قسط:۸

214 15 9
                                    

مریم سب لوگوں کو بہت پسند آئی تھی اور عدیل نے سارا معاملہ اپنے ماں باپ پر چھوڑ دیا تھا کے اُن کی مرضی ہے۔بات پکی کر دی گئی تھی اور اسی ہفتے منگنی کی تقریب رکھی جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
امل یار بھابھی کتنی سویٹ ہیں نا۔۔۔عبیر تو مریم کی دیوانی ہوئی ہوئی تھی۔
ہاں ماشااللہ بہت پیاری بھی ہیں۔۔امل بھی مشکل سے مسکرائی۔۔جانے کیوں اُسے بہت ڈر لگ رہا تھا وہ وہاں جب تک بیٹھی رہی تھی مریم کے کزن کی نظریں خود پر محسوس کر سکتی تھی۔۔
بابا میں کیا سوچ رہی ہوں۔۔۔عبیر اپنے بابا سے مخاطب ہوئی۔
کیا۔۔۔
کے نا بھائی کی منگنی کی بجائے سیدھا شادی کر دی جائے۔۔کیسا۔۔۔عبیر نے آئیڈیا دیا۔تائی امی اس کی پھرتیاں دیکھ کر مسکرا دیں۔
آئیڈیا تو برا نہیں ہے۔۔۔تایا نے مسکراتے ہوئے کہا
خبردار میں اپنے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کروں گی۔۔تائی جان نے ٹوکا جبکہ عبیر امل تایا جان مسکرا دیئے۔۔سنا بیگم،چاچو،ہاجرہ بیگم الگ گاڑی میں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون کہتا ہے محبت آنکھوں میں ہوتی ہے غالب
دل تو وہ بھی لے جاتے ہیں جو نظریں جھکا کے چلتے ہیں
بتاؤ۔۔ہادی نے پھر سے سوال کیا
م۔۔مجھے ابھی جانا ہے۔۔۔حور نے اٹھنا چاہا لیکن اس سے پہلے وہ اٹھتی اس کی کلائی ہادی تھام چکا تھا۔حورین اس کے لمس سے کانپ اٹھی جبکہ ہادی کی گرفت ویسی ہی تھی وہ حورین کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ چکا تھا اور انجواۓ کر رہا تھا۔
دیکھیں پلز مجھے ابھی جانے دیں۔۔حورین نے مشکل سے اپنے منہ سے آواز نکالی۔
اگر نہ جانے دوں جواب سنے بغیر تو۔۔۔ہادی اُسے مزید تنگ کر رہا تھا اُسے یہ سب کرتے مزا آ رہا تھا۔
ہادی۔۔۔۔حورین نے نے بسی سے کہا ہادی نے اسکا ہاتھ چھوڑا حورین بھاگنے کے سے انداز میں اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ ہادی پیچھے دل کھول کر مسکرایا تھا۔۔حورین دروازے سے ٹیک لگائے اندر کی جانب کھڑی ہو گئی اور اپنی سانسیں بحال کرنے لگی۔۔حور نےجہاں سے ہادی نے بازو پکڑا تھا وہاں اپنے ہونٹ رکھے اور لمبا سانس کھینچا۔وہ اس کی خوشبو کو اپنے اندر تک محسوس کر رہی تھی۔ 'ہادی شاہنواز' اس نے آہستہ سے اس کا نام پُکارا اس کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے قریب سب گھر لوٹے تھے۔۔سب کہ چہروں پر چھائی مسکراہٹ بات پکی ہونے کی خبر دے رہی تھی۔
کیسا رہا سب؟؟ہادی نے سب سے پہلے اُن سے سوال کیا
اگلے ہفتے منگنی ہے۔۔تایا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ارے ماشااللہ۔۔۔ہادی خوش ہوا اور تایا جان کے گلے ملا۔اس نے مسکراتے ہوئے سب کو مبارک دی۔
دولہے میاں کہاں ہیں؟؟
میں نے اُسے فون کیا ہے آتا ہی ہو گا۔۔تایا جان نے جواب دیا۔
آج تو ان کا بس نہیں چل رہا ہو گا کہ اُڑ کر آ جائیں۔۔ہادی نے ہنستے ہوئے کہا۔حورین بھی آوازیں سن کر باہر آ گئی تھی۔یہ نے نظر اٹھا کر ہادی i جانب دیکھا جو کے اب اُسے بلکل نظر انداز کیے ہوئے تھا۔حورین اپنی کیفیات پر قابو پاتے صوفے پر عبیر اور امل کے سطح بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر میں عدیل پہنچ چکا تھا۔ہادی کے کہنے کے مطابق سب اپنے چہروں پر سنجیدہ تاثرات لیے بیٹھے تھے۔ہادی کو اس کی پھرتیوں پر ہنسی آئی لیکن کمال مہارت سے اس نے مسکراہٹ کو چھپایا۔اس نے آتے ساتھ ہی سب کو سلام کیا لیکن سنجیدہ تاثرات اُسے خطرے کا الارم دے رہے تھے۔۔
کیا ہوا ڈیڈ موم۔۔اور آپ سب اتنے سنجیدہ کیوں ہیں؟؟اسا نے پریشانی سے سوال کیا۔
بھائی یار۔۔آپ ابھی کنوارے ہی رہو گے۔۔۔ہادی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے دکھی ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔سب اسکی ایکٹنگ پر اپنی ہنسی کو قابو میں کیے بیٹھے تھے۔
کیا بکواس ہے۔۔۔کیا مطلب۔۔عدیل نے جھنجھلا کر سوال کیا
یار۔۔۔ہادی پھر سے خاموش ہو گیا
ہادی اگر اب تونے نہ بتایا نا تو قسم لے لے تیرا قتل کر دوں گا۔۔۔برداشت کی حد تھی ہادی مزید اپنی ہنسی کو قابو نہیں کر سکتا تھا بیساختہ قہقہ ماحول میں گونجنے لگا۔اس کے قہقوں کے ساتھ گھر والوں کی مسکراہٹ کی آواز بھی شامل تھی۔
یار آپ۔۔آپ اپنی شکل دیکھو۔۔۔ہائے اللّٰہ قسم سے دیکھنے والی لگ رہی ہے۔۔۔ہادی نے کہا عدیل نے کشن اٹھایا اور زور سے ہادی کو مارا جسے بروقت ہادی کیچ کر چکا تھا۔
تیار ہو جاؤ۔۔وہ وقت دور نہیں جب آپ کی ڈوڑیں کسی اور کے ہاتھ میں ہوں گی۔۔یہ کہنے کی دیر تھی کے عدیل ہادی کی جانب لپکا۔اس سے پہلے ہادی بھاگتا عدیل اُسے اپنی قید میں کر چکا تھا۔
بتا کیا بول رہا تھا؟؟عدیل نے اس کی گردن پر زور ڈالتے کہا۔
بھائی بچے کی جان لینی ہے کیا۔۔۔ہادی نے ہانک لگائی
اس بچے کی زبان بہت چل رہی ہے علاج کرنا پڑے گا۔۔عدیل نے ایک جھٹکے سے اُسے چھوڑا تھا۔
بھائی یار میرا تو علاج کب کا ہو چکا ہے اب آپ کی باری ہے۔۔۔ہادی نے شرارت سے کہا عدیل اس کی بات کا مطلب سمجھ کر ہنسنے لگا جبکہ حور سٹپٹا گئی۔سب دونوں کی حرکتیں دیکھ کر مسکرا دیئے۔
اوہ ہو تو لگتا ہے کوئی اور سین آن تھا۔۔۔عدیل نے ہادی کے کان میں سرگوشی کی۔
ارے کہاں یار۔۔ہادی نے روتی شکل بنا کر کہا
بعض آ جا مار کھائے گا مجھ سے۔۔عدیل نے اس کے کان کھینچے۔
شرارتیں بعد میں کرنا عدیل اپنے لیے ڈریس سلیکٹ کر لو کون سا لینا ہے اور تم دونوں لڑکیوں کو بھی لے جاؤ شاپنگ پر پتہ تو ہےکتنا ٹائم لگتا تیاریوں میں۔۔تائی جان نے سب کو مخاطب کیا۔
صحیح کہا آپ نے وقت کم ہے اور کام زیادہ ہے۔۔سنا بیگم نے کہا
ماما میں فریش ہو جاؤں پھر ہم چلیں گے۔۔۔عبیر فوراً سے بولی اس سب میں امل خاموش ہی تھی جسے اور تو کسی نے نوٹ نہیں کیا تھا لیکن حور حیران ہوئی تھی۔
ہاں صحیح ہے۔۔میں تو کمرے میں جا رہی۔۔تائی جان کہے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں تایا جان بھی آرام کے غرض سے اُن کے پیچھے ہو لئے۔۔
بیٹا آپ لوگ بھی جاؤ چینج کر لو پھر چلے جانا۔۔سنا بیگم نے بچوں کو کہا جو کے اثبات میں سر ہلائے اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے حور نے اپنے قدم امل کے کمرے کی جانب بڑھائے اور دروازہ نوک کیے اندر داخل ہوئی۔امل اپنی کانوں سے جھمکے اُتار رہی تھی۔
کیا ہوا میری گڑیا کو اتنی چپ چپ کیوں ہے؟؟حور نے بیڈ پر بیٹھے اس سے سوال کیا
نہیں تو۔۔امل نے نظریں چرائیں
کیا بات ہے امل سب ٹھیک ہے؟؟حور اس کے پاس آئی۔
جی۔۔۔
مجھے تو نہیں لگ رہا بتاؤ شاباش کیا ہوا ہے؟؟حورین نے اس کی گالوں کو چھوتے کہا
نہیں نہیں آپی سچ میں۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔امل زبردستی مسکرائی۔
اچھا۔۔۔حور نے آنکھیں سکیڑے کہا
امل جلدی کرو یار۔۔۔۔عبیر نے کمرے میں داخل ہوتے کہا
آپی آپ بھی یہاں ہیں ریڈی نہیں ہوئیں؟؟
میں نہیں جاؤں گی۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی آپ ہمارے ساتھ گئی بھی نہیں تھیں اور اب بھی نہیں جا رہیں۔۔عبیر نے کہا ٹھیک ہے آپ نے نہیں جانا تو میں بھی نہیں جاؤں گی۔۔
ہاں صحیح ہے میں بھی نہیں جانا۔ امل نے بھی عبیر کے ساتھ کہا
یار۔۔۔۔حور کو ماننا ہی پڑا۔۔۔
تھینک یو آپی۔۔ دونوں حور کے گلے لگیں۔۔
اچھا اچھا اب جلدی کرو۔۔۔حور نے دونوں کو کہا اور روم سے باہر نکل گئی امل اور عبیر بھی نکل گئیں جہاں عدیل اور ہادی انہی کے انتظار میں تھے۔۔
تینوں لڑکیوں کو آتا دیکھ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گئے۔
بس ہم نے جانا ہے؟؟حور نے ہادی کو گاڑی سٹارٹ کرتا دیکھ آہستہ سے پوچھا
کیا مطلب؟؟امل نے اس کی جانب دیکھتے کہا
مطلب تائی امی چاچی اور ماما نہیں جائیں گی ہمارے ساتھ؟؟حورین نے وضاحت دی۔
نہیں۔۔۔اُن نے کہا کہ آپ لوگ جاؤ۔۔۔
ہم اکیلے کیسے۔۔حور کی آواز تھوڑی اونچی ہوئی تھی۔۔۔عدیل اس کی بات سنے اپنی مسکراہٹ ضبط کی جبکہ ہادی بولا
بھائی اتنے سب لوگ بھلا اکیلے کیسے ہو سکتے ہیں؟؟ہادی نے حیرانگی سےکہا عدیل ہنسنے لگا امل اور عبیر بھی مسکرا دیں ۔۔جبکہ حور سب کو ہنستا دیکھ کرنے نظریں جھکا گئی۔ہادی نے مرر سے اس کی جانب دیکھا۔حور نے نظریں اُٹھائیں لیکن ہادی تو ڈرائیو کر رہا تھا اس نے پھر سے نظریں جھکا لیں...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب اپنے اپنے ڈریسز پسند کر رہے تھے۔امل اور عبیر نے اپنی پسند کا ڈریس لے لیا تھا جبکہ حور کو سمجھ نہیں آرہی تھی کے کون سا ڈریس لے۔۔ورنہ ہمیشہ ہاجرہ بیگم کی پسند کا ڈریس لیتی تھی۔امل اور عبیر جیولری والی سائڈ پر گئی تھیں۔عدیل بھی امل اور عبیر کے ساتھ چل دیا۔
تم نے نہیں لیا اب تک؟؟ہادی کب سے حور کو دیکھ رہا تھا جو کہ ڈریسز الٹ پلٹ رہی تھی لیکن اب تک کچھ لیا نہیں تھا
نہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہا کون سا لوں۔۔۔حور نے کہا۔
ہادی اس کا جواب سنے کپڑے دیکھنے لگا۔۔کچھ ہی دیر میں ہادی ایک سوٹ ہاتھ میں تھامے اس کی جانب آیا۔اورینج کلر کی شورٹ شرٹ پر گولڈن کام ہوا تھا جس کے نیچے پنک کلر کا ٹراؤزر تھا جس کے اینڈ پر گولڈن رنگ کی ہی کڑھائی تھی ساتھ کی گولڈن ڈوپٹہ تھا۔مہندی کی مناسبت سے بہت خوبصورت سوٹ تھا۔

بہت خوبصورت ہے یہ۔۔۔حور خوش ہوئی۔ہادی نے ڈریس پیک کروایا اور جیولری سائڈ پر چلا گیا حور بھی اس کے پیچھے ہو لی۔جیولری لینے تک تقریباً رات ہونے والی تھی۔سارا سامان لینے کے بعد وہ لوگ اب کھانا کھانے ریسٹورانٹ گئے۔ایک بھر پور شام گزارنے کے بعد سب گھر ...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

بہت خوبصورت ہے یہ۔۔۔حور خوش ہوئی۔ہادی نے ڈریس پیک کروایا اور جیولری سائڈ پر چلا گیا حور بھی اس کے پیچھے ہو لی۔جیولری لینے تک تقریباً رات ہونے والی تھی۔سارا سامان لینے کے بعد وہ لوگ اب کھانا کھانے ریسٹورانٹ گئے۔ایک بھر پور شام گزارنے کے بعد سب گھر کی طرف روانہ ہوئے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور۔۔تمہارا ڈریس کتنا پیارا ہے ماشااللہ۔۔۔سنا بیگم نے اس کا ڈریس دیکھتے کہا تائی اور ہاجرہ بیگم بھی اُن کی جانب متوجہ ہوئیں۔
یہ تو ایسے لائی ہے جیسے اس نے دلہن بننا ہو۔۔۔تائی امی نے طنز کیا۔
حور خاموش رہی اور ہاجرہ بیگم کی جانب دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھیں۔امل عبیر اپنے اپنے ڈریسز لیے اپنے کمروں کی جا چکی تھی۔صبح سب نے یونی اور کالج جانا تھا۔۔تائی امی کہے اٹھ کر جا چکی تھیں۔
بیٹا بہت اچھا ڈریس ہے تمہارا۔۔دل برا مت کرنا بڑی ہیں نا تائی امی اسی لئے کہہ گئیں۔۔۔سنا بیگم نے اُسے دلاسہ دیا۔حور زبردستی مسکرائی۔ہاجرہ بیگم بس خاموش ہی تھیں۔
چچی جان میں بھی جاتی ہمیں روم میں۔صبح یونی بھی ہے۔۔۔۔کہتے ہوئے اپنے روم کی جانب بڑھ گئی بہت سارے آنسو اس نے اپنے اندر اُتارے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now