چوٹ لگی تو بے ساختہ یاد آیا
کہاں ہو گا اِس وقت مرا صدقہ اتارنے والا🥀
"ماما بابا کہاں ہیں؟"بِسمل کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔جب سے وہ گھر آئی تھی جہانزیب صاحب کو اُس نے نہیں دیکھا تھا۔
"ماما بابا سے کہیں بس ایک بار،ایک بار میری بات سن لیں میں پھر وعدہ کرتی ہوں کبھی بھی آپ کو اور بابا کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گی"آنسو تو جیسے اسکی آنکھوں میں اپنا ڈیرہ بسا چکے تھے۔ اور آخر کیوں کر نہ ہوتے آخر ایسے ہی وہ بھی تو کسی کے آنسوؤں کا سبب بنی تھی۔اسکی امی خاموش رہیں۔'اور جب انسان کے پاس الفاظ نہ ہوں تو خاموشی سب کچھ بیان كر دیتی ہے۔'
"ماما آپ۔۔آپ مت روئیں پلز مم۔۔میں چلی جاؤں گی دور بہت دور جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ بچے۔۔"بِسمل نے اپنی ماں کے آنسو صاف کیے۔۔
"آپ جائیں بابا کے پاس میں سہی ہوں"بِسمل جبراً مسکرائی۔
"لیکن بیٹا۔۔"
"ماما بابا کو آپکی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے پلز میری خاطر"بِسمل نے التجا کی۔کیوں کے وہ جانتی تھی کہ اُسکے بابا کیا اذیت سے گزر رہےہیں۔اُنکی اذیت کو مٹانے کے لیے اُس نے ایک فیصلہ کیا تھا۔اس پر عمل کرنے کے تحت اُس نے اپنا فون نکالا اور کسی کو فون ملانے لگی۔
"ہیلو جی میں بِسمل جہانزیب بات کر رہی ہوں۔آپ ایجنٹ بات کر رہے ہیں؟"بِسمل نے اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے سوال کیا۔
"جی میں ایجنٹ ہی بات کر رہا ہوں بتائیں خیریت؟"
"نہیں خیریت نہیں ہے"بِسمل نے سرگوشی نما لہجے میں کھوئے ہوئے کہا۔
"آپ نے کچھ کہا؟"ایجنٹ کی دوسری جانب سے آواز آئی۔
"کیا آپ میرے لیے ایک کام کر سکتے ہیں؟اور پلز اس کام کا کی کو بھی علم نہیں ہونا چاہئے"بِسمل نے کہا۔
"جی آپ کام بتائیے"ایجنٹ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"وہ۔۔۔"بِسمل نے بات کہی دوسری جانب سے ایجنٹ پریشان ہوا۔
"لیکن آپ اپنی حالت دیکھیں ابھی آپ کے لیے یہ بہتر نہیں ہے"
"آئی ڈونٹ کیئر!! اگر آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو میں دوسرے ایجنٹ کو ہائر کر سکتی ہوں"بِسمل کا لہجہ سخت ہوا تھا۔
"نہیں میں کر دوں گا"ایجنٹ کو ماننا پڑا۔
"مجھے یہ کام كل تک مکمل چاہیے"یہ کہے اُس نے کال ڈسکنیکٹ کر دی۔مشکل سے تھمے ہوئے آنسو ایک بات پھر سے گال بھگونے لگے تھے۔
اے شکستہ دلِ بے قرار،قرار کر کہ اب کہ
بیقراریاں ہی بچی ہیں،اپنے نصیب کےلئے🥀
ماہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب شخص تھا دہلیز یار پر
ہر درد سہہ گیا پر در سے اٹھا نہیں🥀
شام ہونے کو تھی۔شیری کسی کام سے گیا تھا اور اسمارا کو سختی سے کام کو ہاتھ لگانے سے منع کیا تھا۔شام کے قریب وہ گھر آیا اور اسمارا کے روم کا رخ کیا۔
"ہاتھ کیسا ہے اب آپ کا؟"شیری نے روم میں داخل ہوتے ہوئے سوال کیا۔
"جی اب بہتر ہے"اسمارا نے ہاتھ آگے بڑھا کر اُسے تکتے کہا۔
"دکھائیں"شیری نے اس کا ہاتھ تھاما اور اُسے دیکھنے لگا۔
"ہمم جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ویسے پین تو نہیں ہو رہی آپکو؟"شیری نے سوال کیا۔
"بھلا آپ کے ہوتے ہوئے کیسے ہو سکتی"بے ساختہ اسمارا کے منہ سے نکلا تھا۔شیری نے خوشگوار حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔
"ویسے یہ بات بھی آپکی صحیح ہے۔چلیں کسی بات کا تو آپ کو پتہ ہے"شیری نے ایک آنکھ مارے کہا۔اسمارا شرمندہ ہوئی۔
"میرا یہ مطلب نہیں تھا۔"اسمارا نے وضاحت دی۔
"اچھا خیر چھوڑیں آپ مجھ سے شاید کچھ کہنا چاہ رہی تھیں صبح؟"شیری نے سوال کیا۔اسمارا چونکی۔وہ کیسے جان گیا تھا کہ اسمارا کچھ کہنا چاہتی تھی۔اتنے سے وقت میں وہ اس کو سمجھ چکا تھا۔لیکن اسمارا غلط تھی۔تھوڑا سا وقت نہیں بلکہ سامنے بیٹھا شخص کئی سالوں سے اُس کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔اور جو محبت کرتے ہیں وہ رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں۔۔
"نن۔۔نہیں تو"
"اسمارا آپ بلا جھجھک مجھ سے کچھ بھی شیئر کر سکتی ہیں۔لیکن اگر آپ نہیں بتانا چاہتی تو۔۔"شیری نے کندھے اُچکائے۔
"میں فریش ہو آؤں آج ڈنر باہر کریں گے"شیری نے مسکرا کرکہا۔اسمارا نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سے ہلایا۔
"گڈ"شیری بھی مسکراتا فریش ہونے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جب بندہ فون کاٹی جا رہا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتا اوین فضول میں ڈھیٹوں کی طرح کیوں بار بار فون کیے جا رہے ہیں"کب سے اننون نمبر سے کال آ رہی تھی جو کے امل کاٹی جا رہی تھی لیکن دوسری جانب بھی کوئی اسی کی طرح کا تھا جو مسلسل کال کر رہا تھا۔
"اب بولو گے بھی کون ہو کیوں فون کیا ہے؟"دوسری جانب سے مکمل خاموشی سے چڑ کر امل غصے سے بولی۔لیکن کوئی جواب نہ آیا۔
"بھاڑ میں جاؤ جو بھی ہو"امل نے کہے کھٹاک سے فون بند کر دیا۔تھوڑی دیر بعد پھر سے فون بجنے لگا۔
"سنائی نہیں دیتا ایک بار نہیں بات کرنی تو مطلب نہیں کرنی پتہ نہیں ایسی کون سے آفت آ گئی ہے سکون تو لینا نہیں دینا۔۔۔"اس سے آگے وہ کچھ بولتی اسد صاحب نے اسکی بات کاٹی۔
"کیا ہو گیا ہے بیٹا میں ہیں تمہارا بابا۔۔"اسد صاحب نے پہلے نمبر دیکھا پھر فون پھر سے کان سے لگائے جواب دیا۔
"افف سو سوری بابا۔۔سچ میں مجھے بلکل نہیں پتہ تھا آپ کی کال ہے"امل بہت زیادہ شرمندہ ہوئی۔
"بیٹا جی اتنا بڑا نام بھی تو لکھا آ رہا ہوتا ہے خیر چھوڑو یہ بتاؤ ماما کہاں ہیں تمہاری فون نہیں اٹھا رہیں"اسد صاحب نے سوال کیا۔
"وہ بابا ماما تائی امی اور چچی جان کے ساتھ ہیں"
"اچھا چلو ماما سے کہنا کے آج اورنگزیب صاحب رات کے کھانے پر اِنوائٹڈ ہیں"
"ہیں کیوں؟"
"امل۔۔۔"
"وہ بابا میرا مطلب تھا اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے ملیں جھلیں گے آپس میں پیار بڑھے گا۔۔"اسد صاحب کے گلا کھنکھارنے کی آواز پر وہ خاموش ہوئی۔
"افف اللہ امل کی بچی چپ نہیں رہ سکتی"امل نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔
"بابا میں ماما کو بتا دیتی ہوں۔اوکے اللہ حافظ"اس نے کہے فون کاٹ دیا۔اسد صاحب مسکرا دیا۔
"اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا"مسکراتے ہوئے وہ دوبارہ کام کرنے میں مصروف ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات ہونے کو تھی۔اورنگزیب صاحب یہاں انوایٹڈ تھے اور وہ آ چکے تھے لیکن انس اب تک نہیں آیا تھا۔
"امل ایک کام کرو گی پلز انس کو فون کر کے کہو کہ جلدی آ جائے میں یہ ہنڈیا دیکھ لوں جل نہ جائے"مریم نے کہا۔
"بھابھی میں کیسے کروں اور میرے پاس تو اُنکا نمبر بھی نہیں ہے"امل نے آہستہ سے کہا۔
"ہیں مذاق تو نہیں کر رہی!؟"مریم چونکی تھی۔
"نہیں"امل نے نفی میں سر ہلاتے معصومیت سے کہا۔
"آئی ڈونٹ بیلیو اٹ مین!! انس اتنا بیتاب ہوا تھا تم سے شادی کے لئے اور اب تک اُس کا نمبر نہیں ہے تمہارے پاس امپاسبل!!"مریم نے حیرانگی سے کہا۔
"بھابھی میں سچ کہہ رہی ہوں آپ یہ فون چیک کر لیں"امل نے اسے یقین دلانے کے لیے اپنی کال لسٹ اُسکے سامنے کی۔
"اہم"مریم نے فون دیکھتے گلا کھنکھارا۔اور معنی خیزی سے امل کی جانب دیکھنے لگی۔
"کیا ہوا بھابھی آپ ایسے ہنس کیوں رہی ہیں؟"امل نے نا سمجھ سے اسکی جانب دیکھا۔
"نہیں کچھ نہیں یہ جو نمبر ہے نا بغیر نام کے۔۔۔"اس کا جملہ ادھورا تھا جب امل نے بات کاٹی۔
"وہی بھابھی پتہ نہیں کس کو مصیبت آئی ہوئی تھی بار بار کال کری جا رہا تھا۔میں نے کاٹی بھی کال لیکن نہیں پتہ نہیں کون سی مصیبت آئی ہوئی تھی اُسے چلو فون کیا تو کیا لیکن ڈھیر پن کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے بولا بھی کچھ نہیں"امل نے مصنوئی غصے سے کہا۔مریم کا جاندار قہقہ فضاء میں معلق ہوا۔
"کیا ہوا بھابھی آپ ہنس کیوں رہی ہیں میرا جی چاہ رہا تھا کہ اُسے ایسی سناؤں کے آج کے بعد کبھی کوشش نہ کرے کسی کو کال کرنے کی"امل نے منہ بنائے کہا۔
"امل جی جس کا انتظار تھا وہ آ چکے ہیں اور مجھے لگ رہا ہے کہ وہ تمہیں ہی تلاش کر رہے ہیں تو سوچا خبر دے آؤں"عبیر نے کچن میں داخل ہوتے امل کو چھیڑتے ہوئے کہا۔مریم ہنسنے لگی۔
"عبیر پلز چپ ہو جاؤ"امل نے اُسے گھورا۔
"اُمم ہماری امل شرما رہی ہے"مریم نے اسکی تھوڑی پر انگلی رکھے کہا۔
"نہیں تو میں نے بھلا کیوں شائے کرنا"
"اچھا۔۔۔۔۔۔"مریم اور عبیر دونوں کا 'اچھا' خاصا لمبا تھا۔
"میں جا رہی ہوں آپ لوگوں نے ایسے ہی مجھے تنگ کرتے رہنا ہے"امل نے منہ بنایا۔
"ہاں ہاں جاؤ جاؤ۔ہم بھلا کیوں کسی کو روکیں گے؟"عبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔
"بیٹا کر لو تنگ میں سب کچھ یاد رکھوں گی تمہارا وقت بھی آنا ہے"امل نے عبیر کو گھورتے ہوئے کہا۔
"اچھا چلو تب کی تب دیکھیں گے ابھی کون سا میرے سسرالی باہر آئے ہوئے ہیں"عبیر نے ایک آنکھ دبائی۔اور ہنسنے لگی۔۔
"تم سے بات کرنا فضول ہے"امل کہے پیر پٹختی باہر نکل گئی۔
"بہت ہی کوئی بتميز ہو تم۔۔بھلا ایسے تنگ کرتے ہیں۔ناراض ہو کر چلی گئی ہے وہ"مریم نے عبیر سے کہا۔
"کوئی نئی بھابھی صحیح ہو جائے گی بہت کم موقع ملتا ہے اُسے تنگ کرنے کا"عبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔
"اچھا جی۔چلو آؤ شاباش میرے ساتھ ہیلپ کرواؤ۔حور بھی پتہ نہیں کہاں ہے"مریم نے عبیر سے کہا۔عبیر مسکراتے ہوئے اسکی مدد کروانے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلا وہ آگ محبت کی میرے سینے میں
کہ خیال غیر کا آئے تو خاک ہو جاؤں🥀
”امی آپ کی طبیعت صحیح ہے باہر سب بیٹھے ہیں آپ بھی آ جائیں"حور ہاجرہ بیگم سے مخاطب ہوئی۔
"ہاں میں صحیح ہوں تم جاؤ"ہاجرہ بیگم کا لہجہ سنجیدہ تھا۔حور پریشان ہوئی انہوں نے آج تک حور سے اس طرح بات نہیں کی تھی۔
"امی"حور اُن کے پاس آئی۔
"امی کیا ہوا ہے؟آپ مجھے صحیح نہیں لگ رہیں"حور نے اُن کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
ہاجرہ بیگم خاموش رہیں۔
"امی"اُسنے پھر سے اُنہیں مخاطب کیا۔
"مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا؟آپ کیوں مجھ سے بات نہیں کر رہیں!؟"حور کی آواز روندھی تھی۔
"حور کیا تم مجھے اپنی ماں نہیں سمجھتی؟تم نے تو اپنا رازداں بھی نہیں سمجھا مجھے۔"حور کا دل لرزہ تھا۔وہ جو سب کے سامنے خود کو نارمل رکھتی تھی ایسے ظہیر کرتی تھی جیسی کچھ ہوا ہی نہیں ہے تو پھر اسکی امی یہ کیا کہہ رہی تھیں۔
"امی آ۔۔آپ کک۔۔کیا کہہ رہی ہیں؟"حور کا لہجہ لڑکھڑایا تھا۔
"حورین تم جانتی ہو میں کیا بات کر رہی ہیں"ہاجرہ بیگم کا لہجہ ابھی بھی سنجیدہ تھا۔
"امی میں۔۔میں آپ کو اور پریشانیاں نہیں دے سکتی آگے ہی آپ میری وجہ سے اتنا سب کچھ برداشت کر چکی ہیں۔۔تائی امی کی نفرت میری وجہ سے،لوگوں کی باتیں میری وجہ سے۔آخر میں ہی آپکی اذیت اور پریشانی کا سبب کیوں بنتی ہوں؟میں جتنا کہتی ہن کے آپکو خوشی دوں اتنا ہی غم کا سبب بنتی ہوں۔۔میں بلکل بھی اچھی بیٹی نہیں ہوں بلکل بھی اچھی نہیں!!"حور اُن کے سینے سے لگی تھی۔
"بیٹا میں تمہاری ماں ہوں تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم مجھے پریشانی دیتی ہو؟تو تم غلط ہو!! ماں کبھی بھی اپنے بچوں کی پریشانی میں پریشان نہیں ہوتی۔بلکہ اُنکی ساتھی اُنکے دکھ میں ہمسفر بن کر اُنہیں ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔اور مجھے لوگوں کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔میں جانتی ہوں میری بچی تمام داغ سے پاک ہے۔میری بچی پاک دامن ہے۔۔"ہاجرہ بیگم کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں انہوں نے اُس کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔
"لیکن بیٹا مجھے ہادی سے یہ امید نہیں تھی"ہاجرہ بیگم بولیں۔
"امی آپ۔۔آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ہادی نے کچھ نہیں کیا۔"حور نے نظریں چرائیں تھیں۔
"حورین بس کر دو پلز۔۔۔تمہاری نظریں سب عیاں کر دیتی ہیں"ہاجرہ بیگم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔حورین خاموش رہی اور بس آنسو بہائی گئی۔۔اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ہاجرہ بیگم نے گہرا سانس بھرا۔
"میں بات کرتی ہوں ہادی سے"ہاجرہ بیگم نےکہا۔
"نہیں امی پلز آپ کچھ مت کہیے گا انہیں۔۔۔بس میں بات کر لونگی اُن سے۔اور تو اور وہ تو ٹھیک ہیں میرے ساتھ بس۔۔۔۔"حورین نے کہا۔ہاجرہ بیگم خاموش رہیں۔خاموشی بھی اب کی بار معنی خیز تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری تحریر کی زد میں ابھی تو کچھ نہیں آیا
ابھی وہ کرب لکھنا ہے،جسے محسوس کرتی ہوں 🥀
اپنے آپ پر ضبط کرتی وہ لاؤنج میں آئی تھی سب کو سلام کرتی وہ بیٹھنے والی تھی جب تایا جان نے اُسے تائی امی کو بلانے کا کہا۔وہ اثبات میں سر ہلاتی تائی جان کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ہادی اسکی روئی روئی آنکھیں دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔وہ بھی ایکیوز کرتا اٹھا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
"تائی امی آپ کو تایا جان بلا رہے ہیں"حور سکینہ بیگم سے مخاطب ہوئی۔
"کہاں ہیں وہ؟"سکینہ بیگم کا لہجہ ہمیشہ کی طرح روکھا تھا۔
"جی وہ حال میں بیٹھے ہیں سب آ چکے ہیں"
"اچھا جاؤ میں آ جاتی ہوں"سکینہ بیگم نے کہا۔
"جی"وہ کہے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
"سنو"پیچھے سے تائی امی کی آواز آئی۔حورین اُن کی جانب متوجہ ہوئی۔
"جی تائی امی؟"حور نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
"ایک بات تو بتاؤ؟اتنے سکون سے تم کیسے پھر رہی ہو؟مطلب کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی اتنا نارمل؟"تائی امی کے الفاظ نہیں بلکہ تیر تھے جو اُس کے سینے میں لگے۔وہ کیسے اُنہیں بتاتی کہ وہ کس قدر 'سکون' میں ہے۔
"ویسے تو سب تمہارے ساتھ نارمل لہجے میں بات کرتے ہیں تمہیں ایسے محسوس نہیں ہونے دیتے کہ کچھ ہوا ہے لیکن یہ مت سمجھ لینا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔۔تمہارے کردار پر ایک دھبہ تو لگ گیا ہے جسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔وہ تو شکر کرو ہادی نے تمہیں ایکسیپٹ کر لیا ورنہ آج کے زمانے میں بھلا کون اپناتا ہے؟"تائی امی طنزیہ ہنسی تھی۔حور نے گہرا سانس بھرا اور کمرے سے باہر نکل گئی اور سیدھا اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔کمرے میں جا کر اُس نے دروازہ بند کیا اور اس کے ساتھ ہی نیچے بیٹھتی چلی گئی۔آنسو جو کب سے رکے ہوئے تھے زار و قطار اس کی گال بھگونے لگے۔اپنے چہرے کو گھنٹوں پر ٹکائے وہ سسکیاں بھرنے لگی۔ابھی کچھ سیکنڈز ہی گذرے تھے کہ ہادی کی آواز اپنے بہت قریب سے سنائی دی۔اسنے نظریں اُٹھائیں وہ نہیں جانتی تھی کہ ہادی کمرے میں موجود ہے۔
"حور کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو؟"ہادی نے اس کے آنسو صاف کیے۔یہ عمل بھی بیساختہ تھا۔
"کیا میں اتنی بری،اتنی بدکردار لڑکی ہوں جو سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں؟محبت پر کیا میرا کوئی حق نہیں ہے؟"حور نے روتے ہوئے ہی کہا۔
"نہیں حور ایسی کوئی بات نہیں ہے سب تم سے محبت کرتے ہیں۔اور تم بلکل بھی نفرت کے قابل نہیں ہوں۔تم سے چاہ کے بھی کوئی نفرت نہیں کر سکتا"ہادی نے اس کی گال سہلاتے کہا۔
"جھوٹ۔۔جھوٹ بولتے ہیں آپ۔میں ہوں بدکردار۔ہے میری ذات پر ایک دھبہ جسے چاہ کر بھی مٹایا نہیں جا سکتا۔"وہ آج اپنے غم کو نکالنا چاہتی تھی۔
"آپ مجھے چھوڑ دیں۔میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔۔۔"بیدردی سے اپنی آنسو صاف کرتے حور نے کہا۔ہادی کو سہی معنوں میں جھٹکا لگا۔
"حور یہ تم کیا کہہ رہی ہو جانتی ہو؟"ہادی نے چونکتے ہوئے کہا۔
اس سے کہنا کہ لوٹ آئے سلگتی شام سے پہلے
کسی کی خشک آنکھوں میں صدائیں رقص کرتی ہیں🥀
"مم۔۔میں صحیح کہہ رہی ہوں"
"حور ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ہادی شاہنواز تمہیں مرتے دم تک کبھی نہیں چھوڑے گا۔حور تم ہمیشہ میری تھی میری ہو اور ہمیشہ رہو گی۔۔ہمیشہ۔۔"ہادی کے لہجے میں سنجیدگی اور سچائی واضع تھی۔
"مجھے کسی پر بھی یقین نہیں! اب تو مجھے خود پر بھی یقین نہیں ہے!!"
"حور ایسی باتیں مت کرو پلز"ہادی نے اُسے کندھوں سے تھامتے ہوئے کہا۔حور نے اس کے ہاتھ پیچھے کیے۔
"مت کریں آپ پلز۔۔مت اذیت دیں آپ مجھے۔اپنی عادت ڈال کر پھر دور ہو جائیں گے۔جیسے میں ابھی جی رہی ہوں مجھے جینے دیں۔پھر سے آپ کی محبت،آپ کی عادت ڈال کر آپکی دوری برداشت نہیں کر سکتی میں۔اتنی سکت نہیں ہے اب مجھ میں باقی۔۔۔"حور نے روتے ہوئے کہا اور ہادی پر بہت کچھ عیاں کر گئی تھی۔
"اب اگر تم سے دور ہوا تو جی میں بھی نہیں پاؤں گا!! اور تم سے دوری کس طرح میں نے برداشت کی ہے یہ میں جانتا ہوں"حور اُس کے سینے سے لگی اور رونے لگی۔۔آج وہ اپنے اندر گڑھے غم کو نکال دور پھینکا چاہتی تھی۔اپنے آپ کو اس سب سے آزاد کروانا چاہتی تھی۔کافی دیر وہ یونہی آنسو بہاتی رہی۔۔ہادی بس خاموش اُسے رونے دے رہا تھا۔جانتا تھا کہ غموں کا باہر نکلنا بہت ضروری ہے ورنہ اندر ہی اندر یہ غم انسان کو کھا جاتے ہیں۔
یوں ہی رونے کے بعد اب حور کی سانس بھاری ہو رہی تھی۔
"حور اٹھو بیڈ پر آؤ۔۔"ہادی نے اُسے اپنے سامنے کرتے ہوئے کہا۔حور ابھی بھی سسکیاں لے رہی تھی۔ہادی نے اُسے ہاتھ سے پکڑے اٹھایا اور بیڈ پر بیٹھایا۔بیڈ پر بیٹھ کر بھی حور کی سسکیاں نہیں تھمی تھیں۔
"اب بتاؤ تمہیں ابھی کیا ہوا تھا؟کسی نے تم سے کچھ کہا تھا؟میں بات کرتا ہوں اگر کسی نے کچھ کہا ہے؟"ہادی نے اس کا ہاتھ تھامے کہا۔
"نن۔نہیں ککک۔۔کسی نن۔۔نے کچھ نن۔۔نہیں کہا"حور نے ٹوٹے الفاظ میں کہا۔
"حور تم مجھ سے شیئر کر سکتی ہو"
"نہیں کہا کسی نے کچھ"حور نے نظریں چرائیں تھیں۔
"اوکے نہیں بتانا تو تمہاری مرضی"ہادی کہے اٹھا تھا حور نے اُس کا ہاتھ پکڑا۔نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔
"میں اگر آپ سے کہوں بھی کہ مجھ سے دور چلے جائیں تو میرے کہنے پر بھی مجھے نہ چھوڑیے گا۔میں نہیں رہ پاؤں گی آپ کے بغیر۔۔"حور نے کہا۔ہادی مسکرا دیا۔
"تم سے دور جا کر آخر جاؤں گا کہاں"ہادی مسکرایا اور اسکی پیشانی پر بوسا دیا۔حور نے آنکھیں بند کیں اور اُسے محسوس کرنے لگی۔۔
محبت کا روگ بھی عجیب ہے جاناں
خفا ہو کر بھی محبت میں زیر کر دیتی ہے🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
او رو رو پچھن حال میرا
میں کھڑ کھڑ ہساں کی دساں🥀
آج وہ اپنی زندگی کا بہت بڑا قدم اٹھا رہی تھی۔جو قدم اُس نے اٹھایا تھا اگرچہ وہ بہت اذیت ناک تھا لیکن اُسے کرنا تھا۔اپنوں کی خوشی کے لیے۔۔۔اسنے نم آنکھوں سے ایک بار اپنے گھر کی جانب دیکھا۔اپنے آپ پر ضبط کرتی ڈرایور کو اشارہ کیا۔وہ آیا اور اسکی وہیل چیئر کو آہستہ سے گاڑی کی جانب بڑھا دیا۔دھیرے دھیرے اُسے سہارا دیے گاڑی میں بٹھایا اور اسکی چیئر کو فولڈ کیے سائڈ پر رکھا۔
"میم جی! مت کریں اتنا ظلم خود پر۔آپ اپنی حالت دیکھ رہی ہیں"اُسنے مؤدبانہ انداز میں کہا جبکہ لہجہ افسردہ تھا۔
"داتا بخش یہ کرنا بہت ضروری ہے آپ پلز جلدی چلیں"اس نے نظریں چرائیں تھیں۔داتا بخش خاموشی سے دروازہ بند کیے ڈرائیونگ سیٹ کی جائیں آیا،بیٹھا اور گاڑی ایئر پورٹ کی جانب بڑھا دی۔آگے شام یا رات ہوتی تو ضرور اسے داتا بخش کے سوا کسی کو پتہ چل جاتا لیکن اس نے رات کے تیسرے پہرجانے کا منصوبہ بنایا تھا اور اسی پر عمل کرتے ہوئے وہ کامیاب بھی ہوئی تھی۔ایجنٹاور داتا بخش کو اُسنے سختی سے منع کر دیا تھا کسی کو نہ بتانے کا۔ اس سے آگے کیا کرنا ہے وہ صرف بِسمل ہی جانتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)
Mystery / Thrillerپوشیدہ محبت کہانی ہے دو ایسے کرداروں کی جو ایک دوسرے سے واقف ہیں مگر وہ محبت جو دونوں کو ایک اٹوٹ رشتے میں باندھتی ہے اس سے انجان ہیں یہ وہ محبت دونوں سے ہی ہوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں موتی سیپ میں پوشیدہ ہو، خوشبو پھول میں بند ہو اور پورا چاند بادلوں کو ا...