسکی کیئر کے لیے چوبیس گھنٹے ایک ملازمہ رکھی ہوئی تھی لیکن وہ بھی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے کل سے چھٹی پر تھی۔۔۔
"بسم۔۔۔"ابھی اُن کے الفاظ ادھورے ہی تھے جب نوک کرنے پر دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔
"بسمل۔۔"انہوں نے اُسے آواز دی لیکن وہ کہیں بھی نہیں تھی۔وہ پریشانی سے کمرے سے باہر نکلیں۔
"بسمل کہاں ہے تم نے دیکھا ہے اُسے!؟"انہوں نے ملازم سے سوال کیا۔
"نہیں میم جی میں نے بیبی کو نہیں دیکھا"اس نے فرمانبرداری سے جواب دیا۔
"داتا بخش!!داتا بخش"وہ باہر جا کر اُنہیں بلانے لگیں۔
"جی بیبی جی"
"بسمل کا پتہ ہے کہاں ہے وہ؟"اُن کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔داتا بخش گھبرا گئے۔
"میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔۔آپ کو پتہ ہے بِسمل کہاں ہے؟؟"اب کی بار اُنکی آواز تھوڑی اونچی ہوئی تھی۔
"نن۔۔نہیں تو مجھے تت۔۔تو نہیں پتہ ہے!"انہوں نے نظریں چرائیں اور گھبراتے ہوئے بولا۔۔وہ پریشانی سے اندر کی جانب بڑھ گئیں اور جہانزیب صاحب کو کال کرنے لگیں۔
"یہ کیا کہہ رہی ہو کہاں ہے بِسمل"وہ بھی پریشان ہوئی تھے۔
"میں۔۔میں گھر آ رہا ہوں ابھی"انہوں نے کہے کال کاٹی اور اپنے چیزیں سمیٹتے گھر کے لیئے روانہ ہو گئے۔۔۔
اسکی امی ایک بار پھر سے اُسکے کمرے میں گئیں۔۔اُنکی نظر ٹیبل پر پڑی جہاں ایک کاغذ پڑا ہوا تھا۔انہوں نے وہ اٹھایا۔جیسے جیسے وہ کاغذ پر لکھیں سطریں پڑھ رہی تھیں ویسے ویسے اُنکی آنکھیں حیرت سے پھیلی جا رہیں تھیں۔ایک آنسو ٹوٹ پر گال اور گرا۔
"بسمل میری بچی یہ تم نے کیا کیا!؟؟"وہ بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھیں۔آنسو اب گال پر گر رہے تھے۔۔کچھ ہی دیر میں جہانزیب صاحب بھی آ گئے تھے۔وہ سیدھا بِسمل کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔سامنے اپنی بیوی کو روتا دیکھ کر وہ پریشان ہوئے اور اُنکی جانب بڑھے۔۔
"کک۔۔کیا ہوا ہے!؟تم ایسے رو کیوں رہی ہو؟؟"انہوں نے پریشانی سے سوال کیا۔انہوں نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور ہاتھ میں پکڑا کاغذ اُنہیں تھما دیے۔اُنکی حالت بھی اُنکی بیوی سے جدا نہیں تھی۔
"ی۔۔یہ کیا ہے؟"انہوں نے کاغذ کو دیکھتے اپنی بیوی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ چلی گئی۔۔جہانزیب صاحب وہ چلی گئی ہے!"انہوں نے روتے ہوئے کہا۔
"مم۔۔مگر کیسے!؟؟داتا بخش داتا بخش۔۔"وہ چلائے تھے۔داتا بخش فوراً سے آئے۔۔
"جی صاحب جی!"
"بسمل کہاں ہے؟؟"
"صاحب جی مم۔۔مجھے نہیں معلوم ہے"
"پھر وہ کہاں گئی ہے کس کے ساتھ گئی ہے!؟خود تو وہ جا نہیں سکتی ہے۔۔۔"وہ غرائے تھے۔
"داتا بخش اگر تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو تو بتا دو میری بچی کی زندگی کا سوال ہے"وہ بے بس ہوئے تھے۔۔اور یہاں داتا بخش خاموش نہیں رہ سکے۔۔۔
"صاحب جی میں نے اُنہیں بہت منع کیا تھا لیکن۔۔۔۔"اس سے آگے وہ کچھ بولتا جہانزیب صاحب نے اسکی بات کاٹی۔
"کیا مطلب؟یہ سب تم مجھے اب بتا رہے ہو؟؟ذرا بھی اندازہ ہے کہ تمہاری یہ چھوٹی سی غلطی کیا کچھ کر سکتی ہے؟کہاں گئی ہے کچھ بتایا ہے اُسنے؟؟"
"نہیں صاحب جی بس انہوں نے مجھے ائیرپورٹ چھوڑنے کا کہا تھا۔آگے میں نہیں جانتا وہ کہاں گئی ہیں۔۔۔"داتا بخش نے نظریں جھکائے کہا۔جہانزیب صاحب نے لمبا سانس بھرا۔
"اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔!!"جہانزیب صاحب غصے سے چلائے تھے۔۔جبکہ داتا بخش صحیح معنی میں کانپ اٹھے۔۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام اپنے پر ہر سو پھیلا چکی تھی۔۔آسمان میں ڈوبتا ہوا سورج بہت حسین منظر پیش کر رہا تھا۔۔ڈھلتی شام کی طرح ہر گزرتا لمحہ اس پر بہت بھاری تھا۔۔اسمارا کی اب تک کال نہیں آئی تھی۔۔اور اسکی ہمت جواب دے رہی تھی۔۔بلآخر تنگ آ کر اس نے گاڑی کا رخ اُسکے گھر کی جانب موڑا۔۔گھر کی گلی اس وقت سنسان علاقے کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔۔ٹائرکے چڑچڑانے کی آواز کے ساتھ گاڑی گھر کے باہر آ کر رکی۔۔شیری گاڑی سے باہر نکلا نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں اور گھر کا دروازہ بجایا۔۔
ایک،دو،تین۔۔لیکن دروازہ نہیں کھلا۔۔اُسے پریشانی لاحق ہوئی۔۔سنسان جگہ،اوپر سے اندر گھر سے بھی کوئی ہلچل نہیں محسوس ہو رہی تھی۔وہ صحیح معنوں میں پریشان ہوا۔۔وہ پریشانی سے سر میں ہاتھ پھیرنے لگا۔اس دروازے کے سوا اندر جانے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔۔کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ دروازہ کھلا شیری فوراً سے دروازے کی جانب متوجہ ہوا۔اسمارا نے ہی دروازہ کھولا تھا اور وہ سائڈ پر کھڑی تھی۔۔شیری اندر داخل ہوا۔۔وہ اسکی روئی روئی آنکھیں دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔۔
"اسمارا۔۔آپ ٹھیک تو ہیں؟میں تب سے دروازہ بجا رہا تھا لیکن آپ۔۔۔"ابھی اُس کا جملہ پورا نہیں ہوا تھا جب اسمارا اُسکے سینے سے لگی اور رونے لگی۔۔شیری بوکھلا گیا۔وہ اُسکے بال سہلانے لگا۔کچھ دیر وہ ویسے ہی روتی رہی۔اب اسکی سانس بھاری ہونے لگی۔۔۔آہستہ آہستہ وہ سسکیاں بھرنے لگی اور اپنا سر شیری کے سینے سے ہٹایا۔۔روئی روئی آنکھیں اسکی خوبصورت آنکھوں کو مزید حسین بنا رہی تھیں۔شیری کا دل کیا وہ انہیں اپنے ہونٹوں سے چھو لے۔۔شیری نے اُسکے آنسوؤں کو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے صاف کیا۔اسمارا نے گہرا سانس بھرا۔
"گھر چلیں اب؟"شیری کا لہجہ محبت بھرا تھا۔اسمارا نے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔ایک دم سے اسکی آنکھیں میں خوف چھا گیا۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتی اُسے لگا کہ اس کے سر پر آسمان گر گیا ہو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں محبت میں اس مقام پر ہوں جہاں
میری ذات میں رہتی ہے تیری ذات مسلسل🥀
بڑے لاؤنج نج اپنی محفل سجائے بیٹھے باتوں میں مصروف تھے یا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امل کی شادی کی تاریخ کے متعلق بات کر رہے تھے اور حورین اور ہادی کا ولیمہ بھی زیرِ غور تھا۔امل کے امتحان ختم ہو چکے تھے اور اورنگزیب صاحب نے شادی کی تاریخ کا مطالبہ کیا تھا۔
جبکہ جوان پارٹی لائن میں گھاس پر بیٹھے ایک دوسرے کی دُرگت بنانے میں مصروف تھے۔۔آج کافی عرصے بعد سب اتنا خوش لگ رہے تھے۔۔
"عدیل بھائی یار میری بات سنیں یہ جو آپکی بیوی ہیں نا مجھے بہت تنگ کر رہی ہیں۔۔آپ ان کو منع کریں نا پلز کہ مت تنگ کریں۔۔"امل نے عدیل کے سامنے التجا کی۔
"بھائی کوئی نہیں اسے تو آپ بولنے ہی دیں۔۔بھابھی صحیح ہے ساری کسر پوری کریں گن گن کر اس سے بدلے لیں۔۔سب کو یہ پریشان کرتی ہے الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہے۔۔۔۔"
"او ہیلو میں نے آج تک تمہارا راز فاش نہیں کیا کہ کالج میں کوئی بھی شرارت ہوتی تھی وہ سارا تمہارا آئیڈیا ہوتا تھا بس عمل اُس پر میں کرتی تھی اور تم سائڈ پر ہو جاتی تھی۔۔"امل نے بات کاٹی۔۔عبیر نے اُسے گھورا۔
"لڑکی کتنی بتمیز ہو تم ایسے ہی بیچاری امل کو ڈانٹ پڑواتی تھی جبکہ شرارت تم دونوں کی ہوتی تھی"حورین نے مصنوئ خفگی سے کہا۔وہاں بیٹھے تمام نفوس مسکرا دیئے۔
"ہائے بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے"مریم نے چھیڑنے کے سے انداز میں کہا۔حور نے نا سمجھی سے اسکی جانب دیکھا۔
"لو اس کا یہاں کیا کام؟"حور سوچ میں پڑ گئی۔
"میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شکر تم بھی کچھ بولی ورنہ مجھے تو یہ لگتا تھا کہ تم گونگی ہو ہے ہو۔۔"مریم نے ہنستے ہوئے کہا۔
"ہاد ذرا ایک بات تو بتا؟ایسا کیا کیا ہے تو نے جو ایک دم سے اس میں یہ تبدیلی آ گئی؟"عدیل نے سوچتے ہوئے ہادی سے سوال کیا۔اُسکے شہرت بھرے لہجے پر سب مسکرا دیے جبکہ حور نے شرم کے مارے نظریں جھکا لیں۔۔۔
"لڑکی بلش کر رہی ہے!! ہمم! کوئی تو بات ہے"مریم نے عدیل کی جانب دیکھتے آنکھ دبائی اور ہنسنے لگی۔ہادی اور عدیل دونوں کا قہقہ ایک ساتھ گونجا تھا۔امل اور عبیر ان کی حرکتیں دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔امل نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی تھی یہ نہ ہو وہ کچھ کہے تو سارے مل کرنے اسی کی درگت بنائیں۔۔
"میں جارہی ہوں"حور کہے اٹھی ہی تھی جب ہادی نے اسکی کلائی تھامی۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے بیٹھو یہاں پر"ہادی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔حور خاموشی سے بیٹھ گئی۔۔
"اہم اہم!!!"امل نے اُسے چھیڑا۔حور شرم کے مارے چہرہ نہیں اٹھا پا رہی تھی۔
"اوئے باز آ جاؤ میری بیوی کو تنگ مت کرو"ہادی نے اسکو ہلکی سی تھپڑ ماری۔
"عدیل ذرا میرے چٹکی کاٹیے گا۔مجھے سچ میں لگ رہا میں ایک خواب دیکھ رہی ہوں"مریم نے اپنا بازو عدیل کے سامنے کیا۔عدیل نے اپنا ہوتا دانتوں تلے دبایا اور اتنی زور کی چٹکی کاٹی کے مریم کی بیساختہ چیخ نکلی۔۔۔
"اللہ! بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے اتنی زور سے۔۔ہائے!!"مریم نے اپنے بازو کو مسلتے ہوئے کہا۔
"یار میں نے سوچا کہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا تو شاید بیدار ہونے کے لیے زیادہ انرجی کی ضرورت ہو"عدیل نے ہنستے ہوئے کہا۔مریم نے خفگی سے اسکی جانب دیکھا۔
"یار آپ لوگ اوین خوامخواہ جیلس ہو رہے ہیں ہم دونوں سے۔۔صحیح کہہ رہا ہوں نا میں حور!؟"ہادی نے پہلے جملہ عدیل اور مریم جبکہ دوسرا جملہ حور کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ میں نا چائے لاتی ہوں سب کے لیے"حور نے جان چھٹوائی اور فوراً سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ہادی نے گردن کو ترچھا کر کے اس کو جاتے دیکھا۔۔
"بھائی آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ چائے ہی بنوا لائیں آپی کے ساتھ ٹھیک جائیں گی نہ آپی"عبیر نے بارے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"ہاں۔۔۔۔ہیں؟؟؟دماغ صحیح ہے تمہارا بھلا چائے بنانے سے کون تھکتا ہے؟"پہلے تو اُسے سمجھ نہ آیا لیکن جب سمجھ آیا تو اُسنے عبیر کو گھورا۔۔
"ارے انس تم۔۔آؤ بیٹھو"مریم کی نظر انس پر پڑی جو کے انہی کی جانب آ رہا تھا۔امل کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔اسنے آتے ساتھ ہی سب کو سلام کیا۔عبیر نے امل کو کہنے ماری لیکن امل ٹس سے مس نہ ہوئی۔۔انس کی نظریں بھی بار بار بھٹک کر امل پر جا رہی تھیں لیکن وہ خود کو ڈپتہ دوسری جانب متوجہ ہو گیا۔۔اب بےشرموں کی طرح اُس کے گھر میں اسی کے بھائیوں کے سامنے اُسے دیکھنے سے تو رہا۔۔۔خیر!!
"ماما بابا نہیں آئے؟"مریم نے سوال کیا۔
"آئے ہیں بس آ رہتا اندر بلکہ کو آ گئے ہیں"انس نے گیا اے اندر داخل ہوتے اورنگزیب صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا۔سب احتراماً کھڑے ہوئے اور اُنہیں سلام کیا۔وہ بھی مسکرا کر اندر کی جانب بڑھ گئے جہاں سب بڑے بیٹھے تھے جبکہ انس انہی کے ساتھ باہر بیٹھ گیا۔
"اور سنائی جی کیسے آنا ہوا؟"مریم نے پوچھا۔
"بھابھی کیا بات کر رہی ہیں۔۔دل بےچین ہو ہے نا اپنی منگیتر کو دیکھنے کے لیئے تو سوچا ہوگا ان نے کہ کون نہ دیدار ہی کر آیا جائے"عبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔امل نے دانت پیس کر اُسے گھورا۔انس ہنس دیا۔
"نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو چاچو کہتے کہ چلنا ہے تو میں آ گیا"انس نے اپنے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
"اچھا لیکن تم بزی ہوتے ہو تو بابا کو منع کر دیتے ہو تو پھر آج کیسے یہاں آنے پر ایک بار کہنے اور تم آ گئے؟"مریم نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
"ہ۔ ہاں۔ وہ آج بھی میں نے نہیں آنا تھا بس کام تھا پاس ہی تو سوچا چلا جاتا ہوں چاچو بھی خوش ہو جائیں گے"
"اہم چاچو کی خوشی کے لیے یا کسی کی دلی مراد پوری کرنی تھی!؟"مریم نے امل کو دیکھتے اپنی ہنسی روکی۔
"بھابھی"امل نے اُسے دیکھ کر کہا۔۔
"ویسے ابھی تھوڑی دیر پہلے کون حورین کو تنگ کرنے میں مصروف تھا؟"عدیل نے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے مریم سے پوچھا۔
"ہ۔۔ہاں پتا نہیں۔۔ذہن سے نکل گیا ہے۔عبیر تمہیں یاد ہے؟"
"نہیں"عبیر نے سے اثبات میں ہلایا جبکہ زبان سے نہیں بول رہی تھی۔امل نے ہادی کی جانب دیکھا گیا مدد چاہی ہو۔ہادی نے کندھے اُچکائے اور ہنسنے لگا۔امل کا منہ بن گیا۔
"اچھا اچھا مریم بس اب نہیں تنگ کرنا اسے"عدیل نے مریم کو منع کیا جبکہ اس کا قہقہ چھوٹنے کے قریب تھا۔اس سے پہلے مریم کچھ کہتی حور سب کو چائے کے لیے بلانے آئی۔
"چلو جی اندر چلیں سب"مریم کہے سب سے پہلے اٹھی اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔اسا کے پیچھے عدیل اور ہادی اور عبیر بھی اندر کی جانب بڑھ گئے۔جبکہ امل کو اُس کے سلپرز نہیں مل رہے تھے۔وہ اس بات سے انجان تھی کہ وہ اور انس ہی رہ گئے ہیں۔۔وہ سلیپرز پہن کر مڑی تھی تو سامنے انس کھڑا پینٹ کی پوکٹس میں ہاتھ ڈالے اسی کی جانب متوجہ تھا۔امل نے اسکی جانب دیکھا تو گھبرا گئی۔۔
"آ۔۔آپ چائے نہیں پیئیں گے؟"امل نے اٹکتے ہوئے سوال کیا۔
"نہیں"انس نے مختصر سا جواب دیا۔جبکہ چہرے پر وہیں مُسکان تھی۔امل نروس ہو رہی تھی۔
"اچھا پھر آپ کک۔۔کو کچھ اور چاہیئے؟"
"چاہیے تو ہے لیکن ابھی فلوقت ملنا نا ممکن ہے"انس کا لہجہ ذو معنی تھا۔
"نہیں نہیں سب کچھ موجود ہے آپ بتائیں تو صحیح کیا چاہیے آپ کو؟"امل نے فوراً سے کہا۔وہ اس کا مطلب نہیں سمجھی تھی۔اگر سمجھتی تو اس وقت یہاں نہ کھڑی ہوتی۔
"اچھا تو کیا آپ مجھے دیں ہی جو مجھے چاہیے!؟"انس نے اپنی آئی برو کو اچکاتے کہا۔
"اگر میری دسترس میں ہوا تو کوشش ضرور کروں گی"امل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اور اگر میں کہوں کے آپ ہی ہیں تو؟"انس نے سوال کیا۔امل کا دل تھما اور پھر زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔
"وہ آپی بلا رہی تھیں اندر"امل نے کانپتے لہجے میں اندر کی جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اور اس کی سائڈ سے ہوتی بھاگنے کے سے انداز میں اندر چلی گئی۔۔پیچھے انس دل کھول کر مسکرا دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)
Mystery / Thrillerپوشیدہ محبت کہانی ہے دو ایسے کرداروں کی جو ایک دوسرے سے واقف ہیں مگر وہ محبت جو دونوں کو ایک اٹوٹ رشتے میں باندھتی ہے اس سے انجان ہیں یہ وہ محبت دونوں سے ہی ہوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں موتی سیپ میں پوشیدہ ہو، خوشبو پھول میں بند ہو اور پورا چاند بادلوں کو ا...