قسط:۱۷

167 12 2
                                    

بھابھی چلیں آپ کو میں پارلر ڈراپ کرنا ہے۔۔۔ہادی نے مریم سے کہا۔
ہاں میں آتی ہوں بس ابھی۔۔۔وہ اپنا سامان پکڑتے ہوئے بولی۔
اچھا سنو۔۔حور کہاں ہے؟؟مریم نے ہادی سے سوال کیا۔
پتہ نہیں بھابھی یہیں کہیں ہو گی۔۔۔ہادی نے جواب دیا۔
افو ایک تم ہو کہ خیر سے خبر ہی نہیں ہوتی کہ بیگم کہاں ہے تمہاری۔۔۔مریم نے آنکھیں سکیڑ کر کہا۔
آپ نے کیا کہنا ہے اُسے؟
بھلا کیا کہنا ہو گا اس سے کہو میرے ساتھ چلے پارلر۔۔
بھابھی تائی امی کہہ رہی ہیں کہ جلدی جائیں لیٹ ہو جائیں گیں۔۔حور خود ہی اس کے کمرے میں تائی امی کا پیغام لے آئی۔
شکر تمہارا ہی پوچھ رہی تھی میں چلو جلدی سے اپنا ڈریس اٹھاؤ تم بھی جا رہی ہو۔۔۔مریم نے اُسے کہا
لیکن میں کیسے بھابھی امی وغیرہ کو بھی نہیں پتہ اور بھلا میرا پارلر کیا کام۔۔۔۔
کیا مطلب کیا کام بندہ کیوں جاتا ہے پارلر۔۔مریم کو اس کے سوال پر حیرت ہوئی۔۔تم کسی کی بھی فکر مت کرو میں بتا دوں گی لیکن ابھی چلو دیر ہو رہی۔۔۔مریم نے کہا اور اس کیا ہاتھ تھامے اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئی اس کا ڈریس بیڈ پر ہی رکھا ہوا تھا۔
"جیولری بھی پکڑ لو اپنی اور باقی چیزیں بھی۔۔"حور کو اس کی ماننی ہی پڑی کیوں کہ وہ دونوں لیٹ ہو رہی تھیں۔اس کو اپنی چیزیں اٹھاتا دیکھ کر مریم کے چہرے پر مسکراہٹ رینگی۔دونوں باہر کی جانب بڑھ گئیں۔۔
"ارے حور پیچھے کہاں جا رہی آگے بیٹھو میں پیچھے بیٹھوں گی"مریم نے اس کو پچھلی سیٹ کی جانب جاتا دیکھ کر کہا۔۔۔
"ارے بھابھی کوئی بات نہیں آپ بیٹھ جائیں آگے۔۔"
"نہیں ہادی میں نا ریلیکس ہو کر بیٹھنا چاہتی ہوں پھر اسٹیج پر بھی سیدھے ہو کر بیٹھنا۔۔"مریم نے بہانہ کیا۔۔
"اوکے۔۔"ہادی نے کندھے اُچکائے اور ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔حور بھی گاڑی کے دوسری سائڈ سے ہوتی فرنٹ سیٹ کی جانب آئی اور بیٹھ گئی۔۔سارا راستہ مریم اُن دونوں سے بتائیں کرتی رہی۔۔پارلر آنے پر ہادی نے اُن کو ڈراپ کیا اور فارغ ہو کر کال کرنے کہ کہتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سے نہیں کٹتی__یہ اُداس راتیں
کل سورج سے کہوں گا__مجھے لے کر ڈوبے🥀
شیری کیا ہوا ہے کیوں اس طرح اُتری ہوئی شکل بنائی ہوئے ہے تو نے؟؟ہادی نے شہریار سے سوال کیا۔
ہاں کیوں کیا ہوا ہے مجھے کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے۔۔شیری نے اس کی جانب دیکھتے ہوئےکہا۔
اچھا جی پھر ہارے ہوئے عاشق کی طرح اپنا منہ لٹکایا ہوا جو محبوب کھو چکا ہے اس طرح کی فیلنگ آ رہی تیری شکل دیکھ کر۔۔۔ہادی ہنسا لیکن شیری سیریس ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔
کیا مسئلہ ہے شیری تیرے ساتھ۔۔مجھے تو غُصہ دلا رہا ہے..ہادی کی پیشانی پر شکنیں پڑیں۔۔۔
ارے کچھ نہیں ہوا نا نہ تنگ کر پلز۔۔۔شیری نے اُسے ٹالا۔
ٹھیک ہے مت بتاؤ تم میں خود ہی اسمارا سے پوچھ لوں گا۔۔ہادی کہہ کر اٹھا اور جانے لگا جب شیری فوراً سے اٹھ بیٹھا۔
کیا مطلب کیا پوچھے گا تو اسمارا سے؟؟شیری گڑبڑایا۔۔
یہی کہ کل کیا بات ہوئی ہے تم دونوں کے بیچ۔۔
تو اس سے نہیں پوچھے گا۔۔شیری نے کہا
اگر تم نہیں بتاؤ گے تو میں پوچھوں گا سمجھے۔۔ہادی نے بھی دھمکی دی۔۔
افف۔۔تُجھ جیسا ڈھیٹ انسان اگر دوست ہو تو اللہ کی حافظ ہے۔۔بیٹھ بتاتا ہوں۔۔
میری تعریفیں بعد میں کر لیں ابھی بتا۔۔
میں نے۔۔میں نے اسمارا کو پروپوز کیا تھا لیکن۔۔۔
کیا لیکن۔۔ہادی نے فوراً سوال کیا۔
منع کر دیا اُن نے۔۔۔شیری نے لمبا سانس کھینچتے کہا۔
کیوں؟؟ہادی کو حیرانی ہوئی تھی اور وہ بھی بہت زیادہ۔
وہ سمجھتی ہیں کہ محبت صرف رسوا کرتی ہے اُنہیں میری آنکھوں میں اپنے لیے بلکل بھی محبت نہیں نظر آتی ہے۔۔۔کیا سچ میں ہادی میری آنکھوں سے جھلکتا پیار نہیں دکھتا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے محبت ہو گی۔۔لیکن جب میں نے اُنہیں دیکھا تو جانے میرا دل کس لہہ پر دوڑنے لگا۔ایک عجیب سی کیفیت میرے اندر طاری ہو گئی۔پھر اُن سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈھنا،سب اچھا لگنے لگا۔لیکن صحیح کہا ہے کسی نے محبت امتحان لیتی ہے۔اور جو محبت امتحان نہ لے تو پھر وہ تو محبت ہی نہیں۔اور دوسرے امتحانوں کی طرح یہ امتحان بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔قسمت والے ہی کامیاب ہوتے ہیں اس میں۔لیکن کی اس امتحان میں فیل ہو گیا۔شیری کا لہجہ افسردہ تھا۔
نہیں شیری یہ کیسی باتیں کر رہا ہے۔۔ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے تو وہ چیز آپ کو مل جاتی ہے بشرطیہ کہ وہ آپ کے نصیب میں ہو۔۔اسی طرح اگر تیری محبت پاک ہے اور اس میں کوئی کھوٹ نہیں تو اگر وہ تیرے نصیب میں ہوئی تو کوئی بھی تُجھے اس سے دور نہیں کر سکتا۔۔وہ تُجھے مل کر رہے گی۔۔بس تھوڑا صبر کر۔۔ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ہادی نے اُسے تسلی دی۔شیری خاموش ہو گیا۔۔
کاش! دل کی آواز میں__اتنا اثر ہو جائے🥀
میں اُسے یاد کروں__ اور اُسے خبر ہو جائے🔥
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم اور حور دونوں تیار ہو چکی تھیں۔لائٹ پنک کلر کا ٹیل فراک جو کے کڑھائی سے بھرا ہوا تھا،مریم نے پہن رکھا تھا۔برائیڈل میک اپ کے ساتھ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔اس کے برعکس حور نے جامنی کلر کی گھیر دار میکسی پہن رکھی تھی جو کے اس کے دبلے پتلے سراپے پر بہت جچ رہی تھی۔
عدیل کے ہمراہ دونوں حال پہنچی تھیں۔عدیل مریم کا ہاتھ تھامے اُسے حال کے اندر لے جانے لگا حور بھی اُن کے پیچھے تھی۔۔پیچھے چلتے چلتے جانے کیسے اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا لیکن اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی دو مضبوط ہاتھوں نے اُسے تھام لیا تھا۔حور نے اپنی دونوں آنکھیں زور آیا میچ لیں۔لیکن ابھی تک اپنے آپ کو گرتا نہ پا کر اس نے ایک آنکھ کھولی جبکہ دوسری آنکھ بند تھی۔اس کے چہرے کے سامنے ہادی کا چہرہ تھا۔وہ گڑبڑائی اور فوراً سے سیدھی ہوئی۔
وہ مجھے پتہ نہیں چلا۔حور نے شرمندگی سے کہا۔کوئی جواب نہ پا کر حور نے ہادی کی جانب دیکھا جو کہ اُسے ہی دیکھنے میں مگن تھا۔ہادی نے بلو تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا جبکہ بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔حور بھی کچھ پل اُسے دیکھتی رہی لیکن اس وقت جگہ اور پوزیشن کا جائزہ لیتے اس نہیں فوراً سے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔
اندر چلیں لیٹ ہو رہا سب انتظار کر رہے ہیں گے۔۔۔حور نے اس کا دھیان خود پر سے ہٹانے کے لیے کہا۔ہادی دو قدم آگے بڑھا اور حور کے عین سامنے کھڑا ہو گیا۔اس کے کلون کی خوشبو حور کو اپنے اندر اُترتی محسوس ہوئی۔اس نے حور کا ہاتھ تھاما اور حال کے اندر بڑھ گیا۔دونوں کو ایک ساتھ آتا دیکھ کر جہاں سنا بیگم،ہاجرہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ آیا تھی وہیں تائی جان نے ایک تلخ نظر حور پر ڈالی تھی۔تائی جان کی نظروں کے ساتھ کسی اور کی بھی حسد بھری نظریں حور پر مرکوز تھیں۔حور اور ہادی دونوں اپنے اوپر نظریں محسوس کر رہی تھے حور تو سٹپٹا گئی لیکن ہادی شاں بےنیازی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔
ماشاءاللہ کتنے پیارے لگ رہے ہیں دونوں۔ہاجرہ بیگم نے اُن کی نظر اُتاری۔دونوں مسکرا دیے۔
اب عدیل کی شادی سے فارغ ہو جائیں پھر تم دونوں کی بھی کے بات کرتی ہوں۔۔۔سنا بیگم نے کہا لیکن حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ ہادی نے اس بار انکار نہیں کیا تھا وہ بس مسکرا رہا تھا۔سنا بیگم کو خوشی ہوئی اس کی خاموشی اور مسکراہٹ نے اُنہیں اس کا جواب دے دیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی۔۔امی کیا ہوا ہے آپ کو پلز آنکھیں کھولیں۔۔اسمارا نے روتے ہوئے اپنی امی کا چہرہ تھپتھپایا۔لکھیں وہ آنکھیں نہیں کھول رہی تھیں۔اسا کی رونے میں مزید شدت آئی۔اسا نے اُن کی ہارٹ بیٹ چیک کی جو کے قدرے ہلکی تھی۔اس نے بھاگ کر اپنا فون اٹھایا اور شیری کو کال ملا دی۔شیری اس وقت جانے کے لیے تیار ہو تھا تھا دل تو اس کا ولیمے پر جانے کا بلکل بھی نہیں تھا لیکن ہادی کی وجہ سے وہ کا رہا تھا۔اس وقت اپنے فون پر اسمارا کی کال آتا دیکھ کی وہ حیران ہوا اس نے کال اٹینڈ کی۔
السلامُ علیکم! جی خیریت؟؟ شیری کا لہجہ سنجیدہ تھا اس بات کو نظر انداز کیے اسمارا دوسری جانب بولی
شہریار۔۔اسمارا کی روٹی ہوئی آواز آئی۔
کک۔۔کیا ہوا ہے آپ رو۔۔رو کیوں رہی ہیں؟؟شیری سیکنڈز میں پریشان ہوا تھا۔(یہی تو ہوتا ہے محبت کرنے والے ایک دوسری کے غموں میں غمگین اور خوشی پر خوش ہو جاتے ہیں)
امی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے آنکھیں نہیں کھول رہیں اور اُن کی ہارٹ بیٹ بھی بہت سلو چل رہی ہے۔۔
آپ۔۔آپ پریشان مت ہمیں میں آتا ہوں ابھی۔۔شیری نے کہا دوسری جانب سے کالا ڈسیکنکٹ کر دی گئی شیری نے گاڑی کا رخ اسمارا کے گھر کی جانب کر لیا۔۔گاڑی کی رفتار کافی تیز تھی۔
کچھ ہو دیر میں وہ اسمارا کے گھر کے باہر تھا۔۔اسمارا نے دروازہ کھولا۔روئی روئی آنکھیں،شیری کو تکلیف ہوئی۔
کسی نے ہنس کر پوچھا کبھی عشق ہوا تھا🥀
ہم نے غمگین آنکھیں اوپر کی اور مسکرا کر بولے
__آج بھی ہے__🔥
شیری اسمارا کے ہمراہ اندر آیا اس کی امی کو اٹھایا اور فوراً گاڑی کی جانب بڑھا اُنہیں پچھلی سیٹ پر لٹایا اسمارا اُن کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔شیری ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا اور گاڑی ہسپتال کی جانب بڑھا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہادی شیری کو فون کر رہا تھا لیکن اس کا فون بند جا رہا تھا۔اُدھر حور بھی اسمی کو کال ملا رہی تھی جو کہ اٹھائی نہیں گئی۔۔
کہاں رہ گئے دونوں۔۔۔ہادی پریشان ہوا۔۔نو بجنے کو تھے اور وہ لوگ اب تک نہیں آئے تھے۔۔
خیر۔۔فنکشن سارا اچھے سے گزر گیا لیکن ہادی اور حور سارا فنکشن صحیح سے انجواۓ بھی نہیں کر سکے ۔۔لیکن اب ہادی شیری کے گھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔سب اپنے گھروں میں جا چکے تھے۔۔رات بھی کافی ہو رہی تھی۔۔ہادی ٹراؤزر شرٹ پہنے گاڑی کی چابیاں اٹھائے گھر سے باہر نکل رہا تھا جب پیچھے سے حور کی آواز آئی۔۔
آپ کہیں جا رہے ہیں؟؟حور نے سوال کیا۔
ہاں شہریار کے گھر جا رہا ہوں کیوں خیریت؟؟
وہ اسمارا بھی نہیں کال اٹھا رہی پرسوں میری اس سے آخری بار بات ہوئی تھی۔۔تو میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟؟حور کبھی بھی اس سے جانے کا نہ کہتی لیکن کل یونی سے آف تھا اور فون بھی بند جارہا تھا۔
ہاں آ جاؤ میں باہر کھڑا ہوں۔۔ہادی کا احجا سنجیدہ تھا شاید وہ پریشان تھا شہریار کیلئے کیوں کے اُن کی آخری بات اُن کی اسمارا کے متعلق ہی ہوئی تھی۔حور بھی چادر لیے باہر نکل گئی۔
ہادی نے گاڑی شہریار کے گھر کے باہر روکی۔لیکن گھر لاک تھا۔اب وہ صحیح معنی میں پریشان ہوا تھا۔اس نے پھر سے اس کو کال ملائی سد شکر اب کی بات رنگنگ ہو رہی تھی۔تقریبًا دو بیپس کے بعد فون اٹھا لیا گیا۔
کہاں ہے شہریار کب سے کال کر رہا ہوں کچھ اندازہ ہے کتنا پریشان ہوں میں۔کہاں ہے؟؟
ہسپتال میں ہوں۔۔۔
"کیوں کیا ہوا ہے تُجھے تو نے اپنے آپ کو کچھ۔۔"
"اسمارا کی امی کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔۔"شہریار نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔
اوہ کہاں ہو تم اس وقت کون سے ہسپتال میں۔۔ہسپتال کا نام سنکر حور پریشان ہو گئی۔ہادی نے کال ڈسکنیکٹ کی۔
"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے کون ہے ہسپتال"حور نے سوال کیا۔
"اسمارا کی امی کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔۔"حور ساکت رہ گئی۔۔ہادی نے گاڑی ہسپتال کی جانب بڑھا دی۔ایک اور امتحان آگے اُن کا منتظر تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال کی تمام فرمالٹیز کے بعد اُن کی ڈیڈ باڈی کو اُن کے حوالے کیا گیا۔اسمارا کی بہت بری حالات تھی اُسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔اسی طرح اُن کی میت کو لے جایا گیا لیکن اسکو چپ سی لگ گئی تھی۔وہ بلکل خاموش تھی۔۔
اسمارا۔۔حور نے اُسے بلایا جو اجڑی ہوئی حالت میں بیٹھی تھی۔۔اس کے چہرے پر چھائی سنجیدگی آنکھوں میں حد درجہ ویرانی حور کو صحیح معنوں میں پریشان کر رہی تھی۔
اسمارا۔۔میری جان۔۔پلز کچھ تو بولو۔۔حور اس نہیں سامنے بیٹھے التجائیہ نظروں سے دیکھتے کہا۔اسمارا نے خالی نظروں سے حور کی جانب دیکھا۔حور کو شدت سے رونا آنے لگا۔اپنے آپ پر ضبط کرتے اس نے اسمارا کا سر اپنے کندھے سے ٹکایا اور اس کے بالوں کو سہلانےلگی۔لیکن اسمارا نے کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔
اسمی کچھ کھا لو تم نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا۔۔جواب ندارد۔۔
اسمارا۔۔حور نے آہستہ سے اس کا نام پُکارا اُسے اپنا کندھا نم ہوتا محسوس ہوا۔اس نے اسمی کی جانب دیکھا۔وہ رو رہی تھی۔۔آہستہ آہستہ اس کے رونے میں شدّت آنے لگی۔۔۔کچھ دیر وہ یوں ہی روتی رہی۔۔۔روتے روتے وہ اس کے کندھے سے ہی اپنا سر ٹکائے سو گئی۔حور کو جب کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی اس نے اسمارا کی جانب دیکھا۔وہ سو چکی تھی۔اس نے اسے سہارا دیے لیا دیا اس پر چادر ڈالے کمرے سے باہر نکل گئی۔
کیسی ہے اب اسمارا؟؟ہادی نے سوال کیا۔
سو گئی ہے وہ کچھ بھی نہیں کھایا اس نے۔۔حور نے لمبا سانس کھینیچتے کہا۔شہریار کے چہرے پر پریشانی اور بےچینی واضع تھی۔
ہادی میں اسمارا کے ساتھ یہاں ہی رہنا چاہتی ہوں کچھ دن جب تک وہ اسٹیبل نہیں ہو جاتی۔۔حورین نے ہادی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں ابھی اسمارا کو اکیلا چھوڑنے کی حالت نہیں ہے۔۔۔ہادی نےسوچتے ہوئے کہا۔وہ نہیں چاہتا تھا کے اسمارا اکیلی یہاں پر رہے وہ جلد از جلد اس کو یہاں سے لے کر جانا چاہتا تھا۔۔حور واپس اسمارا کے پاس اس کے روم میں چلی گئی۔اور اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح ہفتہ بیت چکا تھا۔اسمارا ٹھیک تو نہیں لیکن کچھ سمبھل چکی تھی۔حور اس سلسلے میں اس کے ساتھ تھی۔حور چاہتی تھی کے وہ سوئے اپنے ساتھ کے جائے لیکن اسمارا کی ضد تھی کہ وہ اپنے گھر رہے گی کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تو حورین کو بھی یہاں رہنا پڑا۔ہادی اور شہریار بھی زیادہ تر یہاں ہی ہوتے تھے۔
آج یونی میں حور کو اسائنمنٹ سبمٹ کروانی تھی اسی لیے اسے آج جانا ضروری تھا۔لیکن وہ اسمارا کو ایسے اکیلا نہیں چھوڑ کر جانا چاہتی تھی۔
اسمی تم بھی چلو میرے ساتھ فریش ایئر بھی لے لینا فریش ہو جاؤ گی۔۔حورین نے اُسے اپنے ساتھ لے کر جانے کا کہا
نہیں حور میرا موڈ نہیں ہے تم جاؤ۔اسمارا نے بیدلی سے کہا۔
نہیں میں تمہیں ایسے اکیلا نہیں چھوڑ کر جا رہی۔۔۔حور اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
حور تم جاؤ ویسے بھی تو مجھے اکیلے ہی رہنا ہے تو عادت تو ڈالنا ہو گی نا۔۔اسمارا جبراً مسکرائی۔حور نے اس کی جانب دیکھا وہ ٹرپ ہی تو اٹھی تھی اس کے یہ الفاظ سن کر۔لیکن فلوقت خاموش رہی کیوں کہ اُسے اس وقت کچھ کہنا فضول تھا۔اگر یونی جانا ضروری نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی نہ جاتی۔حور اپنا بیگ تھامے باہر کی جانب بڑھ گئی سامنے سے شیری اندر آ رہا تھا۔
ہائے شکر ہے بھائی آپ آ گئے۔۔۔مجھے جانا تھا ضروری اسمارا گھر اور اکیلی تھی اب مجھے ٹینشن نہیں ہو گی۔۔شیری صرف مسکرا دیا
ہادی نہیں آئے؟؟حور نے سوال کیا۔
نہیں وہ کام سے گیا ہے کسی انکل نے بلوایا تھا اُسے۔شیری نے وضاحت دی۔
اچھا۔۔
میں آپ کو لے جاؤں۔۔
نہیں نہیں میں خود چلی جاؤں گی تھینک یو آپ بس اسمارا کا خیال رکھیے گا کی جلد ہی واپس اس جاؤں گی۔۔حور کھی باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی یونی کی راہ چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میم جی شکار نشانے پر ہے کہو تو شوٹ کر دوں؟؟ایک آدمی نے گن ہاتھ میں تانے فون پر کسی سے کہا
خبردار جو گولی چلائی تم نے جو کہا ہے صرف وہ ہی کرنا ہے سمجھے تم۔۔دوسری جانب جو بھی تھا اس نے غصے سے کہا اور فون رکھ دیا۔
اب آئے گا مزا حور دیکھتے ہیں اب کون اپنائے گا تمہیں۔تلخیه لہجے میں کہے اس نے آگے کا سوچا شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر رینگ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now