قسط:۱۱

174 16 7
                                    

سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔مجھے اگنور کرے گا۔۔۔بھول ہے یہ تمہاری ہادی شاہنواز۔۔۔اب تم میری ضد بن چکے ہے اور جو چیز بِسمل کو پسند آ جائے چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو وہ جانتی ہے کے کیسے اُسے حاصل کیا جاتا ہے۔۔اور اگر میں تمہیں حاصل نہ کر سکی تو یقین مانو تمہاری زندگی برباد کرنے کی وجہ بھی میں ہی ہوں گی۔۔۔بِسمل کا غصے سے برا حال تھا۔۔۔
بی بی جی!! آپ کے لیے کچھ۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔نکلو یہاں سے فوراً سے پہلے۔۔۔ابھی۔۔۔بسمل چیخی۔ملازمہ ڈرتی فوراً سے باہر نکل گئی۔
بسمل کیا ہو گیا ہے کیوں چلا رہی ہو۔بھلا ایسے بات کرتے ہیں؟؟راہمه بیگم اس کو یوں چلاتا دیکھ کر بولیں۔وہ بِسمل کے کمرے میں ہی آرہی تھیں لیکن یوں اُسے ملازمہ پر چلاتا دیکھ کر غصے سے بولیں۔وہ مُسلسل اپنے بالوں کو ہاتھ میں جکڑے ادھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔
بسمل میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔انہوں نے اب کی بار زور دیا۔
ماما پلز ابھی مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔۔راہیما بیگم ایک گہرا سانس لئے باہر چلی گئیں۔یہ لڑکی بہت ضدی تھی جس کا اُنہیں بخوبی اندازہ تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانزیب صاحب عدیل کی امی کا فون آیا تھا وہ چاہتے ہیں کے مل کر ڈیٹ رکھ لی جائے شادی کی۔وہ تو کل ہی ڈیٹ مانگ رہے تھے لیکن منگنی کی مصروفیات کی وجہ سے میں نے اُن سے کہا نہیں کچھ۔۔۔مریم کی ماما نے اُن کو کہا۔
کیا میں اندر آ جاؤں۔۔انس اُن کے کمرے میں آنے کی اجازت طلب کی۔
ارے آؤ آؤ بیٹا پوچھنے کی کیا بات ہے۔۔۔جہانزیب صاحب نے کہا وہ مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔۔
میرے خیال میں اسی مہینے کی لاسٹ ڈیٹس رکھ لیتے ہیں۔۔۔جہانزیب صاحب نے کہا۔آگے پھر دیکھ لیتے۔۔۔تمہارا کیا خیال ہے انس؟؟
اُمم دیکھ لیں چاچو جیسا آپ کو ٹھیک لگے۔۔اس نے احترام سے جواب دیا۔
چلیں میں فون کر کر کہ دیتی اُنہیں۔۔۔یا آپ ایسا کریں خود ہی بتا دیں۔۔ماما نے کہا۔
ہمم میں کرتا بات اُن سے۔۔۔جہانزیب صاحب نے کہا اور تایا جان کو کال ملانے لگے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں جانب سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔تایا جان لوگوں نے بھی خوشی خوشی اُن کی بتائی گئی تاریخ قبول کر لی تھی۔
بابل کی دعائیں لیتی جا
جا تُجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے
سسرال میں اتنا پیار ملے
انس نے مریم کے کمرے میں آتے ہی اونچی آواز میں گانا شروع کر دیا۔
کیا مسئلہ ہے انس کیوں تنگ کر رہے ہو۔۔مریم نے پیشانی اور شکنیں ڈالے کہا۔
منی جی یہ غُصہ جو ہے نا اب آپ اپنے پیارے سے اُن کے لیے بچا رکھیں۔۔وہ کیا ہے نا آپ کے اُن کو بہت جلدی ہے شادی کی اُن سے انتظار نہیں ہو رہا اسی لیے شادی کی ڈیٹ مانگی ہے تو اسے منٹھ کے اینڈ پر رکھی ہے۔۔۔انس نے اُسے چھیڑتے ساتھ تاریخ کا بتایا
واٹ۔۔۔۔۔۔اتنی جلدی کیا ہے۔۔ابھی کل تو منگنی ہوئی ہے اور آج ڈیٹ بھی رکھ لی۔۔۔مریم کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں.
ڈیئر کزن آج نہیں تو کل جانا تو ہے نا آپ نے۔۔۔
ہاں یہ تو ہے۔۔۔مریم ہنسی۔۔
اللہ لڑکی کتنی بیشرم ہو تم۔۔۔اپنی شادی پر لڑکی رونا دھونا کرتی ہے اور تم ہو کے دانت نکال رہی ہو۔۔انس حیران ہوا۔
ہاں کرتی تو ہیں لیکن کیا ہی نا کزن وہ دوسری لڑکیاں ہوتی ہیں۔۔۔مریم نے آنکھ دباتے کہا
حد ہے یار میں تو اتنی مشکل سے ڈھونڈھ کر گانے کی لائنز یاد کر کے آیا تھا اس موڈ سے کہ تم رونا دھونا شروع کر دو گی لیکن تم تو بیشرموں کی طرح دانت نکال رہی۔۔
ہاں تو کیوں نہ دانت نکالوں بھئی میری شادی ہے میں نے تو خوب انجوائے کرنا ہے۔۔مریم نے بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
مریم۔۔۔
ہاں بولو۔۔
سچ سچ بتانا۔۔۔
اچھا نا بولو اب کیوں تپا رہے ہو۔۔۔
تمہارا بچپن میں کو اسکریو وغیرہ تو نہیں ہل گیا تھا دماغ کا۔۔۔انس نے ہنستے ہوئے کہا
انس کے بچے۔۔۔مریم نے پلو اٹھایا اور انس کی جانب زور سے پھینکا۔
افسوس ابھی نہیں آئے دنیا میں۔۔۔انس نے بھی بے شرمي کا اعلیٰ مظاہرہ کیا۔مریم کا بیساختہ قہقہ گونجا۔
ویسے مجھے بے شرم کہہ رہے ہوئے خود بڑا کم ہو نا۔۔۔مریم نے ہنستے ہوئے کہا
کیا کروں اثر ہو گیا ڈیئر کزن۔۔۔انس نے کہا دونوں ایک دوسری کی جانب دیکھتے ہنسنے لگے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما آپ نے بلایا تھا۔۔۔ہادی سنا بیگم کے کمرے میں داخل ہوا
ہاں بیٹا آؤ۔۔۔بیٹھو یہاں۔۔سنا بیگم نے اُسے اپنے پاس بٹھایا
جی۔۔۔
مجھے ایک بات کرنی ہے تم سے۔۔
ارے ماما کہیے کہیے برخوردار سن رہا۔۔۔ہادی نے ہنستے ہوئے کہا سنا بیگم نے اس کے ہلکے سے چپت لگائی۔
بیٹا میں سوچ رہی کے کیوں نہ تمہاری بھی ساتھ ہی شادی کر دیں عدیل کے ساتھ۔۔سنا بیگم نے کہا اس نے سنجیدہ تاثرات لیے اُن کی جانب دیکھا۔
ماما نہیں ابھی نہیں کر سکتا میں۔۔۔
لیکن کیوں۔۔سنا بیگم نے سوال کیا
ابھی میں اپنی اسٹڈیز کمپلیٹ کرنا چاہتا ہوں۔۔اس نے بہانہ بنایا
تو بیٹا شادی کے بعد بھی کر سکتے ہو تم پڑھائی کون سا تمہیں کوئی منع کرے گا۔۔۔اور ویسے بھی تمہاری۔۔سنا بیگم نے آگے کچھ کہنا چاہا جب ہادی بیچ میں بول پڑا
ماما پلز بس میں ابھی نہیں کرنا چاہتا سو پلز ابھی آپ عدیل بھائی کی شادی تک مجھ سے اس بارے میں کوئی بات مت کریے گا۔۔اور اُن کی شادی کے بعد بھی۔۔ وہ کہے کمرے سے باہر نکل گیا لیکن نکلتے ساتھ ہی اس کی نظر دروازے کے پاس کھڑے وجود پر پڑی۔۔اسا نے ایک نظر اُسکی جانب دیکھا۔ اور آگے کی جانب بڑھ گیا۔۔جبکہ وہ پیچھے ساکت کھڑی رہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل۔۔امل یار کہاں ہو کڑی باہر نکلو۔۔۔عبیر امل کے باتھرُوم کا دروازہ زور زور سے بجا رہی تھی لیکن امل بھی ڈھیٹوں کی طرح سکون سے باتھ لے رہی تھی۔۔
اللہ کی بندی نکل آ اب۔۔۔عبیر نے اب کی بار منت کی۔۔اُسے پانی بند ہونے کی آواز آئی تھی۔۔عبیر پھر سے دروازہ بجانے لگ گئی۔
کیا عذاب آ گیا ہے بندہ سکون سے باتھ بھی نہیں لے سکتا۔۔امل نے غصے سے اندر سے ہی آواز لگائی۔
باہر نکلو ورنہ میں پھر دروازہ بجانے لگ جانا ہے۔۔۔عبیر جانتی تھی کے اُسے اس حرکت سے سخت چڑ ہے اسی لیے بولی
عبیر اگر اب تو نے دروازہ بجایا نا تو میں تیرا منہ توڑ دوں گی۔۔۔امل تمیز کو سائڈ پر رکھے بولی۔اُسے باہر سے عبیر کے ہنسنے کی آواز آئی
اب کیا تکلیف ہے جو یوں ہنسا جا رہا ہے۔۔۔
بہن باہر اس جا آ کر پوچھ لیں۔اندر ہی سارے سوالات کرنے کا ارادہ ہے کیا۔۔عبیر کے کہتے ساتھ ہی امل نے دروازہ انلاک کیا۔۔
پتہ تھا مجھے دروازے کا پاس کھڑی جان کر میری ہمت آزما رہی ہو۔۔۔عبیر نے بولا
بیٹا میں بھی پھر تمہاری ہی بہن ہوں سمجھی۔۔امل نے زبان نکالی۔۔اب بولو کیا مسئلہ ہے کیوں دماغ خراب کر رہی تھی۔۔۔امل نے بالوں کو تولیے سے رگڑتے سوال کیا۔
یار۔۔میرا ایک کام کر دو گی۔۔
ہاں بولو۔۔۔
وہ نا۔۔۔۔عبیر خاموش ہوئی
کیا بولو بھی اب۔۔۔۔امل جھنجھلائ
مجھے ذرا سینڈوچ ہی بنا دو بڑی بھوک لگی ہے۔۔۔عبیر نے دانت نکالے کہا۔
تم اس کام کے لیے دروازے بجا رہی تھی۔۔۔امل نے حیرانگی سے آنکھیں پھیلائیں
تو اور کیا۔۔مجھے اتنی بھوک لگ رہیں ہے اور مجھ میں ہمت نہیں اماں نے صاف صاف انکار کی دیا اب میں بچاری اور کہاں جاتی۔۔۔
ہنہ بچاری کی لگتی کچھ ایک دوں زور کی کان کے نیچے۔۔۔امل نے اس کی نکل اُتاری۔
امل بس کرو اور جلدی سے مجھے بنا کر دو۔۔
اگر میں کہوں کے نہیں بنا رہی تو۔۔۔
مجھے پتہ ہے تم بہت پیاری بہن ہو پلز۔۔۔
ویسے وہ تو میں جانتی ہوں۔۔۔امل نے ہنستے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
اوئے اتنی خاموشی کیوں ہے؟؟امل نے عبیر سے سوال کیا دونوں اسوقت باورچی میں موجود تھیں۔
پتہ نہیں سب اپنے اپنے رومز میں ہیں شاید ۔۔
حور آپی کہاں ہیں وہ نظر نہیں آ رہیں؟؟امل نے پھرسے کہا
ہاں ویسے آگے تو کبھی ایسے نہیں ہوا۔۔۔
چلو میں سینڈوچز بنا لوں پھر آپی کے روم میں چلتے ہیں مل کرنے کھائیں گے۔۔
ہاں صحیح ہے تم بناؤ شاباش جلدی کرو۔۔۔
ویسے بندہ ہیلپ ہی کروا دے۔۔۔امل نے اور کی جانب دیکھتے کہا جو کے سکون سے شیلف پر بیٹھی اُسے سینڈوچ بناتا دیکھ رہی تھی۔
بڑا مشکل کام ہے نا اتنے آسان تو ہے بنانا۔۔۔
اچھا پھر خود بنا لو۔۔امل چڑ کر کہا
ارے یار مذاق کر رہی تھی جنگ سے بھی مشکل ہے۔۔اب خوش بناؤ جلدی چوہے دوڑ رہے پیٹ میں میرے۔۔۔عبیر نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے امل ہنستے ہوئے سینڈوچ کی جانب متوجہ ہو گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورین کسی کام سے سنا بیگم کے کمرے کی جانب گئی لیکن اندر کی گفتگو نے اس کے قدم وہیں ساکت کر دیے۔وہ وہیں ساکت کھڑی تھی جب ہادی باہر آیا دونوں کی نظریں ملیں لیکن وہ اُسے نظر انداز کیے آگے بڑھ گیا۔۔۔حور کیسی کھائی میں کا گری۔۔۔وہ ہمیشہ ہی ایسے کرتا تھا لیکن وہ اس کی اس جواب کے پیچھے کی وجہ سے نے واقف تھی۔۔۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
تم سے رنجش بھی ہے اختلاف بھی ہے
اور کچھ عین۔شین۔قاف بھی ہے🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Onde histórias criam vida. Descubra agora