قسط:۴

219 18 6
                                    

اسمارا کی باتوں نے واقعی اُسے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کے آخر ہادی چاہتا کیا ہے۔اور اس نے سوچ لیا تھا کے وہ ہادی سے بات ضرور کرے گی اس متعلق۔اسمارا حورین کی بچپن کی سہیلی تھی جو حور کی ہر بات سے واقف تھی۔اور حورین بھی اس سے کوئی بات نہیں چھپاتی تھی۔وہ دونوں کینٹین مائی ہی بیٹھی تھیں جب بِسمل ان کی ٹیبل پر آئی اور ان ساتھ مخاطب ہوئی۔
آئی ایم سوری!حورین مجھے اس طرح تم سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔بسمل کے اس رویے پر حور اور اسمارا دونوں نے حیرانگی سے اس کی جانب دیکھا
پلز مجھے معاف کر دو۔۔۔بِسمل نے کہا
اٹس اوکے۔۔حور نے مختصر سا جواب دیا جبکہ اسمارا ابھی بھی اس کے اس رویے پر حیران تھی۔
تھینک یو سو مچ۔۔بِسمل نے خوشی سے کہا اور واپس چلی گئی۔
یہ سب کیا تھا۔۔۔اسمارا نے اس کے جانے کے بعد حیرانگی سے سوال کیا
کیا؟؟
یہی جو ابھی بسمل کر کے گئی ہے۔۔اسمارا کی حیرانی ختم نہیں ہو رہی تھی۔
اسمی۔۔۔حور نے اُسے گھورا اسمارا ہنسنے لگی۔
یار مجھے لگتا ہے کہ بسمل کے سر پرگہری چوٹ آئی ہے۔۔اسمارا بعض نہیں آرہی تھی
اسمی بعض آ جاؤ۔۔۔حور نے اُسے ڈپٹا اسمارا اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگی۔لیکن ایک دم سے اسمارا کے چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات دیکھ کر حور اس سے مخاطب ہوئی۔
کیا ہوا ابھی ہنس رہی تھی ابھی سیریس ہو گئی ہو۔۔
حور وہ دیکھو بِسمل ہادی بھائی کے ساتھ کھڑی ہے۔۔اسمارا نے کینٹین کے گلاس ڈور سے باہر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جہاں سامنے ہی بِسمل اور ہادی کھڑے تھے۔حور بھی فوراً مڑی تو منظر سامنے تھا بِسمل کوئی بات کرتے ہوئے مسکرا رہی تھی جبکہ ہادی کے تاثر سنجیدہ تھے۔
مجھے اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔اور ضرور یہ معافی مانگنا بھی ایک ناٹک تھا۔حور ہمیں سودھان رہنا پڑے گا۔میں بھی یہی سوچ رہی تھی کے آخر بِسمل اورنگزیب اور معافی۔۔امپاسبل!! اسمارا نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔بظاھر تو حور نارمل ہی رہی لیکن اندر تک وہ کانپ اٹھی تھی۔اُسے اب جلد از جلد ہادی سے بات کرنا تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکچر سٹارٹ ہونے والا تھا۔حور اور اسمارا بھی واپس کلاس کی جانب بڑھ گئیں۔وہ ابھی اینٹر ہوتیں سامنے شہریار کھڑا ہوا تھا(ہادی کا دوست)۔
با ادب با ملاحظہ ہوشیار مس بیوٹیفل آرہی ہیں۔۔شہریار اونچی آواز میں بولا اسمارا اُسے دیکھ کر طیش میں آ گئی۔
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ تھکتے نہیں چھچھوروں والی حرکتیں کر کے۔۔اسمارا غُصہ سے بولی
مس آپ ایسے ہی غُصہ کر رہی ہیں میں تو ان کو کہہ رہا تھا۔شہریار نے اپنی ہنسی کو ضبط کرتے حور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ہوئے دونوں کی نوک جھوک دیکھ کر مسکرا رہی تھی باقی کلاس بھی انجواۓ کر رہی تھی لیکن ہادی پتہ نہیں کہاں تھا۔اسمارا پیر پٹختی اپنی کرسی پر جا کر بیٹھ گئی جبکہ شہریار کا جاندار قہقہ فضاء میں بلند ہوا۔حور بھی مسکرا دی اور اسمارا کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی جو کے منہ پُھلائے بیٹھی تھی۔
بھا۔۔اوہ سوری سوری۔۔آپ کو پتہ ہے ہادی کہاں ہے وہ کیا ہے نا مجھے مل نہیں رہا۔شہریار نے ادب کے ساتھ حورین سے سوال کیا
نہیں بھائی مجھے نہیں پتہ۔۔حور نے کہا اور پوری کلاس میں نظریں گھمائیں ہادی کہیں پر بھی نہیں تھا اور بِسمل بھی جانے کہاں تھی۔ابھی وہ کچھ سوچتی کہ ہادی کلاس میں داخل ہوا۔
کہاں تھا یار تو کب سے تیرا انتظار کر رہا تھا میں۔۔۔شہریار نے کہا۔
ہاں کہیں نہیں کام سے گیا تھا۔ہادی نے سنجیدگی سے کہا حورین اُسی کی جانب دیکھ رہی تھی لیکن ہادی کے خود کی جانب دیکھنے پر اس نے فوراً سے نظریں جھکا لیں۔
ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کے بِسمل چہکتی ہوئی کلاس میں داخل ہوئ اور حورین کے پیچھے بیٹھ گئی۔سر آ چکے تھے۔
میں لیٹ ہو گئی۔اصل میں نہ گھر ایمرجنسی ہو گئی تھی تو ہادی کا شکر ہے کے وہ ٹائم سے آ گیا اور لے گیا لیکن زیادہ مسئلہ نہیں ہوا تھا تو اسی لیے میں واپس آگئی ڈرائیور بھی نہیں آیا تھا آج۔۔۔بسمل خود ہی بتانے لگ گئی تھی۔
نو وسپرنگ۔۔سر نے کہا بِسمل فوراً پیچھے ہو گئی حورین اور اسمارا نے بھی اپنے چہرے سامنے کی جانب کر لیں۔لیکن حورین کی آنکھوں میں بروقت نمی آئی تھی۔اسمارا نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے اُسے حوصلا دیا حورین نے ہادی کی جانب دیکھا جو کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور لیکچر نوٹ کر رہا تھا اس کے چہرہ سپاٹ تھا۔حورین نے واپس اپنی نظریں سر کی جانب مرکوز کر لیں۔اب کہاں اس کا دل لگنا تھا پڑھائی میں وہ بس لیکچر ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔جیسے ہی لیکچر ختم ہوا وہ بغیر کسی کا انتظار کیے باہر نکل گئی ہادی اس کی اس حرکت پر حیران ہوا۔
حورین اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئی اور گاڑی گھر کی راہ پر موڑ لی۔۔اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔۔اور دماغ تھا کے عجیب سوچیں سوچ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے بیٹا آج جلدی گھر آ گئی۔۔ہاجرہ بیگم اس سے مخاطب ہوئیں۔تائی امی عدیل کے لیے لڑکی کی تلاش میں گئی ہوئی تھیں سنا بیگم بھی ہاجرہ بیگم کے ساتھ تھیں۔
جی امی بس طبیعت نہیں ٹھیک۔۔
کیا ہوا بیٹا۔۔سنا بیگم پریشان ہوئیں
کچھ نہیں بس سر میں درد ہے۔۔حورین نے نظریں چرائے کہا
ٹھیک ہے بیٹا آپ آرام کرو۔سنا بیگم نے کہا جبکہ ہاجرہ بیگم پریشان ہوگئیں
کیا ہوا بھابھی آپ کیوں ایسے کھڑی ہو گئی ہیں۔۔
ہاں۔۔جی کچھ نہیں۔۔ہاجرہ بیگم نے کہا اور کام کرنے میں مصروف ہو گئیں لیکن انہوں نے سوچا تھا کے کام ختم کر کے حور کے پاس جائیں گی۔۔۔کوین کے حور اُنہیں صحیح نہیں لگ رہی تھی روئی روئی آنکھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورین کمرے میں گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ نہیں جانتی تھی کے کیا ہو رہا ہے اس کے ساتھ لیکن دور کہیں خدشات اس کے دل میں جنم لے رہے تھے۔روتے روتے جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسمل ہادی کے پاس معافی مانگنے گئی تھی کہ اس نے جو کیا وہ غلط تھا۔لیکن ہادی کے تاثرات سنجیدہ تھے۔پھر اچانک بِسمل کو کوئی کال آئی جس کی واضح سے وہ پریشاں ہو گئی۔
ہادی پلز مجھے گھر ڈراپ کر دو گے ایمرجنسی ہو گئی ہے۔ڈرائیور آج آیا نہیں ہے۔پلز۔۔۔
چلو۔۔۔ہادی کو ناچار جانا ہی پڑا۔اُسے ڈراپ کر کے ہادی واپس یونی آ گیا۔کچھ ہی دیر میں بِسمل بھی واپس آ گئی تھی۔ہادی کافی پریشان بھی ہوا تھا۔۔
تم واپس آ گئی۔۔ہادی نے چٹھی ٹائم اس سے سوال کیا
ہاں وہ اکچلّی ایمرجنسی تھی لیکن صحیح ہو گیا کام۔۔۔تھینک یو۔۔بِسمل نے مسکراتے ہوئے کہا حادی کو غُصہ تو بہت آیا لیکن وہ اسے نظر انداز کیے آگے بڑھ گیا جبکہ بسمل کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ رینگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now