بسمل طیش سے اپنے گھر میں داخل ہوئی۔غصے سے اپنے بیگ کو صوفے پر پٹخا اور ٹیبل پر پڑا واس زمین پر دے مارا راہما بیگم پریشان ہوئے لاؤنج میں آئیں اور ٹیبل پر پڑے قیمتی واس کو زمین پر پڑا دیکھ کر بسمل سے مخاطب ہوئیں۔
کیا ہوا ہے کیوں اتنے غصے میں ہو۔۔انہوں نے اس سے سوال کیا بِسمل خاموش رہی ملازمہ فوراً اس کے لیے پانی لائی جسے اس نے زور سے زمین پر پھینک دیا اور گلاس بھی کرچی کرچی ہوا ادھر اُدھر بکھر گیا۔
بسمل میں تم سے پوچھ رہی ہوں یہ کیا طریقہ ہے۔راحما بیگم اونچی آواز میں بولیں بِسمل نے اُن کی جانب دیکھا اور اپنا بیگ تھامے اُنہیں بغیر جواب دیئے کمرے میں چلی گئی راهما بیگم اس کی اس حرکت پر سر تھام کر رہ گئیں اور ملازمہ کو صفائی کا بول کر اپنے کمرے میں چلی گئیں کیوں کے جب تک بِسمل اپنا غُصہ نہیں اُتار لیتی اس نے کچھ نہیں بولنا تھا۔سو اس کے پاس جانا فضول تھا۔
بسمل کمرے میں غصے سے اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔
حورین تم جانتی نہیں ہو کے تم نے کیس سے پنگا لیا ہے۔۔میں تمہیں معاف نہیں کروں گی اور اس تھپڑ کا بدلہ میں ضرور لوں گی۔۔اسے حورین پر نہایت غُصہ آ رہا تھا اور بِسمل اُن لوگوں میں سے تھی جو کے بدلہ لینا فرض سمجھتے تھے۔اور حورین نے سب کے سامنے اس کو تھپڑ مارا تھا جس کا سوچ سوئچ کرنے اس کیا خون کھول رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہونے کے قریب تھی سب مرد حضرات کاموں سے آچکے تھے چچی اور تائی جان بھی آ گئی تھیں۔سب لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔لڑکیاں اپنی پارٹی بنائی ایک جگہ بیٹھی تھیں جبکہ لڑکے اور بڑے بزنس کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔تائی امی چچی جان اور ہاجرہ بیگم اپنی باتوں میں مصروف تھیں۔تبھی تایا جان کی آواز نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ عدیل کی اب شادی کر دی جائے۔تایا جان نے اپنی بات کہی پہلے خاموشی چھا گئی لیکن کچھ ہی سیکنڈز میں سب کے چہروں پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی۔
کیا سچ میں تایا جان۔امل چہکتی ہوئی بولی
ہاں جی بیٹا جی۔۔تایا جان مسکرائے
کتنا مزا آئے گا بھائی کی شادی ہو گی وہ دولہا بنے گا گھوڑی چڑھے گا بینڈ بجے گا۔۔عبیر بولنا شروع ہو گئی تھی
ارے بس بس ابھی نہیں میری شادی ہونے لگی۔۔عدیل نے ہنستے ہوئے کہا عبیر نے دانت نکالے باقی سب بھی مسکرانے لگ گئے
بہت اچھا فیصلہ کیا بھائی صاحب۔۔چچا جان نے کہا تایا جان مسکرا دیئے
بھئی میں تو کل سے ہی اپنے بیٹے کے لیے لڑکیاں تلاش کروں گی۔۔تائی امی جوش سے بولیں تائی جان کی پھرتی دیکھ کر سب مسکرائے
بلکہ میں ابھی اپنی سہیلی راشدہ کو فون کرتی ہوں کے میرے بیٹے کے لیے لڑکیاں تلاش کرے۔۔۔تائی امی نے تو جیسے سارا مسئلہ ہی ہل کر دیا
وہ تائی جان۔۔کیا فیصلہ کیا ہے لائیں میں خود فون کر کے کہتا ہمیں راشدہ آنٹی کو کے میرے بھائی کے لیے کوئی سی بھی لڑکی تلاش کریں۔۔لنگڑی لولی ہی کیوں نہ ہو ہیں نا عدیل بھائی۔۔۔ہادی نے اینڈ اور شرارت سے کہا
نہیں جی بیٹا جی میں کوئی لنگڑی لولی سے شادی نہیں کروں گا۔۔عدیل نے منہ بنائے کہا
اچھا چلو پھر کوئی گونگی۔۔
ہادی۔۔۔سنا بیگم نے اُسے خاموش کروایا وہ زور قہقہ لگائے ہنسنے لگا جبکہ عدیل اُسے گھور کر رہ گیا۔
ارے میرے بیٹے کی بیوی سب سے حسین ہو گی کے سب دنگ رہ جائیں گے۔۔تائی امی نے کہا
تائی امی یار آپ نے اس سے ماڈلنگ کروانی ہے۔۔ہادی بعض نہیں آ رہا تھا
چل بتمیز میں تو اپنی بہو کو رانی بنا کے رکھوں گی۔۔تائی جان کی بات سن کر عدیل مسکرا دیا
ارے عدیل بھائی آپ تو ایسے ہنس رہے ہو جیسے تائی امی آپ کا کہہ رہیں کے آپ کو راجہ بنا کر رکھیں گیں۔۔۔ہادی نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا
ہادی قسم سے اب اگر تیری آواز آئی نہ تو منہ توڑ دوں گا میں تیرا۔۔۔عدیل نے اس کو کشن اٹھا کر مارا جسے ہادی نے کیچ کر لیا
ہاں بھلا میرا بیٹا تو ویسے ہی راجہ ہے۔۔تائی امی عدیل کے لاڈ میں بولیں سب اُن کی نوک جھونک سے مسکرا دیئے
بھائی صاحب میں یہ سوچ رہا کے کیوں نہ عدیل اور ہادی کی شادی ایک ساتھ ہی کر دیں۔چچا نے کہا ہادی اور حورین کی نظریں ملیں حورین نے فوراً نظریں جھکا لیں جبکہ ہادی سنجیدگی سے بولا
نہیں ڈیڈ ابھی نہیں میں اپنی اسٹڈیز کمپلیٹ کرنا چاہتا ہوں۔۔کسی کے جواب دینے سے پہلے ہادی سنجیدگی سے بولا
ہاں صحیح کہہ رہا ہے ہادی ابھی کیا جلدی ہے اسٹڈیز کمپلیٹ ہو جائے پھر ان شاءاللہ کر لیں گے۔ہاجرہ بیگم اس سب میں پہلی بار بولی تھیں اور سنا بیگم نے بھی اُن کی تائید کی
صحیح کہہ رہیں ہیں بھابھی۔۔ابھی پڑھنے دیں۔۔۔سنا بیگم نے کہا
چلو جیسا آپ کو ٹھیک لگے میں نے سوچا کے ایک ساتھ ہی کر لیں گے بچوں کی۔۔چچا نے کہا اب خاموشی چھا چکی تھی۔
میں کھانا لگاتی ہوں۔۔حورین کہیے باورچی کی جانب بڑھ گئی امل اور عبیر بھی اس کے پیچھے ہو لیں جبکہ ہادی کی نظروں نے اس کا دور تک پیچھا کیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسمل اب قدرے بہتر محسوس کر رہی تھی۔وہ اپنے روم سے باہر نکلی راہمہ بیگم لاؤنج میں ہی تھیں اور اورنگزیب صاحب بھی آ چکے تھے۔
کیا ہوا میری بیٹی کو موڈ کیوں آف ہے۔۔اورنگزیب صاحب نے سوال کیا
کچھ نہیں ڈیڈ۔۔وہ ہلکا سا مسکرائی
کچھ نہیں تو ماما کیا کہہ رہی تھیں۔۔اورنگزیب صاحب نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
سوری ماما۔۔۔ میں بہت روڈ بیہیو کر رہی تھی۔بِسمل نے شرمندگی سے کہا
کوئی بات نہیں بیٹا لیکن ایسا تھوڑی نہ کرتے ہیں کے بغیر بات کیے بغیر کچھ کہے اپنے روم میں بند ہو جانا۔
سوری ماما آئیندہ ایسا نہیں ہو گا۔۔
چلو شاباش آ جاؤ میں نے ملازمہ سے کہا ہے وہ کھانا لگا رہی ہے۔
اوکے۔وہ کہے اٹھی اور سب ڈائننگ پر کھانا کھانے چلے گئے۔اورنگزیب صاحب بہت امیر تھےاور بِسمل اُن کی اکلوتی اولاد تھی وہ اس کی ہر جائز نہیں جائز خواہش پوری کرتے تھی کے تھی وجہ تھی کے وہ بہت ضدی تھی۔راھما بیگم اس جو دانٹی تھا کچھ کہتی اورنگزیب صاحب اُنہیں ڈپٹ دیتے۔اسی لیے وہ اُن سے زیادہ اٹیچ تھی۔
ابھی بسمل نے ایک لقمہ ہی لیا تھا کھانے کا جسے لیتے ہی وہ کھانسنے لگی راهمہ بیگم نے اُسے پانی دیا جیسے وہ ایک ہی سانس میں پی گئی۔
کلثوم کلثوم۔۔۔اسا نے اونچی آواز میں باورچن کو بولنا شروع کر دیا
جی میم صاحبہ۔۔
یہ کیا بنا ہے ہاں۔۔اس نے پلیٹ کو زور سے ٹیبل پر پٹختے ہوئے کہا
کیا ہوا بیٹا کیوں ڈانٹ رہی ہو اسے۔۔۔
ماما اس نے کھانے میں اتنی مرچیں ڈال دی ہیں پر بھی ہی میں کم اسپائسی کھانا کھاتی ہیں لیکن پھر بھی ۔۔۔وہ غصے سی بولی
کلثوم جاؤ تم اور آئندہ خیال رکھنا۔
گی میم صاحبہ۔۔وہ اثبات میں سر ہلائے واپس باورچی کھانے میں چلی گئی
بیٹا تم کچھ اور لے کو کھانے کو۔۔۔
نہیں ماما آپ اُسے نکال دیں کام سے بلکل کھانا بنانا نہیں آتا ہے اُسے۔۔بسمل نے کہا
ٹھیک ہے میری بیٹی کہہ رہیں ہے تو نکال دیتے ہیں۔۔
لیکن اورنگزیب وہ شروع سے ہمارے ہاں کام کرتی ہے ایمان دار بھی ہے غلطی ہو گئی ہو گی اس سے۔۔
نہیں جیسے میری بیٹی کہہ رہی ہے ویسے ہی کرو۔اورنگزیب صاحب نے اُن کی بات کاٹی جبکہ راحمہ بیگم اپنا سر تھام کر رہ گئیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورین کیا ہوا تم اتنی خاموش کیوں ہو کچھ ہوا ہے۔ اسمارا جو کب سے حورین کو کھویا کھویا دیکھ رہی تھی اس سے مخاطب ہوئی
نہیں۔۔حورین نے مختصر سا جواب دیا
پھر تمہارا دھیان کہاں ہے کلاس میں بھی تم کھوئی کھوئی سے تھی اور لیکچر بھی تم صحیح سے نہیں نوٹ کر رہی تھی۔
ہاں بس سر میں درد ہے کے کچھ نہیں۔حورین نے بہانہ بنایا
او ہیلو یہ ڈراما کسی اور کے سامنے کرنا سمجھی تم میرے سامنے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے صاف صاف بولو کیا بات پریشانی کر رہی ہے آنٹی ٹھیک ہیں۔۔
ہاں امی ٹھیک ہیں۔
پھر۔۔۔
جانتی ہمیں کل عدیل بھائی کی شادی کی پلاننگ ہو رہی تھی۔
اوہ واؤ! ڈیٹس گریٹ!! اسمارا نے کہا تم اسی لیے پریشان ہو۔۔اس نے پھر سے سوال کیا
نہیں۔۔تھا بات نہیں ہے۔۔۔
تو پھر کیا بات ہے میری جان کیوں پریشان ہو۔۔
کل چاچو نے عدیل بھائی کی شادی کے ساتھ ہادی کی شادی کی بات بھی کی تھی۔۔
ارے واہ یہ تو اور بھی اچھی بات ہوئی۔۔ہادی بھائی نے کیا کہا
انہوں نے منع کی دیا۔۔
واٹ۔۔۔لیکن کیوں۔۔۔جب سب کے سامنے تمہیں اپنا کہا تھا تو پھر شادی سے انکار کیوں کر دیا ۔۔اسمارا حیرانگی سے بولی
پتہ نہیں میں نہیں جانتی۔
تو تم نے اُن سے کہا نہیں کچھ۔۔
میں بھلا کیا کہتی کوئی جواز تھا میرے پاس کہنے کو۔۔حورین کا لہجہ دھیما تھا
لیکن حور یار ہادی بھائی سے پوچھو تو سہی کے آخر وہ چاہتے کیا ہیں۔۔۔اسمارا نے کہا جبکہ حور خاموش ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)
Mystery / Thrillerپوشیدہ محبت کہانی ہے دو ایسے کرداروں کی جو ایک دوسرے سے واقف ہیں مگر وہ محبت جو دونوں کو ایک اٹوٹ رشتے میں باندھتی ہے اس سے انجان ہیں یہ وہ محبت دونوں سے ہی ہوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں موتی سیپ میں پوشیدہ ہو، خوشبو پھول میں بند ہو اور پورا چاند بادلوں کو ا...