قسط:۱۸

167 13 0
                                    

اوہو اس گاڑی کو بھی ابھی بند ہونا تھا۔۔۔حورین نے گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔آس پاس کوئی ورکشاپ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی میکینک۔۔حور نے اپنی نظریں اِدھر اُدھر دوڑائیں۔۔
یار۔۔۔اب میں کیسے جاؤں۔۔اس نے اپنا فون نکالا اور ہادی کو کال ملانے لگی۔رنگنگ ہو رہی تھی۔۔ایک۔۔دو۔۔تین۔۔اور جیسے ہی دوسری جانب سے فون اٹھایا گیا حور کے ہاتھ سے فون چھٹا اور اس کی سکرین کرچیوں کی صورت میں زمین پر بکھر گئی۔۔۔اس سب صورتِ حال کو سمجھنے سے پہلے ہی حور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیسی ہیں؟؟"شہریار نے اسمارا سے سوال کیا۔۔
"ٹھیک ہوں"اسمارا نے بغیر تاثر کے جواب دیا۔
"مجھے آپ سے۔۔"
"مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے"اسمارا نے درشتگی سے اس کی بات کاٹی،اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگی۔
"پلز ایک بار"شیری کے لہجے میں التجا تھی۔اسمارا رکی اور اس کی جانب دیکھنے لگی لیکن زیادہ دیر اس کی طرف دیکھ بھی نہ سکی۔وجہ اس کے منہ زور بولتے احساسات تھے۔
"میں جانتا ہوں یہ سب بہت مشکل ہے آپ کے لئے کہ جس شخص سے محبت ہی نہیں بھلا اس کے ساتھ کیسے زندگی گزار سکتے۔لیکن آپ ایک بار موقع تو دیں میں آپ پر ایک آنچ بھی نہیں آنے دوں گا۔۔"شہریار نے اُسے اپنی محبت کا یقین دلانا چاہا۔
"پلز تم کیوں نہیں سمجھتے نہیں چاہیئے مجھے تمہارا ساتھ۔رہ لوں گی میں اکیلی۔۔"اسمارا کی آنکھیں نم ہوئیں۔
"اسمارا جی یہ بات آپ بھی جانتی ہیں عورت کا اس دنیا میں اکیلے رہنا کس قدر مشکل ہے۔تو پھر کیوں آپ میرے ساتھ کو ٹھکرا رہی ہیں؟کیوں خود کو اور مجھے اذیت دے رہی ہیں؟"شیری کا لہجہ دھیما پڑا تھا۔
"کیوں کہ میں اپنی اوقات جانتی ہوں۔بھلا ایک غریب لڑکی کہاں امیر خاندان کی بہو بننے کے قابل ہوتی ہے۔امیروں کو تو اپنے ہی سٹینڈرڈ کی بہو چاہیے ہوتی ہے۔۔بھلا مجھ جیسی کا امیر خاندان سے کیا واسطہ۔۔"یہ کیا الفاظ تھے جو اسمارا کہہ گئی تھی۔شہریار کو سہی معنی میں جھٹکا لگا،لیکن فوراً سنبھلا
"محبت میں امیری اور غریبی نہیں دیکھی جاتی،خوبصورتی یا کچھ اور نہیں دیکھا جاتا بس دل اس شخص سے مانوس ہو جاتا ہے،اس کے پاس جانے،اس سے بات کرنے،اس کو ہر پل اپنی نظروں کےسامنے دیکھنے کی ضد کرتا ہے۔محبت میں کوئی سٹینڈرڈ نہیں دیکھا جاتا۔اگر محبت میں سٹینڈرڈ دیکھا جاتا تو پھر سلیم کو انارکلی سے محبت نہ ہوتی۔بھلا سلیم بادشاہ کا بیٹا تھا لیکن ایک طوائف سے محبت کر بیٹھا تھا۔محبت کبھی بھی کسی سے بھی اور کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔اور اگر ایک بار کسی سے محبت ہو جائے تو اُسے بھلانا بہت مشکل ہوتا ہے،اس سے دور جانے کی سوچ ہی تڑپا دیتی ہے۔"شیری گویا اپنے احساسات بیان کر رہا تھا۔اسمارا خاموش ہو گئی۔اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تیری کمی کب تک🖤
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کیا ہے،کیسی ہے،آخر کیوں ہے!؟
فقط تُو ہے،تُجھی سے ہی آخر کیوں ہے!؟
ماہی🥀
حور نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ہر طرف اندھیرا تھا یا اُسے لگ رہا تھا۔اس نے پھر سے کوشش کی۔لیکن آنکھیں اور سر دونوں بہت بھاری ہو رہے تھے۔۔وہ ابھی بھی نیم بیہوشی میں تھی۔ہوش میں تب آئی جب ٹھنڈا پانی اس پر انڈیلا گیا۔اُس کی چیخ نکلی لیکن وہ اُسے خود بھی نہ سن پائی۔سر اس کا ابھی بھی بھاری ہو رہا تھا اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم میں ڈرگز انجیکٹ کیے ہوں۔۔ہونٹوں کو کپڑے کی مدد سے بند کر دیا گیا تھا جس سے صحیح سے سانس لینا بھی محال ہو رہا تھا۔اس نے ہلنا چاہا لیکن ہاتھ پاؤں سب سختی سے بندھے ہوئے تھے۔وہ جو کوئی بھی تھا دھیرے دھیرے اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔حورین خوف کے مارے ہل بھی نہ سکی۔وہ اس تک پہنچا اورجھٹکے سے اسکے سر سے حجاب کھینچا۔اس کے ریشمی سیدھے بال جو کے جوڑے کی صورت میں بندھے ہوئے تھے آبشار کی طرح اس کی پشت پر بکھر گئے۔اُسے اپنے چہرے پر اس کی اُنگلیاں محسوس ہوئیں۔آج سے پہلے ہادی کے سوا اُسے کسی نے نہیں چھوا تھا۔اُسے اپنی گالیں جلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔ٹھنڈے پانی اور منہ بند ہونے کی وجہ سے اس کا سانس اُکھڑ رہا تھا۔اس آدمی نے اس کے چہرے پر سے کپڑا کھینچا۔حورین تڑپ اٹھی۔اور لمبے لمبے سانس کھینچنے لگی۔وہ چاہ کر بھی کچھ کر نہیں پا رہی تھی۔کمرے میں قہقے کی آواز گونجنے لگی۔وہ بےبس گڑیا بنی ہوئی تھی اور وہ ظالم اُسے اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہونے کو تھی لیکن حورین اب تک گھر نہیں لوٹی تھی۔اسمارا اس کو کال بھی کر رہی تھی لیکن فون بند جا رہاتھا۔وہ پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگی صحیح جان تب نکلی جب ہاجرہ بیگم گھر میں داخل ہوئیں۔اس نے حیرت سے اُن کی جانب دیکھا پھر اس کی نظر پیچھے سے آتے ہادی پر پڑی۔ہاجرہ بیگم کو سلام کیے اس نے اُنہیں بیٹھنے کا کہا اور باورچی میں اُن کے لیئے پانی لینے چلی آئی۔ہادی لاؤنج میں ہی بیٹھا تھا۔اسمارا نے اس کو اشارہ کر کے اندر بلایا۔
کیا ہوا اسمارا؟اتنی پریشان کیوں ہو؟ہادی نے سوال کیا۔
شام ہو رہی ہے بھائی لیکن حور اب تک واپس نہیں آئی۔۔۔اسمارا کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔
کیا مطلب کہیں گئی ہوئی ہی حور؟؟ہادی کی پیشانی پر شکنیں آئیں۔
جی بھائی۔۔کافی ٹائم ہو گیا ہے نہ کال اٹینڈ کر رہی ہے اور نہ ہی اب تک گھر آئی ہے۔۔۔اسمارا نے پریشانی سے کہا۔
ہاں کال تو اس نے مجھے بھی کی تھی لیکن پھر ساتھ کی فون بند ہو گیا میں نے ٹرائی بھی کیا لیکن فون مسلسل بند جا رہا تھا۔۔۔کہاں گئی ہے وہ؟؟ہادی نے جواب دیا اور ساتھ ہے سوال بھی کر ڈالا۔
وہ یونی گئی تھی کہہ رہی تھی کے ایک امپورٹنٹ اسائنمنٹ سبمٹ کروانی ہے۔۔
اسائنمنٹ۔۔۔ہادی کی پیشانی پر مزید شکنیں پڑیں۔
کیوں کیا ہوا اسائنمنٹ نہیں تھی کیا کوئی؟؟اسمارا نے کہا۔
او ہاں میرے ذہن سے سکپ ہو گیا۔۔کروانی تھی۔۔۔ہادی گڑبڑایا لیکن اس کی سمجھ سے سب باہر تھا۔اسائنمنٹ تو کوئی بھی نہیں تھی جسے آج سبمٹ کروانا تھا۔۔ہادی اسی سوچ میں تھا جب پیچھے سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی۔دونوں نے بروقت پیچھے مڑ کر دیکھا۔ہاجرہ بیگم زمین بوس ہو چکی تھیں۔وہ اُن کی طرف بھاگے لیکن تب تک وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاجرہ بیگم کو فوراً ہسپتال لے کر جایا گیا تھا۔تائی امی اور باقی سب لوگ بھی ہسپتال آ گئے تھے۔
بیٹا حور کہاں ہے آئی کیوں نہیں اب تک؟؟سنا بیگم نے ہادی سے سوال کیا۔
وہ ماما گھر۔۔۔
آنٹی اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی تو اسے میڈیسن دے کر سلا دیا ابھی اس کو بتایا نہیں کہ اسٹریس کی وجہ سے مزید اس کی طبیعت نہ بگڑ جائے۔۔۔اسمارا نے فوراً سے بات کاٹی۔
لیکن بیٹا بھابھی کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔۔سنا بیگم پریشان ہوئیں۔
ارے بس کردو بھلا اُسے کیا خیال کون مرے کون جیئے اُسے تو بس اپنی عیاشیوں سے ہی فرصت۔۔
تائی امی کیا ہو گیا ہے یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔وہ بیوی ہے میری آپ ایسے الفاظ نہیں استعمال کر سکتیں اس کے لیے۔۔ہادی نے اُسے ٹوکا۔
بیوی ہے ہنہ۔۔۔کیسی بیوی ہے جسے اپنی ماں کا خیال نہیں ہے بھلا کیسے کسی اور کا خیال رکھ سکتی۔۔۔
بس کر دیں تائی امی۔۔میں اب ایک لفظ بھی برداشت نہیں کروں گا۔۔۔ہادی کا لہجہ تھوڑا سخت ہوا۔
ارے دیکھو تو اسے کیسے بیوی کے پیچھے اپنی تائی کے ساتھ بتمیزی کر رہا ہے۔۔۔سکینہ بیگم نے غصے سے اس کی جانب دیکھا۔۔تایا اور چچا جان دونوں ڈاکٹرز کے پاس تھے جبکہ امل عبیر گھر تھیں،عدیل اور مریم سیر کے لیے گئے ہوئے تھے لیکن اُنہیں فون کر دیا تھا۔دور ہونے کی وجہ سے اُنہیں کافی ٹائم لگنا تھا واپسی کے لیے۔۔۔
تائی امی۔۔۔اس سے پہلے ہادی کچھ سخت لفظ استعمال کرتا نرس باہر آئی اور اُن لوگوں سے مخاطب ہوئی۔
حورین کون ہے آپ میں سے؟پیشنٹ اُن سے ملنا چاہتی ہیں۔۔نرس نے پروفیشنل انداز میں کہا۔
آپ چلیں۔۔۔ہادی نے نرس سے کہا ایک سخت نظر تائی امی پر ڈالے وہ روم میں چلا گیا۔
چچی جان۔۔ہادی نے سرگوشی کی۔انہوں نے آنکھیں کھولیں۔
حور کہاں ہے اُسے بلاؤ۔۔الفاظ ٹوٹے ہوئے ادا ہوئے۔
چچی جان وہ۔۔وہ ٹھیک ہے۔۔اُسے کچھ نہیں ہوا۔۔شاید یہ جملے اس نے خود کو یقین دلانے کے لیے کہے تھے۔
نہیں اُسے بلاؤ۔۔میں جب تک اُسے دیکھ نہیں لیتی مجھے سکون نہیں آئے گا۔۔۔الفاظ ٹوٹے ہوئے تھے اور سانس اُکھڑ رہی تھی۔۔
دیکھیں پلز پیشنٹ جن سے ملنے کا کہہ رہی ہیں آپ اِنہیں اُن سے ملا دیں ورنہ مزید اسٹریس اور طبیعت خراب کر سکتا ہے۔۔۔نرس نے ہدایت دی۔
آپ۔۔آپ پلز انتظار کیجیۓ میں جلد ہی حورین کو لے آؤں گا۔۔۔اس نے نرس سے کہا نرس نے مشکوک نظروں سے اس کی جانب دیکھا وہ بغیر اس کی نظروں کی پرواہ کیے کمرے سے باہر نکلا اسی طرح دیکھتے دیکھتے وہ ہسپتال سے بھی باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now